افکار علوی کی نظم "مرشد"
مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا
مرشد ہمارے دیس میں ایک جنگ چھڑ گئی
مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے
مرشد ہمارے ذہن گرفتار ہو گئے
مرشد ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی
مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
مرشد ہمیں زرہ نہیں تلوار دی گئی
مرشد ہماری ذات پے بہتان چڑھ گیا
مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی
مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخض تھا
مرشد وہ ایک شخض بھی تقدیر لے اڑی
مرشد خدا کی ذات پہ اندھا یقین تھا
افسوس اب یقین بھی اندھا نہیں رہا
مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے
مرشد مری تو زندگی برباد ہوگئی
مرشد ہمارے گاؤں کے بچوں نے بھی کہا
مرشد کوں اکھیں آکے ساڈا حال دیکھ ونج
(مرشد کو کہنا آکے ہمارا حال دیکھ جاؤ)
مرشد ہمارا کوئی نہیں ایک آپ ہیں
یہ میں بھی جانتا ہوں کہ اچھا نہیں ہوا
مرشد میں جل رہا ہوں ہوائیں نہ دیجئے
مرشد ازالہ کیجئے دعائیں نہ دیجئے
مرشد خاموش رہ کر پریشان نہ کیجئے
مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا
اور آپ ہیں آپ کو احساس تک نہیں
ھہہ، صبر کیجئے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
مرشد میں بھونکدا ہاں جو کئی شئے وی نئیں بچی
(مرشد میں بھونک رہا ہوں کہ کوئی چیز بھی نہیں بچی)
مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی
اور پارسا نماز کے پیچھے پڑے رہے
مرشد کسی کے ہاتھ میں سب کچھ تو ہے مگر
مرشد کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مرشد میں لڑ نہیں سکا مگر چیختا رہا
خاموش رہ کر ظلم کا حامی نہیں بنا
مرشد جو میرے یار بھلا چھوڑیں رہنے دیں
اچھے تھے جیسے بھی تھے خدا ان کو خوش رکھے
مرشد ہماری رونقیں دوری نکل گئی
مرشد ہماری دوستی شبہات کھا گئے
مرشد اے فوٹو پچھلے مہینے چھکایا ہم
ہنڑ میکوں ڈیکھ جو لگدا ہے اے فوٹو میڈا ہے؟
( مرشد یہ فوٹو میں پچھلے مہینے بنوایا ہوں)
(اب دیکھ لگتا ہے یہ فوٹو میری ہے)
یہ کس کس نے کھیل کھیل میں سب کچھ الٹ دیا
مرشد یہ کیا کہ مر کے ہمیں زندگی ملے
مرشد ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائیں گے
مرشد کسی کی ذات سے کوئی گلہ نہیں
اپنا نصیب اپنی خرابی سے مر گیا
مرشد وہ جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز ہے
شاید ہمارے ساتھ وہی ہاتھ کر گیا
افکار علوی
Comments
Post a Comment