زندہ ہے شہید تو ماتم منانے سے ڈر لگتا ہے

زندہ ہے شہید تو ماتم منانے سے ڈر لگتا ہے
بے زر و مال مسافر سہی مگر زکوٰۃ لینے سے ڈر لگتا ہے

جہاں مظلوم رعایا کے سر سے قرض بڑھتا ہو
مجھے اس ملک میں رہنے سے ڈر لگتا ہے

سنا ہے سلام میں پہل سنت ہے میرے نبی کی 
اب تو کسی کو سلام نہ کرنے سے ڈر لگتا ہے

جس نصاب کو پڑھ کر مغرب کی تقلید ہوتی ہو
مجھے وہ کتابیں پڑھنے سے ڈر لگتا ہے

کہیں اور کا رخت سفر باندھو اے قافلے والو
مجھے اس شہر خاموشاں میں ٹھہرنے سے ڈر لگتا ہے

جس محفل میں یوں سر عام عزت نیلام ہوتی ہو
مجھے اس محفل میں بیٹھنے سے ڈر لگتا ہے

پوچھا ایک نمازی سے مسجد کا رُخ کیوں کر کیا
بولا مجھے جہنم میں پھینکے جانے سے ڈر لگتا ہے

کبھی تو اہل ادب کی بڑی چرچا تھی شہر میں
اب تو ایسے لوگوں کو ملنے سے ڈر لگتا ہے

بغل میں ہے مسجد مگر سنسان پڑی ہے
مجھے اس سینما میں داخل ہونے سے ڈر لگتا ہے

کتنا عجیب تعلق ہے ان موجوں کا ساحل سے
پلٹ جاتی ہیں انھیں رکنے سے ڈر لگتا ہے

سنا ہے شرف دیدار بخشنے آئے ہیں وہ شہر میں
باہر نہ نکلوں گا مجھے آنکھوں کے چندھیانے سے ڈر لگتا ہے

سب ہم شناسا ایسے چھوڑ کر گئے مجھے ناصحؔ
اب تو کسی اور کو بلانے سے بھی ڈر لگتا ہے

ناصحؔ

Comments

Popular Posts