جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی پیش نظر ہے ہی نہیں

جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی پیش نظر ہے ہی نہیں 
کون سی ذات کے منکر ہیں اگر ہے ہی نہیں

پھر جو اس شہر میں آنا ہو تو ملنا مجھ سے
گھر کا آسان پتہ یہ ہے کہ گھر ہے ہی نہیں

بے ارادہ ہی تیرے پاس چلا آیا ہوں
کام کچھ ہو تو کچھ کہوں تجھ سے مگر ہے ہی نہیں

اس لیے ہم کو نہیں خواہش حوران بہشت 
ایک ہی چہرہ جو ادھر ہے وہ ہے ہی نہیں

لفظ سے لفظ مجھے جوڑنا پڑتا ہے میاں
میری قسمت میں کوئی مصرعہ تر ہے ہی نہیں

چھپ کہ کرتا ہے کوئی میری ورق گردانہ
میں نے رکھا تھا جہاں مور کا پر ہے ہی نہیں

افضل خان

Comments

Popular Posts