یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں
غنیمِ شہر کو وہ تھا بصارتوں کا جنون
کہ جب بھی لوٹ کہ لوٹاتمام آنکھیں تھیں
خطوط نور سے ہر حاشیہ مزین تھا
کتاب ِنور میں سارا کلام آنکھیں تھیں
آب آگئے ہیں یہ چہروں کے زخم بھرنے کو
کہاں گئے تھے مناظر جو عام آنکھیں تھیں
وہ قافلہ کسی اندھے نگر سے آیا تھا
ہر ایک شخص کا تکیہ کلام آنکھیں تھیں
نظر افروز تھا یوسف کا پیراہن شاید
دیارِ مصر میں پہلا سلام آنکھیں تھیں
کسی کا عکس بھی دیکھا تو رو پڑیں یکدم
قسم خدا کی بہت تشنہ کام آنکھیں تھیں
Comments
Post a Comment