وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی
ہر ستم گر کو یہ ہمدرد سمجھ لیتی ہے
کتنی خوش فہم ہے کم بخت جوانی اپنی
روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول کھلے
چھوڑ جاتا روز کوئی نشانی اپنی
تجھ سے بچھڑے ہیں تو پایا ہے بیاباں کا سکوت
ورنہ دریاؤں سے ملتی تھی روانی اپنی
قحط پندار کا موسم ہے سنہرے لوگو
کچھ تیز کرو اب کے گردانی اپنی
دشمنوں سے ہی غم دل کا مداوا مانگیں
دوستوں نے تو کوئی بات نہ مانی اپنی
آج پھر چاند افق پر نہیں ابھرا محسن
آج پھر نہ گزرے گی رات سہانی اپنی
سید محسن نقوی
Comments
Post a Comment