مدت کے بعد لوٹ کے آیا ہوں گاؤں میں

مدت کے بعد لوٹ کے آیا ہوں گاؤں میں
ماضی سمٹ کہ آگیا برگد کی چھاؤں میں

انسانیت کا سانس لینا بھی محال ہے
یہ کس نہ زہر گھول دیا ہے ہواؤں میں

ہم لوگ نسل آدم و ہوا ہیں اس لیے
آتا ہے لطف ہمیں آج بھی خطاؤں میں

شاید کسی نہ یاد کیا ہے ابھی مجھے
پھیلی ہوئی عشق کی خوشبو فضاؤں میں

برسات ہو رہی ہے مگر تو نہیں ملا
تصویر تری ڈھونڈ رہا ہوں گھٹاؤں میں

دنیا کی مشکلات کی کیوں فکر ہو حسن
ہم نے سکون پایا ہے ماں کی دعاؤں میں

حسن فتحپوری

Comments

Popular Posts