قسط نمبر: 1
نیم کے درختوں کی شاخوں سے گزرتی ہوئی ہوا کی سر سراہٹ ، پرندوں کی چہچہاٹ، گرتے پتوں کی تھرتھراہٹ اور شہری بابو کو دیکھ کر گاؤں کے بچوں کی مسکراہٹ سے اُسے کوئی سروکار نہیں تھا۔
قبرستان کے وسط میں کھڑا وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اُس کے آباؤ اجداد کس قدر عظیم تھے جنھوں نے اس پاک وطن میں آزادی سے جینے کی خاطر اپنی سب سے قیمتی شے یعنی جان تک قربان کر ڈالی۔
وہ عظیم الشان جنگجوؤ جنھوں نے کبھی دشمن کی ناک میں دم کر رکھا ہوگا اب منوں مٹی تلے دفن ہیں۔
اس ملک کی مٹی کو زرخیز بنانے کے لیے اُنھوں نے اپناکتنا خون پسینا اِس میں بہایا اور پھر خود جا کر اسی مٹی میں سکون کی نیند سو گئے۔
گاؤں سے بہت دور، بظاہر اس چھوٹی سی زمین کے ٹکڑے پر ماضی کی ناجانے کتنی عظیم ہستیاں دفن تھیں۔
کئی قبروں کے تو نشانات تک بھی مٹ چکے تھے اور کچھ قبریں گھاس اور جنگلی بوٹیوں کی اووٹ میں خود کو چھپانے کی کوشش میں لگی تھیں۔
اُس کے دائیں جانب گاؤں کے کسی وڈیرے کی سنگِ مرمر سے پختہ قبر پر بھی کئی جھاڑیاں اُگی تھیں تو بائیں جانب اُسی وڈیرے کے ہاں بوڑھے مزراع کی مٹی سے لیپ شدہ قبر بلکل صاف تھی۔
ناک کے نتھنوں تک آتی صندل کی لکڑی کی خوشبو نے اُس کی توجہ قبرستان میں دفن ہوئے نئے مہمان کی طرف مبذول کروا دی جس کا استقبال ضعیف قبروں نے گلاب کی پتیاں نچھاور کر کے کیا تھا۔ ایک ماہ پہلے شہید ہوئے فوجی جوان کی قبر پر لہراتے قومی پرچم کی آواز قبرستان کی فضا میں موجود مایوسی کو ظاہر کر رہی تھی۔
شہر میں رہتے ہوئے کئی بار اُس کا قبرستان جانے کا اتفاق ہوا۔ اینٹوں کی پختہ چاردیواری، قبرستان آنے جانے کے لیے لوہے کی سلاخوں سے بنے متعدد دروازے، قبر کی تیاری کے لیے تمام ضروری سامان کا ڈھیڑ، صاف پانی کا بندوبست، بغل میں صاف ستھری جنازہ گاہ اور ایک کونے میں واقع قبروں کی کھدائی اور حفاظت پر معمور گورکھن اور اُس کے مکان سمیت ایسے بے شمار چیزیں تھیں جو اس قبرستان میں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔
سالوں پہلے گاؤں کے واحد قبرستان کی چاردیواری چندہ اکٹھا کر کے بنائی گئی تھی جس کو دوبارہ مرمت کرنے کی زحمت کسی نے نہ کی اور اب صرف اُس کا چار دیواری کا نشان باقی بچا تھا۔
اس گاؤں کے گھروں پر دروازہ بمشکل نظر آتا تھا تو قبرستان تو پھر ایک ویران جگہ تھی۔ قبر کی کھدائی میت کے عزیز خود کر لیتے ہیں اس لیے گورکھن کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
قبر کی تیاری کے لیے پتھر کی پڑیاں اور دیگر سامان ساتھ والے گاؤں کے حاجی شفیع کی دکان سے منگوا لی جاتیں۔۔۔ پانی کنویں سے بھر لیا جاتا۔۔۔ اور جنازہ گاہ بنوانے کی تو ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ جو زمین خالی دیکھی میت رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھ لی۔
ایک چیز جو غور طلب تھی وہ یہ کہ آج تک اُس نے بہت کم ایسے قبرستان دیکھے تھے جہاں کوئی درخت موجود ہو اور جس قبرستان میں درخت تھا وہاں موجود قبروں کی حالت ابتر اور نشانات مٹ چکے تھے۔
اس قبرستان کے آس پاس بھی اگرچہ بہت سے درخت تھے لیکن قبرستان کی حدود کے اندر ایک بھی نظر میں نہیں آتا تھا۔
" ایک درخت چرند پرند اور کئی دیگر حشرات کی آماجگاہ ہوتا ہے۔ سانپ اور بچھو وغیرہ خوراک کی تلاش میں اس طرف آتے ہیں اور زیرِزمین بلوں میں داخل کر ہو کر آس پاس موجود قبروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ مزیدبرآں درختوں کی جڑیں پھیل کر کئی قبروں کو بھی اپنے حصار میں لے لیتی ہیں۔ شاید اسی چیز کو مدِنظر رکھ کر قبرستان میں درخت اگنے نہیں دیے جاتے ہوں گے"۔ اُس نے سوچا
"اس فانی دنیا میں ہر ایک کا انجام مٹی ہے اور خوش قسمت ہے وہ شخض جس کا انجام اچھا ہے" اُس نے زیرِ لب دہرایا۔
وہ جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ قبرستان کی حدود کے ساتھ لگے بورڈ پر "آخری آرام گاہ" لکھا دیکھ کر وہ رُک گیا۔
ساری زندگی انسان مقابلے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ بچپن میں کھیل کے میدان میں جیتنے کی دوڑ، سکول میں اول پوزیشن حاصل کرنے کی دوڑ، اچھے سکول ،کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کی دوڑ، بہتر زندگی گزارنے کی دوڑ، اچھا مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی دوڑ۔
اس چار دن کی مختصر زندگی میں انسان اپنے ہم نشینوں سے مقابلہ کرنے میں ہی لگا رہتا ہے اور اس مقابلے سے نجات اور سکون کی خاطر وہ کسی ایسے مقام کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جہاں سوائے اطمینان و سکون کے اور کچھ بھی نہ ہو۔
آخر ایک دن وہ تھک ہار کر اپنے لیے ایک پرسکون جگہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اُس دو گز زمین پر لیٹ کر سکون کی نیند سو جاتا ہے۔ ایسی گہری نیند جس میں کوئی خلل ڈالنے والا نہ ہو گا۔ انسان کی اُس پہلی اور آخری آرام گاہ کو دنیا والے قبرستان کا نام دیتے ہیں۔
بوجھل قدموں کے ساتھ اُس نے واپسی کی راہ لی۔ گاؤں کے لڑکے کرکٹ میچ کر کھیل کر واپس لوٹ رہے تھے۔ جن کے ہاتھوں میں گیند بلے تھے وہ تھکے ہارے خاموشی سے چلتے آرہے تھے جبکہ تمشائی حضرات کھلاڑیوں پر تبصرہ کرنے میں مگن تھے۔
پیدل چڑھائی چڑھتے ہوئے پہلے سے بوجھل قدم مزید بوجھل ہو گئے۔ جس چڑھائی کو کسی وقت کو بھاگتے ہوئے آرام سے سر کر لیتا تھا آج اُسی چڑھائی پر چلتے ہوئے اُسے دومرتبہ سانس لینے کے لیے رکنا پڑا۔
ساری زندگی دوڑ میں لگے رہنے کے بعد انسان تھک ہار کر سکون و آرام کی خاطر انھی جگہوں کی طرف لوٹنا چاہتا ہے جسے وہ سب سے زیادہ چاہتا ہے۔ اُس کے قدم خود بخود اُنھی مقامات کی جانب اُٹھنے لگتے ہیں جس سے اُسے بے حد لگاؤ اور محبت ہو اور جن کے ساتھ اُس کی یادیں جڑی ہوں۔
گاؤں کے سرے پر موجود ٹیلی جہاں سے گاؤں آنے جانے کے راستوں اور گاؤں کے اطراف خصوصاََ اردگرد پھیلے وسیع پہاڑی سلسلے کا خوبصورت اور دلکش منظر کو چشمِ انسانی بخوبی مشاہدہ کر سکتی تھی۔۔۔ وہاں وہ بچپن کی طرح پاؤں پھیلا کر بیٹھ گیا۔
وہ گھنی بھوری آنکھیں جنھوں نے زندگی میں ناجانے کتنے نشیب و فراز دیکھے تھے اب مغرب کی جانب پہاڑوں کی اووٹ میں ڈوبتے سورج کو تک رہی تھیں۔جہاں وقت نے اُسے بوڑھا بنا دیا تھا
وہیں پر اُس کی جائے پناہ کو اُس کی جوانی لوٹا دی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ یہ ظالم وقت اُس سے اُس کی جوانی چھین کر اُس کے گاؤں کے حوالے کر رہا تھا۔
ڈوبتا سورج اور فواد محمود۔۔۔ایک نسوانی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔
Comments
Post a Comment