قسط نمبر: 2

 جب دنیا خوابِ غفلت کی نیند سونے میں مصروف، فلک چاند تاروں کو اپنے دامن سے نکالنے پر مجبور اور فضا سکوت سے بھرپور تھی۔جب اُفق پر مشرق کا تارا سورج سے رات کا پردہ اٹھا کر خود پر اوڑھنے میں مگن تھا۔ جب سردیوں کی طویل راتوں کے اختتام کا وقت قریب توتھا مگر پھر بھی گرم اور نرم بستر کو چھوڑنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہاں نیم گرم پانی سے وضو کر کے چہرے پر پڑتے سرد ہوا کے جھونکوں سے بے نیاز ہوکو کر تمام گاؤں کا چاچا شیدا مسجد کے چبوترے پر اذان دینے کے لیے کھڑا ہو چکا تھا۔

ٖفضا کے سکوت کو چیڑتی ہوئی "اللہ اکبر" کی آواز کے گونجتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے بے جان زمین پر اچانک سے کسی نے روح پھونک کر اسے پھر سے جاندار بنا دیا ہو۔ ایک طویل اُداس سکوت کا اختتام ہوا تھا۔
"اللہ اکبر" کی آواز سماعتوں سے ٹکراتے ہی گاؤں کے بیشتر نمازی خدا کی واحدنیت کے اقرار میں گرم بستر چھوڑ چکے تھے اور سستی برتنے والے حضرات "الصلوۃ خیر من النوم" سن کر عاقبت کی فکر میں اُٹھ بیٹھے۔
اذان ختم ہونے سے قبل ہی حافظ سیف اللہ نے مسجد کے اندر چراغ روشن کر کے تاک میں رکھ دیے تھے۔ البتہ مسجد کا احاطہ تاک میں رکھے چراغوں کی ہلکی ٹمٹاتی لو کی بجائے نمازیوں کے قلب سے زیادہ منور معلوم ہوتی تھی۔
"اللہ اکبر" کی صدا گونجنے سےفضا میں تازگی، شائستگی، شگفتگی اور مسرت کے اثرات نمایاں ہو چکے تھے۔ مسجد آتے نمازیوں کی چہل پہل سے ویران اور سنسان گلیوں کی رونق پھر سے لوٹنا شروع ہو چکی تھی۔
جابجا گھروں سے اُٹھتا دھواں وضو کے لیے پانی گرم کرنے کی نشاندہی کر رہا تھا۔
ادھر مرد ہوا کے سرد جھونکوں سے بچنے کے واسطے اونی شالیں اور کھیس لپیٹے مسجد پہنچ کر نماز میں مشغول ہو چکے تھےتو دوسری جانب گھروں میں جلتی لالٹین بھی مونین کا پتہ دے رہی تھے۔
جب انسان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے تو اُسے دین کی پرواہ ہر گز نہیں رہتی۔ لیکن جب اُس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا ماسوائے دین کے ۔۔۔تو وہ اُس کے تحفظ اور بقاء کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
ان غریب گاؤں کے واسیوں کے پاس بےشک پہننے کے لیے اچھا کپڑا، سونے کے لیے اچھا بستر اور کھانے کے لیے عمدہ اور منفرد غذا نہ بھی تھی۔ لیکن ایک چیز جو ان کا واحد ورثہ تھی وہ دین تھا۔ جس کے تحفظ اور فروغ کو ہر شخض اپنااہم مقصد خیال کرتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں کی چھوٹی مسجد نمازیوں سے بھری اور شہر کی عالیشان مساجد ویران اور سنسان ہوتی ہیں۔
چاچا شیدے نے معمول کی طرح آج بھی نماز سے فارغ ہوتے ہی مسجد کے صحن میں جھاڑو دینا شروع کر دی اور مسجد کی صفائی ستھرائی پر معمور گاؤں کے دیگر نمازی بھی اُس کا ہاتھ بٹانے لگے۔
( ناول "آخری آرام گاہ" از قلم مرزا ناصح پہلے پروفائل پر اور پھر گروپ فروغ اردو ادب میں شئیر کیا جا ہا ہے)
" سنا ہے امین بخش! کل رات تیرے گھر خدا نے اپنی نعمت بھیجی اور دائی بتا رہی تھی کہ اللہ نے تجھے سوہنے سے منڈے سے نوازا ہے" چاچا شیدے نے جھاڑو چھوڑ کر ایک ہی سانس میں امین بخش سے کہہ دیا جو ابھی ابھی مسجد کے صحن میں نکلا تھا۔
" اللہ کا شکر ہے چاچا!جو میری منتیں مرادیں پوری ہوئیں" امین نے بخش خوشی سے چاچا شیدے سے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا۔
" مبارک ہو پتر!"
" بھئی کس چیز کی مبارک دی جا رہی ہے" ماسٹر اللہ دتہ نے آتے ہی جھٹ سے پوچھا۔
" ماسٹر جی! یہ اپنے امین بخش کے ہاں کل رات بیٹا پیدا ہوا ہے۔ شادی کے تین سال بعد خدا نے اسے اولاد جیسی نعمت سے نوازا" چاچا شیدے نے دوبارہ جھاڑو دیتے ہوئے کہا۔
" ارے واہ امین بخش! یہ تو واقعی بہت خوشی کی خبر ہے۔ میں چاچا بن گیا ہوں اور چاچا شیدا تیرے لڑکے کا دادا" ماسٹر اللہ دتہ امین بخش کے ساتھ بغل گیر ہوا۔
" ماسٹر جی !آپ تو چاچا بن گئے لیکن میں کس وقت تایا بننے والا ہوں" امین بخش نے شرارتاََ پوچھا۔
" بہت جلد امین بخش!"
مسجد سے نکلتے ہوئے دیگر نمازیوں نے بھی امین بخش کے بیٹے کی پیدائش کا سن کر اُسے باری باری مبارک باد پیش کیں جسے امین بخش نے خوش دلی سے قبول کیا۔
کچھ ہی دیر میں معمول کے مطابق مسجد کی صفائی کرنے والے نمازی مسجد میں رہ گئے۔ امین بخش اور چاچا شیدا صحن میں جھاڑو دے رہے تھے جبکہ ماسٹر اللہ دتہ دریاں اور چٹائیاں صاف کرنے میں مصروف تھا اور حافظ سیف اللہ تاک میں رکھے چراغوں کو بجھانےاور اُن میں تیل ڈالنے میں مگن تھا۔
جب تمام لوگ اپنے حصے کا کام مکمل کر چکے تو مسجد سے نکلتے ہوئے چاچا شیدے نے امین بخش کو روکتے ہوئے اُس سے بیٹے کے نام کی بابت پوچھا۔
" فی الحال تو کوئی نام ذہن میں نہیں آیا چاچا!۔۔۔ ماسٹر جی! آپ ہی کوئی وکھرا سا نام سوچ دیں" امین بخش نے پہلے چاچا شیدے اور پھر ماسٹر اللہ دتہ کو مخاطب کیا۔
ماسٹر اللہ دتہ نے شال کندھوں پر سنبھالتے ہوئے ایک ہاتھ اپنے ہمیشہ سے روشن چہرے اور سیاہ ڈاڑھی پر پھیرتے ہوئے ایک لمبی سرد آہ لی۔ لیکن اُن کے بولنے سے پہلے ہی چاچا شیدے نے امین بخش کو مخاطب کیا
" وکھرا نام کیوں پتر۔!کوئی آسان نام ہو جو سب کی زبان پر آسانی سے چڑھ جائے"
" چاچا !تو اپنی برادری اور گاؤں کو جانتا تو ہے نا!۔۔۔ یہاں کسی کا پورا نام بلانا پاپ سمجھا جاتا ہے۔۔ اب تو خود ہی دیکھ تو آج تک چاچا شیدے سے چاچا رشید نہ ہو سکا"
چاچا شیدے نے یہ سن کر چپ اختیار کی۔ وہ سمجھدار بوڑھا اپنی برادری اور گاؤں کے بیچ رہ کر اُن کی نفسیات کو اچھے سے سمجھتا تھا۔
" ماسٹر جی نام! کوئی وکھرا سا ہی سوچنا جو پہلے گاؤں میں پہلےکسی کا نہ ہو اور بگاڑابھی نہ جا سکے"
"تیری بات بلکل ٹھیک ہے امین بخش! تو نہ بھی کہتا تب بھی میں کوئی ایسا نام تجویز کرتا جو پورے علاقے میں کسی کا نہ ہوتا۔ ۔۔یہ ہمارے لوگوں کی فطرت ہوتی ہے کہ اچھے خاصے بامعنی نام کو بگاڑ کر ناجانے کیا بنا دیتے ہیں۔۔۔" ماسٹر اللہ دتہ کا لہجہ ذرا تلخ ہوتا جا رہا تھا جسے امین بخش اور چاچا شیدے دونوں نے محسوس کر لیا تھا۔
" جواد ہمارے آقا و دوجہاں ﷺ کا نام تھا لیکن یہاں جواد کو جادی کہہ کر بلایا جاتا ہے کیوں کہ ٹھیک نام پکارنے سے لوگوں کی زبان تھکتی ہے"
" چھوڑیں ماسٹر جی ! کیوں اپنا سر کھپا رہے ہیں۔ ان لوگوں کی سمجھ میں آپ کی بات نہیں آنی۔ ۔۔۔امین بخش! آج پیشی کی نماز کے بعد میں اور ماسٹر اللہ صاحب تیرے منڈے کو دیکھنے آئیں گے" چاچا شیدے نے ماسٹر اللہ دتہ کو سمجھانے کے بعد امین بخش کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔
" ضرور چاچا!"
ماسٹر اللہ دتہ پھر چاچا شیدے کی بات سن کر خاموش ہو گیا۔ امین بخش اور چاچا شیدے سے رخصت ہو کر ماسٹر اللہ دتہ نے گھر کی راہ لی جہاں اُسے ناشتہ کرنے اور کپڑے بدل کر سکول کھولنے بھی جانا تھا۔ 

Comments

Popular Posts