قسط نمبر : 3
گاؤں کے عین وسط میں ایک خستہ حال کچہ مکان جس کی بنیاد اینٹوں کی بجائے رشتوں سے بنائی گئی تھی۔ جس کی لیپ گارے سے کرتے وقت پانی کی بجائے لہو کو مٹی میں شامل کیا گیا تھا۔ جس کی چاردیواری بنانے کا مقصد چوری ڈاکے سے محفوظ ہونا نہیں بلکہ شر پسند عناصر کو رشتوں کے کچے گھر کےاندر داخل ہونے سے روکنا مقصود تھا۔
محض چھ فٹ اونچی اور ایک کنال پر محیط یہ گارےاور کچی اینٹوں سے بنی چاردیواری جس کے وسط میں زمانے کی کاریگری سے مزین ایک لکڑی کا دروازہ جس کے دونوں اطراف کی دیواروں پر جانوروں کے گوبر سے بنے اوپلے دیوار کی زینت بنے ہوئے تھے۔اس بلند و بالا دروازے کے دونوں جانب مٹی کا دیا رکھنے کے لیے تاک بنانے کا مقصد چوکھٹ کو ہر دم روشن رکھنا تھا۔
یہ ایک کنال پر پھیلا وسیع گھر گاؤں کے سب سے معزز خاندان کے چشم و چراغ امین بخش کا تھا۔
امین بخش کے والد نور الہیٰ کے دادا مغلیہ فوج میں ملازم تھے جو غدر کے دنوں میں مارے گئے اور اُن کی میت بڑی مشکلوں سے اُن کے وارثوں کو سونپی گئی۔ مغلیہ حکومت کے اختتام کے بعد نورالہیٰ کے والد اور چاچا خاندانی جاہ وجلال کی بقاء کی خاطر انگریز فوج میں با امر مجبوری ملازم ہوئے اور جنگ عظیم کے اول سے دو سال قبل پنشن لے کر گھر آئے لیکن جنگ چھڑ جانے کے سبب دوبارہ جانا پڑا۔ لیکن راستے میں ہی ایک حادثے کا شکار ہوئے۔
نور الہیٰ نے بھی فوج میں ملازمت کرنے کو سراہا۔ لیکن افسوس جنگ عظیم دوم میں لاپتہ ہو گئے اور پھر اُن کے مرنے جینے کی کوئی خبر گھر موصول نہ ہوئے۔ نورالہیٰ کے دو بیٹے امین بخش اور فضل الہیٰ اُن کے جانشین ہوئے۔
نور الہیٰ کی شادی اُن کی پھوپھو زاد سکینہ بی سے ہوئی تھی۔ اپنے دادا، والد، چاچا ماموں وغیرہ کو کھونا اُس کے لیے اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا اُسے شوہر کے لاپتا ہونے کی خبر نے رنج پہنچایا۔ اپنا واحد اثاثا یعنی اپنے بیٹوں کو کھونے کا ڈر خاندانی رواج اور جذبہ حب الوطنی پر حاوی آگیا ۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ گاؤں میں فوجی بھرتی کرنے والی ٹیم آئی اور گاؤں کے اکثر بیشتر ملازم ہو گئے لیکن سکینہ بی بڑے بوڑھوں کے اصرار کے باوجود بھی امین بخش کو فوج میں بھیجنے سے انکاری رہی۔ سکینہ بی کی ضد کا نتیجہ یہ ہوا کہ امین بخش کے اکثر ہمجولی فوج میں ملازم ہو کر اچھی زندگی بسر کرنے لگے اور یتیم امین بخش اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے کھیتی باڑی کرنے لگا۔
اپنے سابقہ فیصلہ سے پچھتا کر سکینہ بی نے اپنے چھوٹے بیٹے فضل الہیٰ کو فوج میں جانے کی اجازت تو دے دی لیکن اُس نے فوج سے زیادہ شہر میں کلرک کی نوکری کو ترجیع دی۔ امین بخش نے اپنے چھوٹے بھائی کو اپنے بیٹے کی طرح پالا اور اُس کی ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی، امین بخش جس قدر اپنے چھوٹے بھائی کو چاہتا تھا ، فضل الہیٰ اُس کے برعکس اتنا ہی نفرت کرتا تھا۔
امین بخش کی شادی سکینہ بی نے اپنی بھانجی سلمیٰ سے کی جبکہ فضل الہیٰ نے اپنی پسند کی شادی برادری سے باہر رچائی۔ فضل الہیٰ کی بیوی نے آتے ہی اُس کے کان بھڑکائے، گھر میں پھوٹ ڈالی اور پہلے سے مختصر جائیداد کا بٹوارا کرا دیا۔
بڑے بھائی کی تمام خدمات کو پسِ پشت ڈال کر فضل الہیٰ نے اپنے حصے کی کچھ زمین بیچ ڈالی اور گاؤں سے باہر جا مکان تعمیر کرایا۔ اپنے گھر سے ناطہ توڑنے پر افضل الہیٰ کو اُس کی بیوی نےاکسایا۔ جہاں برادری کی لڑکی پورے خاندان کوجوڑنے میں لگی تھی وہیں پر پرائے گھر کی لڑکی گھرانے توڑنے میں تجربہ کار تھی۔
امین بخش کو یہ شاندار گھر ورثے میں ملا تھا۔ وگرنہ ایسا شاندار گھر تعمیر کرنا ایک معمولی زمیندار کے بس کا روگ کہاں۔
مرکزی دروازے کے اندر دائیں جانب جانورباندھنے کی جگہ تھی ۔ بائیں جانب ایک چھپڑ تھا جس تلے جانوروں کو صرف بارشوں کے دنوں میں یا شدید سردی میں باندھا جاتا تھا۔ جہاں فی الحال چندگائے بھینسیں اور بکریاں بندھی تھیں۔
جانوروں کو باندھنے کی جگہ اور صحن کو ایک معمولی سی حدبندی علیحدہ کرتی تھی۔ صحن کے بائیں جانب دو نیم کے گھنے درخت تھے جن کی چھاؤں سے ذرا ہٹ کر دو ننگی چارپائیں پچھی تھیں جن میں سے ایک پر امین بخش کی والدہ سکینہ بی گھر میں آئے نئے مہمان کے لیے کچھ بُن رہی تھیں اور دوسری چارپائی پر امین بخش کی چادر پڑی ہوئی تھی جبکہ وہ خود صحن میں ذرا ہٹ کر ٹوکے سے جانوروں کا چارہ کاٹنے میں مصروف تھا۔
کنبہ باآسانی سما جاتا تھا۔ ایک طرف چند چارپائیں بچھی تھیں تو دوسری طرف کچھ صندوق اور ایک بڑی پیٹی رکھی ہوئے تھی جس کے اوپر بستروں کا ڈھیر۔ ساتھ ہی گندم کے دانوں کو رکھنے کا گھڑولا اور دوال گیر لگی تھی جس پر کپڑے لٹکے نظر آ رہے تھے۔
مرکزی کمرے کے ساتھ دو چال کے دو کشادہ کمرے یا مقامی زبان کے مطابق کوٹھریاں تھیں۔ جن میں سے ایک کو بنانے کا مقصد سامان رکھنا تھا لیکن اُسے مہمان خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ جبکہ دوسی کوٹھری باورچی خانے کا کام کرتی تھی۔
مرکزی کمرے کے دائیں جانب ملحق کوٹھری کو مہمان خانے کا درجہ دیا گیا تھا۔ جس میں دروازے کے بلکل سامنے ایک نمائشی انگیٹھی جس پر چھوٹی چھوٹی متعدد اشیاء سجائی گئی تھیں۔
اس کے اوپر ایک سے سرے سے دوسرے سرے تک بنائی گئی ایک لمبی چھتی تھی۔ جس پر مقامی رواج کے عین مطابق بہت سارے مٹی اور چینی کے برتن بڑی خوبصورتی سے سجائے گئے تھے۔
مٹی سے لیپی دیواروں پر کیل لگا کر لٹکے متعدد برتن پنجاب اور خصوصاََ پوٹھوہار کی ثقافت کی واضع نمائندگی کر رہے تھے۔ انگیٹھی سے ذرا اوپر اور چھتی سے ذرا نیچے ، ہاتھ کی بنی ہوئی پنکھیاں بھی کیل کے سہارے سے لٹکی نظر آ رہی تھیں۔
انگیٹھی سے آگے دو لکڑی کی کرسیاں اور اُن کے آگے ایک چھوٹی میز رکھی گئی تھی۔ کرسیوں کی دونوں جانب سرخ پاؤں والی چارپائیں بچھی ہوئی تھیں۔
میز پر رکھا ہوا سفید کپڑا، انگیٹھی اور چھتی پر رکھے سبز کپڑے اور تکیوں کے غلاف پر ہاتھوں سے مختلف ڈیزائن بنائے گئے تھے۔ جو نسل در نسل چلنے والے فن کی واضع عکاسی تھا۔
کمرے کی دیواروں پر جابجا لالٹین رکھنے کی جگہ بنی تھی تاکہ رات ہونے پر کمرے میں اندھیرا نہ ہو۔ لکڑی کے دروازے کی دونوں جانب اندر اور باہر تاک بنے ہوئے تھے۔ دروازے کی دونوں جانب تاک سے ذرا آگے کھڑکیاں بھی تھیں۔ جن سے اوپر روشندان۔
دوسری کوٹھری یا تیسرا کمرا بطورِ باورچی خانہ استعمال ہوتا تھا۔ ایک طرف کی دیوار میں الماری بنائی گئی تھی جس میں روز مرہ کے استعمال کر برتن سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ الماری کے عین مخالف ایک انگیٹھی میں نصب چولہا جس پر ایک مٹی کی کٹوی میں ترکاری رکھی ہوئی تھی۔
انگیٹھی کے آس پاس پڑے ہوئے مختلف ڈبوں میں کھانا پکانے کے لیے درکار مصالحے رکھے گئے تھے۔ مرکزی کمرے کی دائیں جانب مہمان خانہ اور اُسے سے آگے باورچی خانہ۔ تینوں کمروں کےدرمیان ایک دروازہ رکھا گیا تھا۔
باورچی خانے کی دیوار کے ساتھ باہر کی جانب ایک اور چولہا بھی تھا جس کے تین اطراف میں ایک کچی سی دیوار بنائی گئی تھی۔ جسے مقامی بولی میں کھٹیالی کہتے تھے۔
تھوڑا آگے دو پانی کے گھڑے جن کو بھر کر لانا آج کل سکینہ بی کا کام تھا اور ساتھ ہی کپڑے اور برتن دھونے کی جگہ ۔
مرکزی کمرے کے ساتھ رہ گئی خالی جگہ پر گھریلو سبزیاں اُگائی جاتی تھیں جنھیں جاڑے اور دیکھ بھال کی کمی نےجلا دیے تھے۔
صحن میں لگے دو نیم کے درخت سردیوں میں بکریوں کے لیے چارہ اور گرمیوں میں ٹھنڈی چھاؤں کی فراہمی کے کام آتے تھے۔
کمرے میں بچے کے رونے کی آواز سن کا سکینہ بی ہاتھ سے بُننا چھوڑ کر کمرے کی جانب بڑھتی ہیں جہاں ننھے شہزادے نے نیند سے جاگتے ہی سلمیٰ کو بھی جگا ڈالا تھا۔
امین بخش ابھی تک بیٹھا ٹوکے سے چارہ کاٹ رہا تھاکہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ ساتھ ہی چاچا شیدا اور ماسٹر اللہ دتہ دروازہ کھول کر اندر آگئے۔
امین بخش نے چارہ چھوڑکر چاچا شیدے اور ماسٹر اللہ دتہ کو چارپائی پربٹھایا۔ اُن کے بیٹھتے ہی سکینہ بی اندر سے اپنے پوتے کو اُٹھا لائی۔
"یہ لے لالہٰ ! اپنے پوترے کو دیکھ" مائی سکینہ نے چاچا شیدے کی گود میں لڑکے کو دیتے ہوئے کہا۔
" ماشاءاللہ !۔۔خدا کی قسم ایسا سوہنا منڈا میں نے پورے علاقے میں نہیں دیکھا۔ ۔۔اللہ تیرے بیٹے کی عمر دراز کرے امین بخش!"
" سچ میں امین بخش! تیرا منڈا بہت ہی سوہنا ہے۔۔ ۔ اللہ اسے نظرِ بد سے بچائے" ماسٹر اللہ دتہ نے امین بخش کے بیٹے کو دیکھ کر دعا دی۔
سب کے یک زبان ہو کر اٰمین کہنے کے بعد امین بخش مخاطب ہوا " ماسٹر جی آپ نے نام کیا سوچا ؟ "
" میرے خیال سے فوادنام اچھا ، خوبصورت اور وکھڑا بھی ہے"
" واقعی ماسٹر جی یہ نام تو بڑا خوبصورت ہے" امین بخش بولا
" ہاں پتر! نام تو بڑا چنگا ہے" چاچا شیدے نے رائے دیتے ہوئے کہا
" ہاں! اس کے ساتھ اپنے آباؤ اجداد میں سے کسی بڑے کا نام ملا کر پورا نام کر دو"
" پتر میرے نانا کا نام محمود تھا۔۔۔ بڑے بہادر جنگجوؤ تھے جو شہادت کے اعلیٰ درجے پر سرفراز ہوئےتھے۔۔۔ میں نے اپنی بے سے اُن کے متعلق اتنا کچھ سن رکھا ہے کہ دل سے وعدہ کیا تھا اپنے پہلے پوترے کا نام انھی کے نام رکھوں گی" سکینہ بی نے امین بخش سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
امین بخش نے چاچا شیدے کی گود سے اپنے بیٹے کو ہاتھوں میں لیا۔
" اے اس کائنات کے واسیو! سن لو۔۔ یہ میرا بیٹا ہے جو آنے والے وقت میں میری اور اس گاؤں کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔۔ ۔اس کے کارنامے غاذی پوری کی تاریخ میں لکھے جانے کے قابل ہوں۔۔ یہ سب سے منفرد ہو گا۔۔۔ کیوں کہ یہ فواد ہے۔۔۔ فواد محمود
Comments
Post a Comment