قسط نمبر: 4
سفید بادلوں کی اووٹ میں چھپا بیٹھا آفتاب جوچشمِ انسانی سے مانند رخِ ماہ تاب ،اورجس کے باہر نکلنے کو دنیا نہایت بے تاب تھی۔ ہر پہر ایک مانند ہی لگ رہا تھا۔ کل سے چلتی مشرق کی سرد ہوائیں بارش کی خبر لا چکی تھیں۔ گاؤں کے بیشتر لوگوں نے جانوروں کا چارہ کاٹ کر گھروں رکھ لیا تھا ۔ صرف وہی لوگ چارہ لانے سےرہ گئے تھے جو مصیبت پڑنے پر کام کرنے کے عادی تھے۔
سرد ہوائیں جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو کپکپا دیتی تھیں۔ چھوٹے سے گاؤں کی رونق سے بھرپور گلیاں سنسان پڑ چکی تھیں۔ گلی کے نکڑ پر بیٹھے آوارہ کتے۔۔۔ جوبچی روٹیوں اور ہڈیوں کے عوض پورے گاؤں کی ایک طرز سے رکھوالی کرنے کے ذمہ دار تھے۔۔۔ سردی کے باعث جائے پناہ تلاش کرنے میں لگے تھے۔
تمام لوگ گھروں میں موقوف تھے۔ مرد بستروں میں بیٹھے مونگ پھلی کھانے میں مگن تھے تو عورتیں مٹی کے برتن میں کوئلے جلا کر کمرے میں رکھنے کے بعد چرخہ کتنے میں مصروف تھیں۔ جاڑے کے موسم میں لوگوں کی ایک یہی تو سرگرمی تھی۔
سخت جاڑے میں بھی گاؤں کے کچھ مرد جنھیں گھر بیٹھنے سے کوفت ہوتی ، وہ نصیر حلوائی کی دکان پر چلے آتے۔ آگ سینکنے کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر بحث بھی کی جاتی۔ایسے میں اگر نصیر حلوائی سرد موسم کو دیکھتے ہوئے گرم گرم جلیبیاں یا سموسے کڑاہ سے نکالتا تو گپیں ہانکنے والوں کی گویا عید ہی ہو جاتی۔
کالے رنگ کی گرم اوونی چادر لپیٹے، سرد ہوا کے جھونکوں سے بچتا ہوا امین بخش بھی اُدھر آ نکلا۔
ایک گہرے رنگ کی چادر اپنے گرد لپٹا، سر پر گرم ٹوپی رکھے اور چہرے پر پریشانی کے واضع تاثرات سمیت چاچا شیدا بھی سب سے الگ تھلگ ایک لکڑی کے تختےپر بیٹھا آگ سینکنے میں مصروف تھا۔
"چاچا جی !خیریت ہے نا! کیوں پریشان لگ رہا ہے" امین بخش نے ساتھ بیٹھ کر وہ آگ سینکنے لگا تھا۔
چاچا شیدا جو کسی سوچ میں غرق تھا فوراََاپنے خیالات کو جھٹک کر بولا " امین بخش !تو کب آیا"
" چاچا جی !میں تو ابھی ابھی آیا۔۔۔ مگرتُسی کیوں پریشان لگ رہے ہو" امین بخش نے چاچا شیدے کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے کہا۔
" پتر !تجھے پتا ہے نا کہ اپنے ماسٹر جی کی بیوی اور رحیم داد کی بیٹی اُمید سے تھی"
" ہاں چاچا !معلوم ہےمجھے۔۔۔ کیوں کیا ہوا اُسے"
" پتر !صبح پو پھوٹنے سے پہلے ماسٹر جی کی بیوی کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب ہو گئی۔ اس لیے وہ فوراََ ہی تانگے پر سوار ہو کر قصبے چلے گئے۔ ۔۔ابھی تک کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ مجھے انھی کی پریشانی کھائے جا رہی ہے"
" اب سمجھا" سر پر ہاتھ مارتے ہوئے " تب ہی تو ماسٹر جی! نے آج اتنے سالوں میں پہلی بار نماز سے ناغہ کیا"
" پتر تجھے صرف ماسٹر جی کی نماز کی فکر ہے ؟ میں تو اس وجہ سے پریشان ہوا بیٹھا ہوں کہ پتا نہیں اُن کی بیوی اور اولاد کا کیا بنا" چاچا شیدا بولا۔
" چاچا جی !میرا بھی یہی مطلب تھا کہ اگرماسٹر جی نے نماز سے ناغہ کیا تو ضرور کوئی بہت مجبوری ہو گی" امین بخش نے بات سمجھانے کے انداز میں بولی"کیوں چاچا ! جمیلا تانگہ لے کر لوٹا یا نہیں؟ "
" نہیں پتر! ابھی تک نہ جمیلا تانگہ لے کر آیا اور نہ کوئی اور خبر آئی" چاچا شیدے کی آواز میں بے چینی عیاں تھی۔
" امین بخش !میرا دل چاہ رہا ہے ماسٹر جی کے پیچھے قصبے چلا جاؤں" چاچا شیدے کچھ دیر بعد خاموشی توڑتے ہوئے بولا۔
" چاچا !جانے میں حرج تو کوئی نہیں لیکن جائیں کیسے۔ جمیلےکا تانگہ تو پہلے ہی شہر گیا ہوا ہے۔۔۔ چاچا جی تُسی پریشان نہ ہو۔ اللہ سب اچھا کرے گا"
نصیر حلوائی کی دکان پر لوگوں کا ہجوم ہوتے ہوئے بھی وہاں خاموشی تھی۔تمام لوگ ماسٹر اللہ دتہ کی ظرافت سے بخوبی آشنا تھے۔اُس شخض کو بھلا گاؤں والے کیسے بھول سکتے تھے جس نے اپنی عمر کا ایک خاص حصہ اس گاؤں کے غریب بچوں کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے میں گزار دیا۔
ماسٹر اللہ دتہ آج سے سات سال پہلے اس گاؤں میں آیا اور پھر یہیں کا ہو رہا۔ تعلیمی رجان کو عام کرنے کے لیے ماسٹر اللہ دتہ کو سرکاری طور پر اس گاؤں میں پرائمری سکول چلانے کے لیے بھیجا گیاتھا۔
یہاں آکر ماسٹر اللہ دتہ نے ایک کچے سے مکان کو سکول کا درجہ دیا جس کے صحن میں تمام گاؤں کے بچوں کے سینوں کو علم کی روشنائی سے منور کرتا۔
ایک خوبرو نوجوان کو اس چھوٹے سے گاؤں میں بطور پرائمری سکول ماسٹر طعینات ہونے پر گاؤں کے لوگوں نے کھلے دل سے استقبال کیا۔
ماسٹر کے لیے علیحدہ رہائش کا بندوبست کیا گیا۔ پہلے پہل ماسٹر اللہ دتہ کو گھر گھر جا کر بچوں کو پڑھنے پر قائل کرنا پڑا۔
لیکن رفتہ رفتہ گاؤں والوں کی ایک پڑھے لکھے نوجوان کی عزت کرنا کام آئی ۔ بلاآخر اَن پڑھ مگرتہذیب یافتہ گاؤں کے کسانوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا شروع کر دیا۔
ماسٹر اللہ دتہ کو گاؤں میں آئے تین سال ہو گئے تھے۔ ان تین سالوں میں ماسٹر اللہ دتہ کو جن مشکلات کا سمومنہ کرنا پڑا تھا اُن کا اندازہ صرف اُسے یا اُس کے خدا کو ہی بہتر ہو سکتا تھا۔ گاؤں والوں نے ماسٹر اللہ دتہ کی کوششوں کو سراہا اور اُس کی شادی اپنے ہی گاؤں کی ایک نہایت شریف یتیم اور مسکین لڑکی جس کے والدین اس دنیا فانی سے کوچ کر چکے تھےسےکروا کر ہمیشہ کے لیے اسی گاؤں کا کر لیا۔ خود بھی ماسٹر اللہ دتہ کا اس دنیا میں کوئی نہ تھا۔ گاؤں والوں کی بے پناہ محبت نے انھیں یہاں رکنے پر مجبور کر دیا۔
ماسٹر اللہ دتہ جو پہلے ہی پوٹھوہار کہ علاقے میں واقع چھوٹے سے گاؤں کے واسیوں کی ظرافت کا قائل ہو کر یہیں کا ہو رہا تھا۔ شادی کے بعد مستقل سکونت اختیار کر لی۔
ماسٹر اللہ دتہ کے ہاں اس سے پہلے تین بچے ہوئے تھے لیکن خدا کی کرنی کہ ایک بچہ بھی سلامت نہ رہا۔
سہ پہر تک سکول میں رہنا اور شام کو گاؤں کے وسط میں برگد کے درخت تلے بیٹھ کر گاؤں کے بزرگوں اور نوجوانوں کو بیل گاڑی کے ذریعے قریبی قصبے سے اخبار منگوا کر گرد و پیش کے تازہ حالات سنانا ماسٹر اللہ دتہ کا ایک اہم مشغلہ تھا۔
ماسٹر اللہ دتہ کی بیوی اُمید سے تھی۔ ماسٹر صاحب اپنی بیوی کے لیے اکثر فکر مند رہا کرتا۔ ایک صبح سحر کے وقت بیوی کی آواز سن کر فوراََ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ گھر میں ان دونوں کے سوا کوئی تیسرا بندہ تو تھا نہیں۔ ماسٹر اللہ دتہ کو اور تو کچھ نہ سوجھا، مگر فوراََ دائی کا دروازہ جا کھٹکھٹایا ۔ دائی آ تو گئی لیکن بیوی کی حالت دیکھ کر اُس نے ہاتھ اٹھا دیے۔
ماسٹر اللہ دتہ فوراََ بھاگا بھاگا جمیلے کے دروازے پر پہنچا اور اسے تانگہ جوت کر لانے کو کہا۔ جمیلے کے آنے کی دیر تھی کہ ماسٹر اللہ دتہ فوراََ اپنی بیوی کو لے کر قصبے روانہ ہوگیا۔ بیچارے کو اتنا وقت بھی نہیں ملا کہ امین بخش یا چاچا شیدے کو بتا سکے اور ادھر وہ دونوں اس بات پر حیران تھے کہ انھیں یہ خبر دائی کہ منہ سے سننے کو کیوں مل رہی ہے۔
کچھ نصیر حلوائی کی دکان پر ماسٹر اللہ دتہ کا انتظار کرنے کے بعد امین بخش گھر لوٹ آیا۔
لیکن ماسٹر اللہ دتہ کی بیوی اور آنے والی اولاد کی فکر اُسے ستائے جا رہی تھی لیکن وہ کچھ کر گزرنے سے بھی قاصر تھا۔ اُسے انتظار تھا تو کسی اچھی خبر کا۔
سہ پہر کے قریب امین بخش کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ امین بخش نے بستر چھوڑا اور اونی چادر لپیٹ کر باہر آیا۔
صحن میں آتے ہی دروازے کے باہر سے آتی آواز سے اُسے معلوم ہو گیا تھا کہ چاچا شیدا باہر آیا ہوا ہے۔اُسے امیدتھی کہ چاچا شیدا کوئی اچھی خبر لایا ہوگا لیکن شاید انسان کی امیدیں ہر بارکامیاب ہونا لازم نہیں۔
دروازے کا پٹ کھولتے ہی اُسے جمیلے کا تانگہ کھڑا دکھائی دیا۔
دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی چاچا شیدا آگے بڑھ کر امین بخش کی طرف لپکا۔ چاچا شیدے کے چہرے سے پریشانی کے تاثرات پڑھ کر امین بخش فوراََ بولا " کیوں چاچا خیریت ہے نا؟"
" پتر! ماسٹر اللہ دتہ کے گھر اللہ نے اپنی رحمت بھیجی ہے" چاچا شیدے کی ہمیشہ عادت تھی کہ بیٹے کی پیدائش پر نعمت اور بیٹی کی پیدائش پر رحمت بولنا چاہے حالات کتنےہی سنگین کیوں نہ ہوں۔
لیکن اس سے پہلے کے امین بخش کچھ بولتا چاچا شیدا فوراََ بول اُٹھا۔
" لیکن اُن کی بیوی چل بسی۔ ۔۔ایسے کر تو جمیلے کے ساتھ دوسرے گاوں جا کر وہاں سے تانگہ لے اور شہر جا میت لینے۔ میں گاؤں میں اعلان کر کے تدفین کی تیاری کرواتاہوں"
سورج کی بادلوں سے آنکھ مچولی جاری تھی۔ سرد موسم میں گاؤں کے ماحول سے زیادہ ماسٹر اللہ دتہ کا دل سرد پڑ چکا تھا۔
ایک طرف ماسٹر اللہ دتہ میت کو قبر میں اتار رہا تھا تو دوسری طرف چاچا شیدا بھیگے چہرے کے ساتھ ماسٹر اللہ دتہ کی بیٹی کو گود میں اُٹھائے کھڑا تھا۔
گاؤں کے مرد کھلے عام روتے نہیں لیکن ماسٹر اللہ دتہ تو شہر سے آیا تھا وہ تو دنیا سے اپنے واحد رشتے کو رخصت کرتے ہوئے آنسو بہا سکتا تھا۔ گاؤں کے رواج اُس پر اور اُس کی مسکین بیٹی پر تو لاگو نہیں ہوتے تھے۔
Comments
Post a Comment