چاند سے سرگوشی
شام سے ہی دل کچھ بوجھل سا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میرے
دل کی کیفیت کیا ہے اور کیوں میں بار بار ہاسٹل کمرے سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔
رات گیارہ بجے جب طبعیت زیادہ بوجھل ہوئی تو میں کمرے سے
نکل کر چھت پر آگیا۔
رات کے اس پہر آسمان بلکل صاف تھا اور نہ ہی بادل کا کوئی
ذرا سا ٹکڑا بھی آسمان کے آنچل پر نظر آ رہا تھا۔
رات کی گہری سیاہ چادر پر متعدد دیے اور اُن کی بیچوں بیچ
چاند ٹمٹما رہا تھا۔
چاند کی ٹھنڈی کرنوں میں ایک عجیب سی کشش تھی جو مجھے اُس
کی طرف دیکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔
مجھے نہیں معلوم کتنی دیر تک میں چاند کو دیکھتا رہا ۔ اس دوران مجھے یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ میرے
فون پر کتنے نوٹیفیکیشن آئے، کتنی کالیں اور میسیج آئے۔
کچھ دیر بعد جب میرے خیال اور میرا ذہن مجھے واپس لوٹایا
گیا تو میں نے فوراَ چاند سے نظریں ہٹائیں۔
لیکن کچھ لمحوں بعد دوبارہ چاند پر نظر پڑنے کی دیر تھی کہ
مجھے لگا چاند مجھے دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔
شاید یہ میرا وہم تھا، خیال تھا یا میری ذہنی حالت ایسی تھی
کہ میں چاند کو دیکھ کر یوں محسوس کر رہا تھا۔
" تو بھی مسکرا رہا ہے نا میری حالت پر؟" میرے
لبوں سے بے ساختہ ایک جملہ نکا۔
" ہاں!" مجھے یوں لگا چاند نے ایک ذور دار قہقہ
بلند کیا۔
بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ میں چاند کو مسکراتا دیکھ رہا
تھا، یہ کیسے ممکن تھا کہ مجھے چاند کی آواز آئی، یہ کیسے ممکن تھا کہ میرے وجود
نے چاند میں ایک کشش پائی۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں تمہیں بولتے ہوئے کیسے سن رہا ہوں؟" مجھے لگا
میرا جسم پسینے سے بھیگ رہا ہے۔
" یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ میں تمہیں کیسے سن رہا ہوں۔ اس وقت زیادہ اہمیت کی بات تمہارا دل
ہے" اب چاند کا انداز ایک دم سے سنجیدہ محسوس ہو رہا تھا۔
"کیا تو جانتا ہے میرے بارے میں؟"
"سب کچھ"
"کیا تو نے اُسے بھی دیکھا ہے؟"
"ہاں!"
"اور اس وقت بھی دیکھ پا رہا ہے؟"
" ہاں! میں دیکھ سکتا ہوں وہ کھڑکی کے پاس بیٹھی آسمان
میں کچھ تلاش کر رہی ہے"
" اُس کے چہرے کے تاثرات کیا ہیں؟"
" وہ اُداس لگ رہی ہے"
"اُداس؟ لیکن کیوں؟" میں نے بغیر جواب سنے فوراَ
فون آن کیا اور اُس کی طرف میسیج کیا۔
"کیسی ہو؟"
(کچھ لمحوں بعد)
" اچھی ہوں"
اس دفعہ اُس نے نہیں پوچھا کہ میں کیسا ہوں۔ لازماَ وہ
اُداس تھی۔
" کیا ہوا ؟ تم اُداس کیوں ہو؟" میں نے لکھا۔
" نہیں ہوں اُداس"
"میں اچھے
سے جانتا ہوں تم اُداس ہو"
" کیسے جانتے ہو؟"
" بس جانتا ہوں۔ تم بتاؤ کیا ہوا؟ اور کیوں اُداس ہو
تم؟"
" یار! اب وہ مجھے اہمیت دینا چھوڑ رہا ہے"
"تم اُس سے محبت کرنے لگی ہو"
" شاید"
" کیا میری محبت تمہارے لیے کافی نہیں؟"
" مجھے تمہاری محبت کی ضرورت نہیں ہے" ہر بار کی
طرح اس مرتبہ بھی مجھے یوں محسوس ہوا کسی نے بھاری پتھر میرے سر پر گرا دیا ہو۔
" تم مجھ سے محبت کرنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟" اس
مرتبہ سوال اُس کی طرف سے تھا۔
اور یقیناَ یہ سوال بھی مشکل تھا۔
میں اس سوال کا جواب نہیں جانتا تھا۔
کئی مرتبہ میں نے خود سے بھی یہی سوال کیا" یہ جانتے
ہوئے بھی کہ ہم کبھی ایک نہیں ہو سکتے آخر میں اُس سے محبت کرنا چھوڑ کیوں نہیں
دیتا؟"
میرے ہاتھ اس وقت کانپ رہے تھے۔
میری نظریخود بخود موبائل فون کی سکرین سے اُٹھ کر چاند تک
جا پہنچی۔
"اے چاند! تو سب کچھ جانتا ہے۔ ۔۔تو نے مجھے بھی دیکھا
ہے اور اُسے بھی۔ ۔۔تو میرے شہر میں بھی چمکتا ہے اور اُس کے شہر پر بھی۔ ۔۔ تو
جانتا ہے ہمارے درمیان کتنا لمبا فاصلہ ہے، کتنی مشکلات ہیں اور کتنے کٹھن دشور
گزار رستے پڑتے ہیں۔۔۔ تو ہی مجھے بتا کہ
میں کیا کروں؟ ۔۔۔بھول جاؤں اُسے؟۔۔۔ ترک کر دوں یہ بے وقعت سے رشتے ۔۔۔ یا پھر یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس
میں تکلیف ہے، درد ہے، مصیبت ہے۔۔۔ اُس سے
محبت کرتا رہوں ۔۔ اور ہر دم خود کو ایک نئی اذیت دیتا رہوں۔"
اول تو چاند مسکرایا ، پھر گویا ہوا۔
" یہ فون جیب میں رکھ دو"
میں نے فون جیب میں ڈال دیا۔
" اب اپنا دائیاں ہاتھ اپنے سینے تک بلند کرو"
میں نے ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنا ہاتھ بلند کیا۔
" اب اپنے ہاتھ کو غور سے دیکھو"
" دیکھ رہا ہوں"
" اب اپنا ہاتھ دل پر رکھو"
" رکھ دیا"
مجھے محسوس ہوا
چاندنی میرے دل میں سرایت کر رہی ہے۔ میرا جسم مسلسل کپکپا رہا تھا اور تمام وجود
پسینے میں شرابور محسوس ہوا۔
" اب سنو اپنے دل کو"
چند لمحوں بعد ہی مجھے اپنی سانس تیز چلتی محسوس ہوئی۔
" میں نہیں سن پا ررہا۔ ۔۔ یہ سب میری برداشت سے باہر
ہو رہا ہے۔۔۔ میں جا رہا ہوں" یہ کہہ کر میں فوراَ پلٹا اور سیڑھیوں کی طرف
راہ لی۔
سیڑھیوں سے اُتر کر میں فوراَ اپنے کمرے میں آ گیا اور بستر
پر گر پڑا۔
شاید یہ بارہ سے کچھ اوپر کا وقت تھا تب میرا ذہن عجیب
الجھن کا شکار تھا۔
میرا دماغ مجھے چھت پر جانے سے روکتا جبکہ میرا دل مجھے
کھینچتا ہوا چھت پر لے جانے کر در پر تھا۔
آخ دل و دماغ کی جنگ میں ہر بار کی طرح دل غالب آگیا۔
سیڑھیوں سے چڑھ کر میں چھت پر جاتے ہوئے چھپ کر چاند کو
دیکھنے لگا۔
" کیوں چھپ رہے ہو مجھے سے؟" چاند مخاطب ہوا۔
" میرے پاس تمہارے سامنے آنے کی ہمت نہیں ہے"
میں واپس لوٹنے کے لیے سیڑھیوں کی جانب مڑا۔
" رک جاؤ اور ادھر میری جانب آؤ"
مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرے پاؤں کسی چیز نے جکڑ دیے
ہوں۔
میرا جسم خود بخود ہی چاند کی جانب رخ کرتا چلا گیا اور کچھ
دیر بعد میں خود کو چاند کے رو برو کھڑا پا رہا تھا۔
" سن میرے دوست! یہ محبت ایک جنگ ہے، کوشش ہے، لڑائی
ہے۔ اب یہ تجھ پر ہے کہ تو یہ جنگ لڑتا ہے یا ہتھیار ڈال دیتا ہے۔۔۔ لیکن یاد رکھ!
اگر تو ہتھیار ڈالے گا یا محبت کرنا چھوڑے گا تو مر جائے گا"
" مر جاؤں گا؟ لیکن کیسے ؟ اور کیوں" میرا وجود
کانپ رہا تھا۔ چاندنی میرے جسم میں سرایت کر چکی تھی۔
" تیرے ہاتھ میں لکھا ہے۔۔۔ کہ جب تو محبت کرنا چھوڑے
گا تو مر جائے گا"
یہ سن کر میں نے اپنے ہاتھ کی جانب دیکھا۔ لکیروں کا ایک
آڑھا ترچھا جال میرے سامنے تھا ۔ لیکن یہ کیا؟ میں ان لکیروں کو پڑھ پا رہا تھا۔
" اب تیرے پاس تین راستے ہیں" چاند مخاطب ہوا۔
" کون سے؟" میری آنکھیں شاید بھیگ چکی تھی۔۔۔
نہیں میرا پورا وجود بھیگ چکا تھا۔
شاید آنسو میری آنکھوں سے بہتے ہوئے پورے وجود کو گیلا کر
چکے تھے۔
" پہلا یہ کہ محبت کرنا چھوڑ دے۔۔۔ کوشش کرنا ترک کر
دے۔۔۔یہ جنگ ہار کر تو مر جا"
چاند کچھ دیر کے لیے رکا جب کہ میرے کان اُس کے اگلے جملے
کے منتظر تھے۔
" دوسرا یہ کہ اگر تو جینا چاہتا ہے تو محبت کرتا
رہا۔۔۔ کوشش ترک مت کرنا۔۔۔ اور یہ جنگ لڑتا رہے۔۔۔ تجھے تیری حیات دے دی جائے
گی"
چاند کی بات سن کر میں نے کچھ دیر سر جھکا دیا۔
کچھ لمحوں بعد میں نے دوبارہ چاند سے نظریں ملائیں اور
مخاطب ہوا۔
" ایک تیسرا راستہ بھی تو ہے"
" کون سا؟" چاند میری بات سن کر پریشان ہوا۔
" اگر وہ بھی مجھ سے محبت کرے تو پھر؟"
" اس کا جواب وہی دے سکتی ہے"
یہی سوال تو حقیقتاَ مشکل تھا۔ اس کا جواب نہ چاند کے پاس
تھا اور نہ میرے۔
Comments
Post a Comment