قسط نمبر: 10
زندگی کے راستے پر انسان ایسے تن تنہا چلتا ہے جیسے پلِ صراط پر کوئی فرد۔ جو اگر ذرا سا ڈگمگایا تو اُس کی خوشی کو غمی میں بدلتے ذرا سا بھی وقت نہ لگے۔
زندگی
ایک لمبے ، ویران اور تاریک راستے کی مانند ہے جو کبھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
اس راستے پر چلتے ہوئے انسان اکثر تنہائی محسوس کر کے حدود سے تجاوز کرنے کا سوچتا
ہے۔ مگر چند مخصوص لوگوں کی قربت اور رفاقت اُسے منزل تک جلدی پہنچانے کے لیے بڑے
معاون ثابت ہوتے ہیں۔
درحقیقت
تنہائی سے چھٹکارہ پانے کی انسان کی یہ کاوش بے سود ہی جاتی ہے کیوں کہ اس دنیا میں ایک تنہائی ہی انسان کی
واحدرفیق ہے جو اُسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتی۔
نئے
سفر نئے رستوں کا پتا دیتے ہیں۔ منزل کی دوری یا نزدیکی کی خبر نئے رستوں اور نئے
سفر ہی کی مرہونِ منت ہے۔
انسان
کے ارادے ہر بار کامیاب نہیں ہوتے اور نہ ہی اُس کی تدبیر ہر بار درست ثابت ہوتی
ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ نئے سفر سے گریز کیا جائے یا نئے رستوں پر قدم
رکھنے کا خیال ہی ترک کر دیا جائے۔ اگر کوئی رستہ ابھی کٹھن اور دشوار محسوس ہو تو ممکن ہے کہ آگے جا
کر وہی راستہ انسان کی توقع سے بھی بڑھ کر آسان اور آرام دہ ہو۔
آج
کالج کا پہلا دن تھا۔ وہ گاؤں کا واحد لڑکا تھا جو بغیر فیل ہوئے مڈل سے میٹرک تک
گیا اور پھر بغیر کسی مضمون میں سپلی لیے وہ میٹرک بھی کلئیر کر گیا۔
ہفتہ
پہلے فواد کے میٹرک کا رزلٹ سکول والوں کو
موصول ہوتے ہی پورا گاؤں خوشی سے نہال ہو گیا۔ سکول کے ہیڈماسٹر سمیت فواد کے تمام اساتذہ خود چل کر فواد کے گھر مبارک دینے آئے۔
امین
بخش کے صحن میں لوگوں کا اس قدر ہجوم ہو گیا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ فواد نے میٹرک کے امتحان میں ضلع بھر میں پوزیشن لی
تھی۔
سکول
انتظامیہ کے لیے اس سے بڑھ کر اور اعزاز کی بات کیا ہوسکتی تھی کہ اُن کے سکول کے
بچے نے ضلع بھر میں اول پوزیشن لی۔
امین
بخش کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ
تھا۔وہ شخض جس نے خود کبھی بچپن میں سکول کا منہ بھی نہ دیکھا تھا ، اُس کی اولاد
نے ضلع بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔
یہ
انسان کی فطرتِ ثانیہ میں شامل ہے کہ ضروت سے زائد خوشی انسان کے حواس ساکن کر
ڈالتی ہے۔
امین
بخش کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ درپیش تھا۔ اُس کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے
مفلوج ہو چکا تھا۔ چہرے پر بے پناہ خوشی کا تاثرات اور آنکھیں آنسوؤں سے تر۔
فواد کی خوشی پورے گاؤں کی خوشی بن کر جنگل میں آگ
کی طرح چاروں طرف پھیل گئی۔
فوراََ
ریزگاری سے دس روپے نکال کر سلیم تیلی کے ہاتھوں میں تھمائےاورپتاسے منگوا کر صحن
میں موجود ہر شخض کو کھلائے گئے۔
مٹھائیوں
کے کچھ ٹوکڑے سکول انتظامیہ کی طرف سے گاؤں والوں میں بانٹے گئے۔
اگلے
دن سوجی، گھی اور چینی سے حلوےکے دو کڑاہ
فواد کی خوشی میں پکوا کر گاؤں بھر میں
تقسیم کیے گئے۔
سکول
انتظامیہ نے فواد کے اعزاز میں ایک تقریب
منعقد کروائی۔ جہاں شہر سے تعلیمی میدان میں بے پناہ تجربہ رکھنے والے افراد بھی
مدعو تھے۔
فواد کو حکومت کی طرف سے ماہانہ وظیفہ ملنے کا اعلان
ہوا۔فواد کو سکول کی طرف سے بے شمار تحائف
سے نوازا گیا جس میں مہنگے قلم، اعلیٰ کوالٹی کا بستہ، ایک کلائی گھڑی،ایک عدد
کلیاتِ اقبال، اردو اورا نگریزی دونوں زبانوں کی لغت وغیرہ سمیت بے شمار قیمتی
تحائف شامل تھے۔
تقریب
کے اختتام پر سکول کے میدان کی حد بندی پر فواد
کے ہاتھوں ایک پودا بھی لگوایا گیا۔ پرچم کشائی بھی فواد کے ہاتھوں سے ہی ہوئی۔
آج
کا دن فواد کے لیے بہت خاص تھا۔ آج کے دن
اُس کی پہچان امین بخش کے بیٹے کے طور پر نہیں ہو رہی تھی بلکہ امین بخش کی پہچان
فواد کے والد کے طور پر ہو رہی تھی۔
امین
بخش نے فواد کی خوشی میں شریک ہونے کے لیے
خاص طور پر بوسیکی کی شلوار قمیض پر تلے والا کھوسا زیب تن کیا ۔ سر پر نئے کلے
والی پگڑی باندھی ، کپروں پر خوب عطر ملا
اور بیل گاڑی کی بجائے آج تین آنے کا کرایہ خرچ کر کے بس کا سفر کیا۔
فواد کو باپ کے کپڑوں سے بڑھ کر اُس کے ساتھ کی
ضرورت تھی۔ لوگوں کے ہجوم میں جب اُس کی نگاہوں سے امین بخش اوجھل ہو جاتا تو
باقاعدہ "ابا" پکار کر امین بخش کو اپنے قریب بلاتا۔
اس
وقت اُس کے لیے جو سب سے قیمتی شے تھی وہ اُس کا باپ تھا۔ جس کے مضبوط کندھوں کے
سہارے وہ آج اس مقام پر کھڑا لوگوں کی داد وصول کر رہا تھا۔
وہ
تمام لوگ بشمول فضل الہیٰ ، جو فواد کے
آگے پڑھنے پر اعتراض اُٹھا رہے تھے، فواد
کی اس کامیابی کے بعد اُن کے لب کچھ دیر کے لیے چہ مگوئیاں کرنے سے بند ہو
گئے تھے۔
رزلٹ
کارڈ آنے کے دو دن بعد ہی فواد اورامین
بخش دونوں نے شہر کا رخ کیا۔فواد کو کالج
میں داخلہ اُس کے نمبروں کی بنیاد پر فوراََ ہی مل گیا۔
کالج
کی طرف سے سٹودنٹ کارڈ بھی ہفتے کے اندر بن کر اُس کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا جس
سے بس کا کرائیہ بھی معاف ہو گیا۔ کتابیں اور کالج کی وردی تو اُسے پہلے ہی مل چکی
تھی۔
آج
فجر کی نماز کے فوراََ بعد ناشتہ کیا، کالج کی نئی وردی زیب تن کی، نئے بستے میں
کتابیں ڈال کر کندھے سے بستہ لٹکایا اور نئی منزل کی طرف چل نکلا۔
راستہ
لمبا تھا مگر وہ سفر ہی کیا جس کی صعوبتیں برداشت نہ کرنی پڑیں۔
ڈیڑھ
میل کا سفر طے کرنے میں اُسے تقریباََ نصف گھنٹہ پیدل چلنا پڑنا۔اس کے گھر سے بس
اڈہ دیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔
یہاں
سے بس پکڑ کر اُسے شہر جانا تھا جہاں ایک نئی منزل اُس کا انتظار کر رہی تھی۔
سٹوڈنٹ
کارڈ دکھانےپر اُس کا کرائیہ چھوڑ دیا گیا۔ بس کالج کے سٹاپ پر رکی تو اُس کی نظر
اپنے کئی ہمسفروں پر پڑی، جو اُسی کے جیسے وردی زیب تن کیے کالج کے گیٹ کے سامنے
اتر رہے تھے۔
داخلے
کے وقت جب وہ یہاں آیا تھا تو صرف ایڈمن بلاک سے ہی ہو کر لوٹ گیا تھا۔ کالج کی
رنگین فضا سے موتر ہونے کا موقع ہی نہ نصیب ہوا تھا۔
کالج
کے وسیع مرکزی دروازے کے عین سامنے مختلف پودوں اور درختوں کو لگا کر صحن کو نہایت خوبصورت باغ کی شکل دی گئی
تھی۔
چاروں
طرف پھیلے کلاس روم اور وسط میں کالج کا لان۔
جس کے وسط میں مختلف پھولوں کے
مختلف ڈیزائن بڑی نفاست سے بنائے گئے تھے۔
لان
کے درمیان سے جاتا ہوا سیدھا راستہ پرنسپل آفس کے سامنے جا کر ختم ہوتا تھا۔ لان
کے چاروں طرف کیاریوں میں مزین رنگ برنگے پھول اس درس گاہ کی خوبصورتی میں مزید
چارچاند لگا رہے تھے۔
مکمل
سرخ رنگ کی اس عمارت کے نچلے حصے میں صرف کلاس روم تھے جبکہ بالائی منزل پر مطلقہ
مضامین کے لیے لیبارٹریز اور ایک بہت وسیع لائبریری تھی۔
مرکزی
دروازے کے دائیں جانب ایک چھوٹی سی مسجد تھی جبکہ بائیں جانب جاتا راستہ کالج کے
میدانوں کی طرف جاتا تھا۔
چپڑاسی
کی ہدایت پر اور سینئر طالب علموں کی دیکھا دیکھی وہ بھی کندھوں پر بستہ سنبھالے
کھیل کے میدان کی جانب بڑھ گیا جہاں اسمبلی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔
پورے
8:30 پر تمام کالج اسبلی گراؤنڈ میں جمع ہو چکا تھا۔ ۔ تمام طالب علم نچلی سطح پر
قطاروں میں بڑے نظم و ضبط کے ساتھ کھڑے تھے جبکہ اُساتذہ اکرام سیاہ گاؤن میں
ملبوس ہوئے اونچے مقام پر کھڑے تھے۔
گویا
اُستاد اور شاگرد میں فرق نمایاں رکھا گیا تھا۔
تلاوتِ
قرآن مجید کے بعد نعتِ رسولِ مقبول نہایت عمدہ انداز میں پڑھی گئی۔ جس کے بعد کالج
کے پرنسپل نے تمام نئے طالب علموں کا خیر مقدم کیا۔
سمبلی
گراؤنڈ کے چاروں طرف ساؤنڈ سسٹم نصب کیا گیا تھا تاکہ پرنسپل صاحب کی آواز تمام
سامعین کو ایک سی آئے وگرنہ بغیر اس کے کوئی کان بھی نہ دھرتہ۔
ساؤنڈ
سسٹم کا یہ ایک نیا استعمال اُس نے ملاحظہ کیا تھا۔ وگرنہ اس سے قبل ساؤنڈ سسٹم
اُس نے صرف میلوں میں یا چوہدری شفیق کے بھائی کی شادی پر ہوئے تماشے پر دیکھا تھا۔
پرنسپل
صاحب کی تقریر پرچم کشائی تقریب پر ختم ہوئی جس کے بعد اسمبلی گراؤنڈ میں موجود
تمام حاضرین نے رتبے کا لحاظ کیے بغیر یک زبان ہو کر قومی ترانا پڑھا۔
باقی
تمام جماعتوں کے طالب علم اپنے اپنے کمرہِ جماعت میں چلے گئے جبکہ نئے داخل ہوئے
طالب علم وہیں کھڑے رہے۔
اتنی
دیر میں چپڑاسی ناموں کی لسٹ لے آیا اور تمام لڑکوں کو بظاہر مختلف سیکشنز میں
بانٹ کر فرقے بنا دیے۔
فواد کو سیکشن الف میں رکھا گیا اور کمرہ جماعت کا
نام بھی یازدم الف تھا۔
نئے
سفر میں نئی منزلیں بھی دیکھی جاتی ہیں اور نئے ہمسفروں سے بھی ملا جاتا ہے۔
فواد کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ رہا۔
اُسے
اپنی آنکھوں پر یقین مشکل سے آ رہا تھا کہ کمرہِ جماعت ایسے بھی ہوتے ہیں۔ نہایت
کشادہ کمرے، ہر کمرے میں دو بڑے بڑے دروازے دونوں کونوں پر۔
ٹاٹ
سکول سے پڑھ کر آئے فواد کے لیے میز
کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا عجیب سا تھا۔
ہر
دو کرسیوں کے بعد اُس کے قد سے بھی بڑی کھڑکی اور کھڑکی کے اوپر بنے روشن دان نے
کمرے کو ہوا دار بنا رکھا تھا۔
اُستاد
کی کرسی اور میز سب سے الگ تھلک پڑے تھے۔ جس کے ساتھ دیوار پر ٹانگا ہوا ایک بڑا
تختہ سیاہ۔ لکھنے کے لیے چالک کا ڈبہ اور تختہ سیاہ صاف کرنے کے لیے کپڑا ، دونوں
اُستاد کے میز پر دھرے تھے۔
فواد نے اپنے سفر کے دوران پیچھے مڑ کر نظر دوڑائی
تو اُس کی نگاہوں کے سامنے وہ منظر آیا جب کسی زمانے میں وہ تختی پکڑے ماسٹر اللہ
دتہ کے سکول میں تختیاں لکھا کرتا تھا۔ جس میں تمام وقت تختیاں کو دھونے اور خشک
کرنے میں گزرتا تھا۔
لکڑی
کی تختیوں سے سلیٹی کا زمانہ آیا، پھر کاغذ پر لکھنا شروع ہو گئے ۔ لیکن کاغذ پر
لکھنے میں بھی کافی دقت کا سامنہ کرنا پڑتا تھا۔
پہلے
دوات میں سیاہی گھول کر رکھو۔ پھر کبوتر کا پنکھ تلاش کرو یا قلم گڑھنے بیٹھ جاؤ۔
پھر لکھنے کے دوران بار بار قلم کو دوات میں ڈبونا پڑتا یا سیل توڑ کر سکے سے لکھا
جاتا۔ یہ تمام کام وقت طلب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مشکل معلوم ہوتے تھے۔
رفتہ
رفتہ وقت آگے بڑھتا گیا اور اب وہ ہاتھوں میں ایسا قلم تھامے بیٹھا تھا جس میں ایک
بار سیاہی بھر دینے سے ہفتوں کوئی مشکل نہ آتی۔ اب تو کالج کی کنٹین سے ایسی
پنسلیں بھی اُسے بکتی نظر آئیں جن میں سوکھی سیاہی پہلے سے بھری آتی ہے اور سکے
والی لمبی پنسلیں تو یہاں گاؤں کی نسبت زیادہ سستی مل رہی تھیں۔
"
گھر جاتے ہوئے بہنوں کے لیے
لیتا جاؤں گا" اُس کے ذہن میں آیا۔
کالج
کے پہلے ہفتے کے دوران جس شخض نے فواد کے
ذہن پر اپنی قابلیت اور لیا قت کے گہرے اثرات نقش کیے وہ سر یوسف صدیقی تھے۔
جن
کا نام کالج میں موجود ہر چھوٹے بڑے کے لبوں پر تھا۔
مگر
وہ شخض کون تھا جس کی قابلیت کے گن ہر کوئی گا رہا ہے ، یہ اُسے معلوم نہیں تھا۔
البتہ
اُن سے ملنے کا اشتیاق اُسے بڑھتا جا رہا تھا۔
کتابوں
کا شیدائی تو وہ شروع سے تھا۔ کالج لائبریری کا سن کر تو اُس کا دل خوشی سے کھل
اُٹھا۔
کالج
میں تیسرے دورانیے کے بعد نصف گھنٹے کی تفریح میں وہ کالج کی وسیع عمارت میں لائبریری
تلاش کرنے لگا۔
بالائی
منزل پر سیڑھیاں چڑھتے ہی بائیں طرف ایک بڑے دو پت والے دروازے کے اوپر اُسے
لائبریری کا نام لکھا نظر آیا۔
جس
میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف لائبرین کا کمرہ اور دائیں طرف لائبریری کے تین وسیع
ہال تھے جو عمارت کے تین چوتھائی حصے کے برابر تھے۔
لائبریری
کے پہلے ہال میں دو نوں اطراف میں بڑے شیلفوں پر کتابوں کے ڈھیڑ لگے پڑے تھے جب کہ
ان کے درمیان خالی جگہ پر میز اور کرسیوں پر بیٹھے لڑکے کتابوں کی ورق گردانی کر
رہے تھے۔
یہ
ہال خصوصی طور پر اُن لوگوں کے لیے تھے جو صرف یہاں وقت گزارنے کے سبب آتے تھے۔
یہاں ہر طرح کی تازہ انگریزی اور اردو کی اخبار میزوں کی زینت بنی نظر آ رہی تھی۔
دونوں
اطراف کے شیلفوں پر مختلف موضوعات سفید کاغذوں پر لکھ کر چسپاں کیے گئے تھے جن میں سائنس اور معلوماتِ عامہ کے
موضوعات اُسے کثرت سے دیکھنے کو مل رہے تھے۔
دوسرے
ہال میں بھی سائنس اور آرٹس کے موضوعات پر
ہی کتابوں کے ڈھیڑ تھے۔ یہاں ایک بات جو قابلِ ذکر تھی کہ کتابوں کے شیلف زیادہ
تھے جبکہ بیٹھنے کو کرسیاں اور میز پچھلے ہال کی نسبت کم تھے۔
تیسرا
اور آخری ہال صرف اور صرف ادب کے لیے مختص تھا اور یہی اُس کے خالی ہونے کی ایک
وجہ بھی۔ یہاں کتابوں کے تو بے پناہ ڈھیرہر جانب دیکھنے کو ملتے تھے مگر اس ہال کی
طرف لڑکوں کا رحجان کافی کم تھا۔
اُس
نے ہر شیلف کے موضوعات پر نظر دوڑائی اور ایک شیلف کے سامنے جا کھڑا ہوا جس کا
موضوع اقبال تھا۔
ایک
پل کے لیے تو وہ حیران ہو کر اس شیلف پر سجی کتابیں دیکھتا رہا۔
"
علامہ اقبال نے تو تقریباََ
سات کتابیں لکھی تھیں" اُس نے سوچا ۔
"
کیا ہوا نوجوان؟ ایسے حیران ہو
کر کیا دیکھ رہے ہو" اُسے پیچھے سے ایک آواز سنائی دی۔
فواد جو ابھی تک خود کو اس ہال میں اکیلا تصور کر
رہا تھا ، ایک دم سے چونک کر پیچھے مڑا جہاں ایک علیحدہ میز پر چند کتابیں اپنے
قریب رکھے، ناک پر نظر کا چشمہ سجائے وہ بیٹھے تھے۔
اُن
کے گاؤن میں موجود نیلی پٹیاں کالج اُساتذہ میں اُن کے کسی مرتبے کی طرف اشارہ دے
رہی تھیں۔
"
سر! میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ
علامہ قبال صاحب کتنے بلند پایہ درجے کے شاعر تھے جو اُن کی سات کتابوں پر بھی
لوگوں نے بے شمار کتابیں لکھ ڈالیں"
فواد کی بات کے اختتام پر اُس کے
سامنے بیٹھے وہ مسکرائے۔
"
یہی بات ہے بیٹا!" اُن کے
لبوں پر مسکراہٹ کھیلی اور وہ پھر سے علم کے سمندر میں غوطہ لگانے کی غرض سے گردن
کو خم دے کر کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگے۔
فواد نے پلٹ کر شیلف میں پڑی کتابوں کا جائزہ لینے
لگا اور کچھ دیر کے بعد ایک کتاب باہر نکالی جس کا عنوان " شرح بالِ
جبریل" لکھا دکھائی دے رہا تھا۔
فواد نے کھڑے کھڑے اپنی نگاہیں چند سطروں پر دوڑائیں
اور پھر پاس پڑی ہوئی کرسی پر ہی بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ لیکن پھر اچانک نظر گھڑی کی
سوئیوں پر دوڑائی اور کچھ سوچ کر وہ کتاب دوبارہ شیلف میں رکھنے لگا۔
"
اگر وقت کی قلت کے باعث اسے
واپس رکھ رہے ہو تو لائبریرین سے ایشو کروا کر گھر بھی لے جا سکتے ہو" اُنھوں
نے سر جھکائے کہا۔
"
جی سر! یہ بہتر رہے گا"
فواد کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی اور وہ
شکریہ سر کہتا ہوا لائبریرن کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
لیکن
وہاں جا کر اُسے صرف مایوسی ہوئی کیوں کہ کتاب صرف اُس کے نام پر ایشو ہو سکتی تھی
جس کے پاس کالج کی طرف سے کارڈ ہو اور اُس
کا تو ابھی پہلا ہفتہ تھا۔
فواد پلٹ کر واپس ہال میں رکھنے ہی والا تھا کہ آگے
سے وہی حضرت اُسے آتے دکھائی دیے۔
"
سر وہ لائبریرین تو کارڈ مانگ
رہے ہیں"
"
اچھا ایسا ہے تو چلو میرے
ساتھ" وہ چند کتابیں ہاتھوں میں لیے
لائبریرین کے کمرے میں داخل ہو گئے۔
"
فرید صاحب! یہ بچے کی کتاب
ایشو کر دیں۔ ۔۔ کارڈ بعد میں بھی بن جائے گا" اُنھوں نے کہا اور کتابیں میز
رکھ کر سامنے رکھے ہوئے صوفوں پر بیٹھ گئے۔
لائبریرین
نے مزید کچھ بولے بغیر کتاب فواد کے حوالے
کی اور اس کا نام راور رول نمبر ایک رجسٹر پر نوٹ کر لیا۔
"
بیٹا کل آپ دس روپے اپنے ہمراہ
لیتے آنا۔ آپ کا کارڈ بھی بنا دیں گے۔۔۔ یہ روپے کالج سے جاتے ہوئے آپ کو واپس کر
دیے جائیں گے"
فواد نے ہاں میں سر ہلایا اور اُن جناب کو شکریہ عرض
کرتے ہوئے لائبریری سے باہر نکل آیا۔
اسی
لمحے اگلے دورانیے کی گھنٹی بجنے کی آواز اُسے اپنے کانوں میں سنائی دی اور وہ تیز
قدموں کے ساتھ اپنے کمرہِ جماعت میں چلا گیا۔
سر
یوسف صدیقی سے یہ اُس کی پہلی ملاقات تھی۔ فواد
روز تفریح میں کالج کی لائبریری
میں جاتا اور اُسے روز سر یوسف صدیقی اُسی گوشے میں کتابوں کا مطالعہ کرتے نظر آتے۔
پہلے
دن ہی وہ فواد کو جانچنے میں کامیاب رہے۔
فواد کو بعد میں جا کر یہ انکشاف ہوا کہ
جس سے وہ روز لائبریری میں ملتا ہے وہ اور کوئی نہیں بلکہ خود سر اخترنیاز ہیں۔
کتابیں
پڑھنے کا شوق تو اُسے شروع سے تھا ہی لیکن محدود وسائل کی وجہ سے وہ یہ شوق پورا
کرنے سے قاصر تھا۔ مگر اب کالج لائبریری سے وہ ہر حد تک فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔
یہی
بات اُس نے سر یوسف صدیقی سے بھی کہی جب اُنھوں نے اس متعلق پوچھا کہ وہ بھی تو باقی لڑکوں کی طرح
تفریح کا وقت کینٹین اور لان میں خوش گپیاں کرنے میں گزار سکتا ہے پھر روز
لائبریری کے اُس گوشے میں آنا جہاں سوائے چند لوگوں کے کوئی نہیں آتا۔ ایسا کیوں۔
سر
یوسف سے تعارف کے بعد فواد ہمیشہ اُن کی
بتائی ہوئی کتابیں ہی پڑھتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ جو اس سے پہلے تک ادب سے
ناآشنا تھا، اب حقیقی معنوں میں ادب سے واقف کار ہونے لگا تھا۔
کئی
ایک بار اُسے سر یوسف کی لکھی ہوئی چیزیں بھی پڑھنے کا موقع ملتا رہا۔
سر
یوسف پچھلے تیس سے زائد برسوں سے کالج کے شعبہِ اردو سے وابستہ تھے۔ کالج کا اکثر
سٹاف اُن کا ہی شاگرد تھا۔
اردو
پڑھنے اور پڑھانے کے ساتھ ساتھ سر یوسف اس میدانِ سخن میں طبع آزمائی بھی کرتے تھے۔
اس
وقت وہ کالج کے شعبہِ اردو کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ میں سے تھے۔فواد کو اُن کی صحبت مل جانا ایک خوش قسمتی کی بات
تھی۔
اس
دوران کالج میں پہلے ششماہی امتحان ہوئے اور فواد
نے اُس میں بھی اول پوزیشن حاصل کی۔ فواد
کا رزلٹ دیکھ لینے اور باقی اُساتذہ سے فواد کے متعلق سن لینے کے بعد سر یوسف کا اُس پر اعتقاد مزید پختہ تر
ہوتا چلا گیا۔
بہت
جلد ہی سر یوسف اُس کے گھریلو حالات سے واقف ہوگئے۔
فواد روزصبح چھ بجے گھر سے نکلتا اور دن تین بجے
واپس پہنچ جاتا۔ جس کے بعد وہ زیادہ تر وقت امین بخش کے ہاتھ بٹانے میں یا کتابیں
پڑھنے میں گزار دیتاتھا۔
"
بیٹا! آپ اپنے گاؤں کے بچوں کو
ٹیوشن پڑھانا شروع کر دو۔ اس سے کچھ رقم بھی آپ کو مل جائے گی اور پڑھانے کا تجربہ
بھی" سر یوسف کی بات میں بے حد وزن تھا۔
فواد نے اگلے ہی روز اپنے محلے کے بچوں کو اکٹھا
کرنا شروع کرددیا۔ ماریہ اورشانزے تو روز اُس کے پاس پہلے سے پڑھتے تھیں۔ چاچا شیدے
کے بھی پوتے پوتیاں اب فواد کے پاس پڑھنے
آنے لگے۔
دیکھتے
ہی دیکھتے کچھ دنوں میں فواد کے پاس اتنے
بچےپڑھنے کے لیے آنے لگے کہ اُنھیں سنبھالنا خود اُس کے لیے مشکل ہو گیا۔
ایک
بار تو گاؤں میں یہ افواہ بھی پھیلی کہ امین بخش کے منڈے فواد محمود نے سکول کھول
لیا ہے مگر یہ افواہ صرف افواہ ہی رہی۔
بچوں
کی اتنی کثرت دیکھ کر فواد نے امین بخش سے
بات کی، امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ سے اور ماسٹر اللہ دتہ نے مومنہ سے۔
مومنہ پرائیوٹ طور پر گھر بیٹھ کر ایف۔ اے کر رہی
تھی۔اُسے کالج جانے کی ضرورت نہ تھی۔ گھر بیٹھ کر ہی تمام پڑھائی کرتی اور جس جگہ
مشکل در پیش آتی وہ فواد سے پوچھ لیا کرتی۔
فواد کے معاون کے لیے مومنہ نے بھی ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ شام کے وقت
امین بخش کا صحن کسی مدرسے کی مانند دکھائی دیتا تھا۔
فواد اور مومنہ
نے مضامین اور بچے آپس میں بانٹ رکھے تھے۔اسی طرح ہر مہینے کی آمدن بھی
دونوں آپس میں تقسیم کر لیتے۔
اس
سال مڈل کے امتحان آتے ہی فواد کے پاس
پڑھنے والے بچوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ فواد
نے بقیہ تمام جماعتیں مومنہ کے
حوالے کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ صرف مڈل کے امتحانات میں شریک ہونے والے بچوں
پر مختص کر دی۔
یہ
فواد کی محنت کا ہی صلہ تھا کہ اس سال
گاؤں کے بیس لڑکے لڑکیاں مڈل کے امتحان میں شریک ہوئے جن میں سے آٹھارہ پاس ہوئے۔
وگرنہ ہر سال امتحان میں شریک ہونے والے طلبہ میں سے ایک چوتھائی ہی پاس ہو سکتے۔
ٹیوشن
پڑھانے کا معاوضہ فواد کو ہر ماہ اتنا مل
جاتا تھا کہ جس سے اُس کا روز شہر آنا جانا ذرا بھی مشکل نہ رہا۔ حتیٰ کہ اُس نے
بہنوں کو پڑھانے کی ذمہ داری ابھی سے اپنے سر لے لی تھی۔
سر
یوسف صدیقی کا مشورہ اُس کے حق میں بہت بہتر ثابت ہوا تھا۔اُس کی سوچ میں وسعت
اوردماغی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے بروئے کار لانے میں واضع فرق آیا تھا۔اُن کی
صحبت میں رہتے ہوئے اُسے ادب سے خصوصی لگاؤ ہونے لگا۔
کالج
کے سالانہ امتحان سر پر تھے۔ دو سال کا عرصہ ایسے گزرے گیا جیسے باغِ دشت میں ہوا
کے سرد جھونکے ، جن کے آنے جانےسے کسی چرند پرند کو کوئی سروکار نہ تھا۔
"
فواد بیٹا! آپ آگے مستقبل میں کیا کرنا چاہتے
ہو؟" سر یوسف نے ایک دن لائبریری میں بیٹھے ہوئے پوچھ لیا۔
"
سر! گھر والے اور برادری والوں
کا کہنا ہے کہ مجھے فوج میں صوبیداری کہ لیے اپلائی کرنا چاہیے" فواد کے لہجے میں افسردگی کو سر یوسف بھانپ گئے تھے۔
"
اور آپ کیا چاہتے ہو"
"
سر! میں اپنی تمام عمر فوج میں
گزار کر اپنی زندگی کو برباد نہیں کرنا چاہتا "
"
مگر فوج تو ایک اچھا شعبہ ہے۔۔
فوج آپ کو بے شمار مراعات بھی دیتی ہے"
"
سر! آپ کی بات ٹھیک ہے مگر میں
اپنی ذات کو چند حدود میں نہیں رکھنا چاہتا ۔۔مجھے فوج سے کوئی گلہ شکوہ نہیں اور
نہ ہی اُن کی کسی بات سے اختلاف رکھتا ہوں ۔۔ میں اپنی زندگی اللہ کی بنائی ہوئی
اس خوبصورت کائنات کی سیر میں گزارنا چاہتا ہوں۔۔ میں اپنے گاؤں جیسے بقیہ تمام
چھوٹے گاؤں اور قصبہ جات کو ترقی دے کر شہر کے برابر لانے کا خواہش مند ہوں"
"
تو بیٹا پھر آپ مقابلے کے
امتحان کی تیاری کرو"
کچھ
لمحوں کے لیے فواد کی زبان گنگ ہو گئی۔
اُسے سمجھ نہ آیا کہ اس بات کا وہ کیا جواب دے کیوں کہ فواد نے اس متعلق پہلے کبھی سوچ نہ رکھا تھا۔
سر
یوسف نے مقابلے کے امتحان میں شرکت کے لیے
ضروری لوازمات کے متعلق فواد کو تفصیلاََ
آگاہ کیا۔ کسی حد تک فواد کا ذہن اس بات
کا قائل بھی ہو گیا تھا۔
"
لیکن سر! میرے گھر والے مجھے
اس سے آگے پڑھانے کے اہل نہیں ہیں" فواد
نے تمام بات غور سے سننے کے بعد جواب دیا۔
"
بیٹا!ٹیوشن آپ کو مہانہ معقول
رقم دے رہا ہے۔۔۔ اس لیے شاید آپ کے گھر والوں کو آپ کے آگے پڑھنے سے کوئی اعتراض
نہ ہو"
سر
یوسف کے مشورے آج تک ہمیشہ اُس کے لیے سود مند ثابت ہوتے آ رہے تھے۔ لحاظہ اس
مشورے پر غور نہ کرنا گویا ایسا تھا جیسے اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا۔
اگلے
ایک ہفتے تک فواد اس متعلق پڑھتا،، سنتا
اور سوچتا رہا۔ ایک ہفتے بعد اُس کا ذہن کسی فیصلے تک پہنچنے کے قابل ہو چکا تھا۔
کالج
میں فئیر ویل پارٹی منعقد ہونے سے قبل وہ اپنے امتحانات کی تمام تیاری مکمل کر چکا
تھا۔ سر یوسف کی ہدایا ت پر اور اپنی ذاتی خواہش کے مطابق اُس نے بے اے کے مضامین
مقابلے کے امتحان کے مطابق منتخب کر کے آگے پڑھائی شروع کر دی۔
بے
اےکے دو سال میں اُس نے بے انتہا محنت کی ۔
کچھ
سر یوسف کی صحبت کا اثر تھا اور کچھ اُن کی ہدایات کار گر ثابت ہوئی تھیں کہ اب
فواد نہ صرف اردو بلکہ انگریزی ادب سے بھی لگاؤ رکھنے لگا تھا۔
کالج
میں اُس کا چار سال کا دورانیہ اس تیزی سے گزرا جیسے تیز آندھی۔
اُسے
معلوم بھی نہ ہوا اور کس وقت بے اے کے سالانہ امتحانات بھی سر پر آن پہنچے۔
اور
پھر ایک دن وہ بھی آگیا جس کا اُسے کبھی بھی انتظار نہ رہا تھا۔
فئیر
ویل پارٹی کے دن اُس کا دل ایک عجیب طرز
کی بے چینی محسوس کر رہا تھا۔
اس
درس گاہ میں رہتے ہوئے اُسے اَن گنت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ گرمی ہوتی یا گرمی،
دھوپ ہوتی یا بارش، خوشی ہوتی یا غمی وہ روز صبح چھ بجے گھر سے نکل کر ڈیڑھ میل کا
نا ہموار راستہ پیدل طے کرتا۔
پھر
بس کا لمبی اور تھکا دینے والا سفر طے کر کے وہ کالج پہنچتا۔ تمام دورانیوں میں
کتابوں کی دھول چاٹ کر دن کو واپسی کی راہ لیتا اور پھر وہی تین گھنٹے کا لمبا سفر۔
شام
کو گھر پہنچتا تو چند دیر ننگی چارپائی پر سستا کر ٹیوشن پڑھنے آئے بچوں کو
پڑھاتا۔ امین بخش کی مدد کے لیے کوئی بار کھیتوں سے جانوروں کو ہانک کر لانا پڑتا۔
رات
ہوتے ہی وہ اپنی پڑھائی کرتا اور بستر پر تھکاوٹ سے چور جسم لے کر ایسے سوتا جیسے
مر گیا ہو۔
دو
سال کا مختصر عرصہ اُسے سینما میں چلتی ہوئی کسی فلم کی طرح اپنی نگاہوں کے سامنے
سے دوڑتی نظر آئی۔
مگر
اس تمام سرگرمی کے دوران زمانہ اُس پتھر کو ہتھوڑے کے ضربوں سے مسلسل تراش کر پارس
بناتا رہا۔
اس
موقع پر اُس نے خاص طور پر ایک شعر تخلیق کیا جو اُس کی پہلی کاوش تھی۔
پہلے
چبھیں گے نشتر پھر ٹکروں میں بکھر جائیں گے
ہم
تو ایسے پتھر ہیں جو پارس میں نکھر جائیں گے
فئیر
ویل کے رنگین سماں سے بے نیاز بیٹھا وہ یہی سوچ رہا تھا کہ سر یوسف سے ملاقات کے
وقت وہ اُنھیں یہ شعر سنائے گا۔ کتنی بار اُنھوں سے فواد کو کچھ لکھنے کی فرمائش کی مگر اُن کی یہ خواہش
وہ کبھی پوری کرنے سے قاصر رہا ۔
فئیر
ویل پارٹی کا بڑا خوبصورت انعقاد کیا گیا۔ پورے کرکٹ سٹیڈیم میں کرسیاں بڑے سلیقے
سے سجائے گئی تھیں۔ کالج انتظامیہ اور اُساتذہ اکرام کے علیحدہ نشستوں کا انتظام
تھا۔
سٹیج
کو رنگ برنگے غباروں اور پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ پرنسپل ، وائس پرنسپل اور مہمان
ِ خصوصی کے لیے سٹیج پر ہی بیٹھنے کا انتظام موجود تھا۔
ڈائس
کے ساتھ ساؤنڈ سسٹم کا بہترین نظام نصب کیا گیا تھا۔سٹیج کے ایک طرف موجود میزوں
پر چند انعامات اور ٹرافیاں سجائی گئی تھیں۔
مختلف
مراحل میں پرنسپل صاحب اور مہمان ِ خصوصی نے ڈائس پر آ کر تقریر کیں۔ مختلف
موضوعات پر بولا گیا۔
ایک
کلاس کی نمائندگی کرنے کے لیےفواد کو منتخب کیا گیا تھا مگر فواد نے اپنی بجائے افتخار کو اس منصب پر فائز کرنا
چاہا۔
پچھلے
دو سال میں افتخار نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح وہ امتحان میں فواد سے زیادہ نمبر لے سکے مگر یا تو اُس کی محنت
میں کمی تھی یا فواد کی قسمت خدا نے بہت
خوبصورت لکھی تھی۔
ہر
امتحان میں فواد پہلے اور افتخار دوسرے نمبر
پر آتا۔
ہر
امتحان سے قبل افتخار یہی کہتا کہ " دیکھنا اس بار تو فواد سے آگے نکل کر دکھاؤں گا۔۔۔ میرے سامنے وہ ہے
کیا" مگر اُس کا یہی گھمنڈ اُس کے حق میں ہمیشہ برا ثابت ہوتا۔
نتیجہ
دیکھ کر وہ اکثر آگ بگولا ہو جاتا اور فواد
کی پیٹھ پیچھے یہی کہتا کہ " دیکھتا ہوں یہ معمولی کسان کا بیٹا کہاں
تک جاتا ہے"
فواد اُس کی حالت سے بے خبر تو نہ تھا۔ وہ اُس کی ہر
بات سے واقف بھی رہا اور خاموش بھی۔ اسی لیے فئیر ویل پارٹی کے موقع پر اُس نے
نمائندگی کرنے کا اختیار افتخار کو دینا چاہا جو اُس نے بخوشی قبول کر لیا۔
سب
سے الگ تھلک بیٹھا وہ اپنے ماضی کی جھلکیوں کو منظر پر آ کر غائب آتا دیکھنے میں
مصروف تھا جب سٹیج پر انعامات تقسیم کرنے کا مرحلہ آن پہنچا۔
سال
بھر میں مختلف شعبہ جات میں بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبا کو ٹرافیوں اور
اسناد سے نوازا جانے لگا۔
"
بیسٹ ان اکیڈیمکس" ڈائس پر نام بولا گیا۔
"
فواد ہی ہوگا
لکھوالو مجھ سے " آس پاس چہ مگوئیوں کی آواز اُس کے کانوں میں صاف
سنائی دے رہی تھی۔
"
سیکشن الف سے فواد محمود"
ڈائس پر زور دار آواز میں نام گونجا۔
تالیوں
کے شور میں وہ نشست سے اُٹھا چلتا ہوا سٹیج تک گیا۔ مہمانِ خصوصی سے مصاحفہ کرنے
کے بعد اُسے ٹرافی دی گئی جس کے بعد پرنسپل صاحب نے سند نوازی اور ہلکی سی آواز
میں مسکراہٹ کے ساتھ " شاباش" کہا۔
سند
اور سنہری رنگ کی ٹافی تھامے وہ دوبارہ لوٹ کر اپنی نشست تک لوٹ آیا۔
اُس
کے بعد مختلف کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی کے جوہر دکھانے والے لڑکوں میں بھی
ٹرافیاں تقسیم ہوئیں۔
بیسٹ
ان سپورٹس میں افتخار کو ٹرافیوں اور میڈل سے نوازا گیا۔
سال
بھر میں منعقد ہوئے مختلف کھیل کے مقابلوں میں جیتی ہوئی ٹیموں میں مختلف طرز کی
خوبصورت رنگین ٹرافیاں بانٹی گئیں۔
ایک
آخری نمایاں ٹرافی جو سٹیج پر ابھی تک پڑے دھج سے سجی تھی وہ سال کے سب سے بہترین
طالب علم کے حصے میں آنے تھی۔
اس
کے ساتھ ایک میڈل اور کالج انتظامیہ کی طرف سے ایک ہزار روپے کی کثیر رقم کوبطورِ
انعام سے نوازا جانا تھا۔
اس
رتبے کے لیے کالج کے ہر لڑکے نے اپنا جی
جان لگا دیا تھا۔ سال بھر پڑھائی سمیت ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اعلیٰ
کارکردگی دکھانے والے لڑکے اس ایوارڈ کے حق دار تھے۔
"
اور اب یہ آپ کی نظروں کے
سامنے سٹیج پر چمچماتی یہ خوبصورت ٹرافی سال بھر میں سب سے بہترین کارکردگی دکھانے
والے لڑکے کے حق میں آئے گی۔۔۔ اور وہ خوش قسمت لڑکا ہے۔۔" ڈائس پر اعلان
ہوتے ہی سامعین میں ایک بار پھر چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔
فواد اور افتخار دونوں کے نام قابلِ توجہ تھے۔
"
اور وہ خوش قسمت لڑکا اور کوئی
نہیں بلکہ میرا اور آپ سب کاحبیب فواد محمود ہے " مقرر کی آواز سپیکر پر
گونجتے ہی ایک زور دار تالیوں کا شور پورے گراؤنڈ میں پھیل گیا۔
اسی
شور میں فواد متعدد لڑکوں کی مبارک بادیں
وصول کرتا پنی نشست سے اُٹھا اور خوشی اور غمی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ سٹیج تک
پہنچا۔
مہمانِ
خصوصی کی طرف سے خصوصی انعامات سے نوازا گیا۔ پرنسپل صاحب کی طرف سے مبارک باد
وصول کی گئی۔
تالیوں
کا شور جوں کا توں بر قرار تھا اور وہ اپنی نشست تک لوٹ کر آ چکا تھا۔
قومی
ترانے کے بعد تقریب کا اختتام ہوا۔ ظہرانے کا انتظام کالج کے لان میں خوبصورتی کے
ساتھ کیا گیا۔
یہاں
ہی اُس کی ملاقات سر یوسف سے ہوئی۔ سر یوسف فواد
کی کارکردگی سے بے حد متاثر تھے۔ "بیٹا ! آپ امتحان سے فارغ ہو کر
میرے پاس آئیے گا۔۔ آپ کے داخلے کا کچھ انتظام کریں گے"
"
جی سر! میں امتحان سے فارغ
ہوتے ہی آپ سے ملاقات کے لیے آ جاؤں گا"
ظہرانے
سے فارغ ہوتے ہی فواد نے تمام اُساتذہ سے
آخری ملاقات کی۔ٹرافیوں اور دیگر انعامات کو سنبھالنا اُس کے لیے مشکل ہوتا جا رہا
تھا۔
مگر
کچھ دیر کی تگ و دو کے بعد وہ اُنھیں سنبھالا مرکزی دروازے سے باہر نکل رہا تھا۔
یہ سفر بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔
زندگی
کے دو بہترین سال اُس نے اس درس گاہ میں گزارے تھے۔
پچھلے
چار سال کی محنت تھامے وہ کالج کے مرکزی دروازے سے نکلا۔
وہ
جانتا تھا کہ گھر میں موجود اُس کی بہنیں اُس کی راہ دیکھ رہی ہوں گی۔ اس واسطے وہ
بس اڈے جانے کی بجائے پہلے طارق حلوائی کی دکان پر جا پہنچا اور پوری ایک کلو برفی
خرید کر پھر بس اڈے کی طرف چل پڑا۔
واپسی
کے تمام راستے اُس کا دماغ کالج کی یادوں میں ہی کھویا رہا جبکہ بس میں سوار دوسرے
مسافر اُس کے ہاتھوں میں موجود دو دو ٹرافیوں اور میڈلز کو گھورے جا رہے تھے۔
بس
میں رش کی وجہ سے اُس کا جی گبھرا رہا تھا۔ اوپر سے پسینے کی وجہ سے حالت ویسے
مزید بگڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
بس
سے اُتر کا اُس نے سکھ کا سانس لیا مگر پھر اپنے سامنے ڈیڑھ میل کا طویل پیدل
راستہ دیکھ کر وہ اُداس سا ہو گیا۔
"
پتا نہیں یہ سڑک کب بنے
گی اور کب آباد ہوگی" اُس نے من ہی
من میں کہا۔
بھاری
ٹرافیوں کو ہاتھوں میں سنبھالتے سنبھالتے وہ ابھی گاؤں سے آدھ میل دور تھا کہ
جمیلے کا تانگہ آتا دیکھ کر اُس کا چہرہ کھل اُٹھا۔
دو
آنے جمیلے کو دے کر وہ گاؤں میں برگد کے درخت تلے اُترا اور خدا کا شکر ادا کرتے
ہوئے گھر کی جانب مڑا۔
برگد
کا پیڑ اب ویران رہنے لگا تھا۔ اُس کا جی بہلانے والے رفتہ رفتہ اس دنیا سے رخصت
ہوتے جا رہے تھے۔
"
کیوں بھئی فواد ! خیریت ہے نا!
آج اتنی ٹرافیاں تھام رکھی ہیں" ماسٹر اللہ دتہ نے فواد کو دیکھ کر بولا۔
"
بس ماسٹر جی! کالج میں ملی ہیں"
"
شاباش ! جیتا رہ پتر! ۔۔۔میں
شام کو آتا ہوں مبارک دینے" ماسٹر اللہ دتہ خوشی سے فواد کے بغل گیر ہوئے۔
"
ضرور ! " فواد نے کہا مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور آگے بڑھ گیا۔
امین
بخش کے گھر تو آج گویا عید کا سماں تھا۔ فواد
کو اتنی چمکتی دمکتی ٹرافیوں اور میڈلز سے لیس ہر کر گھر آتا دیکھ کر امین
بخش اور سلمیٰ کی تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔
ماریہ
اور شانزےبھی ماں باپ کو خوشی سے مسکرانےکے ساتھ روتا دیکھ کر بھائی کے گلے جا
لگیں۔
ایک
ایک کر کے فواد نے سب چیزیں گھر والوں کو
دکھائیں۔ ایک ہزار کی کثیر رقم فواد کو
بطورِ انعام میں ملی تھی۔
کچھ
دیر تک وہ گھر والوں کے گھیرے میں گھرا رہا۔ مگر ناجانے کیوں آج دل ضرورت سے زیادہ
اُداس دکھائی دے رہا تھا۔
"
اماں! میں ذرا باہر کا چکر لگا
لوں" فواد نے صحن میں کھڑے کھڑے کہا
اور دروازے کی جانب نکل گیا۔
وقت
کے ساتھ ساتھ غازی پورہ گاؤں کی آبادی تو بڑھنے لگی تھی مگر اب وہ رونق نہیں رہی
تھی جس کی بنا پر یہ گاؤں ممتاز سمجھا جاتا تھا۔
برگد
کا وہ پیڑ جس تلے گاؤں کے تمام بزرگ ریڈیو رکھے بیٹھے حقہ پیتے تھے، اب ویران ہو
گیا تھا۔ اب ہر دوسرے گھر میں ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی تھے۔ اب مل کر شام کا
پروگرام سننے کا رواج معدوم ہو گیا تھا۔
اس
کی ویرانی دور کرنے کے لیے جمیلے نے یہاں اپنا تانگہ کھڑا کر رکھا تھا اور جو کثر
رہ گئی تھی وہ بچوں نے درخت کی ٹہنیوں کے ساتھ جھولے لٹکا کر پوری کر رکھی تھی۔ جو
صرف شام کو بھرے رہتے وگرنہ تمام دن ہوا کی وجہ سے خالی ہلتے رہتے۔
فواد کی نظر جھولوں پر پڑی جہاں چند چھوٹے بچے
پینگیں ڈالے جھول رہے تھے۔ فواد کو گزرتا
دیکھ کر وہ بچے زور زور سے " ماسٹر جی! ماسٹر جی!" پکارنے لگے۔
فواد بھی مسکرا کر آگے چل دیا۔ پہلے تمام گاؤں کا
واحد ماسٹر صرف ماسٹر اللہ دتہ کو گردانہ جانتا تھا مگر اب فواد کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔
البتہ "اُستانی جی"صرف مومنہ کے
لیے مخصوص تھا۔
گاؤں
سے نکل کر اُس نے ایک نظر پیچھے مڑ کر دیکھا تو کچھ پل کے لیے حیران رہ گیا۔چھوٹا
سا غازی پورہ اُس کی آنکھوں کے سامنے اس قدر پھیل چکا تھا۔
چلتے
چلتے وہ اپنے پسندیدہ مقام پر پہنچ گیا۔ ہر بار کی طرح آج بھی وہ اُس چٹان پر پاؤں
پھیلا کر بیٹھ گیا۔
شام
کا یہ حسین منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ایک طرف لڑکے بلور کھیل رہے تھے تو
دوسری طرف لڑکیوں کی ایک ٹولی آنکھ مچلوی کھیلنے میں مصروف تھی۔
کچھ
لڑکے جوتوں کا ڈھیر لگائے باندر قلعہ کھیل رہے تھے تو دوسری کچھ لڑکے چھپن چھائی
کھیل رہے تھے۔
کچھ
ٹولیاں شام کے اس وقت کا فائدہ اٹھا کر ہوا میں پتنگیں بھی اڑا رہے تھے۔
کھیتوں
میں دن بتانے والے اکثر لوگ اسی راستے سے گزر کر اپنے جانور گھروں کو لے جا رہے
تھے۔
پہاڑوں
کے دامن میں سورج ڈوب رہا تھا ۔
لڑکیاںسر
پر دو یا تین پانی کے مٹکے اُٹھائے آپس میں گپیں ہانکتیں، کنویں سے پانی بھر کر لا
رہی تھیں۔
اُن
میں سے ایک مومنہ بھی تھی۔ فواد نے بھی مومنہ
کو آتا دیکھ لیا تھا۔
پہلےنظرین
ملیں پھر دل ملےاور مومنہ کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی
جسے دیکھ ایک پل کے لیے تو فواد کے لیے
وقت رک سا گیا۔
بچپن
میں مومنہ اُس کی واحد دوست تھی مگر عمر
کا تقاضہ اُسے فاصلے پر رہنے کے لیے کہتا
تھا۔ مومنہ کو لے کر کبھی اُس کے دل میں
کوئی خیال نہیں آیا مگر پتا نہیں کیوں آج اُس کے جانے کے کافی دیر بعد بھی وہ اُس
کے لبوں پر کھیلنے والی حسین مسکراہت کو نظروں کے سامنے آتا دیکھتا رہا۔
وہ
چاہ کر بھی اُس ایک پل کو بھلا نہیں پا رہا تھا۔سر پر پانی کا مٹکا تو اُس کے سر
پر بھی تھا مگر پھر کیوں وہ سب سے ممتاز نظر آ رہی تھی۔
اتنی
حسین تو وہ اس سے پہلے کبھی نہ لگی مگر نا جانے کیوں آج اُس کا دل چاہا کہ
مومنہ سے کوئی بات کرے۔ اُس کے ہونٹوں سے
اپنے نام پکارتے ہوئے سنے۔ اُ سکی میٹھی آواز اپنے کانوں میں گوش گزارے۔
عجیب
سی کشمکش کا عالم سا تھا۔دل قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ سورج کب کا ڈوب چکا تھا مگر
وہ پھر بھی ناجانے کیوں یہاں بیٹھا تھا۔
ایک
جھٹکے سے اُسے گھر جانے کا خیال آیا اور وہ اُٹھ کر تیز قدموں سے گھر کی جانب چل
پڑا۔
"
فواد پتر ! کدھر رہ گیا تھا۔۔ پتر ! مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ رہا کر" سلمیٰ
نے دروازے سے اندر آتے فواد کو ہدایت کی۔
"
جی امی!" فواد نے ہولے سے بولا اور صحن میں ہی ایک چارپائی پر
لیٹ گیا۔
دروازے
پر دستک کی آواز سن کر فواد چارپائی سے
اُٹھ ہی تھا کہ چاچا شیدے کا پوتا اندر داخل ہوا۔
اُس
کی سرخ آنکھیں کسی بری خبر کی اطلاع دے رہی تھیں۔
"
کیوں شبیر! خیریت ہے اس
وقت؟" سلمیٰ نے پوچھا۔
"
خالہ جی! اوو میرے باوا جی فوت
ہو گئے"
ایک
پل کو فواد کو لگا کہ آج سارا گاؤں یتیم
ہو گیا۔
Comments
Post a Comment