قسط نمبر: 11
رات کے کالے آسمان پر چمکتا زرد چاند ہر ذی روح کو ایک نہ دکھنے والی مگر بہت طاقتور قوت سے اپنی جانب کھینچتا ہے چاہے وہ رات کے پچھلے پہر بازاروں اور گلیوں میں آوارہ پھرنے والا ناکام عاشق ہو جو چمکتے دمکتے چاند کو دیکھ کر اپنے محبوب کی تصویر ذہن کے پردے پر بناتا ہو یا کسی پنجرے میں قید کوئی لاچار چکور ہو جو چاند کو آسمان پر حکمرانی کرتے دیکھ کر پھڑپھڑانا شروع کر دے۔
ایسے
میں اگر چاند پانی سے بھرے بادلوں کی اووٹ میں چھپ جائے تو اِن کے دلوں پر کیا
بیتے گی یہ صرف اُنھی کو معلوم ہے۔
بارش
کا پہلا قطرہ سر پر پڑتے ہی اُس کی آنکھ کھل گئی۔ رات بھر وہ جس ماہتاب کو تکتا
رہا تھا وہ دور کہیں بادلوں میں اپنا منہ چھپا چکا تھا۔
بارش
کا احساس ہو کر اُس نے جلدی سے امین بخش اور سلمیٰ کو جگایا جو کھلے آسمان تلے بے
فکر سو رہے تھے۔ تینوں نے پہلے مل ملا کر اپنے بستراندر کمرے میں پہنچائے۔
ماریہ
اور شانزے سٹینڈ والے پنکھے کے بلکل سامنے اپنی اپنی چارپائیوں پر سکون سے سو رہی
تھیں۔
سلمیٰ
کی پکار پر ماریہ اُٹھ کر نیند میں ہی چلتے ہوئے اندر جا کر لیٹ گئی۔ جبکہ شانزے
کو چارپائی سمیت اُٹھا کر امین بخش اور فواد
نے اندر کمرے میں دھر دیا۔
بارش
تیز ہونے سے قبل امین بخش نے جانوروں کو اندر باندھنا شروع کر دیا تھا۔ پنکھا اندر
کمرے میں رکھنے کے بعد فواد بھی امین بخش
کا ہاتھ بٹانے آ گیا۔
بارش
تیز ہونے تک صحن میں موجود تمام چیزیں سنبھال لی گئی تھیں سوائے تار پر سوکھنے
رکھے چھوڑے کپڑوں اور پانی کی خالی بالٹی کے۔
فجر
سے کچھ پہلے اُس کی آنکھ لگی مگر اذان کی آواز سنتے ہی وہ پھر سے جاگ اُٹھا۔ بارش
تھم چکی تھی۔ زمین کی گیلی مٹی سےاُٹھنے والی خوشبو اور صبح کی ٹھنڈی بادِ صبا
انسان کی روح کو متعیر کر رہی تھی۔
اب
فجر کی اذان دینے والے کوئی چاچا شیدا نہ رہا تھا۔ اب جسے موقع ملا، جس کی آنکھ
کھل گئی مسجد میں آ کر اذان دے دی۔
فواد کے نماز پڑھ کر واپس آنے تک سلمیٰ بھی نماز سے
فارغ ہو کر باورچی خانے میں پہنچ چکی تھی۔
امین
بخش نے اکیلے تمام مسجد کی صفائی ختم کرنے کے بعد گھر آکر سب سے پہلے جانوروں
کوچارہ ڈالا اور پھر ہاتھ منہ دھو کر خود بھی باورچی خانے چلا گیا۔
"
پتر! آج شہر جائے گا"
امین بخش نے پیڑھی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"
جی ابا!" فواد نے چائے کا گھونٹ حلق سے اُتارا۔
"
پتر ! فر آگے دا کی سوچا تو نے "
"
ابا! آج شہر میں سر یوسف کی
طرف چکر لگاتا ہوں۔ وہ خط میں کہہ تو رہے تھے کہ میری آگے کی پڑھائی مفت ہو گی اور
پڑھائی کے ساتھ ساتھ مستقل آمدن کا بندوبست بھی ہو گیا ہے۔۔ آج اُسی کی تفصیل
بتائیں گے"
"
اگر تو کہندا ہے تے میں چلاں
تیرے نال" امین بخش نے پوچھا۔
(اگر تو کہتا ہے تو میں تمہارے
ساتھ چلوں)
"
نہ ابا! میں ہو آؤں گا خود
ہی۔۔ تسی گھر کہ یہ کام ویکھو"
فواد نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور کپڑے بدلنے چلا
گیا۔
امین
بخش گھر میں مرکزی کمرے کے بائیں جانب والی خالی جگہ پر نیا کمرا بنوا رہا تھا۔
امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد فواد تمام
دن مستریوں کی نگرانی کرتا رہتا۔ بس چھت کا تھوڑا کام باقی تھا جو کچھ دنوں تک ختم
ہو جانا تھا۔
چاچا
شیدے کی وفات کی بعد اُ ن کی خالی نشست پر امین بخش کو بٹھا دیا گیا۔ اب کمیٹی کا
پانچواں رکن امین بخش تھا۔
فواد نے کپڑے بدل، جوتے پہن اور کلائی سے گھڑی باندھ
کر کمرے سے نکلا۔ ماں سے کچھ پیسے لے کر جیب میں ڈالے اورخدا حافظ کہتا ہوا نکل
پڑا۔
جبکہ
امین بخش جانوروں کو ہانکتا ہوا کھیتوں تک چھوڑ کر خود گھر میں لوٹ آیا۔ ماریہ اور
شانزے ناشتہ کرنے کے بعد مومنہ سے باتیں
کرنے چلی گئیں۔
اتوار
کے دن سکول سے چھٹی وہ خوب مناتی تھیں۔ آج بھائی کو گھر نہ پا کر وہ اسی غرض سے
مومنہ کے پاس گئیں۔
دو
بسیں بدلنے کے بعد وہ شہر پہنچ چکا تھا۔ اُس کا سٹوڈنٹ کارڈ ختم ہو جانے پر اب
بسوں کا کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا تھا جو مہنگائی کی وجہ سے دگنا ہو چکا تھا۔
سر
یوسف کے گھر کا پتہ پوچھتے پوچھاتے وہ مقامِ مطلوب تک پہنچ ہی گیا ۔سر یوسف کا گھر
بھی نہایت شاندار تھا۔
کالے
رنگ کی دو منزلہ کوٹھی کے چاروں طرف درخت اور پودے ہی نظر آ رہے تھے۔ زردی مائل
رنگت کے بڑے دروازے کے آگے کھڑی کار سر یوسف کی ہی تھی جس پر بیٹھ کر وہ روز کالج
آتے جاتے تھے۔
آگے
بڑھ کر اُس نے دروازے کی گھنٹی بجائی اور کچھ دیر بعد ہی اندر سے ایک خوبرو نوجوان
باہر آیا جو شکل وصورت سے سر یوسف جیسا لگ رہا تھا۔
"
جی کون اور کس سے ملنا ہے آپ
کو؟" دروازہ کھولنے والے نے پوچھا۔
"
مجھے سر یوسف سے ملنا ہے۔۔
انھوں نے بلوایا تھا"
"
آپ کا نام؟"
"
فواد محمود"
"
رکیے میں ابو سے پوچھ کر آتا
ہوں" وہ لڑکا یہ کہتا ہوا اندر کو چلا گیا جبکہ فواد اس سوچ میں باہر کھڑا رہ گیا کہ اُس کے گاؤں
میں دروازے کے باہر کھڑے رہنے کا تو کوئی رواج ہی نہیں جبکہ شہر میں لوگوں کے طرزِ
زندگی اُن سے کتنے مختلف ہیں۔
کچھ
دیر بعد دروزہ کھلنے کی آواز پر اُس نے مڑ کر دیکھا تو وہی لڑکا مسکراہٹ کے ساتھ
کھڑا نظر آیا۔
"
ابو آپ کو اندر بلا رہے
ہیں" اُس نے یہ کہہ کر فواد کے لیے اندر آنے کا راستہ چھوڑا۔
"فواد اُس لڑکے کی راہنمائی میں چلتا ہوا دروازے سے
ڈرائنگ روم تک آیا۔ مہمان کو بٹھانے کا کمرہ تو اُن کے گھر بھی موجود تھا مگر اس
طرز کا تو بلکل نہ تھا۔
نہایت
خوبصورت اور نفیس صوفے اور اُن پر رکھے کشن
۔۔ دیواروں پر مختلف تصاویر اور نقوش آویزاں۔۔۔ صوفے کے سامنے اور دائیں
طرف کے میز پر خوبصورت اشیاِء سجی ہوئیں۔۔ کمرے میں رکھے ہوئے گلدانوں میں پلاسٹک
کے پھول اور مور کے پنکھ نہایت سلیقے سے سجے ہوئے۔
"
کیسے ہو میاں!" سر یوسف
نے گلے ملتے ہوئے پوچھا۔
"
اللہ کا شکر ہے سر!۔۔۔ آپ
سنائیں"
"
ہم بھی خدا کے کرم سے ابھی تک
چلتے جا رہے ہیں" سر یوسف سامنے والے صوفے پر دراز ہوتے ہوئے بولے۔
اُن
کے بیٹھتے ہی فواد بھی بیٹھ گیا۔
"
آیان! آج میرے اس خاص مہمان کی
خاطر میں کوئی کمی مت چھوڑنا" سر یوسف اپنے بیٹے سے گویا ہوئے۔
"
سر! کسی تکلف میں نہ پڑیں"
مگر
فواد کے اصرار کے باوجود سامنے پڑے میز کو
کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیا گیا تھا۔
فواد نے داخلہ فارم پُر کر کے سر یوسف کو پہلے ہی دے
دیا تھا۔
دو
ہفتے پہلے اُس نے یونیورسٹی کی سکالرشپ کا ٹیسٹ دیا تھا جس کا نیتجہ سنانے کے لیے
سر یوسف نے اُسے اپنے گھر طلب کیاتھا۔
"
آیان! یہ بھائی کو مٹھائی تو
کھلاؤ۔۔ آج بڑا خوشی کا موقع ہے"
"
کیوں سر! خیریت؟"
فواد نے مٹھائی لیتے ہوئے پوچھا۔
"فواد بیٹا! آپ نے پوری یونیورسٹی کے سکالرشپ ٹیسٹ
میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔۔ بہت بہت مبارک ہو بیٹا!"
سر
یوسف کی بات سنتے وقت فوادکو پہلے پہل تو اپنی سماعتوں پر یقین نہ رہا مگر پھر سر
یوسف کے چہرے کر سنجیدگی کی جگہ مسکراہٹ کو دیکھ کر فواد بھی خوشی سے پاگل ہوئے بغیر نہ رہا۔
سر
یوسف اُس کی زندگی میں کسی راہنما کی طرح تھے جنھوں نے اس کی راہ میں خضر کا کام
کیا تھا۔ وگرنہ ایک غریب گھر کے لڑکے کا اتنے بڑے کالج میں اول پوزیشن لینا اور
پھرملک کی نامور یونیورسٹی میں بغیر پائی خرچ کیے پڑھنا کیسے ممکن تھا۔
سر
یوسف نے فواد کے لیے یونیورسٹی میں پڑھنے
کے ساتھ ساتھ مستقل آمدن کا بھی انتظام کر دیا تھا۔
ہزاروں
دعاؤں کے ساتھ فواد نے سر یوسف سے رخصت
چاہی۔ وہ دل سے اُن کا شکر گزار تھا جنھوں نے اُسےایک پتھر سے پارس بنا دیا تھا۔
دن
کا کھانا سر یوسف نے زبردستی اُسے کھلوا کر بھیجا۔ فواد اُن کے گھر سے نکلا اور اس بار بھی وہ سیدھا
طارق حلوائی کی دکان پر جا پہنچا مگر اس متربہ ایک کلو کی بجائے پورے دو کلو برفی
تلوائی۔
شام
ہونے سے پہلے وہ گھر پہنچ چکا تھا۔ تمام راستے آج اُس کا جی چاہ رہا تھا کہ اُس کے
پنکھ اچانک سے اُگ آئیں اور وہ اُڑتا ہوا گھر پہنچ کر یہ خبر اپنے والدین کو سنائے۔
"
اسلام و علیکم !" فواد
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
"
وعلیکم سلام ! آگیا میرا
پتر!" سلمیٰ نے کہا" یہ تیرے ہاتھ میں اتنی مٹھائی کیوں ہے" سلمیٰ
نے فواد کے ہاتھ میں شاپر کو گھوا۔
اسی
دوران امین بخش بھی کمرے سے نکل آیا۔
"
اماں ! ابا! میرا داخلہ شہر کی
سب سے بڑی اور ملک کی مشہور ترین یونیورسٹی میں سکالرشپ پر ہو گیا ہے۔۔۔ میں نے
یونیورسٹی کے سکالرشپ کے امتحان میں بھی اول پوزیشن حاصل کی" فواد نے خوشی سے بوکھلاتے ہوئے کہا۔
بے
شک امین بخش اور سلمیٰ کی زندگی میں یہ دن بہترین دنوں میں سے ایک تھا۔
ہفتے
بعد تک فواد کے جانے کی تمام تیاری مکمل
ہو چکی تھی۔ اٹیچی کیس میں تمام کپڑے تیار کر کے رکھ دیے گئے تھے۔ سوجی کے لڈو بنا
کر سٹیل کے بڑے ڈبے میں بھر دیے گئے تھے۔
گھر
کی یادوں کو علیحدہ پوٹلی میں باندھ کر کندھے پر بوجھ کی طرح لاد دیا گیا تھا۔
آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں مگر لمبے راستے کے بخیریت اختتام کے لیے دل دعا گو تھا۔
گھر
کے مرکزی دروازے پر آج پہلی مرتبہ کواڑ ڈالا گیا۔ آنے والے کے لیے دروازہ بند رکھا
گیا۔
چابی
ماسٹر اللہ دتہ کو دے کر تمام گھر والے جمیلے کے تانگے پر سوار ہو کر شہر پہنچ چکے
تھے۔
ماریہ
اور شانزے کے لیے گاؤں کی حدود سے باہر کی دنیا خصوصاََ شہر کی دنیا بڑی حسین تھی۔
جہاں بڑے بڑے بازار اور دکانیں اُن کی آنکھیں اور منہ کھلنے پر مجبور کر ہے تھے۔
جمیلے
کا تانگہ ریلوے سٹیشن کے باہر جا کر رکا۔ امین بخش نے اٹیچی کیس سیٹ کے نیچے سے
نکال کر ہاتھ میں تھام لیا ۔
فواد نے ٹکٹ گھر سے جا کر ایک اکانومی کلاس کا ٹکٹ
خرید کر واپس آیا۔
پلیٹ
فارم پر کھڑے ہو کر ماریہ اور شانزے بھائی کو دعائیں دے رہی تھیں جس کے سبب اُن کی
ریل گاڑی دیکھنے کی خواہش بھی آج پوری ہو جائے گی۔
ساڑھے
گیارہ بجےریل گاڑی پلیٹ فارم کے شور کو اپنی چنگھاڑتی ہوئی آواز سے چیڑتے ہوئے
داخل ہوئی۔
جدائی
کا وقت قریب آن پہنچا تھا۔ فواد آگے بڑھ
کر پہلے سلمیٰ سے گلے ملا۔ سلمیٰ کی آنکھیں بھر آئی تھیں مگر یہ وقت رونے کا نہیں
بلکہ دعائیں دینے کا تھا۔
ماں
کے بعد فواد بہنوں کو فرداََ فرداََ گلے
کر اُن کا ماتھا چومنے لگا۔ سب سے آخر میں امین بخش کے سامنے جا کھڑا ہوا جو ریل
گاڑی کی طرف نظریں گاڑھے اپنی آنکھوں میں چھلکتے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔
"
ابا! " فواد کی آواز پر امین بخش پلٹا اور اس زور سے گلا
ملا جیسے پھر کبھی ملاقات کی صورت نہ ہو۔
ریل
گاڑی چلنے کی سیٹی بجا چکی تھی۔ فواد نے
اٹیچی کیس امین بخش کے ہاتھوں سے لیا اور ایک اختتامی الوداعی نظر ڈالتا ہوا ریل
گاڑی پر چڑھ گیا۔
ریل
نے دوسری سیٹی بجائی اور رفتہ رفتہ انجن ڈبوں کو گھسیٹ کر پلیٹ فارم سے نکالنے
لگا۔ یوں محسوس ہو رہا تھ اجیسے انجن ، ڈبوں کی مرضی کے برخلاف اُنھیں پلیٹ فارم
سے گھسیٹ کر نکال رہا ہے۔
"
پتر! خیال رکھیں اپنا۔۔۔ اور
پہنچ کر خیریت کا خط لکھ دینا۔۔ " امین بخش
ریل گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہا تھا " پتر بھولنا مت۔۔۔ یاد
سے۔۔۔ خیال رکھنا اپنا'' گاڑی اب پلیٹ فارم کی حدود سے نکل چکی تھی۔
پلیٹ
فارم پر کھڑے لوگوں کی نگاہیں اپنے پیاروں کو رخصت ہوتا دیکھ رہی تھیں۔ ایک ۔۔
دو۔۔ تین۔۔۔ چار۔۔ رفتہ رفتہ تمام ڈبے پلیٹ فارم کی حدود سے نکل گئے۔
منزل
لمبی تھی مگر اپنوں سے رخصت ہونے کا درد اس سے کہیں گنا زیادہ تھا۔ سفر کی صعوبتوں
سے زیادہ کٹھن رفیقوں کی جدائی کا غم انسان کے قدم کسی لمبے سفر میں رکھنے سے روکے
رکھتے ہیں۔
ریل
گاڑی اب اپنی مناسب رفتار میں آ چکی تھی۔ شہر کی حدود کب کی پیچھے چھوٹ چکی تھی۔
آنسوؤ آنکھوں سے نکل کر رخسار سے بہہ نکلے تھے۔
ذرا
سا ہوش آیا تو آستین سے اپنے آنسوؤ صاف کرتے ہوئے وہ دروازے سے ہٹا اور اپنی نشست
تلاش کرنے لگا۔
تھوڑی
دیر تک وہ اپنی نشست پر بیٹھ چکا تھا۔ ریل کا یہ ڈبہ زیادہ تر خالی تھا مگر پھر
اگلے سٹیشن سے اس میں بھی لوگوں کی تعداد زیادہ ہو گئی۔
اُدھر
پلیٹ فارم پر بھی عجیب ماحول تھا۔ کوئی رخصت ہوئے احباب کی جدائی کے غم میں آنسوؤ
بہا رہا تھا تو کوئی اپنے مہمانوں کو ہاتھوں سے پکڑے گھروں کو لیے جا رہا تھا۔
امین
بخش نے سر سے پگڑی کا پلو پکڑ کر آنکھوں کے آنسوؤ صاف کیے اور شانزے کا ہاتھ پکڑتے
ہوئے باہر کو نکل آیا۔
جمیلے
کے تانگے پر آتے وقت تمام آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے جبکہ اب سب خاموش تھے۔
شام
ہوئے وہ گھر پہنچ چکے تھے۔ کل تک جس گھر میں اتنی رونق تھی آج وہ ویران تھا۔ پورے
گھر میں سکوت طاری تھا۔
گھر
میں سے کسی کا جی بھی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ نہ امین بخش کو جانوروں کی پرواہ
تھی ، نہ سلمیٰ کو گھر کے کاموں کی اور نہ ماریہ، شانزے کو پڑھائی سے کوئی سروکار
رہا تھا۔
یہ
پہلی بار تھا جب فواد اُن سے رخصت ہوا
تھا۔ یقیناََ فواد کا اپنا دل بھی اندر سے
جل رہا تھا مگرمشکلات سے جی گبھرا کر منہ پلٹنے سے انسان اپنی منزل تک پہنچنے کے
قابل تو ہرگز نہیں رہتا۔
Comments
Post a Comment