قسط نمبر: 12
روئے زمین پر صبح کی آمد کا سنتے ہی تمام جاندار اور چرند پرند حکمِ الہیٰ کے تابع ہو کر اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے نکل چکے تھے۔
ذرا
دیر پہلے ویران گلیاں، بازار اورسڑکیں اب انسانوں کی چہل پہل سے پُر رونق نظر آ
رہی تھیں۔
سیاہ
آسمان سے رات کی کالی گھٹائیں چھٹ جانے کے بعد اب اس کی رنگت بھی بدلتی جا رہی
تھی۔ اب اس ویران آسمان پر پرندوں کی حکمرانی نظر آ رہی تھی۔ جو مشرق کی جانب اپنا
رزق تلاش کرنے کے لیے نکل چکے تھے۔
بادِ
صبا نے چلتے ہی دماغوں کو فرحت اور جسموں کو تازگی بخشنا شروع کر دیا تھا۔ ہوا کے
ہلکے سرد جھونکے چہروں پر پڑتے ہی وجود کو راحت کا سامان مہیا کر رہے تھے۔
بازاروں
میں دکانیں اور دکانوں میں اشیاء بکنے واسطے سج چکی تھیں۔
سڑکوں
کو دھویا جانے لگا تھا۔ گلیوں کی صفائی کی جانے لگی تھی۔ معمولاتِ زندگی کا آغاز
ہونے جا رہا تھا۔
آنکھوں
کو فرحت بخشتے ہو ئے شہر کے وسط میں واقع وسیع سبزہ زار نگاہوں کے سامنے ہوتے ہوئے
بھی اپنوں سے میلوں دوری کے سبب اُس کا دل
ان سب سےبے زار تھا۔
شہر
کی زندگی بھی کتنی تیز اور مصروف تھی۔ ہر شخض زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے
نکلنے میں اس قدر مگن ہے کہ اپنے سے کم تر
لوگوں کی حالتِ زار تکنے کا ذرا بھی وقت نہیں اور نہ ہی یہ خیال کہ جس راہ
کی دھول وہ اپنے پیچھے پھینکتا جا رہا ہے وہ کسی پچھلے مسافر کی چہرے کو خاک آلودہ
کر ہی ہے۔
سر
یوسف کی ہدیات پر اُس نے ہاسٹل یونیورسٹی کے قریب ہی چنا تھا۔ جس کا فائدہ اُسے یہ
تھا کہ آج وہ دس منٹ کے پیدل سفر میں یونیورسٹی کے وسیع گیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔
اگرچہ
اُس کا کالج وسیع، خوبصورت اور اعلیٰ معیار کا تھا، مگر یہ یونیورسٹی پہلی مرتبہ
دیکھ کر اُس کا دماغ دنگ رہ گیا تھا۔
مرکزی
دروازے سے داخل ہوتے ہی بلند و بالا درختوں میں گھر ےبے شمار راستے ناجانے کس طرف
کو جاتے تھے۔ یہ پختہ سڑک نما راستہ ذرا آگے جا کر ایک چوک میں جا ختم ہوتا تھا
۔جہاں سے ایک راستہ دائیں جانب ، ایک بائیں جانب اور ایک سامنے جاتا تھا۔
ہر
راستے کے آغاز پر ایک نیلے رنگ کا چھوٹا سا تختہ اُس راستےکی منزل کا بتاتا تھا۔
زندگی
میں بھی انسان کو کچھ ایسے ہی راستوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر بیشتر اوقات انسان اُن
ضروری تختوں سے راستوں کی صحیح راہ نمائی نہیں لیتا جس کا نتیجا اُسے غلط منزل تک
رسائی کی صورت میں ہوتا ہے۔
راستے
کے ساتھ ساتھ چلتے ان درختوں کی اووٹ میں
یونیورسٹی کے خوبصورت اور شاداب لان تھے۔
جن
کی حد بندی پہلے رنگین پھولوں کی کیاریوں سے پھر پودوں سےاور آخر میں درختوں کی
ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی قطار تھی۔
چوک
میں آکر وہ ایک لمحے کو رکا اور سامنے جاتے راستے کی طرف ایک نظر دوڑاتے ہوئے ساتھ
لگے تختے پر نظر ڈالی جس پر ایڈمن بلاک لکھے ہونے کے ساتھ اس جانب ایک تیر کا نشان
موجود تھا۔
بائیں
طرف والے تختے پر کالج لائبریری لکھاتھا اور دائیں طرف والے تختےپراکیڈمک بلاک
کنندہ تھا۔
فواد
نے بائیں طرف ذرا آگے بڑھ کر دیکھا تو درختوں کی قطار کے عین درمیان سے گزرتا ہوا
یہ سیدھا لمبا راستہ ایک سفید عمارت کے پاس جا ختم ہوتا تھا جو یقیناََ لائبریری
تھی۔
گھڑی
سے وقت دیکھ کر وہ دائیں جانب چل دیا۔ اس راستے کے ساتھ مزید کئی راستے آکر ملتے
جا رہے تھے۔
وہ
یونیورسٹی میں مختلف جگہوں پر لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹولیاں دیکھ سکتا تھا۔ مختلف طرز کے اچھے
برے اور مہنگے سستے لباس پہنے مختلف چہروں
کے لوگ اُسے یونیورسٹی میں جا بجا پھرتے نظر آ رہے تھے۔
اکیڈمک
بلاک پہنچ کر اُسے اس پختہ سڑک کے دونوں جانب
ایک جیسی کئی ساری عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔ جن پر مختلف شعبہِ جات کے نام
کنندہ تھے۔ ان میں سے اپنے شعبہ سے تعلق رکھنے والی ایک عمارت کے سامنے وہ جا کر
رُک گیا۔
لان
کے اُس پار متعلقہ عمارت تھی جس تک پہنچنے کے لیے لان میں پختہ اینٹوں سے کئی بل
کھاتے راستے بنا گئے تھے جو وسط میں لگے بڑے فوارے کے قریب سے ہو کر گزر جاتے تھے۔
فوارے
سے نکلتے پانی کی بوندوں سے سورج کی روشنی جب گزرتی تھی تو کئی رنگوں میں بٹ کر یوں معلوم ہوتی جیسے فوارے
سے رنگین پانی کی بوندیں زمین پر گر رہی ہوں۔
ذرا
دیر رک کر وہ لان کے اردگرد کیاریوں میں موجود خوبصورت رنگین پھولوں ، فوارے سے
گرتی رنگین پانی کی بوندوں کو تکنے لگا۔
جب
دل یہ نظارہ دیکھ کر بھر گیا تو وہ عمارت کی جانب بڑھا۔
دروازے
سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں اور بائیں اطراف میں گیلری تھی جب کہ سامنے اوپر جاتی
ہوئی سیڑھیاں۔
اُس
کے دائیں جانب وال گیلری تھی جب کہ بائیں طرف نوٹس بورڈ کی ایک قطار لگی دکھائی دے
رہی تھی۔
نوٹس
بورڈ سے اُسے اپنی کلاسوں کی اوقات کار اور کمرہِ جماعت وغیرہ کی ہدایات وغیرہ مل
گئی تھیں۔
اُسے
پانچ منٹ لگے روم نائین سی تلاش کرتے کرتے ۔ اُس کی توقع کے عین برعکس، کمرہِ
جماعت ابھی تک خالی تھا۔
کمرے
کے دونوں سروں پر دو بڑے دروازے جن کے عین مخالف سمت کی دیوار پر دو قد آور
کھڑکیاں۔ سامنے کی دیوار پر قدرِ اونچا تختہ سیاہ
جس کے ساتھ بائیں طرف ایک میز ، کرسی اور ڈائس۔ یہ جگہ اُستاد کے لیے مخصوص
تھی اور عام سطح سے قدرِ اونچی بھی۔
بلیک
بورڈ کی مخالف سمت میں طلبا کے بیٹھنے کے لیے نشستیں تھیں ۔
دائیں
طرف کی دیوار پر ایک بڑی گھڑی آویزاں تھی جس پر اس وقت ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔
کمرہِ
جماعت کو خالی پا کر اُس نے پہلے بنچ پر اپنا بستہ رکھا اور باہر کو نکل گیا۔ اطراف کا جائزہ لیتے لیتے وہ وال گیلری تک آیا
اور ایک کے بعد ہر دوسری تصویر کو بڑے غور سے دیکھنے لگا۔
گھنٹی
بجنے کی آواز سن کر اُس نے کلائی پر بندھی گھڑی سے وقت دیکھا تو پورے نو بج چکے
تھے
۔ اُس نے تیز قدموں کے ساتھ کمرہِ جماعت کی راہ مگر ابھی وہ کچھ
فاصلے پر ہی تھا کہ لڑکیوں کی ایک جماعت اُس کے آگے لگ گئی اور اُس کے گزرنے کا
ذرا بھی رستہ نہ بچا تھا۔
مجبوراََ
وہ اُن کی پیچھے چلنے لگا۔ اُن کے درمیان ایک چنچل اور شوخ مزاج لڑکی نیلی جینز پر
لمبی قمیض پہنے، کھلے بال شانوں پر بے
تکلف سے گرائے، ہاتھ میں کتابوں کے نام پر محض ایک رجسٹر تھامے ، کندھے سے ایک بڑا
ہینڈ بیگ لٹکائے ہوئے۔۔۔ اُس کی توجہ اپنی
طرف مبذول کروانے پر مجبور ہو گئی۔
اُس
لڑکی کا انداز ہی بتانے کو کافی تھا کہ وہ کسی بڑے گھرانے کی شوخ مزاج لڑکی
ہے۔اپنی غلط فہمی تصور کرتے ہوئے اُس نے یہ خیال اپنے ذہن سے جھٹک دیا مگر پھر
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ لڑکی سیدھا اُسی جگہ جا بیٹھی جہاں اُس نے پہلے سے بستہ
رکھ چھوڑا تھا۔
" معذرت خواہ ہوں محترمہ! مگر میں یہاں پہلے سے بیٹھا
ہوں" اُس لڑکی کو بیٹھتے دیکھ کر وہ فوراََ بولا
" تو!"
" تو آپ یہاں سے اُٹھ جائیں"
" تم دیکھتے نہیں کہ میں یہاں بیٹھ چکی ہوں۔۔ تم خود کہیں اور
جا کر بیٹھ جاؤ"
" مگر میرا بیگ یہاں پہلے سے پڑا ہے"
" تو بیگ اُٹھاؤ اور کہیں اور بیٹھو۔۔۔۔ میرا دماغ مت کھاؤ"
لہجے میں کرواہٹ ، تلخی، گھمنڈ اور غرور کے ملے جلے تاثرتھے۔
کمرہ
بھر چکا تھا اور پہلے دن وہ کوئی بکھیرا کرنا نہیں چاہتا تھا اس لیے اُس نے چپکے
سے اپنا بستہ اُٹھا کر ایک تلخ نظر اُس گھمنڈی لڑکی پر ڈالتے ہوئے سب سے آخر میں
خالی بچی نشست پر چلا گیا۔
باقی
تمام بینچوں پر دو دو لوگ گروپ کی صورت میں برجمان تھے جب کہ وہ واحد تھا جو اکیلا
بیٹھا تھا۔
یونیورسٹی
کے پہلے دن کی کلاس پچیس افراد پر مشتمل تھی جس میں سے تیرہ لڑکے اور بارہ لڑکیاں
شامل تھیں۔
ہاتھ
میں چند کتابیں اور فائلیں تھامے،نظر کا چشمہ آنکھوں پر سجائے، نیلے پینٹ کوٹ میں ملبوس ، سیاہ گاؤن اپنے گرد لپیٹےایک
خوبرو نوجوان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب کی توجہ اُس جانب مبذول ہوئی۔
" السلام علیکم!"
" وعلیکم السلام سر!" تمام جماعت نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
"ایم اےکی پہلی کلاس میں آپ سب کو خوش آمدید۔۔ ۔ میرا نام ثقلین عارف ہے اور میں آپ کو انگریزی
پڑھاؤں گا" پروفیسر ثقلین نے تمام
کتابیں اور فائلیں ڈائس پر رکھیں ۔۔ " اس سے قبل کے ہم اپنی پہلا لیکچر شروع
کریں ۔۔۔ میں چاہوں گا کہ آپ سب باری باری ڈائس پر آ کر اپنا تعارف کروائیں تاکہ
مجھے آپ لوگوں کے متعلق تھوڑا بہت معلوم ہو سکے۔۔۔ اس طرف سے شروع کرتے ہیں۔۔ جی
مس " پروفیسر ثقلین نے سب سے آگے بیٹھی ہوئی اُسی نیلی جینز والی لڑکی کی طرف
اشارہ کیا۔
" میرا نام سدرہ یوسفزئی ہے۔۔۔ میں نے اے لیلوز تک کراچی میں
پڑھا ہے۔۔۔ میرے بابا کا نام کامران یوسفزئی ہے جو شہر کے ایک بڑے بزنس مین
ہیں" فواد کا اندازہ درست تھا۔ یقیناََ ہی یہ لڑکی کسی بڑے گھرانے کی گھمنڈی
اولاد تھی۔
رفتہ
رفتہ تمام جماعت نے اپنا تعارف ڈائس پر آ کر کروا دیا۔ کوئی شہر کے بڑے سرمایہ
دارکا بیٹا تھا تو کوئی آرمی آفیسر کی صاحب زادی۔ کوئی ملک کے نامور تعلیمی ادارے
سے پڑھ کر آیا تھا تو کسی نے اپنی نصف سے زائد زندگی بیرونی ممالک میں گزار دی
تھی۔
کسی غریب گھر سے تو آنے کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا یہاں۔ اپنی باری آنے تک وہ ہر کسی کا تعارف سن کر لبوں
پر ہلکی سی مسکراہٹ لے آتا جس کا مقصد اُسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
سب
سے آخر میں وہ اُٹھا۔۔۔ چلتے ہوئے ڈائس تک آیا۔۔۔ کمرے میں موجود ہر آنکھ اُسے
دیکھ رہی تھی۔۔۔ ہر کان اُس کی آواز سننے کی منتظر تھی۔ اُس کی شخضیت کسی اعلیٰ
نصب خاندان کی پہچان کا بتا رہی تھی۔
" میرا نام فواد محمود ہے اور میں کوٹ بہادر کے نواہی گاؤں
غازی پورہ کا رہنے والا ہوں"
" وٹ اے ڈل انٹرو" سدرہ سمیت باقی حاضرین کو بھی ایک پل
کو اپنی امیدوں پر پانی پھرتا دکھائی دیا
" اچھا تو آپ ہیں فواد!" پروفیسر ثقلین نے اپنی کرسی سے
اُٹھتے ہوئے کہا
" جی!"
"لیکن اتنا سادہ انٹرو کیوں۔۔۔ رکیں میں بتاتا ہوں"
پروفیسر ثقلین نے اپنا رخ حاضرین کی طرف موڑتے ہوئے کہا " یہ ہیں فواد محمود
۔۔۔ جنھوں نے میٹرک اور انٹر کے امتحانات
میں ضلع بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔۔۔ اس کے بعد انھوں نے بے اے کے امتحانات میں
تمام کالج میں بھی اول پوزیشن حاصل کی اور
اب یہ اس یونیورسٹی کے سکالرشپ کے ٹیسٹ میں بھی اول آ کر آپ سب کے ساتھ ایم کی کلاس میں پڑھ رہے ہیں"
انسان
کی حقیقی کامیابی تب ہے جب اُس کی فتوحات کی خبر اُس کے پہنچنے سے پہلے پہنچ جائے۔
پروفیسر ثقلین کے منہ سے فواد کی تعاریفیں سن کر تمام جماعت ہکا بکا رہ گئی۔ خود
فواد کو بھی حیرانگی تھی کہ پروفیسر ثقلین اُن کے بارے میں اتنا سب کچھ کیسے جانتے
ہیں۔
" میں نے آپ سب کو کلاس کے سامنے اپنا تعارف کروانے کو بولا
تو آپ اپنے حسب و نسب کو بیان کرنے لگے۔۔۔ آپ لوگ ایم اے تک پہنچ کر بھی یہ بھول
گئے کہ انسان کی اصل پہچان اُس کا حسب و نسب نہیں ہوتا" پروفیسر ثقلین بول
رہے تھے۔
فواد
کے اپنی نشست پر بیٹھتے ہی لیکچر کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔
پروفیسر
ثقلین مختلف طرز کی مثالوں سے اور اِدھر اُدھر کی باتوں کو گھوماتے ہوئے اپنے
شاگردوں کو بیرونی دنیا سے کھینچ کر اپنے موضوع
تک لانے میں مصروف تھے۔
" آپ سب مجھے ایک بات بتائیں ۔۔۔ آپ سب آج اس جگہ کیوں بیٹھے
ہیں۔۔ آپ یہاں کس مقصد کے لیے آئے ہیں"
" سر ! ہم آج یہاں پڑھنے آئے ہیں" اگلے بینچ سے ایک لڑکا
بولا
پروفیسر
ثقلین کے لبوں پر ایک ہلکی سی ایک مسکراہٹ کھیلی اور بلکل ایسی ہی اُنھوں نے فواد
کے چہرے پر بھی دیکھی جو اپنی نشست میں بیٹھے ہاتھ میں قلم گھماتے ہوئے مسلسل
مسکرائے جا رہا تھا" اچھا آپ میں سے آج کون کون یہاں صرف پڑھنے آیا ہے"
پروفیسر
ثقلین کی نگاہوں کے سامنے حاضرین میں سے سب کے ہاتھ کھڑے تھے ماسوائے ایک فرد کے۔
" کیوں مسٹر فواد! ۔۔ آپ یہاں پڑھنے نہیں آئے"
" نو سر!۔۔۔ میں پڑھنے نہیں بلکہ سیکھنے آیا ہوں"
روم
نائین سی میں بیٹھی جماعت کی نگاہیں پروفیسر ثقلین اور فواد کے چہرے پر تھی جہاں
ایک سی مسکراہٹ نمودار ہو رہی تھی۔
" سر! کیا پڑھنا اور سیکھنا ایک مطلب نہیں رکھتا؟" سدرہ
نے سوال کیا
" مائی ڈئیر سٹوڈنٹس! ۔۔۔ علم پڑھا نہیں جاتا بلکہ علم سیکھا
جاتا ہے" وہ کہ رہے تھے" مگر کیسے؟" پروفیسر ثقلین نے ایک
سامعین کی طرف ایک نگاہ دوڑائی جو بڑے
اشتیاق سے اُنھیں سننے کے منتظر تھے۔
" کسی بھی علم کا ماہر بننے کے لیے آپ کو چار مراحل سے گزرنا
پڑتا ہے جن کے بغیر حصولِ علم کی منزل طے کرنا ممکن نہیں۔۔۔ سب پہلا کام سننا پھر
اُسے سمجھنا، اُس کے بعد اُسے پرکھنا اور سب سے آخر میں اُس پر عمل کرنا لازم
ہے۔۔۔ ان چاروں کے بغیر علومِ دنیا کا حصول ممکن نہیں"
" سر ! آپ کی بات ٹھیک طرح سے سمجھ میں نہیں آئی" آگے
بیٹھے شہریار نے کہا۔
" اچھاسنیں میں مثال دے کر آپ کو سمجھاتا ہوں۔۔۔ فرض کیا میں
نے ایک بات آپ کے سامنے بولی۔۔۔ فرض کیا کوئی نصیحت تھی۔۔ اگر آپ نے میری وہ بات،
وہ نصیحت سنی نہیں تو آپ کیسے اُسے سمجھ پائیں گے۔۔۔ اور فرض کیا سن بھی لی اور
سمجھ بھی لی لیکن پرکھا نہیں تو اُس کا کچھ فائدہ آپ کو نہ ہو گا۔۔۔ لیکن اگر آپ
نے اُسے سنا، پھر سمجھا، پھر پرکھا اور آخر میں عمل کیا تو آپ کچھ نیا سیکھ
گئے"
" اچھا تو یہ میری بنائی تھیوری ہے۔۔۔ ضروری نہیں ٹھیک
ہو" پروفیسر ثقلین نے شہریار کو آنکھ مارتے ہوئے کہا
گھنٹی
بجنے کی آواز پر پروفیسر ثقلین نےپیچھے مڑ کر گھڑی کی جانب دیکھا " اب آپ لوگ
ریسیس کر سکتے ہیں"
" شکر ہے" سدرہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی نورین نے کہا۔
جب
جماعت سے تمام لوگ نکل گئے تو فواد نے بھی بستہ اُٹھا کر باہر کی راہ لی۔
" مسٹر فواد!" پروفیسر ثقلین کی آواز پر فواد پیچھے کو
مڑا" جی سر!" فواد بولا
" سر یوسف آپ کو سلام
دے رہے تھے" پروفیسر ثقلین نے دھیمی
آواز میں کہا اور کتابیوں سمیت باہر نکل گئے۔
ایک
نئے سفر کا آغاز اچھا تھا۔ منزل تک پہنچنے کے لیے راستوں کا چناؤ درست تھا۔ نئے
ہمسفر بہترین تھے۔
یونیورسٹی
کے پہلے دن بے شمار نئی چیزوں سے اپنا دامن بھر کر وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں لوٹ
آیا تھا۔
کل
شام ہی وہ یہاں آیا تھا۔۔ تین بستروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا کمرہ ۔۔۔ جو اُس کے لیے
کافی کشادہ تھا۔۔۔ بالائی منزل پر واقع تھا۔
کمرے
میں ایک بڑی کھڑکی باہر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ساتھ بازار کا خوبصورت منظر
بھی پیش کرتی تھی۔ جبکہ کانوں میں رس گھولتی اور دل کو بھاتی وہ شیریں اور دل کش
شور کی آواز بھی اسی کھڑکی کے ذریعے اُن کے کانوں تک آتی۔
٭٭٭
" ماریہ ! ماریہ! ماریہ پتر باہر تے آ" امین بخش نے صحن
میں رکھی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے آواز دی
" آئی ابا!" اندر کمرے سے ماریہ کی آواز آئی۔
" پتر چھیتی آ! تیرے بھائیے دا خط آیا ہے"
( بیٹا! جلدی آؤ تمہارے بھائی کا خط آیا ہے)
" فواد کا خط" سلمیٰ باورچی خانے سے بولی۔
" ابا! کیا بھیا کا خط آیا ہے" شانزے نے بھاگ کر امین
بخش کی طرف آتے ہوئے پوچھا۔
" یہ لے پتر! پڑھ کر
بتا کیا لکھا ہے میرے بیٹے نے" امین بخش نے خط ماریہ کے ہاتھوں میں
دیتے ہوئے کہا۔
" ابا! یہ خط آپ کو کہاں سے ملا" شانزے نے امین بخش کے
کندھے پر سر رکھ کر ماریہ کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو خط کا لفافہ کھول
رہی تھی۔
" یہ ڈاکیا دینے آیا تھا مجھے سائیکل پر"
" لو جی ابا ! امی!" ماریہ نے خط کھول کر ایک نظر امین
بخش، شانزے اور سلمیٰ پر ڈالی" بھیا لکھتے ہیں کہ
السلام
و علیکم!
امید
کرتا ہوں کہ میرے گھر کے تمام افراد بلکل خیریت سے ہوں گے۔ بڑوں کو آداب اور
چھوٹوں کو پیار دینے کے بعد میں عرض کرتا چلوں کہ خدا کے شکر سے میں کل شام یعنی
چار تاریخ بروز اتوار کو یہاں شہر پہنچ گیا تھا۔
سر
یوسف کی ہدایت پر میں نے اُن کا بتایا ہوا ہی ہاسٹل منتخب کیا۔ کمرہ نہایت صاف
ستھرا اور ہوا دار ہے۔ وسط میں بجلی سے چلنے والا پنکھا بھی لگا ہے۔ کمرے میں میرے
علاوہ بھی دو لڑکے ہیں۔ دونوں نہایت شریف ہیں اور خدا کے شکر سے کسی بری لت میں
مبتلا نہیں۔
آج
یونیورسٹی کا پہلا دن تھا۔ جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ یونیورسٹی
نہایت خوبصورت ہے۔ تمام اُساتذہ بہت قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ سٹاف نہایت
مہذب ہے۔ ہمارا کمرہ ِ جماعت اس قدر کھلا اور خوبصورت ہے کہ ایسے کمرے میں آج تک
پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔
ہم
جماعت بڑے بڑے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں اور نہایت اعلیٰ نصب ہیں۔ سب اعلیٰ
تعلیمی اداروں سے پڑھے ہیں اور اُن کے تعارف تو سبحان اللہ! مگر جب پروفیسر ثقلین
نے خود میرا تعارف کروایا تو سب کے سب منہ کھلے کے کھلےرہ گئے اور خود پروفیسر
ثقلین بھی سریوسف کے شاگرد ہیں۔
امی
کو بتانا تھا کہ اُن کے بنائے لڈو میرے کمرے کے لڑکوں کو بے حد پسند آئے اور
اُنھوں سے مزید کھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
ابا! مجھے شام کے وقت میں
ایک ٹیوشن اکیڈمی میں نوکری مل گئی ہے اور تنخواہ خدا کا شکر ہے کہ اتنی ہے کہ میں
آرام سکون سے اس میں رہ سکتا ہوں۔۔
خط
دیر سے لکھنے میں معذرت۔۔۔ ماریہ کی کتابیں اور شانزےکے کھلونے میں اگلی ڈاک
سےپارسل کر رہا ہوں۔
والسلام
آپ
کا فرزند
فواد
محمود"
Comments
Post a Comment