قسط نمبر: 14
ہم اپنے دل کے دوار پر کواڑ لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جب کوئی محبت کا سائل ہولے سے دستک دیتا ہے۔ فریادی کی صدا میں ایسا سحر ہوتا ہے کہ ہم اُس سحر میں گرفتار ہو کر اُسے اپنے دل کے مکان میں کچھ دیر کے لیے پناہ دینے میں مائل ہو جاتے ہیں۔ ہولے سے ہماری زندگی میں آیا وہ شخض ایک دن ہمارے لیے اس قدر اہم ترین فرد بن جاتا ہے کہ جس کے متعلق ہم نے کبھی سوچا نہ تھا۔
پھر
ایک دن مشرق کی سرد ہوائیں چلتی ہیں اور وہ شخض ہمارے مکان سے رخصت چاہتا ہے۔
ہمارے آنسوؤں، ہماری فریاد، ہماری عرضِ گزارش کا اُس سائل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
آتے جاتے موسم کی طرح وہ ہماری زندگی سے رخصت تو ہو جاتا ہے مگر اُس کی یادیں ہماری روح پر گہرے زخم کی طرح باقی رہ جاتی ہیں
اور یہ چوٹ پھر رفتہ رفتہ ہمارے لیے ناسور بن جاتی ہے۔
اگر
محبت کی ہوائیں ہمارے دروازے پر دستک نہ دیتیں تو کاش ہم بھی ایسے شخض کو اپنے دل کے
مکان میں جگہ دینے سے قاصر ہوتے۔
مگر
نہ ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہوائیں کب اور کیوں چلتی ہیں اور نہ ہی محبت کے
سوداگروں کے دل بدلا کرتے ہیں۔ بس زمانے کے ستم صرف اُن خریداروں پرہی ٹوٹ کر
برستے ہیں جو کبھی اس بازار میں آنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔
یونیورسٹی
کے سالانہ تقریری مقابلے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ایڈمن بلاک کے بلکل عقب میں واقع
یونیورسٹی کے وسیع سبزہ زار میں رنگ برنگی کرسیاں قرینے سے لگائی گئی تھیں۔
جگہ
جگہ نارنجی رنگ کے بینرز لٹکائے گئے تھے۔ آج کے اس دن کی تھیم نارنجی رنگ کی تھی
اور اسی سے مناسبت رکھتے ہوئے تمام لان کو سجایا گیا تھا۔
سٹیج
کو نہایت خوبصورت پھولوں سے مزین کیا گیا تھا۔ سٹیج پر صرف ایک ڈائس اور ایک میز
رکھا گیا تھا۔ میز پر سفیر چادر بچھا کر اُسے مختلف طرز کے انعامات سے مزین کیا
گیا تھا۔
نیلا
آسمان بادلوں سے بلکل خالی تھا۔ موسم میں سردی کی شدت تقریباََ نہ ہونے کے برابر
تھی۔ مطلع اتنا صاف تھا کہ چشمِ انسانی کوئی اُڑتا ہوا پرندہ بھی آسانی سے دیکھ
سکتا۔ فضا اور طبیعت خوش گوار تھی۔
ہر
چہرہ مسکراہٹ سے بھر پور، ہر آنکھ اپنے اندر کے جوش و ولولے کا عکس لیے ہوئے موجود تھی۔
یونیورسٹی
کے وسیع سبزہ زاروں میں سفید شلوار قمیض پر واسکٹ زیب تن کیے وہ داخل ہوا۔ کف اوپر کو چڑھائے، کلائی پر وہی مخصوص کالے رنگ
کی گھڑی باندھے، ہاتھوں میں ایک فائل تھامے ہوئے وہ شہریار کے ساتھ چلتا ہوا آیا۔
وہ
تمام لوگ جنھوں نے فواد سے تقریر لکھوائی تھی اُس کے گرد گھیرا بنا کر جمع ہو گئے۔
کسی کو فلاں لفظ کا مطلب نہ آتا تو کوئی فلاں سطر سمجھنے سے قاصر تھا۔
فواد
نے تقریر لکھتے ہوئے زبان بہت حد تک سادہ اور سلیس استعمال کی تھی مگر وہ یہ بات
بھول گیا تھا کہ ان تقاریر کے قائرین و
سمامعین وہ لوگ ہیں جنھوں نے اردو صرف درسی کتاب کے سوا کہیں نہیں پڑھی۔
سب
کے تقاریر میں رد و بدل کرنے کے بعد وہ فارغ ہوا تو اُس کی نظر سدرہ پر پڑی تو
گزشتہ دنوں کا منظر آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا ۔
آج
اتفاق سے سدرہ بھی سفید رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی جس پر ریشمی سفید دھاگوں
سے مختلف طرز کے پھول بنے تھے۔ گھنے سیاہ بال معمول کی طرح آج بھی کھلے تھے۔ مگر
آج سر کو ریشمی ڈوپٹے نے دھانپ رکھا تھا۔ چہرے پر آج میک اپ کی جگہ صرف گلابی رنگ
کی لپ سٹک کا استعمال تھا۔
کسی
لڑکی کو اتنے غور سے دیکھنا کبھی اُس کی عادت نہ تھی مگر ناجانے کیوں آج اُس کی
نظریں کسی کا طواف کرنے لگیں۔
سدرہ
کو دیکھ کر فواد کو گزشتہ واقعہ یاد آیا اورندامت کی سرد لہر نے اُس کے وجود کو آن
گھیرا۔
" ایکسکیوز می مس سدرہ!" نورین سے باتیں کرتی سدرہ کو
اُس نے اپنی طرف متوجہ کیا۔
(Excuse
me Miss Sidra)
سدرہ
نے پلٹ کر فواد کی جانب دیکھا مگر کچھ بول نہ سکی۔ یہ پہلی بار تھا جب فواد نے خود
اُسے پکارا تھا۔
سدرہ
کا سپاٹ چہرہ دیکھ کر فواد سمجھ گیا کہ جیسے وہ اُس کے بلانے کی وجہ سمجھ نہ پائی
ہو۔
" میں گزشتہ واقعہ کو لے کر بہت شرمندہ ہوں۔۔۔ اُس دن میں غصے
میں ناجانے کیا کیا بول گیا لیکن جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تب تک آپ جا چکی
تھی" فواد نے نظریں ملائے بغیر کہا " یہ ایک تقریر میں نے آپ کے لیے لکھ
رکھی تھی" یہ کہہ کر فواد نے فائل سے ایک ورق نکال کر سدرہ کی طرف بڑھایا۔
سدرہ
ابھی تک حیران و ششد کھڑی تھی۔ اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ فودا خود اُس سے
معافی مانگنے آئے گا۔ پچھلے ایک ہفتے میں وہ ناجانے کیا کیا بولتی گئی اُس کے خلاف
اور وہ تھا کہ ۔۔۔۔
" کوئی بات نہیں" سدرہ بس اتنا ہی بول سکی۔
" شکریہ!" فواد مسکرایا اور پلٹ گیا۔
فواد
کے چلے جانے کے کئی دیر بعد بھی وہ اُس کی مسکراہٹ میں کھوئی رہی ۔۔۔جبکہ فواد سدرہ
کی آنکھوںمیں ۔۔۔جو بے پناہ حسین تھیں۔
سدرہ
نے آج تک یہی سنا کہ لڑکیوں کی مسکراہٹ ہمیشہ قیامت ڈھانے والی ہوتی مگر آج اُسے
معلوم ہوا کہ یہ محض فسانے تھے۔ فواد کے لبوں پر کھیلنے والی دو لمحوں کی مسکراہٹ
اُسے تمام دنیا کے مردوں میں سے بڑھ کر حسین معلوم ہوئی۔
" سدرے! ۔۔۔ کدھر کھو گئی ہو تم" نورین نے سدرہ کو گم سم
پا کر جھٹکا۔
" کہیں نہیں"
" تم تو بڑا کہہ رہی تھی کہ فواد گھٹنوں پر بھی چل کر آیا تو
معاف نہیں کروں گی ۔۔ بلکہ تم تو سپیچ بھی لکھ کر لائی تھی اُس کے مقابلے میں۔۔۔
لیکن پھر یہ کیا تھا۔۔۔ تم نے اُسے معاف بھی کر دیا اور اُس کی لکھی سپیچ بھی لے
لی"
" اچھا چھوڑو نا یار!۔۔۔ رہنے بھی دو بیچارے کو" سدرہ نے
بات گول کرتے ہوئے فواد کی لکھی تقریر اپنے سرخ رنگ کے ہینڈ بیگ میں تہہ کر کے ڈال
دی۔
دوسری
جانب تقریری مقابلے کا آغاز ہونے کے قریب تھا۔ ڈائس پر کھڑے مقرر کی سپیکروں میں
گونجتی آواز تمام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔
سدرہ
اور نورین بھی جا کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ جج حضرات بھی اپنے مقام پر براجمان
ہو چکے تھے۔ مہمانِ خصوصی کی کرسی ابھی بھی خالی تھی۔
تک
لخت یونیورسٹی کے مین گیٹ پر سائرن کی آواز نے سب کو چونکا دیا جس پر معلوم ہوا کہ
آج کی اس تقریب کے مہمانِ خصوصی بھی تشریف لا چکے ہیں۔ جن یونیورسٹی کےچانسلر
نے پر تپاک استقبال کیا۔
مہمانِ
خصوصی کا اپنی نشست پر بیٹھتے ہی تقریب کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔
تقریری
مقابلے میں پہلے ایک لڑکے نے آ کر تقریر کرنی تھی اور پھر لڑکی نے۔ سدرہ نے کل شام
کو ہی لسٹ میں فواد کے بعد اپنا نام لکھوا دیا تھا۔
چھٹا
نمبر فواد کا تھا اور ساتواں سدرہ کا۔ فواد کر ڈائس پر آنا تھا کہ ہجوم میں شور بر
پا ہو گیا۔ جو اس بات کی نشانی تھا کہ فواد لازماََآج کوئی معرکہ سر انجام دینے
والا ہے۔
سدرہ
اور نورین یہ صورتحال دیکھ کر حیران تھی جبکہ ڈائس پر کھڑا فواد بلکل پر سکون تھا۔
اُس کے چہرے پر سوائے مسکراہٹ کے اور کچھ نہ تھا۔
سپیکر
پر روحوں کو چیڑ دینے والی آواز طاری ہوئی۔
" معزز مہمانِ گرامی، محترم اُساتذہ کرام، میرے ہم مکتب
ساتھیوں سمیت تمام سامعین اکرام کو السلام علیکم!"
ہجوم
نے وعلیکم السلام کہہ کر اس بات کا ثبوت پیش کیا کہ اُس کی آواز تمام کانوں میں پڑ
رہی ہے
" آپ کی سماعتوں کی نظر ہونے
والی آواز مجھ ناچیز کی ہے جسے آپ سب فواد محمود کے نام سے جانتے ہیں"
فواد
کی آواز میں اس قدر سحر تھا کہ سدرہ پھر نہ سمجھ سکی کہ فواد نے کیا کہا اور ہجوم
نے اُس کو کیا جواب دیا۔ وہ تو بس اُس کے اندازِ بیان، اُس کے اسلوب ، اُس کے منہ
سے نکلنے والے شیریں الفاظ میں ہی کھو سی گئی تھی۔
آواز
اُس کے کانوں میں پڑ تو رہی تھی مگر وہ اُس کے مفہوم و معنی کی طرف توجہ دینے سے
قاصر تھی۔ اُسے فواد کے ہونٹ تو ہلتے دکھائی
دے رہے تھے مگر اُن ہونٹوں سے نکلنے والے شیریں الفاظوں کی گونج اُسے اپنے
کانوں کی بجائے دل پر ہوتی محسوس ہو رہی تھی جو اُس کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث
بھی بنتی جا رہی تھی۔
ناجانے
کیوں اُسے لگا کہ فضا میں کچھ ملا دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وقت تھم چکا ہے اور
اُس کی آنکھوں کے پردہ پر صرف ایک شخض کی صورت دکھائی دے رہی تھی اور وہ فواد کی
تھی۔ اُس کے کان صرف ایک شخض کی آواز سننے کا قابل رہ چکے تھے اور وہ ایک شخض فواد
تھا۔ گویا کچھ دیر کے لیے اُس کی تمام کائنات سمت کر سٹیج پر کھڑے اُسے ایک شخض کے
وجود میں آچکی تھی جو سدرہ جیسی پتھر دل لڑکی کو موم کے پتلے میں پگھلا رہا تھا۔
اُسے
ہوش تب آیا جب نورین نے اُسے بتایا کہ تقریر کرنے کی اگلی باری اُس کی ہے۔
" نورین ! تم میرا نام جا کر کٹوا آؤ" سدرہ نے سٹیج پر
سے نظرین ہٹائے بغیر کہا
" کیا مطلب کٹوا آؤں۔۔۔ سٹیج سیکریٹری کو کیا جواب دوں
گی"
" میں نے تمہیں جتنا کہا
پلیز ابھی صرف اتنا کر دو"
نورین
کچھ سمجھے بغیر اُٹھی اور سٹیج سیکرٹری کے پاس جا کر اس بہانے نام کٹوا آئی کہ
سدرہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ سدرہ نے جس انداز میں اُس سے بات کہی تھی اُس سے لگتا
بھی ایسے تھا کہ اُس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے وگرنہ اس سے پہلے وہ صرف حکم سنانا
جانتی تھی اور اُس پر تکمیل چاہتی تھی۔ اُس کے منہ سے "پلیز" کا لفظ
نورین کے لیے حیران کن تھا۔
فواد
کی تقریر میں سدرہ اس قدر کھوئی رہی کہ اُسے معلوم ہی نہ ہوا کہ کب فواد نے سٹیج
سے رخصت لی۔ بے شک لفظوں کو ترتیب دینے کے فن سے فواد آشنا تھا۔
اب
وہ اپنی نشست پر واپس بیٹھ چکا تھا اور پاس بیٹھا شہریار اُس ے تھپکی دے رہا تھا۔
" خواتین و حضرات۔۔۔ ہماری اگلی امیدوار کسی بیماری کے سبب
آنے سے قاصر ہیں اس لیے اب ہم حمزہ شعیب کو ڈائس پر آنے کی دعوت دیتے ہیں"
مقرر نے مائیک میں کہا اور آس پاس چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ سدرہ نے فواد کے
مقابل کھڑے ہونے سے معذرت کر لی۔
سدرہ
کیا اگر یہاں کوئی بھی اور ہوتا تو وہ فواد کی ایسی شاندار تقریر کے مقابل آنےکی
ہمت نہ کرتا۔
" یار! تم نے جانے سے منع کیوں کیا" نو رین نے گم سم
بیٹھی سدرہ سے پوچھا جس کا حسین چہرہ مختلف رنگ برنگے پھولوں کی مانند کھل رہا
تھا۔
" میں فواد کے سامنے جا کر تقریر نہیں کر سکتی تھی"
" مگر کیوں؟۔۔۔ تم تو کہہ رہی تھی کہ تم نے بہت اچھے سے سپیچ
تیار کی ہے"
" میں نہیں جانتی اس کیوں کا جواب۔۔۔ بس میں اُس کے سامنے
کھڑے ہونے کی ہمت نہیں رکھتی"
نورین
نے سدرہ کے چہرے کی طرف دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ باغِ دشت میں کوئی نئی طرز کا
پھول کھل چکا ہے جس کی بو آس پاس کے پودوں کو ابھی سے اثر انداز کرنا شروع کر چکی
ہے۔
" شاید یہ میرا وہم ہے" نورین نے خیال ذہن سے جھٹک دیا۔
مگر
جب سٹیج پر انعامات تقسیم کرنے کی باری آئی اور فواد کو اول انعام کر مستحق پا کر
جب جج نے اُسےانعام سے نوازا تو اُس وقت تمام ہجوم تالیوں کی گونج سے لرز اُٹھا۔
اُس وقت نورین کی نظر سدرہ کے ہاتھوں پر گئی جو پورے جوش و خروش سے تالیاں بجا رہی
تھیں اور خود نورین بھی تو باقیوں کی طرح تالیاں بجانے میں مگن تھی مگر کیوں؟۔۔۔
اس کا جواب نہ سدرہ کے پاس تھا اور نہ نورین کے پاس۔
" فواد بیٹا! ہر لفظ، پر فقرے اور ہر جملے کو ادا کرنے کا ایک
اسلوب ہوتا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ آپ اُس اسلوب سے بہرہ ور ہیں" پروفیسر
ثقلین نے فواد سے تقریب کے بعد کہا۔
"جزاک اللہ سر!۔۔۔ مگر آپ یہ بھولیں مت کہ میں بھی آپ کی طرح
سر یوسف کا شاگرد ہوں" فواد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
تقریب
کے اختتام پر ہلکے پھلکے ظہرانے کا انتظام تھا مگر ایہ اتنا ہلکا تھا کہ پیٹ میں
گویا کچھ نہ جانے کے برابر تھا اس لیے زیادہ تر ٹولیوں نے کینٹین کا رخ کیا۔
" دوستو! ۔۔۔ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ ہمارے فواد بھائی شاعری
بھی کرتے ہیں" لڑکوں کے گروپ میں بیٹھے ہوئے شہریار نے سب کو اپنی طرف متوجہ
کیا۔
اُس
کی آواز سامنے بیٹھی سدرہ اور نورین کے کانوں تک بھی جا پہنچی تھی جو اس سے پہلے
اپنے پیچھے والی دیوار پر آویزاں غالبؔ کی تصویر میں جانے کیا نقص تلاش کر کے
مسلسل ہنسے جا رہی تھیں۔ ہنسنے سے سدرہ کا گلابی چہرہ مزید گلابی ہو رہا تھا۔
" ارے واہ !۔۔۔۔ ہمارے درمیان ایک شاعر بھی موجود ہیں اور
ہمیں علم بھی نہیں" فواد کے دائیں
طرف بیٹھے اکبر نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
" مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا "
" واہ! واہ!"
" یار فواد!۔۔۔ کوئی غزل تو سنا اپنی"
" آج اپنے کوئی دکھڑے سنا ہی دے" شہباز نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
" ویسے تو میں سنانے سے گریز کرتا مگر آج خاص دن ہے اس لیے
سنا دیتا ہوں۔۔۔ مگر میری ایک گزارش ہے کہ یہ یہ کسی شاعر کی لکھی غزل نہیں
بلکہ ادب کے ساحل پر قدم رکھتے ہوئے ایک
ادنیٰ سے مسافر کی لکھی تحریر ہے " فواد بولا۔
" ارشاد" شہریار نے کہا۔
" آؤ کہ ہم تمہیں
اپنا دیوان سنائیں" اُس نے شروعات کی۔
" واہ واہ!" شہریار نے داد رسائی کی۔
" آؤ کہ ہم تمہیں اپنا دیوان سنائیں
درد
و غم کے جمع شدہ ایوان سنائیں"
" ارے کمال یار! "
" نوازش ! نوازش" فواد نے ہاتھ سے آداب بجالانے کے انداز
میں کہا۔
" وہ کہہ رہے تھے آج کی
ملاقات آخری تھی
تم
آؤ کہ ہم تمہیں وہ درد بھری داستان سنائیں "
" قیامت یار قیامت!" نوید بولا۔
" مقرر! مقرر!"
حاضرین نے دوبارہ سننے کی فرمائش کی۔
" وہ کہہ رہے تھے آج کی ملاقات آخری ہے
تم
آؤ کہ ہم تمہیں وہ درد بھری داستان سنائیں"
فواد
کی نظر سامنے والے میز پر پڑی جہاں سدرہ ہاتھ اپنی ٹھوڑی تلے رکھے فواد کو سننے
میں مشغول تھی۔ اُس کی آنکھوں میں نفرت کی بجائے حسن تھا جس کی جھلک دل سے ہوتی
ہوئی آنکھوں تک عیاں تھی۔
" اُن آنکھوں سے بس ایک حقیقت عیاں ہوتی
تم
آؤ کہ ہم تمہیں خالص حسن کا آشیان سنائیں"
فواد
کی نظریں سدرہ سے دوچار ہوئیں تو فواد مسکرا دیا جس پر سدرہ نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ
کا اظہار کر دیا۔
چنگاری
لگنا کوئی بڑی بات نہیں مگر پھر اس چنگاری سے سلگتی آگ پر قابو پانا مشکل ہے۔
" مقطع عرض ہے" فواد بولا۔
" ارشاد!"
حاضرین نے یک زبان ہو کر کہا۔
"کیسے گزرے گی اہلِ شہر پر اُن کے بغیر فوادؔ
تم
آؤ کہ ہم تمہیں اُن سے ملنے کے ارمان سنائیں"
" واہ ! ۔۔۔ یار بہت خوب۔۔۔ کمال کر دیا" فواد ایک ایک
کر کے حاضرین سے داد طلب کرنے لگا جبکہ اُس کی نظریں سامنے ہی مرکوز تھیں۔
" فواد! ۔۔۔ یار ایک اور غزل بھی سنا ڈال آج"
" ہاں یار ایک اور ہو جائے"
رفتہ
رفتہ لڑکوں کے گروپ نے شہباز کی ہاں میں ہاں ملا نا شروع کر دیا۔
"اچھا سوچنے دو کچھ" فواد نے کچھ دیر کا وقفہ لیا۔
" اچھا چند اشعار ہیں " کچھ لمحوں بعد فواد بولا۔
" ارشاد!"
"ان آنکھوں کی مستی میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے"
فواد
کی نگاہیں ہر سمت سے گھوم کر پھر سامنے لوٹ آتی تھیں۔
" ان آنکھوں کی مستی میں ڈو
ب جانے کو جی چاہتا ہے
جامِ
عشق پی کر اُن پر مر جانے کو جی چاہتا ہے"
وہ
کچھ دیر کے لیے رکا ۔۔ اس دوران داد دینے والوں کا سلسلہ چل اُٹھا تھا۔
" ہمیں دیکھ کر وہ جو انجان سے بن جاتے ہیں
گلی
گلی خود کی تشہیر کروانے کو جی چاہتا ہے"
فواد
کا شعر سن کر سدرہ کے گال سرخ ہو چکے تھے، اُس کی آنکھوں میں حیا کی ایک معمولی
مگر نہایت پر اُثر لہر اُٹھتی دکھائی دے رہی تھی۔ اُس نے کندھوں پر اپنا لال رنگ
کا ہینڈ بیگ ڈالا اور اُٹھ کا باہر جانے لگی۔
دروازے
کے عین سامنے والے میز پر ہی فواد براجمان تھا اور دروازے کے بائیں طرف والے
بینچوں پر سدرہ ۔
" کاش کہ پلٹ کر وہ ہمیں دیکھ لیتے فوادؔ "
ابھی سدرہ اُٹھ کر دروازے تک پہنچی ہی تھی فواد کے اگلے شعر نے اُس کے قدم
دروازے کے عین وسط میں جما دیے۔
سدرہ
نے پلٹ کر دیکھا تو فواد اکی نظریں اُسی کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں ۔
" کاش کہ پلٹ کر وہ ہمیں دیکھ لیتے فوادؔ
خود
کو اُن کے روبرو لے آنے کو جی چاہتا ہے"
سدرہ
کو اپنی طرف متوجہ پا کر فواد مسکرایا جس کے جواب میں سدرہ بھی مسکرا دی مگر اُسے
معلوم نہ ہوا کہ یہ مسکراہٹ اُس کے چہرے پر کیوں کر نمودار ہوئی۔
حسین
چہروں پر کشمکش کے تاثرات بھی نہایت حسین معلوم ہوتے ہیں۔
فواد
چہرے پڑھنا خوب جانتا تھا اور سدرہ کا چہرہ وہ اسی لمحے پڑھ چکا تھا۔ فواد کی
نظریں اپنے اوپر پا کر وہ اس قدر کشمکش میں مبتلا ہوگئی کہ اگلے ایک لمحے کے لیے
وہاں رکنا اُس کے لیے ممکن نہ رہا۔
کینٹین
سے وہ سیدھا پارکنگ میں آئی جہاں اُس کی گاڑی پہلے سے انتظار میں کھڑی تھی۔ اگلے
ہی پل نورین سدرہ کو گاڑی میں بیٹھ کر جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔
یونیورسٹی
سے ڈیڑھ مہینہ کی چھٹی ہو رہی تھی۔ ایسے موقع پر سدرہ بغیر کسی کو خدا حافظ کیے جا
رہی تھی تو یہ کچھ عجیب تھا مگر کون جانے کے سدرہ کے دل پر کیا بیت رہی تھی۔ کون
جانے کے سدرہ کس عارضے میں مبتلا ہونے جا رہی تھی۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ آگ کی
بھٹی تو خود اُس میں جلنے والی تھی۔
Comments
Post a Comment