قسط نمبر: 15
انسان
کی زندگی ایک ڈھلتی چھاؤں کی مانند ہے۔ کبھی شدتِ دھوپ سے چہرہ زرد پڑ جاتا ہے تو
کبھی چھاؤں کی صورت میں انسان کو سکون مہیا کرتا ہے۔ کبھی مشکلات کے گہرے بھنور
میں پھنس کر انسان جینے کی آرزو چھوڑ بیٹھتا ہے تو کبھی راہبر کی آمد انسان کو نئے راستوں کو
متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ڈھلتی
شام کی اووٹ میں گاؤں کا نظامِ زندگی اب بھی پوری آب و تاب سے چل رہا تھا۔ ہر کوئی
اپنے کام میں مست۔ گھروں میں رات کے کھانے کے لیے تندور جل رہے تھے جن کا دھواں
صحن میں سے اُٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔
مرد
گھروں میں جانور ہانک کر لاتے جا رہے تھے۔ کمی حضرات جنگل سے لکڑی کاٹ کر گدھوں پر
لاد کر برگد کے پیڑ تلے جمع کرتے جا رہے تھے۔
آج چوہدری شفیق کا بیٹا
جنگل میں شکار کو نکلا تھا۔ رات میں اُس کا قیام ملک امیر حمزہ کے چوپال پر متوقع
تھا۔
چوپال
کو اسی واسطے تمام تر لوازمات سے پورا کر دیا گیا تھا۔وسط میں آلاؤ کا ایک بڑا
گھیرا بنا دیا گیا تھا جس پر آج رات شکار پکنا تھا۔
ماشقی
کوچوپال کے تمام مٹکے میٹھے پانی سے بھرنے
کا حکم دے دیا گیا تھا۔ سرخ پائےوالی چارپائیوں کو آلاؤ کے اردگرد بچھا دیا گیا
تھا۔
کمی
حضرات کو حکم تھا کہ دعوت کے دوران حقہ بجھنے نہ پائے۔ تازہ تازہ حقہ حاضرین کے
سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ بیڑی اور پان کا نتظام بھی موجود تھا۔
چوہدری
شفیق کے بیٹے بخت حیات کے لیے یہ دعوت خاص طور پر رکھی گئی تھی۔ گاؤں میں یہ بات
مشہور تھی کہ ملک امیر حمزہ اپنی بیٹی کا رشتہ بخت حیات سے کرنے کے لیے اُس کی
دعوت کر رہا ہے۔۔۔ ایسا کرنے سے وہ چوہدری خاندان کے قریب ہو جائے گا۔
البتہ
گاؤں والوں کو حیات بخت کی آمد سے کوئی سروکار نہ تھا اور نہ اُس کے شکار کرنے سے
کسی کو کچھ واسطہ تھا۔ تمام لوگ اپنے اپنے کاموں میں جوں کے توں لگے تھے۔ عورتیں
اور لڑکیاں معمول کے مطابق پانی بھرنے جا رہی تھیں۔
آسمانی
رنگ کے لباس میں ملبوس، گلابی گالوں ، گوری حسین رنگت اور سیاہ کالی آنکھوں والی مومنہ
بھی سر پر مٹی کا گھڑارکھے لڑکیوں کی ٹولی میں کنویں پر پانی بھر کر واپس آ رہی
تھی۔
جنگل
سے آنے کا راستہ اور کنویں کا راستہ بلکل ایک جگہ پر ہی مرکزی راستے سے ملتا تھا۔
پینٹ شرٹ میں ملبوس میں، کندھوں پر بندوق رکھے حیات بخت بھی یاروں کی ٹولی میں چلا
آ رہا تھا۔
گاؤں
میں مشہور تھا کہ بخت حیات ولایت سے پڑھ کر آیا اور اُس کی ٹھاٹھ باٹھ بھی
انگریزوں سے کم تو نہ تھی۔
بات
چیت کرنے کا انداز ایسا نرالا کہ بات کرنے والے لیاقت سے قائل ہوئے بغیر نہ رہ
سکے۔
سر
پر گھڑے لادے ہوئے لڑکیوں کی ٹولی میں سے ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ کاش بخت حیات
کی ایک نظر اُس پر پڑ جائے جسے بخت حیات
اچھے سے محسوس کر رہا تھا مگر ایک لڑکی ایسی بھی تھی جس نے اُس نوجوان کی طرف
دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔
اُس
کی معصومیت، خاموشی اور حسن پر بخت حیات ایک پل میں ہی فدا ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
حتی کہ لڑکیوں کی ٹولی کب تک کی دور جا رچکی تھی مگر وہ اب تک کھڑا اُسی ایک لڑکی
کو جاتا دیکھ رہا تھا جس نے اُس کے حواس ساختہ کر دیے تھے۔
" خیریت ہے نا چوہدری صاحب!" ملک امیر حمزہ کے بیٹے
شہروز نے پوچھا۔
" یہ لڑکی کون ہے شہروز؟" ہلکی سی سرگوشی میں وہ بولا۔
" کون چوہدری صاحب؟"
" یہ بائیں طرف نیلے
کپڑوں والی" بخت حیات نے اشارے سے بتایا۔
" اچھا یہ۔۔۔ یہ اپنے ماسٹر صاحب کی لڑکی ہے ۔۔ مومنہ"
" مومنہ" اُس نے دہرایا۔
رات
بھر ملک امیر حمزہ کی چوپال پر محفل چلتی رہی۔ ناچ گانا بجانے کے لیے مراثیوں اور
نٹنیوں کو بلایا گیا تھا۔ ٹپے، ماہیے، ڈوھے کبھی ڈھولک کی تھاپ پر تو کبھی گھڑا
بجا کر گائے جا رہے تھے۔بڑی محفل میں عریانی اور فحاشی کا بڑا مظاہرہ کیا گیا تھا۔
کھانے
میں طرح طرح کے لوازمات تھے جن کو دیکھ کر آنکھیں دنگ اور منہ کھلا رہ جاتا۔
مگر
بخت حیات کا دل اس سب سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ اُس کا ذہن اب بھی اُس کے قریب سے گزرتی
لڑکیوں کی اُس ٹولی کے متعلق سوچ رہا تھا جن کے جھرمٹ میں وہ۔۔۔ جس کا نام شہروز
نے مومنہ بتایا تھا۔۔۔ سر پر گھڑا رکھے نہایت سلیقے سے چلتی جا رہی تھی۔
مومنہ
کو دیکھ کر اُسے یہی لگتا تھا کہ یہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہے جو بھٹک کر اس
دنیا میں آن پہنچی ہے۔
" شہروز! وہ لڑکی روز وہاں جاتی ہے ؟" حیات بخت نے
سرگوشی کے انداز میں کہا۔
" ہاں چوہدری جی!۔۔ مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہو۔۔ کہیں پسند تو
نہیں آ گئی"
" پتا نہیں۔۔ مگر دل چاہ رہا ہے اُس سے پھر ملوں۔۔ پھر دیکھوں اور دیکھتا چلا
جاؤں"
" مگر اُس سادہ لوح لڑکی میں آپ کو ایسا کیا نظر آگیا چوہدری
صاحب!"
" اُس کی سادگی ہی تو بھا گئی ہمیں"
ولایت
میں وہ کئی سالوں تک لڑکیوں کے بیچ میں رہا۔ ان میں چنچل اور شوخ مزاج لڑکیوں سمیت
تنگ اور چھوٹے لباسوں والی لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ پچھلےچار پانچ سالوں میں کوئی
لڑکی اُس کے دل کے اتنا قریب نہ آ سکی جتنا اُس سادگی کے پیکر نے اسے اپنے سحر میں
جکڑا۔
حیات
بخت اور شہروز کو سرگوشی کرتا ملک امیر حمزہ نے دیکھ لیا تھا اور یہ بھی دیکھ لیا
تھا کہ بخت حیات کی بات سن کر شہروز کا چہرہ فق پڑ گیا۔
صبح
فجر کی اذان سے ذرا پہلے محفل ختم ہوئی۔ حاضرین اپنے اپنے گھروں میں جا کر بستروں
میں جا گھسے تھے۔
امین
بخش کا مسجد میں اذان دینے تک بخت حیات اور شہروز کا بسترا بھی علیحدہ کمرے میں
لگا دیا گیا۔
مسجد
میں جماعت کھڑے ہونے تک رات گئے محفل میں جشن منانے والے بستروں میں دبک کر سو چکے
تھے۔
بخت
حیات رات بھر جاگنے کی وجہ سے ظہر کے قریب جا کر نیند سے بیدار ہوا۔ اُسے اُٹھتا
دیکھ کر ملک امیر حمزہ کا بوڑھا ملازم بھاگا بھاگا آیا اور بخت حیات کے پاؤں کے
تلوے زمین پر لگنے سے پہلے اُس کے پاؤں میں چپل پہنا دیے۔
ادھر
بخت حیات غسل خانے میں نہا رہا تھا جبکہ باہر ماشقی پانی سے بھرے مٹکے کندوں پر
لاد کر مسلسل حوضری کو بھرتا جا رہا تھا۔
ظہرانے
پر بھی بخت حیات کی خوب خاطر مدارت کی گئی۔ جبکہ شام کو بکری کے دودھ کی چائے کے
ساتھ حلوائی سے تازہ تازہ جلیبی اور سموسےبخت حیات کی خصوصی فرمائش پر بنوائے گئے
تھے۔
دن
ڈھلنے سے قبل چوہدری شفیق کی طرف سے بیٹے کو لینے کے لے لیے جیپ بھی بھجوائی جا
چکی تھی۔ مگر بخت حیات کا ایک ضروری کام رہتا تھا۔
میزبان
کو انتظار کرتا چھوڑ کر وہ کنویں کے راستے میں جا کھڑا ہوا۔ اُس کی توقع کے برعکس
مومنہ ابھی پانی بھرنے کے لیے نہیں آئی تھی۔
کچھ
دیر انتظار کرنے کے بعد اُسے دور سے لڑکیوں کی ٹولی سروں پر مٹی کے گھڑے اُٹھائے، ہنستے مسکراتے
آتی دکھائی دی۔
آج
وہ سیاہ لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھی جس میں اُس کی گوری رنگت مزید روشن دکھائی دے
رہی تھی۔سیاہ ڈوپٹے میں اُس کا روشن چہرہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے رات کے گہرے
پردے میں ماہتاب اپنے گرد و نوواح کا جائزہ لے رہا ہو۔ چہرے سے آگے بالوں کی ایک
لٹ اُسے دوسروں سے ممتاز اور اُس کے طلمساتی حسن میں مزید اضافے کا موجب بن رہے
تھے۔
یوں
لگتا تھا کہ کائنات کے سارے رنگ اُس ایک ماہ جبین میں سموئے ہوئے ہیں۔ زمین پر
ایسے پاؤں رکھتی جیسے کوئی پری ہو اور زمین کی
یہ بے ادب ، بدتمیز اور تہذیب سے نآشنا مٹی اُس کے پاؤں میلے کر دے۔
گھڑا
زمین پانی رکھتے ہوئے اُسے زمین پتھر کی ذرا سی ٹھوکر لگ گئی۔ ایک پل کے لیے تو
بخت حیات کو اس پتھر پر غصہ آ گیا جس نے اس ماہ جبیں کے نازک پاؤں کو نقصان
پہنچانے کی جسارت کی۔
وہ
ایسی جگہ پر کھڑا تھا جہاں سےکوئی اور اُسے دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ پانی بھر کر وہ
پلٹی اور پھر اُسی ادا سے لڑکیوں کے ساتھ چلتی جانے لگی۔
وہ حسین تھی مگر اُس سے بڑھ کر خوبصورت لڑکیاں
ولایت میں رہتے ہوئے اُس کی زندگی میں پوہ
کے موسم کی طرح آ کر گزر چکی تھیں جن کا وجود اُس کی زندگی میں پوہ کی طرح سرد اور
بے معنی تھا۔ جبکہ مومنہ اُس کی زندگی میں ساون کی کالی گھٹا کی مانند اچانک آئی
تھی۔ جس کا آنا اُس کے دل پر بلکل وہی کیفیت طاری کر رہا تھا جو گرمی سے بے حال قوم کا ساون کی آمد پر ہوتا ہے۔
جب
وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی تو اُس نے بھی واپس پلٹنا ضروری سمجھا ۔ نظریں راستے پر
تھیں مگر خیال مومنہ کی طرف۔۔۔ دماغ میزبان کے سوال پر مناسب جواب دینے کا سوچ رہا
تھا ۔۔ مگر دل مومنہ کو جی بھر کے نہ دیکھنے کے غم میں آنسوؤ بہانے کا وقت تلاش کر
رہا تھا۔
" چوہدری جی! ۔۔۔ کدھر رہ گئے تھے۔۔۔ سب ٹھیک ہے نا؟"
ملک شہروز نے بخت حیات کو پریشان آتا دیکھ کر پوچھا۔
" کہیں نہیں" آس پاس دوسروں کے کانوں پر نظر ڈالنے کے
بعد بولا" بس یہی کنویں تک گیا تھا"
ملک
شہروز سمجھ گیا کہ اس وقت بخت حیات کا کنویں پر جانا کیا مطلب رکھتا ہے۔
اِدھر
بخت حیات کی جیپ کافراٹے بھر کر گاؤں سے نکلنا تھا اُدھر ملک شہروز اپنے والد کو
لے کر چوپال کے سرے والے کمرے میں لے گیا۔
" کیوں رے شہروز!۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا چوہدری شفیق کا بیٹا
تجھے"
" ابا ! غضب ہو گیا۔۔۔ بخت حیات کو اپنے گاؤں کی ایک لڑکی
پسند آ گئی ہے"
" کیا بکواس کر رہا ہے۔۔۔ تجھے پتا بھی ہے تو کیا بات کر رہا
ہے" ملک امیر حمزہ نے جلال میں آتے ہوئے کہا۔
" ہاں ابا!۔۔۔ کل رات یہی بات مجھے خود بخت حیات نے
بتائی"
" کیا بتایا اُس نے۔۔۔۔ او ر کون لڑکی پسند آئی اُسے"
ملک امیر حمزہ نے تفصیل چاہی۔
" کل شام شکار سے واپس آتے ہوئے بخت حیات کی نظر ماسٹر اللہ
دتہ کی بیٹی مومنہ پر پڑ گئی اور وہیں دل ہار بیٹھا۔۔۔ اور آج شام کو بھی وہ وہیں
گیا تھا۔۔۔ اُسے دیکھنے" شہروز نے تمام تفصیل بتائی۔
" مگر مومنہ تو نہایت
شریف لڑکی ہے"
" ابا!۔۔۔ مومنہ کی شرافت میں تو کسی کو بھی ہرگز شک نہیں مگر
بخت حیات کو شاید اُس کی شرافت ہی پسند آگئی ہے"
" یہ تو سچ میں بڑا غضب ہو گیا" ملک امیر حمزہ نے دونوں ہاتھوں میں سر لیتے ہوئے کہا۔
" اگر ہمارے گاؤں سے کسی لڑکی نے دلہن بن کر چوہدری شفیق کی
کوٹھی کی دہلیز پار کی تو وہ لڑکی سوائے ملک امیر حمزہ کی بیٹی کے اور کوئی نہیں
ہو سکتی۔۔۔۔ ماسٹر اللہ دتہ کی بیٹی بھی نہیں" ملک امیڑ حمزہ کی آنکھیں چوپال
کی انگیٹھی میں جلنے والے انگاروں سے بھی زیادہ سرخ تھیں ۔
" کیوں ابا!۔۔۔ کیا سوچا پھر؟" ملک شہروز نے پوچھا۔
" خادمو! اوئے خادمو!" ملک امیر حمزہ نے اپنے ملازم کو
آواز دی۔
" جی وڈے ملک جی!" ملازم نے تعظیماََ ہاتھ باندھے، سر
جھکایا اور احکام چاہے۔
" چھیتی جا کر ماسٹر اللہ دتہ نوں بلا کر ادھر لے آ"
(جلدی جا کر ماسٹر اللہ دتہ کو ادھر بلا کر لے آؤ)
" اچھا ملک جی!" ملازم نے حکم بجالاتے ہوئے کہا۔
نصف
گھنٹے میں ماسٹر اللہ دتہ چوپال میں پہنچ چکا تھا۔ اس دوران ملک امیر حمزہ لگا تار
اندر باہر کے چکرا لگاتا رہا تھا۔ کبھی ملازموں پر خفا، کبھی حقہ پینے سے دل اچاٹ،
کبھی ماسٹر اللہ دتہ کے دیر سے آنے پر نالاں۔
ماسٹر
اللہ دتہ کے آتے ہی ملک امیر حمزہ اُسے اپنے ساتھ لیے اندر والے کمرے میں لے گیا۔
یہ کمرہ بلاشبہ چوپال کا سب سے منفرد کمرہ تھا۔ جس کے تزئین و آرائش میں کوئی کمی
نہ چھوڑی گئی تھی اور صرف خاص مہمان ہی یہاں ٹھہرائے جاتے۔ اس کمرے کو دیکھنےکی
گاؤں کے ہر فرد کو خواہش رہی تھی۔
" خیریت ہے نا ملک جی!۔۔۔ اتنا اچانک بلانے کی کوئی
وجہ؟" ماسٹر اللہ دتہ نے موہڑے پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔
" ماسٹر جی! خیریت بلکل نہیں ہے"
" کیا ہوا ملک جی!۔۔۔ کوئی پریشانی ہے" ماسٹر اللہ دتہ
نے حیرت سے پوچھا۔
"پریشانی ہی ہے ماسٹر جی!۔۔۔ مگر مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں
کیسے اپنی بات بیان کروں" ملک امیر حمزہ نے مناسب الفاظ کی قلت پر افسوس کا
اظہار کیا۔
" ملک جی! جو بات بھی ہے وہ آپ کھل کر بیان کر دیں"
ماسٹر اللہ دتہ نے ملک امیر حمزہ کو چھوٹ دیتے ہوئے کہا۔
ملک
امیر حمزہ نے الگے پانچ منٹ کے اندر تمام سرگزشت ماسٹر اللہ دتہ کو گوش گزار دی۔
یہ خبر ماسٹر اللہ دتہ پر ایک پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی۔ انھیں اندازہ بھی نہیں ہوا تھا
کہ اُن کی معصوم بیٹی کب اتنی جوان ہو گئی کہ اُس کی شادی کی فکر بھی اُسے کرنا پڑ
گئی تھی۔
بوجھل
قدموں کے ساتھ ماسٹر اللہ دتہ گھر کو لوٹ گیا۔ مگر راستے میں ہی امین بخش نے اُسے
ایسے اداس جاتے دیکھ کر فوراََ برگد کے درخت تلے جا بٹھایا اور پریشانی بھانپتے
ہوئے تفصیل چاہی۔
ماسٹر
اللہ دتہ کی اس گاؤں میں آمد کے بعد امین
بخش ہی اُن کا واحد دوست رہا تھا۔ آج تک کوئی ایسی بات نہ تھی جو ماسٹر اللہ دتہ
نے امین بخش سے چھپائی ہو۔
ماسٹر
اللہ دتہ نے ملک امیر حمزہ کی بیان کی تمام داستان امین بخش سے کہہ ڈالی۔
شام
کی ٹھنڈی ہوا برگد کے پیڑ کی شاخوں میں سے گزر رہی تھی۔ یہ شور پتوں کے ساتھ آنکھ
مچولی کھیلتے ہوئے ایک عجیب ساز سُرکی کیفیت بنا رہی تھی۔
جب
ہوا سے کوئی پتاشاخ سے ٹوٹ کر نیچے کی جانب گرتا تو زمین اپنا دامن وسیع پھیلا کر
آنے والے پتے کو اپنی جھولی میں سمیٹنے کو فوراََ تیار ہو جاتی۔
یہی
پتا پھر زمین میں گھل مل کر اپنا وجود ایسے کھو دیتا جیسے سرے سے اس کا کوئی وجود
تھا ہی نہیں۔
Comments
Post a Comment