قسط نمبر: 16
لمبی تاریک شب میں سحر کا انتظار ہو یا کسی یاد میں آنکھوں کے حلقے نیند سے خالی۔ جیسے جیسے رات مزید گہری اور تاریک ہوتی جاتی ہے ایسے ہی اُس میں مایوسی کا تاثرات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اُداس
دلوں پر رات کا سناٹا کسی گہرے آسیب کی صورت میں حملہ آور ہوتا ہے۔
آج
سہ پہر کو ہی وہ یونیورسٹی سے اگلے ڈیڑھ مہینے کے لیے لوٹ آئی تھی۔ آتے ہی وہ
معمول کی طرح اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اُس
کا کمرہ پورے گھر میں سب سے شاندار تھا۔ اوپر والے حصے میں سیڑھیاں چڑھتے ہی دائیں
جانب دوسرا کمرہ سدرہ کا تھا۔
گھر
میں دو ٹی وی لاؤنج تھے۔ ایک نیچے والے حصے میں اور دوسرا سدرہ کے کمرے کے عین
مخالف ۔ یہ جگہ سدرہ اور اُس کی سہیلیوں کے لیے مخصوص تھی۔
سدرہ
کے کمرے کا بائیں جانب والا حصہ الماری کے لیے مختص تھا۔ سفید رنگ کے سنگ ِمرمل کے
فرش سے لے کر چھت تک جاتی یہ الماری سدرہ کے کپڑوں، جوتوں اور زیورات سمیت ایسے بے
شمار چیزوں سے بھر پڑی تھی۔
ان
کپڑوں کا دھو کر الماری میں لٹکانا گھر کی ملازمہ کی ذمہ داری تھی۔
سدرہ
کو تو یہ تک یاد نہ رہتا تھا کہ ایک جوڑا اُس نے دو سے زیادہ مرتبہ پہنا بھی ہے یا
نہیں۔ اکثر ایسی نوبت نہ آتی اور گھر کے ملازموں کے وارے نیارے ہو جات اور اُنھیں
ہر ماہ سدرہ کے وہ کپڑے پہننے کو مل جاتے جو شاید اُس نے دو مرتبہ استعمال کیے تھے
اور کچھ تو ایسے جو اُس نے پہننا بھی گوارہ نہ کیے تھے۔
سدرہ
کپڑے جوتوں کے معاملے میں بڑی محتاط رہا کرتی تھی۔ کپڑے کے رنگ سے لے کر اُس کے معیار اور ڈیزائن سمیت تمام
چیزوں کو وہ زیرِ غور لاتی اور اگر کوئی دوسرا اُس کے لیے کوئی شے خرید لاتا تو
اُس میں ہزاروں نقص نکلاتی۔
تبھی
تو وہ خود ہر ماہ گھنٹوں خریداری پر صرف کرنے کی عادی ہو چکی تھی۔
اگر
اُس کی نظر کسی جوڑے پر لٹکتے دھاگے پر پڑ جاتی یا وہ اُس کا ٹوٹا ہوا بٹن دیکھ
لیتی تو اُسے فوراََ ہی نکال باہر پھینکتی۔
اپنی
ماں ثوبیہ بیگم سے اُس کی اکثر اسی بات پرلڑائی ہوتی تھی۔
سدرہ
کا کمرہ بلاشبہ گھر کا سب سے خوبصورت ترین کمرا تھا۔
دروازے
کے دائیں طرف چند صوفے دھرے تھے۔ اُس سے آگے سدرہ کا بڑا پلنگ جس پر آسمانی رنگ کی
بیڈ شیٹ بچھی تھی۔ سائیڈ ٹیبل سے ذرا آگے
ایک سفید رنگ کا میز اور کرسی رکھی گئی تھی جس پر سدرہ کے یونیورسٹی کے نوٹس رکھے
تھے۔
پلنگ کی مخالف سمت کی دیوار کے ساتھ ایک پیلے رنگ
کا آرام دہ صوفہ دھرا تھا۔ پلنگ کی عقبی دیوار پر مصوری کے شاہکار آویزاں تھا۔
کمرے
میں جگہ جگہ دیواروں کو سدرہ کی تصاویر سے مزین کیا گیا تھا۔ جا بجا مصوری کے فن پارے سدرہ کے شوق کو بھی ظاہر کر تھے۔
دروازے
کے عین مخالف میں سمت سفید رنگ کے پردوں کے پیچھے ایک بڑے شیشے کے دروازے کے پار
سدرہ کی گھر میں سب سے من پسند جگہ یعنی
بالکونی تھی۔
صبح
کو یہا ں کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے پر گھر کے سبزہ زار پر چمکتے اوس کے قطرے موتیوں کی مانند معلوم
ہوتے۔ جب کہ رات کو کھلے آسمان پر تاروں کے حسین جھرمٹ اُس کی نگاہوں کو تازگی،
دماغ کو فرحت اور روح کو تسکین پہنچانے کا سامان کرتے۔
اکثر
شام کو یونیورسٹی سے لوٹ کر وہ کافی کا پیالا پکڑے اسی جگہ کھڑی ہو جاتی۔ یہاں سے
گھر کے عقبی حصے میں سبزہ زار کے ارد گرد کھلے مختلف طرز کے رنگ برنگ پھولوں کی
مہک اُس کی کافی کا مزہ دوبالا کر دیتی۔
کبھی
کبھار اگر مصوری کا شوق اپنی انتہا کو پہنچ جاتا تو وہ یہیں کرسی رکھ کر کھلے
آسمان تلے کینوس پر رنگوں سے کھیلا کرتی ۔
اگر
کسی دن سدرہ کا موڈ اچھا نہ ہوتا تو کمرے کو اندر سے مقفل کر کے وہ بالکونی میں
جھولنے والی کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر دیتی جبکہ کمرے میں رکھی ٹیپ پر بجنے
والے اونچے گانے گھر کے باشندوں کو یہ بتانے کے لیے کافی ہوتے کہ آج محترمہ کا موڈ
خراب ہے۔
گھر
کے عقبی حصے میں واقعہ لان شام کے وقت ہمیشہ خالی ہی پایا جاتا تھا۔ ایسے میں سدرہ
اُس کی رفیق تھی۔
آج
یونیورسٹی سے آتے ہی وہ معمول کی طرح اپنے
کمرے میں آگئی۔ لیکن آج کا دن کچھ الگ سا تھا۔
ویسے
گھر لوٹ کر آتے ہوئے اُسے کبھی یونیورسٹی کا خیال نہ آیاا مگر ناجانے کیوں آج اُسے
ندامت سے محسوس ہو رہی تھی۔ جبکہ سدرہ اس سے پہلے ندامت جیسے لفظ سے بلکل بھی آشنا
نہیں تھی۔
وہ
چاہتی تھی کہ بھول جائے کہ آج کا دن کبھی اُس کی زندگی میں آیا بھی تھا مگر فواد
کی ہر ایک ایک بات اُسے ایسا کرنے سے روکے رکھے ہوئے تھی۔
آج
معمول کی طرح اُس نے کافی نہ پی بلکہ فوراََ سے کپڑے بدل، بتیاں گل، پردے گرا کر
وہ سو گئی۔ وہ سمجھتی تھی کی بتیاں گل کر کے وہ سو جا ئے گی مگر آج دن میں جو شمع
اُس نے فواد کے آنکھوں میں دیکھ لی تھی وہ اُسے چین سے بستر میں لیٹے رہنے نہ دے
رہی تھی۔
بلا
آخر کچھ دیر کی تگ و دیر کے بعد سدرہ کی آنکھ لگ گئی مگر سوتے ہوئے بھی اُس کے
دماغ میں کینٹین کے وسط میں بیٹھا فواد دکھائی دیتا رہا۔
"
بیگم! آج میری نور ِ نظر کہیں
دکھائی نہیں دے رہی"رات کو کھانے پر کامران صاحب نے اپنی بیگم ثوبیہ سے سدرہ
کے متعلق پوچھا ۔
"
میں کچھ دیر پہلے گئی تھی اُس
کے کمرے میں۔۔۔ سو رہی تھی وہ" ثوبیہ نے بتایا۔
مگراسی
دوران ٹروازر شرٹ میں بالوں کو سر پر جوڑا بنائے سدرہ سیڑھیوں سے اترتی دکھائی دی۔
"
بچے! آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے
نا!" کامران صاحب نے فکر مندی سے پوچھا۔
"
جی پاپا! ٹھیک ہوں" سدرہ
نے معقول سا جواب دیا اور خاموشی سےبیٹھ کر کھانے لگی۔
"
بیٹا ! یونیورسٹی سے تو چھٹیاں
ہو گئی ہیں تو اب یہ چھٹیاں کہاں گزارنے کا ارادہ ہے" کامران صاحب نے سدرہ کو
چھیڑنے کے انداز میں کہا جبکہ وہ اُس کی عادات سے اچھی طرح واقف تھے۔
"
پاپا میں کل نورین سے ڈسکس کر
کے آپ کو بتا دوں گی"
کہیں
گھومنے پھرنا جانا ایک چھا خیال تھا۔ ایسا کرنے سے اُسے یونیورسٹی کے خیالوں سے
نکلنے میں آسانی ہو گی۔
مگر
یونیورسٹی۔۔۔ خیال۔۔۔ کینٹین۔۔۔ وہ۔۔۔ فواد۔۔۔ فواد تک پہنچ کر اچانک ہی اُسے
جھٹکا سا لگتا۔
اُسے
نہیں معلوم کہ کیسے اُس نے کھانا ختم کیا ۔ بس اتنا یاد رہا کہ بنا کچھ کہے سنے وہ
چپ چاپ اُٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
خاموشی
سے کمرے کا دروازہ اندر سے مقفل کر لینے کے بعد اُس نے کمرے میں موجود بجلی کے
تمام بلب بجھا دیے۔
سدرہ اندھیرے میں ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے اپنے پلنگ پر
پہنچی اور ایک دم سے گر کر بستر میں
منہ دے لیا۔
فواد
کا چہرہ ناجانے کیوں بار بار اُس کی آنکھوں کے سامنے آتا جاتا تھا۔ ناجانے کیوں اُس کی تقریر کرتی، غزلیں سناتی
آواز اُس کے کانوں میں مسلسل پڑ رہی تھی۔
اُسے
محسوس ہوا کہ سہرانے کی وہ جگہ جہاں اُس نے سر رکھا ہے وہ گیلی ہو چکی ہے۔ ایک
لمحے کے اندر اُس نے سر اُٹھا کر ہاتھ سے وہ جگہ ٹٹولی تو واقعی وہ جگہ تھوڑی گیلی
تھی۔ لیکن ساتھ ہی اُس پر ایک اور انکشاف ہوا کہ اُس کی آنکھوں سے مسلسل کچھ بہہ
رہا ہے۔ انگلیوں کے پوروں سے آنکھوں کو ہاتھ لگانے پر معلوم ہوا کہ وہ اب تک رو
رہی تھی۔
وہ
اتنی بھی کمزور نہ تھی کہ رو دے مگرکیوں وہ اتنی دیر سے مسلسل آنسو بہائے جا رہی
تھی۔ وہ کس لیے رو رہی تھی اس کی خبر سدرہ کو خود بھی معلوم نہ تھی۔
یک
لخت اُس کے کانوں میں فواد کی آواز گونجی
"
یہ تقریر میں نے آپ کے لیے لکھ
رکھی تھی"
ایک
جھٹکے سے وہ اُٹھ بیٹھی۔ اُسے فوراََ اپنے لال رنگ کے بیگ کا خیال آیاجس کے
اندرونی خانے میں اُس نے فواد کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی وہ تقریر لکھ کر رکھی تھی۔
سدرہ
نے فوراََ سے بیڈ کے ساتھ کا لیمپ روشن
کیا اور اُس کی روشنی میں صوفے سے وہ بیگ جا اُٹھایا۔
تیز
ہاتھوں سے سدرہ وہ کاغذ تلاش کرنے لگی۔ مگر بیگ اتنی بے شمار چیزوں سے بھرا پڑا
تھا کہ وہ کاغذ ملنا مشکل ہو رہا تھا۔
سدرہ
نے ایک دم سے وہ تمام بیگ صوفے پر انڈیل دیا جس میں ست ایک طرف اُسے وہ کاغذ پڑا
مل گیا۔
باقی
تمام چیزیں اُسی طرح چھوڑکر سدرہ وہ کاغذ لے کر لیمپ کی روشنی میں بیٹھ گئی۔
فواد
کا لمس اُسے اب بھی کاغذ پر محسوس ہو رہا تھا۔ وہ مہکتی خوشبو اب بھی اُس ایک ورق
سے آ رہی تھی۔
فواد
کے قلم سے لکھا ہوا وہ ایک ایک لفظ اُس
ورق سے نکل کر سدرہ کے دل پر نقش ہوتا جا رہا تھا۔
تمام
رات وہ بار بار فواد کی تحریر پڑھتی رہی۔ ینیند اور مسلسل رونے نے سدرہ کی آنکھوں
کو سرخ کر دیا تھا۔
نا
جانے کس وقت اُس نے وہ ورق سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔ ناجانے کس وقت لمبی رات کے
آخری پہر میں اُس کی آنکھ لگ گئی تھی۔
صبح
کو اُس کی آنکھ آلارم بجنے پر ہوئی۔ معلوم ہوا کہ گزشتہ رات وہ آلارم بند کرنا
بھول گئی تھی۔
وہ
دوبارہ سونے ہی لگی تھی کہ اُسے خیال آیا کہ شاید آج فواد کسی کام سے یونیورسٹی
آئے۔ شاید اُس سے ملاقات کا کوئی سبب بن جائے۔
شاید
وہ کہیں لائبریری میں بیٹھا اُسے دکھ جائے۔ شاید وہ اُس سے پوچھ سکے کہ کیا وجہ
تھی کہ تمام رات وہ اُس یاد آتا رہا۔
وہ
فوراََ بستر سے اُٹھ کر تیار ہونے چلی گئی۔ ایک پل کو شیشے میں اپنی شکل دیکھ کر
وہ چونک سی گئی۔ آنکھیں واضع سوجی نظر آ رہی تھیں۔
سدرہ
نے دھوپ کا چشمہ بیگ میں رکھا، فواد کی تقریر کو ڈائری میں رکھااور کمرے سے باہر
نکل گئی۔
"
سدرے! آپ کو تو آج سے چھٹیاں
نہیں ہو گئیں؟" کامران صاحب نے ناشتے
کے دوران اخبار پڑھتے ہوئے سدرہ کو نظر اُٹھا کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"
جی پاپا!۔۔۔ مگر آج کوئی کام
تھا نورین سے" اُس نے جھوٹ بولا۔
کامران
صاحب نے سدرہ کی آنکھوں میں نہ دیکھا وگرنہ وہ جان جاتے کہ سدرہ جھوٹ بول رہی ہے۔
ناشتے
کے بعد وہ فوراََ یونیورسٹی کے لیے نکل
کھڑی ہوئی۔
معمول
سے برعکس آج یونیورسٹی خالی خالی سی تھی۔ یونیورسٹی کے سبزہ زار اُس کے دل کی مانند ویران اور سنسان سے دکھ
رہے تھے۔
یونیورسٹی
کی عمارت سے ایک عجیب طرز کی مایوسی معلوم ہو رہی تھی۔ بلکل ویسے ہی جیسے
اُسے اپنے اندر سے محسوس ہو رہی تھی۔
و
ہ جانتی تھی کہ اس لمحے فواد لائبریری میں
ہو گا۔ اس لیے اُس نے پہلا قدم سیدھا لائبریری کی جانب ہی اُٹھایا۔
سدرہ
کو لائبریری سے نفرت تھی اور فواد لائبریری کا شیدائی تھا۔ہر بار لائبریری میں قدم
رکھتے ہی اُس کا وجود کانپنے لگتا تھا مگر آج وہ جلد از جلد سیڑھیاں چڑھ کر
لائبریری کا دروازہ عبور کرنا چاہتی تھی۔
کتابوں
کے بیچ میں اُسے وحشت ہوتی تھی مگر آج فواد کی تلاش میں وہ انھی کتابوں کے بیچ آن
کھڑی ہوئی تھی۔
اگر
سینکڑوں لائبریریوں کے بیچ کسی ایک لائبریری میں بھی اُسے فواد کے ملنے کی اُمید
ہوتی تو وہ آج اُن سینکڑوں لائبریریوں کو چھان مارتی۔
سدرہ
نہیں جانتی تھی کہ فواد اگر اُس کے سامنے آ بھی گیا تو وہ زبان سے کیا الفاظ ادا
کرے گی اور کیسے۔ کیوں کہ ہمیشہ فواد کے روبرو آنے پر اُس کی زبان گنگ ہو جایا
کرتی۔
لائبریری
کا دروازہ پار کر کے وہ اب لائبریری میں قدم رکھ چکی تھی۔ آج اُس نے شلوار قمیض
زیب تن کر رکھی تھی کیوں کہ نورین کے بقول فواد جیسے لڑکے جینز پہنے لڑکیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔
سدرہ
نے لائبریری کا چپہ چپہ چھان مارا۔ لیکن فواد تو کیا اُسے اپنی کلاس کا کوئی بھی
لڑکا دکھائی نہ دیا۔
مایوس
سی ہو کر وہ واپس پلٹ گئی۔ ابھی وہ لائبریری سے لوٹ کر یونیورسٹی کے وسط میں واقع
چوک تک پہنچی تھی کہ اُس شہریار نظر آیا
جو ہاتھ میں فائل پکڑے ایڈمن بلاک کی طرف جا رہا تھا۔
"
شہریار!" سدرہ نے آواز دی۔
"
جی مس سدرے! کوئی کام
تھا" شہریار نے سدرہ کو عجیب سی
نظروں سے دیکھا۔
"
فواد کا پتا ہے کچھ؟۔۔۔۔ کہاں
ہو گا وہ"
"
فواد تو صبح صبح ہی بس پر بیٹھ
کر گھر چلا گیا۔۔۔۔ شام تک پہنچ بھی جائے گا" سدرہ کو لگا جیسے کسی نے اُسے
میٹھے خواب دیکھتے ہوئے بیدار کر دیا ہے۔
کتنی
اُمید لے کر تو وہ یہاں آئی تھی۔ صبح سے یہاں اُس لڑکے کے پیچھے خوار ہو رہی تھی
جو اُس کی حالت کے متعلق اچھے سے جانتا بھی نہیں۔ یہ اُسےخواب سے جگانا نہیں تھا
تو اور کیا تھا۔
"
کوئی کام تھا اُس سے ؟"
شہریار نے سدرہ کو گم سم کھڑا دیکھ کر پوچھا۔
"
ہاں!۔۔۔ کچھ نوٹس لینے
تھے" سدرہ نے بات گول کر دی " ویسے شکریہ تمہارا" سدرہ نے کہا اور
ساتھ ہی آگےچل دی۔
"
جھوٹ۔۔۔۔۔ سمسٹر ختم ہونے پر
کون سے نوٹس " شہریار نے دل میں کہا۔
جھوٹ
بولنے سے زیادہ مشکل کام سچ کو چھپانا ہے۔
انسان
دوسروں کے سامنے جھوٹ بول کر اِسے اپنی جیت اور دوسروں کی کم عقلی تسلیم کرنے لگتا
ہے ۔ مگر اس دوران وہ یہ بات بھول کر رہ جاتا ہے کہ جھوٹ زبان سے نہیں بلکہ آنکھوں
سے عیاں ہوتا ہے ۔
آنکھوں
کو پڑھنا چہرے کو پڑھنے سے زیادہ آسان ہے ۔ چونکہ آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں۔
لحاظہ دل کی باتیں پڑھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔
بوجھل
قدموں کے ساتھ وہ یونیورسٹی کے دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی جب عقب سے کسی نے جانی
پہچانی آواز سنائی دی۔
"
یار سدرے! ۔۔ میں کب سے تمہیں
آوازیں لگا رہی ہوں۔۔ سن تو لو" نورین نے سدرہ کو کندھے سے پکڑ کر اپنی جانب
پھیرا۔
"
نورین تم!۔۔۔ تم کیوں آئی آج
یونیورسٹی" سدرہ نے اچانک نورین کو دیکھ کر ردِ عمل کا اظہار کیا۔
"
اگر یہی بات میں تم سے پوچھوں
تو!" نورین نے جواباََ سوال کیا۔
"
میں کسی کام سے آئی تھی"
"
اور میں بھی۔۔۔ اچھا چھوڑا اس
بات کو چلو کینٹین میں چل کر کوک پیتے ہیں" نورین نے سدرہ کا ہاتھ پکڑ کر
کینٹین کی جانب چلنے کا ارادہ کیا۔
کینٹین
میں داخل ہوتے ہی سدرہ کی آنکھوں کے سامنے کل والا منظر آ گیا۔ نورین کے ساتھ جا
کر وہ کل والی جگہ پر ہی اس انداز میں بیٹھ گئی جیسے کل بیٹھ کر فواد کو تک رہی
تھی۔
"
پتا ہے ہم کل بھی اسی جگہ
بیٹھے تھے" نورین نے کوک کا گھونٹ گلے سے اُتارا
"
جانتی ہوں " سدرہ نے
سامنے کی جانب دیکھا جیسے اب بھی اُس کی آنکھیں فواد کو دیکھ رہی ہوں۔
"
اُدھر کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔ وہ
ٹیبل تو خالی ہے" نورین نے سدرہ کی نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے پوچھا۔
"
کل کی بات سوچ رہی ہوں"
"
ہاں کل فواد یہاں بیٹھ کر غزل
پڑھ رہا تھا نا"
"
ہاں" سدرہ معقول سا بولی۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس کی دلی کیفیت کا نورین کو معلوم ہو۔
"
پتا ہے کل جب فواد غزل سنا رہا
تھا" نورین نے ہینڈ بیگ میں کچھ ٹٹولا" تو اُس وقت میں نے اُس کی تمام
غزل لکھ لی تھی" نورین نے بیگ سے وہ کاغذ بلا آخر تلاش کر لیا تھا۔
سدرہ
نے پلٹ کر حیران کن نظروں سے نورین کو دیکھا جو اُس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ
کر خوش ہو رہی تھی۔
کل
فواد کی طرف وہ اس قدر مگن رہی تھی کہ
اُسے معلوم بھی نہ ہوا کے ساتھ بیٹھی نورین نے کس وقت وہ غزل لکھ ڈالی تھی۔
" یار! یہ غزل تم مجھے دے سکتی ہو" سدرہ کے لہجے میں
کوئی ایسی عجیب شے نورین کو معلوم ہوئی جو شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
"
ویسے میں نے یہ اپنے لیے لکھی
تھی مگر چلو تم رکھ لو"
نورین
سے فواد کی غزل لے کر سدرہ اس قدر خوش ہوئی جیسے کوئی بہت بڑا خزانہ اُس کے ہاتھ
لگ چکا ہو۔
اُس
نے وہ ورق نہایت احتیاط سے اپنے لال ہینڈ بیگ میں رکھا۔ گاڑی میں پہلے نورین کو
اُس کے گھر چھوڑا اور پھر اپنے گھر کی راہ لی۔
گھر
پہنچتے پہنچتے سہ پہر ہو چکی تھی۔ اُس کا
جی تھا کہ جلد از جلد اپنے کمرے میں پہنچ کر فواد کی غزل پڑھنا شروع کرے
مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔
سدرہ
کی والدہ پہلے سے تیار بیٹھی تھیں۔ کامران صاحب بھی آفس سے واپس آ چکے تھے۔ بس
سدرہ کا انتظار تھا۔
"
سدرے!۔۔۔ آپ تیار ہو جاؤ آج ہم
آپ کے انکل توقیر کے گھر جا رہے ہیں" کامران صاحب نے سدرہ سے کہا جو ابھی ہی
یونیورسٹی سے لوٹی تھی۔
سدرہ
نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی والدین کی فرمائش پر اُن کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی۔
توقیر
علی اور کامران صاحب بہت پرانے یار ہونے کے ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی حصہ دار
تھے۔ آج کافی عرصہ کے بعد اُنھوں نے کامران صاحب کو اپنے اہل و عیال سمیت اپنے ہاں
عشائیے پر مدعو کیا۔
توقیر
علی کے بنگلے میں سوئمنگ پول کے ساتھ ہی ڈائننگ لگایا گیا تھا۔ ہلکے سرخ اور سبز
رنگ کی بتیوں نے ماحول کو نہایت دلفریب بنا رکھا تھا۔
توقیر
علی کی بیٹی آمنہ بچپن سے ہی سدرہ کی بہت اچھی سہیلی رہی آ رہی تھی۔ دونوں
تقریباََ ہر دوسرے ہفتے ایک ساتھ مل کر
شہر میں سیر کے لیے نکلتے، ایک ساتھ خریداری کرتے، سینما جاتے۔ حتیٰ کہ اگر آمنہ
کو کبھی دیر ہو جاتی تو وہ سدرہ کے ہاں ہی رک جایا کرتی تھی۔
لیکن
پھر آمنہ کا داخلہ دوسری یونیورسٹی میں ہو جانے کے سبب ملاقات کے مواقع کم ہو
گئےتھے۔
توقیر
علی کے دو بچے تھے۔ بڑا بیٹا جمال تھا جو آمنہ سے دو سال بڑا تھا اور پچھلے چار
سال سے باہر زیرِ تعلیم تھا۔ یہ عشائیہ اُسی کی آمد کے موقع پر منعقد کیا گیا تھا۔
مناسب
قد، چوڑا چکلا سینہ، چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات نمایاں، بات کرنے کا ڈھنگ ایسا کہ
ہر کوئی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ لب و لہجہ کمال، خوشی پوشی کی صلاحیتیں اعلیٰ،
تعلیمی اور معاشرتی کار کردگی متاثر کن۔
آج کالے ٹراؤزر پر لال ٹی شرٹ اُس پر خوب جچ رہی
تھی۔
دوسری
جانب سدرہ نے کالے رنگ کا لباس زیب تن کیے ہوئے تھا۔ جس پر سرخ رنگ کے پھول ریشمی
دھاگوں کی صورت میں پروئے ہوئے تھے۔ اس مناسبت سے سدرہ نے ہونٹوں پر لال رنگ کی لپ
سٹک لگا رکھی تھی۔ گلے میں موتیوں کی مالا اور اسی سے ملتی جلتی بالیاں کانوں میں
ڈال رکھی تھیں۔ جب کے اپنے ریشمی سیاہ بالوں کو جوڑے کی شکل میں ڈھال کر تاج کی
مانند سر پر سجا رکھا تھا۔
آج
ایک طویل عرصے بعد جمال کی ملاقات سدرہ سے ہو رہی تھی۔ اُس کی نظریں ایک مرتبہ
سدرہ پر پڑیں تو پھر ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
"
میں تو حیران ہوں کہ کب وہ
چھوٹی سی بچی اتنی بڑی سدرہ بن گئی" جمال نے سدرہ کو چھیڑنے کے انداز میں کہا۔
"
کوئی بچی وچی نہیں رہی اب
میں۔۔۔ اینڈ کال میں سدرے ناٹ سدرہ"
"
سدرہ کہنے میں کیا حرج ہے"
"
یہ اولڈ فیشن لگتا ہے"
"
لو جی ! بات سنو میڈم کی"
جمال نے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔
سدرہ
کی یہ شام ہنسی خوشی میں گزر گئی تھی۔ سدرہ ، آمنہ اور جمال تینوں نے بچپن کے دور
کی باتیں یاد کر کے خوب قہقہے لگائے۔
توقیر
اور کامران صاحب بچوں کو خوش دیکھ کر اپنے دور کی باتیں یاد کرتے رہے۔
جب
کہ خواتین نئے فیشن ٹرینڈ اور آنے والی
دعوتوں میں شرکت کرنے جیسے موضوعات کو زیر
بحث لاتی رہیں۔
رات
گئے کامران صاحب اپنے گھر لوٹے۔ سدرہ نے ملازمہ کو کافی بنانے کا کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کپڑے بدل کر ونائیٹ
ڈریس میں وہ پھر سے ٹی وی لاؤنج میں آکر ٹی وی دیکھنے لگی۔
ایک
ہاتھ میں کافی کا پیالا پکڑے وہ دوسرے ہاتھ سے ریموٹ پر مسلسل انگلیاں پھیرتے ہوئے
چینل بدلتی رہی۔ یہ اُس کا ٹی وی دیکھنے کا معمول تھا۔ کئی بار ثوبیہ خفا ہوئیں کہ
کسی ایک چینل پر ٹھہر کر بیٹھو مگر یہ سدرہ تھی اور اس نے کہاں کسی کی بات سننا
تھی۔
کافی
ختم ہونے کی دیر تھی کہ اُس نے ریموٹ رکھا اور سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
دروازہ
بند کرتے ہی کمرے میں ایک گھپ اندھیرا چھا گیا۔
سدرہ نے جان بوجھ کر ابھی تک روشنی نہیں کی تھی۔
مگر
پھر بھی اُسے روشنیکا ایک ہالہ دیوار پر پڑتا دکھائی دے رہا تھا۔
سدرہ
کی نگاہیں روشنی کے تعاقب میں پردے کی طرف گئیں جہاں پردے کی اووٹ میں سے ماہتاب
جھانک کر اپنی چاندنی سنگِ مرمر کے فرش پر گرا کر ایک لکیر بنا رہا تھا۔
سدرہ
نے دھیرے دھیرے سے پردوں کی جانب بڑھنا شروع
کر دیا۔ وہ اپنے ہاتھ پردوں کے قریب بلکل آہستگی سے لے کر جا رہی تھی۔
جیسے
پردوں کے اُس پار کوئی معصوم سفید پنچھی بیٹھا ہو جو سدرہ کے قدموں کی چاپ یا پردے
ہٹنے کی آواز سن کر اُڑ نہ جائے۔
پردے
ہٹاتے ہی سفید چاندنی سدرہ کے وجود سے جا ٹکڑائی۔
سدرہ
نے شیشے کا دروازہ جیسے ہی کھولا تو ہوا کا ایک سرد جھونکا اُس سے جا ٹکرایا۔ ایسے
محسوس ہوا جیسے چاند نے اپنے مہمان کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا ہو۔
سدرہ
اب بالکونی میں آچکی تھی۔ سیاہ آسمان پر ہلکے ہلکے ٹمٹموں کے بیچ میں ماہتاب پوری
آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ مطلع بلکل صاف ہونے کے باعث چاند کی چاندنی اپنے پورے
جوبن پر تھی۔
سدرہ
نے بازہ اپنے گرد لپیٹے اور وہیں کھڑے ہو کر ماہتاب کو تکنے لگی۔ جب ہوا کے سرد
جھونکے اُس کے وجود سے ٹکراتے تو ایک ہلکی سی کپکی طاری ہونے لگتی۔
سدرہ
کو معلوم نہیں نا جانے کب تک وہ کھڑی چاند کو بغور دیکھتی رہی۔
یک
لخت چاند نے اپنی صورت بدلنا شروع کر دی۔ یوں محسوس ہوا کہ چاند اُس سے دور جا رہا
ہے۔ دور اور بہت زیادہ دور۔ اس قدر دور کے وہ ایک ستارے کی مانند لگنے لگا۔
تھوڑی
دیر بعد اُسے لگا کہ چاند اُس کے قریب آ رہا ہے۔ رفتہ رفتہ اُس کے اور چاند کے درمیان
حائل راستہ کم ہوتا معلوم ہوا اور پھر چاند اُس کے اس قدر قریب آ گیا کہ چاند کی سطح پر چلنے والی
سرد ہوائیں سدرہ کو اپنے وجود سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔
پھر
چاند ایک مقام پر اُس کے گھر کی چار دیوار کے ساتھ لگےسرو کے درخت کی پگڈنڈی کے اوپر آ کر رک گیا۔
یہاں سے چاند اُس کی نظروں کے بلکل سامنے تھے۔
کچھ
دیر تک چاند اُسی جگہ ساقت رہا پھر سدرہ کو چاند کی سطح پر کئی آشنا چہرے گھومتے
پھرتے نظر آئے۔ مگر پھر اچانک چاند نے صورت بدل لی۔ اب وہ کسی انسان کے روپ میں آ
چکا تھا۔
کچھ
ہی پلوں میں چاند نے کئی سارے چہرے بدلے اور پھر ایک روپ دھار کر سکون سےبیٹھ گیا۔
اس
چہرے سے سدرہ اچھی طرح واقف تھی۔ یہ چہرہ فواد کا تھا۔ ہاں وہی فواد جس نے کل رات
سے سدرہ کے ہوش و حواس پر قبضہ کر رکھا تھا۔
ناجانے
کب تک بالکونی میں ریلینگ کو پکڑے کو چاند میں فواد کا چہرہ دیکھتی رہی۔ کبھی فواد
ڈائس پر کھڑا مسکراتا نظر آتا تو کبھی پروفیسر ثقلین سے بحث کرتا دکھائی دیتا۔
کبھی کتابوں کو بغل میں لیے یونیورسٹی کے سبزہ زاروں میں نظر آتا تو کبھی کینٹین
میں بیٹھا غزل سناتا دکھائی دیتا۔ کبھی شہر کی سڑکوں پر چہل قدمی کرتا دکھائی دیتا
تو کبھی گاؤں جانے والی بس سے اُترتا نظر آتا۔
بچپن
سے وہ چاند کو دیکھتا آئی تھی مگر پہلے کبھی چاند نے اُس کے حواس کے ساتھ
ایسا نہ کھیلا تھا اور نہ ہی وہ لوگوں کی
صورتیں سدرہ کو دکھانے کا مجاز تھا۔
اچانک
فواد کی صورت چاند سے غائب ہوتی گئی۔ اُسے یوں لگا جیسے چاند پھر سے اُس سے دور ہو
گیا ہو۔ اب چاند اپنی جگہ چھوڑ کر سرو کے اونچے درختوں کی اووٹ میں جا کر سدرہ کی
آنکھوں سے اوجھل ہو رہا تھا۔
سدرہ
کا تسلسل بھی ٹوٹ چکا تھا۔ رات کا ناجانےکون سا پہر تھا ۔ سدرہ ہوا کے جھونکوں سے
بے نیاز بہت دیر تک بالکونی میں کھڑی رہی مگر جب تاریک اندھیرے سے وحشت کھا کر جی
گبھرانے لگا تو کمرے میں واپس آگئی،
بالکونی
کو جاتا شیشے کا دروازہ بند کر کے اُس نے پردے آگے کر دیے مگر کمرے میں اب گھپ
اندھیرا ہو چکا تھا۔
سدرہ
نے اندھیرے سے خوف زدہ ہو کر بیڈ کی طرف کا لیمپ روشن کر دیا۔ لیمپ کی ہلکی مدھم
روشنی میں اُس کی نظر سامنے کے صوفے پر پڑے اپنے لال بیگ پر پڑی۔
اگلے
ہی لمحے وہ بجلی کی سی تیزی سے بیگ کی طرف لپکی اور اندرونے خانے سے طے شدہ وہ ورق
نکالا جس پر فواد کی غزل لکھی تھی۔
لیمپ
کی مدھم روشنی میں لا کر اُس نے آہستہ آہستہ غزل پڑھنا شروع کی۔ اُسے لگا جیسے ہر
لفظ اُس کی زبان کی بجائے دل کے لبوں سے ادا ہو رہا ہے۔
"تم آؤ کہ ہم تمہیں اپنا دیوان
سنائیں
تم
آؤ کہ درد و غم کے جمع شدہ ایوان سنائیں
وہ
کہہ رہے تھے آج کی ملاقات آخری ہے
تم
آؤ کہ ہم تمہیں وہ درد بھری داستان سنائیں
اُن
آنکھوں سے بس ایک حقیقت عیاں ہوتی
تم
آؤ کہ ہم تمہیں خالص حسن کا آشیان سنائیں
کیسے
گزرے گی اُن کے بغیر اہل شہر پر فوادؔ
تم
آؤ کہ ہم تمہیں اُن سے ملنے کے ارمان سنائیں"
سدرہ
کو شاعری سے ہرگز بھی لگاؤ نہ تھا اور نہ ہی وہ اس بات سے واقف تھی کہ بحر کیا ہے،
قافیہ اور ردیف نام کی شے کیا ہوتی ہے۔ وہ تو اس بات سے بھی آشنا نہ تھی کہ یہ غزل
شاعری کے اصولوں پر پوری نہ اُترتی ہے۔
مگر
اُسے اس سب سے کیا غرض۔ وہ تو لفظوں کی اووٹ میں چھپے ہوئی کیفیات کو جانچنے میں
لگی تھی۔
فواد
کی یہ غزل سدرہ کی اس وقت کی موجودہ کیفیت کی بھر پور طریقے سے ترجمانی کر رہی تھی۔
سدرہ
نے سائیڈ ٹیبل کے دراز سے ڈائری نکالی ۔ فواد کی غزل اُس کی تقریر کے ساتھ رکھا
پھر گلدان سے گلاب کا پھول نکالا اور اُسے
اُن دونوں کے بیچ رکھ کر ڈائری دوبارہ دراز میں رکھ دی۔
سدرہ
نے لیمپ بجھایا اور بستر پر سیدھا لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ مگر نیند آنکھوں سے
کوسوں دور تھی۔
سدرہ
کے لب بار بار اُس کا ہی جملہ دہرا رہے تھے۔
"
میرے دل کو خانوں میں بس ایک
شخض کا ہی نام کنندہ ہے۔۔۔ وہی ایک شخض جس سے کل صبح آخری ملاقات میں اُس کا آخری
جملہ تھا کہ۔۔۔ "یہ تقریر میں نے آپ کے لیے لکھ رکھی ہے"۔۔۔ اُس کی
خوبصورت آنکھیں سب کہنے کو کافی تھیں۔۔۔ آج وہ اس شہر میں نہیں تو یہاں کی سڑکیاں
ویران اور بازار سنسان لگتے ہیں مجھے"
Comments
Post a Comment