قسط نمبر: 18

 انسان کی زندگی میں چند لطیف دنوں میں سے ایک دن اُس کی شادی کا ہوتا ہے۔ جس سے اُس کا نا مکمل وجود کامل بن جاتا ہے۔ روحیں ایک ہو جاتی ہیں۔ دو گھرانے مل جاتے ہیں۔ رشتے جڑ جاتے ہیں۔ خاندان ایک ہو جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر دکھ ساکھ کے ساتھیوں میں اضافہ ہونےلگتا ہے۔

گاؤں میں شادی کبھی بھی لڑکی کی مرضی سے نہیں ہوتی۔   اکثر اُسے پسند کر لیا جاتا ہے یا پھرگھر کے بڑے اپنے مفاد کی خاطر شادی کے نام پر اُس کا سودا کرنے میں ذرابھی ہچکچاتے نہیں۔

 اکثر اوقات گاؤں کی فضا میں بیٹی بیاہی نہیں جا رہی ہوتی۔ بلکہ ڈولی کی صورت میں اُس کا جنازہ اپنے میکے سے اُٹھ رہا ہوتا ہے۔

بیٹی کو گھر سے رخصت کرتے وقت یہ بات بھی اُس کے کانوں میں ڈال دی جاتی ہے کہ اب جس گھروہ بیاہ کر جا رہی ہے اُس گھر کو صرف مرتے وقت ہی چھوڑے۔

اکثر اوقات لڑکیاں برائے  نام رشتے نبھانے کی خاطر ایک زندہ لاش بن کر رہ جاتی ہیں۔

مگر  چند لڑکیوں کی قسمت مومنہ جیسی بھی ہوتی ہے۔ جن کی شادی اُس شخض  سے ہوتی ہے جسے وہ بغیر کسی کو بتائے اندر سے چاہتی تھی۔

وہ خوش قسمت ہی تھی کہ ایسے گھر بیاہ کر جا رہی تھی جسے وہ پہلے سے بخوبی جانتی تھی۔

ایک لڑکی کے لیے اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُس کے ہونے والے ساس اور سسر اُسے اپنی بیٹی سمجھتے ہیں۔ اُس کی ہونے والی نندیں اُس کی سہیلیاں اور بہنوں جیسی ہیں اور سب سے بڑھ کر جس شخض سے وہ بیاہی جا رہی تھی اُسے وہ بچپن سے ہی پسند کرتی تھی۔

شادی کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ فواد کا تمام دن اپنی ہی شادی کی تیاری کرتے گزر جاتا۔

امین بخش اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی پر کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتا تھا۔  اسی واسطے وہ تمام تر انتظامات وقت پر چاہتا تھا اور فواد کے سوا کون تھا اُس کے گھر جو یہ کام کرتا۔

لحاظہ اپنی ہی شادی کے تمام تر انتظامات فواد خود ہی کر رہا تھا۔

امین بخش نےمہمانوں کی لسٹ تیار کر کے کمی کو تمام گاؤں میں پھروا دیا تھا۔ جب کہ فواد نے اپنے مہمانوں کو بذریعہ خط اپنی شادی میں شرکت کی دعوت دے دی تھی۔

اِدھر امین بخش کے گھر دلہن کی وری تیار کی جا رہی تھی تو دوسری جانب ماسٹر اللہ دتہ بیٹی کا جہیز تیار کر رہے تھے۔

ماسٹر اللہ دتہ نے امین بخش کی مخالفت کے باوجود بھی اپنی بیٹی کا جہیز تیار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔

لکڑی کا تمام سامان قصبے سے بنوایا۔

ماسٹر اللہ دتہ اپنی بیٹی مومنہ کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی سونے کی شے بنواتے رہتے تھے۔ کبھی بالیاں، کبھی لاکٹ، کبھی چوڑیاں وغیرہ۔ کچھ اُن کی مرحوم بیوی کا بھی سونا باقی بچا تھا۔

 یہ تمام سونا اُنھوں نے قصبے لے جا کر وہاں کے مشہور سنیار فریدے سے رجوع کیا۔  جس نے بہت کم وقت میں بہت اچھا زیور تیار کے ماسٹر اللہ دتہ کے حوالے کیا۔

گاؤں میں فواد اور مومنہ کی شادی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی  اور اس نے آگ کی طرح لوگوں اورگھروں کو خاکستار کر بھی ڈالا۔

کئی گھرانے ماسٹر اللہ دتہ کے گھر رشتہ لے کر جانے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ جب اُنھیں اس خبر کا پتہ چلا تو اپنی آگ سے آپ جل کر راکھ ہو گئے۔

شادی کے دن سے تقریباََ ہفتہ پہلے دلہن کی وری دکھائی گئی۔ سونے اور چاندی کے زیورات، خوبصورت لہنگے، رنگ برنگے لباس وغیرہ حاضرین کو دکھائے گئے۔ ہر کوئی امین بخش کے گھر سے ایسی تمام چیزوں کی توقع کر رہا تھا جو عام حالات میں دلہے کے گھر والی لڑکی کو دیتے ہیں۔

کچھ دن بعد ماسٹر اللہ دتہ کے گھر جہیز کی نمائش تھی۔  سلمیٰ نے جہیز کی تیاری میں ماسٹر اللہ دتہ کی اس طریقے سے مدد کی تھی جیسے اپنی بیٹی کی ہو۔

تین صندوق کپڑوں کے، دو سونے کے ہار، تین سیٹ سونے کی چوڑیوں کے، نصف تولے تولے کے چار کنگن، بالیاں اور ناک کی کیل یہ وہ زیورات تھے جنھیں دیکھ کر گاؤں کی عورتوں کی آنکھیں باہر کو   اور دل حلق کو آ گئے تھے۔ لکڑی کےدو  بیڈ، دو چارپائیاں، صوفہ سیٹ، ایک بڑا اور دو چھوٹے میز، برتن وغیرہ اس سے علاوہ تھے۔

گاؤں کی خواتیں ایسا جہیز دیکھ کر حیران اور پریشان رہ گئی تھی۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ معمولی سکول کا چند روپے کے عوض ماسٹر اپنی بیٹی کا جہیز اس قدر شاندار بنا سکتا ہے۔ خود امین بخش بھی حیران تھا۔

امین بخش کے پوچھنے پر ماسٹر اللہ دتہ نے بتایا کہ اُنھوں نے اپنی تمام جمع پونجی اپنی بیٹی کی شادی پر خرچ کردی۔

۔ اس کے علاوہ بھی ماسٹر اللہ دتہ نے سکول سے پنشن لے لی تھی۔ اب حکومت کی طرف سے اُنھیں اتنا روپیہ اُن کی خدمات کے عوض دے دیا گیا  تھاکہ وہ  یہ بیٹی کی شادی میں خوب دھوم دھام سے کر سکیں۔

جہاں تک سکول کا تعلق تھا تو وہ اب حکومت کے سپرد تھا۔ الگے ماہ ہی اس سکول کو نئے سرے سے تعمیر کیے جانا تھا۔ تب تک سکول ماسٹر اللہ دتہ کی تحویل میں تھا۔

ماسٹر اللہ دتہ کی اس حرکت پر امین بخش خفا تھا۔ لیکن ماسٹر اللہ دتہ کی بات بھی بجا تھی۔ مومنہ کی شادی کے بعد اُسے تنخواہ کی کیا ضرورت تھی۔ اُس کے گزر بسر کے لیے وہ معمولی سی پنشن کافی تھی۔ باقی کی جمع پونجی مومنہ کی تھی اور اُس کے ساتھ ہی جانا تھی۔

" پتر! شہر سے اپنے کسی ساتھ والے کو شادی پر بلا لیتا" سلمیٰ نے وقت ملتے ہی فواد کو بولا۔

" جی امی! شہریار کو خط لکھ کر دو دن پہلے آنے کا کہہ دیا تھا۔۔۔ ابھی شکیلا گیا ہے اُسے بس اڈے سے لانے"

" اور کالج کے ساتھی؟"

" کالج کے ساتھیوں کو بھی خط لکھ دیا تھا۔ ۔۔ وہ بھی مہندی والی رات آ جائیں گے۔۔۔ باقی سر یوسف اور ندیم صاحب شادی والے روز آئیں گے"

غازی پورہ کی روایت تھی کہ شادی پر دلہا یا دلہن کے دوست یار وغیرہ اُس کے ساتھ ہوتے۔

 فواد کا حلقہِ احباب تو وسیع ہونے کے سبب اُس کے تمام دوست وغیرہ جمع ہوگئے۔ مگر مومنہ کی سہیلیاں تو صرف ماریہ اور شانزے تھیں جو اب اُس کی ہونے والی نندیں تھیں۔

شکیلے کی گاڑی گاؤں کی حدود میں داخل ہوا تو دیکھنے والوں کی آنکھیں پینٹ شرٹ میں ملبوس فواد کے دوست پر جم  کر رہ گئیں۔ ہر کوئی اس شہری بابو کو دیکھنے کا خواہش مند تھا۔

شہریار کو چاچا شیدے کے چوپال میں ٹھہرایا گیا۔۔  چائے، حقہ اور بیڑی بطور تواضع پیش کی گئی۔

شہریار نے چائے منتخب کی اور باقی چیزیں لوٹا دیں۔ اسی دوران فواد بھی آن پہنچا۔

" یار فواد! یہ تمہارے گاؤں میں سب مجھے گھور گھور کر کیوں دیکھ  رہے ہیں" شہریار نے  فواد سے ملنے کے بعد سرگوشی کے عالم میں پوچھا۔

" تم نے ولایتی لباس پہن رکھا ہے اس وجہ سے"

" ولایتی؟۔۔۔ کیا یہ پینٹ شرٹ ولایتی لباس ہوتا ہے؟"

" گاؤں والوں کی نظر میں یہ ولایتی ہے" فواد نے بتایا۔

شام کو فواد نے انتظامات سےفارغ ہوتے ہی شہریار کو گاؤں کی سیر کروائی اور رات کے پروگرام کے متعلق آگاہ کر دیا۔  رات کو شکیلے نے شکر لانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔

شکر لانے کا رواج بھی خوب عمدہ تھا۔ لوگوں کے مجمع کے آگے اور پیچھے کچھ کمی حضرات گیس سے جلنے والی لیمپ اُٹھائے راستہ روشن کرتے جاتے۔ جبکہ بقیہ کمی مٹھائیوں، شکر اور پتاسوں کی ٹوکڑیاں اُٹھائے چلتے آ رہے تھے۔

اُن کے بعد ڈھول اور شہنایاں بجانے والوں کے ساتھ ساتھ شکر لانے والے افراد چلتے آتے  تھے۔

چاچا شیدے کے چوپال میں لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام موجود تھا۔  چارپائیوں اور کرسیوں کو  بچھا کر ایک بڑا گھیرا بنا دیا گیا تھا۔ جبکہ فواد کو بٹھانے کے لیے ایک علیحدہ چارپائی بچھائی گئی تھی۔

یہ شکر شکیلے اور فواد کے ننھیال والوں نے مشترکہ طور پر لائی تھی۔

شکیلا شکر لے کر آیا تو بڑی دیر تک چوپال کے دروازے پر کھڑے ہو کر خوب ڈھول بجائے گئے۔  پھر شکر لا کر اندر رکھی گئی اور ایک بڑا گھیرا بنا کر فواد کو درمیان میں کھڑا کر دیا گیا۔

فواد نے نظروں کے اشارے سے شہریار کو بھی اپنے پاس آکر کھڑا ہونے کا کہا۔

ڈھول اور شہنایاں بجانا شروع کر دی گئیں۔ فواد کے گرد گھیرا بنا کر شکیلے نے بقیہ دوستوں کی مدد سے لڈی ڈالنا شروع کر دی۔

شہریار کے لیے یہ سب کچھ نیا تھا۔ وہ  بڑے شوق سے فواد کی شادی پر یہ شکر لانے کا خوبصورت پروگرام دیکھ رہا تھا۔

اب لڈی ڈالنے والے حضرات تھک چکے تو کچھ اجنبی چہروں والے نوجوان آگے بڑھے جنھوں نے اپنے ہاتھوں میں تقریباََ نصف گزلمبی سرخ رنگ کی چھڑیاں اُٹھا رکھی تھیں۔ جن پر لگے گھنگرو ایک عجیب طرز کی ہلکی سی دھن بنا رہے تھے۔

چھ لڑکوں کی یہ ٹیم ڈھول کی تھاپ پر وہ چھڑیاںایک دوسرے کی چھڑیوں کے ساتھ بجاتے۔  دو دو کی جوڑیاں بنائے وہ کبھی جھومتے، کبھی بیٹھ جاتے، کبھی اُٹھ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کی چھڑیوں کے ساتھ ڈھول کی تھاپ کی مناسبت سے بجاتے۔ کبھی دائیں کو جاتے، کبھی بائیں طرف سے آ کر بجاتے، کبھی کراس بنا لیتے ۔ کبھی تین بیٹھ جاتے تو بقیہ تین جھوم جھوم کر اُن کے پاس سے گزرتے اور چھڑیاں بجانے لگتے ۔ مقامی بولی میں اسے گتگا کہا جاتا تھا۔

گتگا دیکھنے والوں نے لوگوں کو خوب محظوظ کیے رکھا تھا۔  شکر کا پروگرام ختم ہوا تو تمشائی حضرات گھروں کو پلٹ گئے اور چوپال میں محض برادری والے لوگ رہ گئے۔

اگلے روز مہندی تھی۔ امین بخش تمام دن شادی کے انتظامات دیکھتا رہا۔ عصر تک نائی دیگوں اور کڑاہ  سمیت امین بخش کے سامنے حاضر ہو چکا تھا۔

شادی کی ایک رسم میں بنڈے کی روٹی بھی شامل تھی۔ مغرب کے بعد تمام برادری کے مردوں کو امین بخش اور عورتوں کو ماسٹراللہ دتہ کے گھر کے صحن میں کھانا کھلایا گیا۔

بنڈے کی روٹی دلہا والوں کی طرف سے ہوتی تھی اور اس میں دلہن کی طرف کے رشتہ دار بھی شامل ہوتے تھے ۔

فواد کے کالج سے آنے والے ساتھی  مغرب کے بعد پہنچے۔ انھیں بھی چوپال میں ٹھہرا کر کھانا کھلایا گیا۔

کھانے کے بعد امین بخش کے گھر صحن میں مہندی کی تیاریاں شروع کی جا چکی تھیں۔

مہندی کو پانی میں گھول کر تیار کیا جا چکا تھا۔

 مٹھائی کے ٹوکڑے کھولے جا چکے تھے۔

دلہے کے بیٹھنے کا صوفہ صحن میں بتیوں  جو پچھلے ایک ہفتے سے امین بخش کے گھر پر جگما رہی تھیں  تلے رکھا جا چکا تھا۔

 سامنے میز پر ایک طرف کو مہندی کو اور دوسری طرف مٹھائی رکھ چھوڑی تھی۔

ماریہ اور شانزے بھائی کی منگنی کے موقع پر خوب بن سنوری تھیں۔   خود فواد بھی اس موقع پر کوئی کم تیار نہ تھا۔

تمام تیاریاں مکمل ہو جانے پر فواد کو بلاوا بھیجا گیا۔ جو چوپال سے اپنے ہمجولیوں کے ساتھ چلتا ہوا آیا۔

فواد کو صوفے پر جب کہ اُس کے باقی ساتھیوں کو ایک طرف کرسیوں پر بٹھا دیا گیا تھا۔

سب سے پہلی رسم دلہا کو گانا باندھنے کی تھی۔

 یہ حق اس وقت شانزے کو سونپا گیا تھا۔ جس نے بھائی کے ہاتھ پر سفید رنگ کا خوبصورت گانا باندھنے کے بعد ایک کثیر رقم بطورِ انعام مانگی۔

فواد نے آج تک بہنوں کو نہ مانگے ہی اتنا کچھ عطا  کیا تھا کہ آج بھائی سے مانگتے ہوئے اُسے شرم آنے لگی تھی۔ مگر چونکہ یہ رسم تھی تو نبھانا بھی لازم تھی۔

فواد کے دائیں ہاتھ پر دس روپے کا نوٹ رکھا گیا۔پہلے والدین اور بہنوں نے فواد کے آگے بڑھ کر مہندی لگائی۔ سلمیٰ ساتھ ساتھ فواد کے ہاتھ پر مہندی رکھتی جاتی تھی اور ساتھ روئے جا رہی۔

ان کے بعد دوستوں نے مہندی لگائی اور پھر برادری والے ایک ایک کر کے مہندی لگانے آنے لگے۔ پہلے مہندی لگاتے پھر مٹھائی فواد کو کھلا کر پانچ ، دس ، بیس، پچاس روپے سر پر سے گھما کر ساتھ پڑی ٹوکڑی میں رکھتے جاتے۔

فواد کو مہندی لگا چکنے کے بعد عورتوں نے بڑے تھالوں میں مٹھائی اور چھوٹی پلیٹوں میں مہندی پر موم بتیاں سجائے دلہن کے گھر کی جانب بڑھنا شروع کر دیا۔

ادھر فواد دوستوں میں گھر ا اکیلا گھر بیٹھا رہا۔

شکیلے نے سب کو خاموش دیکھ کر فوراََ چوپال سے میراثیوں کو بلا لیا اور ادھر امین بخش کے گھر میں لڑکوں نے اپنی رونق لگا لی۔

ماسٹر اللہ دتہ کے گھر میں دلہن کو مہندی لگانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ امین بخش کے گھر کی نسبت ماسٹر اللہ دتہ کے گھر زیادہ رونق تھی۔

مومنہ نے سبز رنگ کا لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ بالوں کا سٹائل اور ہلکا میک اپ اُس کی سکول میں ساتھ پڑھنے والی سہیلی نے آ کر کیا تھا۔

دلہا کے بعد اب دلہن کو مہندی لگانے کی باری تھی۔ مگر مہندی سے پہلے دلہا کی طرح دلہن کو بھی اُس کی بہن یا سہیلی نے گانا باندھنا تھا۔ مومنہ کی سب سے پہلی سہیلی اُس کی ہونے والی بڑی نند تھی جو اُس کی سہیلی سے زیادہ بہن تھی۔

ماریہ نے مومنہ کی کلائی کے ساتھ بھی بلکل ویسا ہی گانا باندھا جیسا شانزے نے فواد کی کلائی پر باندھا تھا۔

گانا باندھ کر ماریہ نے مومنہ کی طرف دیکھ کر اپنا دائیاں ہاتھ اُس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جسے دیکھتے ہی مومنہ فوراََ سمجھ گئی مگر کچھ بولے بغیر مسکرا کر آس پاس ماسٹر اللہ دتہ کو دیکھنے لگی جو ناجانے کہاں غائب تھے۔

مومنہ کو ایسا کرتے دیکھ کر سلمیٰ فوراََ سمجھ گئیں اور کچھ روپے مومنہ کے ہاتھوں میں تھما دیے۔ مومنہ نے سلمیٰ سے وہ روپے لیے اور ماریہ کے ہتھیلی پر کھ دیے اور پھر سلمیٰ کو دیکھ کر اپنا سر جھکا دیا۔

سلمیٰ نے پاس بیٹھ کر ہاتھ سے مومنہ کی ٹھوڑی پکڑ کر ذرا سی اوپر کی تو مومنہ کی آنکھوں میں آنسوؤ دیکھ لے۔

"" نہ میری بیٹی!۔۔۔ آج خوشی کا موقع ہے" سلمیٰ نے یہ کہہ کر مومنہ کے ماتھے پر ایک بوسہ دیا۔

مومنہ کے مہندی سے سرخ ہاتھوں پر بھی دس روپے کا نوٹ رکھا گیا۔ اب اُسے بھی مہندی لگائے جانے تھی۔ فواد کے نام کی مہندی۔

ماسٹر اللہ دتہ کو مہندی لگانے کے لیے بلایا گیا۔ عورتوں میں سے راستہ بناتے ہوئے وہ آئے اور ایک لمحے رک کر مومنہ کو دیکھنے لگے۔

مگر پھر سلمیٰ کی آواز پر آگے بڑھے اور مومنہ کے ہاتھوں پر مہندی رکھنے لگے۔

 بلکل ویسے ہی جیسے وہ بچپن میں اُسے لگایا کرتے تھے۔ جب وہ ضد کیا کرتی کہ بابا آج مہندی لگائیں اور ماسٹر اللہ دتہ سب کام کاج چھوڑ کر اُس کے ننھے ننھے ہاتھوں پر مہندی لگانے لگ جایا کرتے تھے۔

اب وہ مٹھائی کا ذرا سا ٹکڑا اُس کے منہ میں ڈالنے لگے تھے۔ بلکل اُس انداز میں جیسے وہ بچپن میں اُسے کھانا کھلایا کرتے تھے۔

وہ ہمیشہ ماسٹر اللہ دتہ کے ہاتھوں ہی کھانا کھایا کرتی تھی اور جس دن وہ کسی کام سے شہر جاتے اور مومنہ کو امین بخش کے گھر چھور جاتے تو وہ بھوکی بیٹھی رہتی مگر کھانا نہ کھاتی۔

ماسٹر اللہ دتہ کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ بیٹی کے سر پر ایک پیار دے کر وہ اُٹھ آئے مگر چلتے چلتے ماریہ سے کہہ آئے کہ مومنہ کو میری کمی نہ لگنے دینا۔

دروازے کے پاس آ کر ماسٹر اللہ دتہ امین بخش کے پاس بیٹھ گئے۔

" کیوں ماسٹر جی! ۔۔۔ کیا ہوا"  امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ کو صافے سے آنکھیں پونچھتا دیکھ کر پوچھا۔

" امین بخش!۔۔۔ یار! یہ بیٹیاں اتنی جلدی بڑی کیوں ہو جاتی ہیں" ماسٹر اللہ دتہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

" نہ ماسٹر جی!۔۔۔ آج خوشی کے اس روز رونے کا کیا فائدہ" آج امین بخش تسلی دے رہا تھا۔

مہندی لگا کر عورتیں اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ جبکہ ماریہ اور شانزے اپنے ہونےوالی بھابھی کی مدد کے لیے کچھ دیر تک اُس کے پاس ہی رک گئیں۔

امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ کی معاونت کے لیے گھر سے کچھ لڑکوں کو بلاوا بھیجا جنھوں نے آتے ہی چند لمحوں میں تمام گھر کو واپس اپنی اصل حالت میں لا دیا تھا۔

دوسری جانب امین بخش کے گھر کو اگلے روز کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔  مومنہ کے جہیز کا تمام سامان علیحدہ کمرے میں رکھوایا گیا جسے امین بخش نے چند سال قبل ہی گھر میں بنوایا تھا اور بنواتے ہی فواد کے حوالےکر دیا گیا تھا۔

یہ کمرا بنوانے میں بھی فواد کا بہت ہاتھ تھا اور بننے کے بعد سے اب تک اُسی کا رہا تھا۔

فواد اپنے تمام ساتھیوں کو چوپال میں ٹھہرا کر گھر کو لوٹ آیا تھا۔ رات کافی گہری ہو چکی تھی۔

 گلیاں جو کچھ دیر پہلے تک لوگوں کی چہل پہل سے پر رونق تھیں اب سنسان اور ویران ہو چکی تھیں۔

 بچے کھچے سالن اور روٹیوں کے ڈھیڑ پر گاؤں کے آوارہ کتے حملہ آور ہو چکے تھے۔

فواد نے ایک نظر گھر پر ڈالی جہاں مختلف رنگ کی بتیاں جل بجھ کر ایک پر رونق سماں پیدا کر ہی تھیں مگر وہ صحن جہاں کچھ دیر پہلے تک ہنگامہ تھا اب وہاں سکوت طاری تھا۔

بستر پر لیٹتے ہی دن بھر کی تھکاوٹ کے باعث نیند نے اُسے آن گھیرا اور پھر ایسا سویا کہ سویا ہی رہا۔ وہ تو شکر کہ سلمیٰ نے جگا دیا وگرنہ آج نماز بھی چھوٹ جاتی۔

اپنی زندگی کے سب سے اہم دن کا آغاز بھی اُس نے نماز سے کیا۔

نماز پڑھ کر وہ پھر سے گھر لوٹا اور ناشتے کے نام پر محض چائے کا ایک پیلا حلق میں انڈیل کر دن کی تیاریوں میں مگن ہو گیا۔

آج دن میں بارات امین بخش کے گھر سے چل کر چاچا شیدے کے چوپال میں ہی اُترنی تھی۔

فواد کے ناشتے کرتے ہی امین بخش بھی لوٹ آیا تھا جو مسجد سے نکل کر ملک امیر حمزہ کے چوپال میں پچھلے چار دنوں سے بندھے جانوروں کو چارہ پانی ڈالنے گیا تھا۔

" پتر! تو کدھر چلا" امین بخش نے فواد کو دروازے سے باہر نکلتا دیکھ پوچھا۔

" ابا! چوپال جا رہا ہوں"

" اچھا اُن لڑکوں کو جگا دینا" امین بخش نے ہدایت دی۔

فواد  چوپال میں آیا تو شکیلا تمام لڑکوں کو ناشتہ  کروا چکا تھا۔

 ابھی وہ صحن سے چارپائیاں اُٹھا کر اندر کمرے میں رکھ ہی رہے تھے کہ امین بخش اور ماسٹر اللہ دتہ بھی انتظامات کروانے آ گئے۔

آج اسی مقام پر فواد کی بارات بھی اُترنی تھی اور یہیں ولیمہ بھی ہونا تھا۔

 امین بخش اپنے واحد دوست پر کسی قسم کا بوجھ برداشت کرنے قاصر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ولیمہ اور بارات ایک ساتھ رکھا۔

چوپال میں تمام لڑکے شکیل کی ہدیات پر اپنا سامان ایک کمرے میں رکھنے لگے۔

 امین بخش نے بھی چوپال کے باہر دیگوں کو پکانے کا بول دیا تھا۔ ماسٹر اللہ دتہ بھی چوپال کے صحن کو صاف کروا کر شامیانے لگوا رہا تھا۔

" فواد پتر! جا کر تیار ہو۔۔۔ کسی نے تجھے ایسا گھومتے دیکھ لیا تو کیا بولیں گے" سلمیٰ نے فواد کو رات والے کپڑوں میں باہر سے آتا دیکھ کر بولا۔

" امی! پورا گاؤں تو گھوم آیا۔۔۔ سب نے دیکھ بھی لیا" فواد نے مذاقاََ کہا۔

مگر پھر اپنی حالت کا احساس کرتے ہوئے کچھ سامان ساتھ لیا اور چوپال میں ہی تیار ہونے چلا گیا۔

آج چوپال میں داخل ہوتے ہی اُسے اپنے ہاسٹل جیسا ماحول لگا۔ چاچا شیدے کے چوپال میں صرف ایک غسل خانہ تھا اور اُس کے بعد سارے قطار باندھے کھڑے تھے۔

فواد یہ حالت دیکھ کر خود پر ضبط نہ کر سکا اور ہنس دیا۔

" یار! میری شادی ہے آج تم لوگ مجھے تو پہلے تیار ہونے دو" فواد نے احتجاج کرنے کے انداز میں کہا۔

" نہ بھئی!۔۔۔ پہلے آؤ پہلے پاؤ" سب نے یک زبان ہو کر فواد کی عرضی ٹھکرا دی۔

یہاں سے وہ واپس گھر لوٹ کر تیاری کرنے چلا گیا۔ مگر کچھ ہی دیر بعد شہریار اور شکیل اُس کی معاونت کو آ گئے۔

فواد کے تیار ہونے کے دوران برادری کی تمام خواتین کنویں سے گھڑولی بھرنے چلی گئیں۔ کنویں سے گھڑولی بھر کر باری باری تمام خواتین سروں پر اُٹھا کر رکھتیں اور پھر بقیہ تمام خواتین اُس ایک  کے گرد جمع ہو کر لوک گیت گاتیں۔

خواتین جب امین بخش کے گھر لوٹ کر پہنچیں تو گھڑولی ماریہ نے اپنے سر پر رکھ لی۔ فواد نے اُس کی فرمائش پر پچاس روپے اُس کی ہتھیلی پر رکھے اور گھڑولی سر پر سے اُتاروائی۔

یہ بھی رسم میں شامل تھی۔

یہاں سے وہ پھر اندر ونے کمرے میں چلا گیا۔ جہاں اُس نے بقیہ تیاری مکمل کرنی تھی۔

سفید کرتے پر لال رنگ کی شیروانی اُس پر خوب جچ رہی تھی۔ پاؤں میں خانو موچی کا تیار کردہ تلے والا کھوسا اور سر پر شیروانی کی ہی مناسبت سے سہرا۔

وہ تیار ہو کر اندرونے کمرے میں ہی بیٹھا رہا تھا۔ کل شام سے اُسے اپنے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔

" بھیا ! اب آپ شادی کے بعد ہ اس کمرے میں جاؤ گے" ہر بار فواد کے دروازہ کھولنے کا کہنے پر ماریہ یا شانزے اُسے یہی جواب دیا کرتی تھیں۔

تمام تیاریاں مکمل ہو جانے کے بعد اُسے باہر صحن میں لایا گیا جہاں ہر طرف عورتوں اور مردوں کی ریل پیل تھی۔ 

ہجوم سے وہ ہمیشہ ہی بھاگا کرتا تھا مگر آج ایسا کرنا ہرگز بھی ممکن نہ تھا۔

امین بخش کے گھر میں آج بھرپور رونق تھی۔ تمام گھر لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ دروازے سے کوئی آ رہا تھا تو کوئی باہر جا رہا تھا۔ بچے خوشی سے کبھی ادھر کو بھاگ کر جاتے تو کبھی اُدھر کو۔

مرکزی کمرے کی باورچی خانے والی طرف کی کھڑکی کے ساتھ ایک بڑالال رنگ کا پردہ لگا کر اُسے چھپا دیا گیا تھا۔

 یہاں چند کرسیاں لگا دی گئیں تھیں۔ جن میں سے درمیان والی پر فواد کو بٹھا دیا گیا۔

مگر ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ اُسے اُٹھ کھڑے ہونے کا اشارہ دیا گیا۔ فواد کو درمیان میں کھڑا کر کے ڈھول بجانا شروع کر دیے گئے۔

سب سے پہلے شکیلے نے آ کر فواد کے گلے میں نوٹوں کا ہار ڈالا۔ پھر باقی تمام دوست احباب نے بھی شکیلے کی پیروی کرتے ہوئے فواد  کے گلے میں نوٹوں کے ہار ڈالنا شروع کر دیے۔ سب سے آخر میں فضل الہیٰ کے بڑے بیٹے توقیر نے بھی ہار ڈالا۔

کچھ ہی دیر میں اس  قدر  نوٹوں کے ہار فواد کے گلے میں ڈالے جا چکے تھے کہ اُس کا بوجھ برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

 اُس نے نوٹوں کے ہار اُتار کر علیحدہ سے رکھوا دیے اور محض ایک ہار گلے میں ڈالا رکھا۔

اب فودا کے گرد گھیرا ڈالا گیا۔

ڈھول اور شہنائیوں کے بجانے کے ساتھ ساتھ فواد پر ویلیں ڈالی گئیں۔

لڈی ڈالنے کے ساتھ ساتھ نوٹوں کی خوب بارش  ہوئی جس پر گاؤں کے بچے ٹوٹ کر برسے مگر مسلی حضرات کی فوج نے اُنھیں قریب پھٹکنے نہ دیا۔

سفید گھوڑی پر سرخ رنگ کی چادر ڈال کر امین بخش کے صحن میں لایا جا چکا تھا۔ فواد کو گھوڑی پر بٹھایا جانے لگا۔

فواد گھوڑی پر بیٹھ چکا توماریہ ایک تھالی میں دانے لا کر گھوڑی کہ منہ کے آگے رکھنے لگی۔ یہ بھی شادی کی چند رسومات میں سے ایک تھی۔

جب سب تیاریاں مکمل ہو چکیں تو گھوڑی کی لگام تھامنے والے کو امین بخش نے چلنے کا اشارہ کیا۔

امین بخش کے گھر سے بارات چلنے کی خبر ڈھول اور شہنایوں کے بجنے کی آواز نے چوپال میں کھڑے استقبالیہ تک پہنچا دی۔

جگہ جگہ بارات کو روکا جاتا۔ جہاں گھروں سے خواتین دلہا کے سامنے ٹھنڈے مشروب اور دودھ کے گلاس پیش کرتیں۔

ایسے موقع پر امین بخش اُن  خواتین کو چند روپے نوازا کرتا آتا تھا۔

بارات میں مرد آگے آگے چلتے جاتے اور خواتین اُن کی راہ نمائی میں بارات کے پیچھے۔ مختلف مقامات پر بارات رک جایا کرتی جب دلہا کے ساتھی بارات کے آگے لڈی ڈالتے اور ویلیں کرتے۔

امین بخش کے گھر سے لے کر  چاچا شیدے کے چوپال میں استقبالیہ تک بارات میں ڈھول دو دفعہ ڈھول بجانا بند کیا گیا۔ ایک مرتبہ مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے مسجد کے تقدس کی خاطر اور دوسرا کنویں کے پاس سے قبرستان کی طرف جاتے راستے کے پاس پہنچ کر جہاں بارات کو کچھ دیر کے لیے روک دیا گیا تھا۔

یہاں سے فواد گھوڑی پر اور بقیہ کچھ لوگ جن میں فواد کے یار بیلی، امین بخش اور برادری کے چند لوگ تھےپیدل چلتے ہوئے قبرستان تک آئے۔

یہاں دلہا کو عزیزوں کی قبروں پر دعا مانگنے کو کہا گیا۔ 

بزرگوں کی بنائی ہوئی ہر رسم کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی۔

نئی زندگی کی شروعات پر دلہا کو اپنے عزیزوں اور بزرگوں سے دعائیں لینے کے لیے قبرستان لایا جاتا۔

فاتحہ خوانی کے بعد بارات کو واپس اپنے راستے کی طرف پلٹایا گیا۔

بارات پورے گاؤں سے ہوتی ہوئی گاؤں کے باہر والے راستے پر آگئی جہاں سے قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوئے واپس اُسے گاؤں کی حدود کے قریب لایا گیا۔

بارات کا گاؤں میں سے گزرنا بھی عجیب تھا۔ عورتیں دروازوں کی اووٹ میں سے، مرد گلی میں کھڑے ہو کر اور بچے منڈیروں اور چھتوں پر چڑھے بارات کا نظارہ بڑے وثوق سے دیکھ رہے تھے۔

چاچا شیدے کی چوپال کے باہر استقبالیہ کا بھر پور نظام بارات کا منتظر تھا۔ یہاں پہنچتے پہنچتے بارات میں جو جوش و ولولہ ختم ہو چکا تھا وہ پھر سے لوٹ آیا۔

 بڑی دیر تک چوپال  کے باہر رک کر ڈھول اور شہنایاں زور سے بجائی گئیں، لڈی ڈالنے والوں کا گھیرا بھی بڑے سے بڑا ہوتا گیا، گتگا ڈالنے والے بھی ڈھول کے ساتھ ساتھ تیزی سے گتگا ڈالنے لگے تھے، ویلوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو چکا تھا، زمین پر گرے نوٹوں میں بھی کثرت دیکھنے میں آ رہی تھی۔

بارات کے زور شور تو اپنی جگہ بجا مگر اب باری استقبالیہ کی تھی۔

فواد گھوڑی سے اُترا اور بارات سمیت استقبالیہ کے قریب بڑھنے لگا۔

 ماسٹر اللہ دتہ کی طرف سے بھی بارات کے استقبال میں کوئی کثر نہ چھوڑی گئی تھی۔ گلاب کی پتیوں کو بارات پر اس قدر نچھاور کیا گیا کہ وہ جگہ پھولوں کی پتیوں سے مکمل طور پر ڈھک کر رہ گئی۔

دلہا کے بیٹھنے کے لیے علیحدہ صوفے کا انتظام موجود تھا۔ قطاروں کی صورت میں بارات کے بیٹھنے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔

فواد کے دائیں طرف شکیل اور بائیں طرف شہریار صوفے پر براجمان تھے۔

فواد کی نظریں باہر آ کر رکتی ایک کالے رنگ کی کار پر جا کر جم گئیں۔ کار میں سے بھورے رنگ کی شلوار قمیض پر واسکٹ زیب تن کیے سر یوسف اور اُن کے ہمراہ ندیم صاحب آ رہے تھے۔

شامیانے تلے بیٹھے ہر شخض کی نظر ان مہمانوں پر تھی جو کار سے نکلنے کے بعد سیدھا فواد کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ان کی ٹھاٹھ باٹھ ہی کچھ الگ تھی۔

فواد نے جیسے ہی اُنھیں دروازے کے قریب کھڑا پایا تو فورا کالج کے ساتھیوں کو اُن کا استقبال کرنے بھیجا۔

فواد کے ساتھ کالج میں پڑھنے والے تمام لڑکے سر یوسف کو دیکھ کر حیرت سے یوں اچھلے جیسے نا جانے کوئی  بلا دیکھ لی ہو۔

اُن کا  حیرت میں پڑنا بھی فضول نہ تھا۔ کیوں کہ جہاں تک وہ جانتے تھے، سر یوسف کسی بھی تقریب میں جانے سے کتراتے تھے تو پھر یہاں کیسے۔

سر یوسف کے بیٹھنے کا علیحدہ سے انتظام کیا گیا۔ فواد نے بلاوا بھیج کر امین بخش اور ماسٹر اللہ دتہ کو خصوصی طور پر اُس شخضیت سے ملوانے کے لیے بلویا جن کی بنا پر آج وہ اس مقام پر پہنچا تھا۔

" فواد!۔۔۔ یہ سر یوسف کون ہیں اور کیوں سب اُنھیں اس قدر عقیدت سے مل رہے ہیں" شہریار نے کان میں سرگوشی کی۔

" یہ میرے اور سر ثقلین کے اُستاد ہیں" فواد نے اُسی انداز میں جواب دیا۔

مردوں کو چاچا شیدے کی چوپال میں جبکہ عورتوں کو ماسٹر اللہ دتہ کے گھر بٹھایا گیا تھا۔

امین بخش کا گھر دونوں کے درمیان میں تھا۔ بارات پہلے امین بخش کے گھر سے ہوتی ہوئی ماسٹر اللہ دتہ کے گھر کے سامنے سے گزری اور پھر تمام گاؤں کا چکر کاٹ کر دوسرے رستے سے چاچا شیدے کی چوپال پر آ کر رکی ۔

یہاں سے  عورتیں واپس امین بخش کے دروازے سے گزر کر ماسٹر اللہ دتہ کے گھر آ بیٹھیں۔

تمام مہمانوں کے آنے کا انتظار کیا گیا۔

 ماسٹر اللہ دتہ کو عورتوں کی طرف سے فکر تھی جہاں انتظامات دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔  وہ کبھی چوپال کی طرف بھاگتے تو کبھی اپنےگھر کی طرف۔

کوئی بیٹا بھی تو نہ تھا جو آج بہن کی شادی پر سہارا بنتا۔ مگر امین بخش نے پریشانی بھانپ کر شکیلے کو ساتھ مدد کے لیے بھیجا۔

عورتوں کی طرف سلمیٰ نے خوب ذمہ داری سنبھال رکھی تھی۔  دلہن کے کمرے کی طرف کسی کو بھٹکنے بھی نہ دیا۔ جب دیکھا کہ تمام مہمان آ چکے ہیں تو دلہن کو کمرے سے نکال کر ویرانڈے میں رکھے صوفے پر بٹھایا گیا۔

سرخ رنگ کے جوڑے میں سونے کے زیور سے لدی تلی وہ معصوم سی گڑیا جس کے سر پر ہاتھ رکھنے والانہ کوئی بھائی تھا،نہ ماتھا چومنے والی کوئی ماں اور نہ ہی اُس کا لہنگا سنبھالنے والی کوئی بہن۔

 صرف تھا تو ایک امین بخش جس کہ پیٹ پر سر رکھ کر وہ بچپن میں روتے روتے سو جایا کرتی تھی آج اُسی باپ کے کندھوں پر اتنا بوجھ ایک ساتھ ڈال دیا تھا۔

تمام بارات کے بیٹھتے ہی نکاح کی رسم ادا کی جانے لگی۔ حافظ سیف اللہ جن کی ڈاڑھی اس وقت مزید سفید سے سفید تر ہوتی جا رہی تھی نکاح پڑھوانے آئے۔

شکیل اور شہریار فواد کے گواہ ٹھہرے۔ حق مہر پانچ سو روپیہ مقرر کیا گیا۔

مومنہ کی طرف سے ملک امیر حمزہ اور فضل الہیٰ گواہ بنے۔ نکاح پڑھا گیا۔ مبارکابادیں وصول کی گئیں۔ حاضرین میں پتاسے بانٹے گئے۔

اب مومنہ کا نام فواد کے نام سے جڑ چکا تھا۔ گاؤں  کی سب  سے حسین لڑکی کی شادی گاؤں کے ہی سب سے خوبصورت لڑکے سے ہوئی تھی۔

گاؤں کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور خوبصورت لڑکے کی شادی گاؤں کی ہی سب سے زیادہ حسین اور پڑھی لکھی لڑکی سے ہوئی تھی۔

نکاح کی رسم کی بخیر و عافیت ادائیگی کے بعد ظہرانے سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔

 فواد خود تو شہر سے آئے چند دوستوں میں گھرا بیٹھا رہا مگر شکیل اور باقی عزیز ہر میز پر کھانے کی بروقت فراہمی اور دیگر انتظامات میں کمی بیشی نہ آنے دینے پر مقرر کیے گئے۔

کھانے کے بعد  امین بخش کی طرف سے فضل الہیٰ کے بڑے بیٹے اکبر کو دروازے کے قریب ایک کرسی رکھ کر بیٹھنے کو کہا گیا۔

 جس کا مقصد سلامی دینے والے حضرات کا نام کاپی پر نوٹ کرنا تھا۔

 یہی کام عورتوں کی طرف سلمیٰ کی سب سے بڑی اور بیاہی بھتیجی کے ذمے بھی تھا۔

سلامی لکھنے کا بنیادی مقصد سالوں بعد معلوم ہوتا ہے۔

گاؤں کے لوگ ہر خوشی غمی پر ایسی تمام باتیں نوٹ کر لیا کرتے اور پھر اُسی حساب سے اپنی باری آنے پر ایک طرز کا اُدھار اتارتے۔ جو کسی دوسری کی خوشی پر جتنی رقم دیتا اُسے اُتنی ہی رقم اُس کی خوشی پر دی جاتی۔

یہ چند اصول تھے جو گاؤں کے واسیوں نے اپنے واسطے مقرر کر رکھے تھے۔

تمام مہمانوں کے رخصت ہو جانے کے بعد فواد نے سر یوسف کوندیم صاحب، شہریار اور دیگر دوستوں کے ہمراہ چوپال کی بیٹھک میں بیٹھایا ۔

اسی دوران امین بخش اُسے ماسٹر اللہ دتہ کے گھر کی جانب چلنے کو کہنے آیا۔ فواد نے شکیلے کو ساتھ اپنے ساتھ لیا اور ماسٹر اللہ دتہ کے گھر کی طرف چل پڑا۔

اب یہاں رخصتی کی تیاری ہو رہی تھی۔ جیسے جیسے رخصتی کا وقت قریب آتا گیا مومنہ کے دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی گئی۔  وہ مسلسل سر نیچے کیے ہوئے بیٹھی رہی۔

وہ نہ چاہتی تھی کہ کوئی اُس کی رونی صورت دیکھے۔ آج وہ اُس گھر کو جس میں اُس نے تمام بچپن گزارا تھا چھوڑے جا رہی تھی۔  چاہے اُس کے سسرال والے کتنے کی اچھے اور مخلص کیوں نہ ہوں مگر تھے تو وہ سسرال والے ہی۔

کچھ دیر دلہا دلہن کو ایک ساتھ بٹھایا گیا۔ عزیز اور رشتہ داروں وغیرہ نے دلہا دلہن کو سلامی اور دعاؤں سے نوازا۔

رخصتی کی گھڑی آن پہنچی تھی۔  مومنہ کے کمرے سے ایک قرآن کریم لایا گیا بلکل وہی جو پہلے دن اُس کی ماں کے ہاتھوں میں سونپا گیا تھا۔

گاؤں والے اپنی عمر میں یہ عجیب رخصتی دیکھ رہے تھے۔ جس میں ساس ماں کا، نندیں بہنوں اور سہیلیوں کا  جبکہ سسر باپ اور تایا کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔

مومنہ کو ایک طرف سے سلمیٰ نے اور دوسری طرف سے ماسٹر اللہ دتہ نے تھام رکھا تھا۔ جبکہ بھائی کا فریضہ شکیلے نے آگے بڑھ کر انجام دیا تھا۔ شکیلا دلہن کے سر پر قرآن رکھے ساتھ ساتھ چلتا جاتا تھا۔

دلہن کو ڈولی تک لایا گیا۔ یتیم باپ کی مسکین بیٹی اپنے آبائی گھر کو چھوڑتے ہوئے ٹوٹ کر روئی کہ دیکھنے والے بھی رو دیے۔ ماسٹر اللہ دتہ نے سینے سے لگایا، ماتھے پر بوسہ دیا اور سلمیٰ نے ڈولی میں بٹھا دیا۔

پردہ گرا دیا گیا۔ ڈولی اُٹھا کر کندھوں پر رکھی گئی مگر  تین گھر چھوڑتے ہی پھر اُتار کر امین بخش کے گھر کی صحن میں رکھ دی گئی۔ فواد کھڑا مومنہ کو ڈولی سے نکلتا دیکھ رہا تھا ۔

وہ لڑکی جو کسی وقت اُس کی واحد دوست تھی اب اُس کے عقد میں آ چکی تھی۔ وہ لڑکی جس سے کسی وقت اُسے محبت ہو گئی تھی اب اوہ اُس کی بیوی تھی۔

دلہن کو ڈولی سے نکال کر اُس کے کمرے میں لایا گیا۔ آنسوؤ پونچھے گئے، تسلیاں دی گئیں، سہیلیوں نے ہنسانے کی کوشش کی اور دیگر رسموں کی ادائیگی کی تیاریاں کی گئیں۔

اس دوران فواد گھر سے نکلا واور چوپال میں بیٹھے مہمانوں کو رفتہ رفتہ رخصت کرنےل لگا۔ سر یوسف کو ہر طرح سے رات روکنے کی کوشش  کی مگر بے سود۔  البتہ ندیم صاحب کو فواد نے کسی بہانے سے روک لیا۔

 جب کہ شہریار گاؤں کو دیکھنے کے مزید شوق میں کچھ دن مزید رک گیا تھا۔

فواد گھر کو لوٹا تو اندھیرا ہونے کو قریب تھا۔ آج ایک لمبا دن اختتام کو پہنچا تھا۔ مگر اُسے اگلے دن کی نئی صبح کی فکر تھی۔ آج سے قبل اُس کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ نہ تھا جتنا آج تھا۔

ابھی سے وہ اپنے کندھوں کو ذمہ داریوں کے بوجھ سے جھکا ہوا محسوس کرنے لگا تھا۔

ذمہ داری اُٹھانا مشکل نہیں مگر پھر اُس کو اچھے سے نبھانا ایک مشکل کام ہے۔

Comments

Popular Posts