قسط نمبر: 20
اُس کی نگاہوں کے سامنے آسمان پر بادل کٹ کر بکھر رہے تھے۔ فضا کی صورت سورج کی ہلکی ہلکی روشنی میں نکھر رہی تھی۔ مغرب کی جانب اُفق پر سرخی ڈوبتے سورج کی زمین والوں پر احسان کی آخری نشانی معلوم ہو رہی تھی۔
گاؤں
میں اُس کے والد کی ملکیت میں وہ اونچا ٹیلا جس پر بیٹھ کر وہ شام میں ڈوبتا سورج
بڑے شوق سے دیکھا کرتا تھا ، آج اُسے بڑی شدت سے یاد آ رہا تھا۔
اُسے
سورج کو پہاڑوں کی اووٹ میں ڈوبتا دیکھنے کی عادت تھی۔ مگر شہر میں سورج پہاڑوں کی
بجائے فلک بوس عمارتوں کے پیچھے ہی ڈوب جا یا کرتا۔
کبھی
کبھار اُسے یہ منظر دیکھ کر یہ معلوم ہوا کہ سورج زمین پر اپنی نا قدری کا بدلہ چپ
چاپ ڈوب جانے کی صورت میں لے رہا تھا۔ ہر شام فلک پر ہلکی سی سرخی کے بعد اندھیرا
چھانے لگتا اور کوئی یہ نہ بتا سکتا کہ سورج کدھر کو گیا۔
آج
دن بھر وہ سدرہ کو لے کر پریشان رہا تھا۔ آج تک کوئی لڑکی اُسے اتنا پریشان نہ کر
پائی تھی جتنا سدرہ نے۔
تقریبا
ََ ہفتہ پہلے کیفے میں ہوئی اُن کے مابین بات چیت کے بعد اُس نے یونیورسٹی آنا
چھوڑ رکھا تھا اور فواد اسی کو لے کر قدر
پریشان تھا۔
" ہاں بھئی فواد!۔۔۔ ڈوب گیا سورج" شہریار نے چھت پرفواد
کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔
" معلوم نہیں" فواد نے شہریار کی بات پر کوئی خاطر خواہ
توجہ نہ دی۔
" یار! کن خیالوں میں گم ہے"
" کسی میں بھی تو نہیں"
" اچھا!۔۔۔ یہ تو بتا کہ پچھلی منگل کو سدرہ کے ساتھ کیفے میں
کیا کر رہا تھا" شہریار کی بات پر فواد چونکا۔
کچھ
دیر سوچنے کے بعد فواد نے ساری حقیقت سے شہریار کو مطلع کرنا بہتر سمجھا۔
فواد
کی بات سن کر شہریار نے اپنے کانوں پر یقین نہ کیا۔
" یار! سدرہ جیسی لڑکی کے پیچھے سب پاگل ہیں اور ایک تم ہو کہ
فوراََ جھٹلا دیا" شہریار نے کوسا۔
" تم جانتے نہیں کیا کہ میری شادی ہو چکی ہے۔۔ اور اپنی بیوی
سے محبت بھی کرتا ہوں۔۔۔ سدرہ کو کیسے قبول کرتا" فواد بولا۔
" مگر وہ باقی لڑکوں کو چھوڑ کر تمہارے پیچھے کیوں آئی"
" اسی بات پر تو میں بھی حیران ہوں۔۔ میں نے تو کبھی اُس سے
سیدھے منہ بات بھی نہ کی۔۔۔ پھر اُسے محبت کب ، کیوں اور کیسے ہو گئی"
" سدرہ کیا کہتی ہے کہ کب ہوئی اُسے تم سے محبت"
" جہاں تک مجھے اندازہ ہوا کہ کینٹین میں بیٹھے ہوئے اُس نے
مجھے غزل سناتا دیکھا۔۔۔ شائد تب"
" ہاں! ۔۔ یاد آیا۔۔۔ تب تم دیکھ بھی اُس کی طرف رہے تھے
نا!۔۔۔ تب ہی" شہریار نے ماتھے پر انگلی رکھ کر یاد کرنے کے انداز میں کہا۔
" نہیں یار!۔۔۔ میں اُس کی جانب کب دیکھ رہا تھا؟"
" تمہارے بلکل سامنے بیٹھی تھی۔۔۔ تمہاری تو نظریں بھی اُس
جانب تھیں اور تم تو مسکرا بھی رہے تھے اُسے دیکھ کر"
" ارے!۔۔۔ میں تو سامنے لگی دیوار پر غالبؔ اور میرؔ کی تصویر
کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا" فواد نے کچھ
دیر سوچنے کے بعد بولا۔
فواد
درست تھا۔ جس جانب سدرہ اور نورین بیٹھی تھی اُس میز کے پیچھے غالبؔ ، میرؔ اور
دیگر شعراء حضرات کی تصاویر آویزاں تھیں۔
" بھئی ! اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔۔ اب یہ سوچو کہ اُسے اپنی
محبت سے نکالو گے کیسے۔۔۔ کیوں کہ یہ آگ نہ لگائے لگے نہ بجھائے بجھے"
" سوچ رہا ہوں اُسے مکمل نظر انداز ہی کروں۔۔۔ کچھ دنوں بعد
یہ بھوت خود ہی سر سے اُتر جائے گا" اُس نے شہریار کو اپنی رائے سے مطلع کیا۔
تمام
رات وہ سدرہ کے متعلق ہی سوچتا رہا۔ اُسے
سدرہ سے گزشتہ ملاقات کے وقت اپنی غلطی پر ندامت تھی۔
" یار سدرے ! تم کہاں تھی اتنے دنوں" نورین نے دروازے سے
آتی سدرہ کو دیکھتے ہی اُس کی جانب لپکی۔
" سدرے نہیں بلکہ سدرہ!۔۔۔ اور آج سے سدرہ کہا کرنا"
" مگر کیوں؟" نورین حیران ہوئی۔
"کسی نے نام کا طعنہ دیا ہے" سدرہ نے فواد کی طرف دیکھے
بغیر کہا جس کے کانوں میں اُس کی آواز پڑ چکی تھی۔
" یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے" نورین نے سدرہ کے سر کی طرف اشارہ کیا۔
فواد
نے نظر اُٹھا کر سدرہ کی جانب دیکھا تو چونکا۔
آج
جینز کی بجائے وہ سادہ سے شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور کھلے بالوں کی بجائے سر پر
حجاب کر رکھا تھا۔
فواد
نے تو بس سدرہ کے دل سے اپنے نام کی محبت نکلانے کے لیے یہ سب بولا تھا۔ مگر وہ
نہیں جانتا تھا کہ سدرہ سچ میں اپنا لباس بدل لے گی۔
فواد
نے سدرہ کی طرف زیادہ دیکھنا مناسب نہ سمجھا۔ کسی حد تک وہ گزشتہ بات کو لے کر
شرمندہ بھی تھا۔ جو بھی ہوا مگر اُسے سدرہ کی یوں توہین نہ کرنی چاہیے تھی۔
کلاس
ختم ہونے کے بعد وہ سیدھا لائبریری چلا گیا۔
ایک کتاب شیلف سے نکالی اور علیحدہ خالی میز پر بیٹھ کر پڑھنے لگا۔
اسی
دوران اُس کے سامنے والی کرسی پر کوئی آ کر بیٹھا۔
عام طور پر وہ ایسے
صورتحال کو نظر انداز کرتا ہے مگر جب کسی نے اُس کی جانب ڈائری کا ایک ورق بڑھایا
تو کتاب سے سر اُٹھا کر سامنے بیٹھی مورت کو دیکھا۔
وہ
سدرہ تھی۔ جس کا خوبصورت چہرہ حجاب میں مزید خوبصورت اور تروتازہ معلوم ہو رہا
تھا۔ البتہ آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی
معلوم ہو ررہی تھیں۔
" مجھے یہاں چند اچھےاردو
ناول کے نام لکھ دو" فواد کے
چہرے پر بدلتے تاثرات پڑھ کر سدرہ بولی۔
فواد
نے بغیر کچھ بولے ڈائری کے ورق پر چند اچھے ناول اور اُن کے مصنفین کے نام لکھ دیے
اور پھر ڈائرئ اُسی انداز میں بڑھا کر اپنی کتاب پڑھنے لگا۔
سدرہ
نے فواد کو ایک مرتبہ لائبریری میں بولتے سنا کہ " مجھے اردو سے عشق
ہے"۔
گزشتہ
تین دن وہ فواد کو اپنی طرف مائل کرنے کے ذریعہ پر غور کرتی رہی اور سب سے پہلا اُسے یہ نظر آیا۔
اگر
فواد کو اردو سے عشق ہے تو وہ بھی فواد کی خاطر اردو پڑھے گی، سمجھے گی، بولے گی
اور سیکھے گی۔
شاید
اسی بہانے اُس کے دل پر سدرہ کو لے کر جمی میل اُتر جائے۔
یہ
خیال آتے ہی سدرہ نے وہ ڈائری سمیٹی اور لائبریری سے باہر آگئی۔ فواد اُس کے اچانک
یوں جانے پر ذرا حیران ہوا مگر پھر اپنے مطالعے میں مصروف ہو گیا۔
٭٭٭
گھر
سے آئے ہوئے اُسے تین ماہ ہونے کو تھے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں گھر سے آئے ہر خط میں
اُسے گھر چکر لگانے کی تلقین کی جاتی رہی۔
یونیورسٹی
میں اُس کی ایک ہفتہ تک کوئی کلاس نہ تھی اور اُس کے بعد بھی ایک ہفتہ چھٹیاں ہونی
تھیں۔یوں اُس کے پاس دو ہفتے گھر گزارنے کو موجود تھے۔
کل
صبح ایک کلاس لینے کے بعد اُس کا بقیہ تمام دن فارغ گزرنا تھا۔ اکیڈمی سے بھی اُس
نے چھٹیاں مانگ لی تھیں۔
اسی
واسطے اُس نے کل دن گیارہ بجے والی بس پر جانے کا سوچا۔ عموماََ وہ اسی وقت پر
جایا کرتا۔ ٹرین کا سفر آرام دہ تو ہوتا مگر ٹرین کے اوقات کار اُس کے معمول سے نہ
ملتے تھے۔
ٹیوشن
سے واپسی پر وہ بازار کی جانب چل پڑا۔یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ فواد گھر جائے اور وہ
بھی خالی ہاتھ۔
شانزے کی تو ہمیشہ سے یہ
عادت رہی تھی کہ اُس کی نظریں فواد کے ہاتھوں میں موجود اشیاء پر رہتی ۔
کچھ
اُس کے اپنے سبب بھی اب گھر والے اُس کی آمد کے ساتھ مختلف تحائف کے بھی منتظر
رہنے لگے تھے۔
ہر
بار کی طرح اس مرتبہ بھی وہ سب کی پسند اور ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چیزیں
خریدنے لگا۔ مگر اصل مسئلے کا سامنہ اُسے مومنہ کے لیے تحفہ خریدتے وقت ہوا۔
وہ مومنہ کی پسند سے بے خبر تھا۔ ایک لمحے وہ رک
کر خود سے سوال کرنے لگا کہ وہ مومنہ کی پسند سے کیسے بے خبر رہ گیا تھا۔
نصف
گھنٹہ بازار میں محض مومنہ کا تحفہ خریدنے کے واسطے وہ بھٹکتا رہا۔ آخر میں وہ
ناکام ہو کر پلٹنے کے ارادے سے گھڑی پر وقت دیکھنے لگا۔
اچانک
اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ مومنہ کے لیے گھڑی لے جانا کیسا رہے گا۔ یہ خیال آتے
ہی وہ فوراََ گھڑیوں کی دکان کی جانب مڑا۔
اپنی
گھڑی جیسے ہی ایک سیاہ رنگ کی کلائی گھڑی مومنہ کے لیے بھی خریدی۔ جس کی نفاست
مومنہ سے مناسبت رکھتی تھی۔
واپسی
پر چوڑیوں کی دکان سے گزرتے ہوئے تین سیٹ
چوڑیوں کے مومنہ، ماریہ اور شانزے کے لیے
خریدتا چلا۔
فواد
ہر ماہ کی تنخواہ میں سے ضرورت کی رقم اپنے پاس رکھ کر کچھ رقم گھر بھیجتا اور
بقیہ رقم ندیم صاحب کے پاس رکھوا جایا کرتا۔ اس مرتبہ گھر جاتے ہوئے وہ تمام جمع
شدہ رقم ندیم صاحب سے لیتا گیا۔
اُس
کا خیال تھا کہ یہ تمام رقم وہ امین بخش کو دے آئے گا تاکہ گھر کی ضرورت میں صرف
ہو جائیں۔
صبح یونیورسٹی میں اپنا تمام سامان ساتھ لیتا گیا۔
کلاس ختم ہوتے ہ ی وہ شہریار سے ملتا ہوا بس اڈے کی جانب چل پڑا۔
سدرہ
اور نورین دور کھڑے عام سی شلوار قمیض میں ملبوس فواد کو دیکھ رہی تھیں۔
آج
اُس نے کندھوں پر ایک بھاری بستہ اور سر پر ٹوپی پہن رکھی تھی۔ جس سے اندازہ لگایا
جا سکتا تھا کہ وہ گاؤں جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
فواد
نے گزشتہ خط میں گھر اپنی آمد کا بتا دیا تھا۔
صبح سے ہی اُس کے آنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔
امین
بخش نے صبح ہی ایک مرغا ذبح کیا، سلمیٰ نے صاف کیا اور مومنہ نے چولہے پر چڑھا
دیا۔
فواد کے آنے پر طرح طرح کے
پکوان بنائے جانے تھےاور ان تمام پکوان کو بنانے کی ذمہ داری بھی مومنہ کے سر تھی۔
فواد
نے خط میں یہ بتایا تھا کہ وہ شام تک پہنچے گامگر اصل وقت بتانے سے گریز کیا۔ اس
کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتا تھا کہ اُس کا والد خود بس اڈے اُسے لینے پہنچ جائے گا۔
بس
اڈے پر پہنچ کر فواد نے گاؤں جاتی سڑک پر نظر دوڑائی تو وہاں اکا دکاتانگے کھڑے
ملے۔
ہر
بار گاؤں آتے ہوئے اُسے گاؤں پہلے سے بڑھ کر حسین لگتا۔
آبادی
میں بھی روز بروز اضافہ ہونے لگا تھا۔ ہر محلے میں کریانے کی دکانیں بھی کھلنے لگی
تھیں۔ اب گاؤں کے راستوں پر سوزوکی اور ٹریکٹر وغیرہ بھی کثرت سے دیکھنے
کو ملتے تھے۔
ماسٹر
اللہ دتہ کے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے اُس کا خیال تھا کہ ماسٹر اللہ دتہ دکان
کھولے بیٹھے ہوں گے تو ملتا جائے گا۔
مگر
وہ حیران تو تب ہوا جب دکان والی جگہ چنوائی ہوئی نظر آئی۔ اُسے حیرت نے آ پکڑا
کیوں کہ مومنہ نے خط میں ایسی کسی بات کا تذکرہ بھی نہ کیا تھا۔
فواد
دروزہ کھول کر اندر داخل ہوا تو جانوروں کو چارہ ڈالتے امین بخش، گائے کا دودھ
دھوتی ہوئی سلمیٰ، کیاریوں میں پانی دیتی ہوئی ماریہ اور مومنہ کے پاس پڑھتی ہوئی
شانزے سبھی فواد کی طرف متوجہ ہو گئے۔
گھر
کے تمام افراد فواد کے گرد جمع ہو گئے۔
فرداََ فرداََ وہ سب سے ملا۔ والدین کے سینے لگا، بہنوں کو سر پر پیار دیا
اور مونہ کو نگاہوں سے سلام کیا، حاک احوال پوچھے گئے۔
" ماریہ! جا کر بھائی کے لیے پانی تو لا" سلمیٰ نے ہدایت
کی مگر اسی لمحے مومنہ گلاس میں شربت لیے آ چکی تھی۔
سفر
ہمیشہ صعوبتیں لانے کا سبب بنتا ہے مگر آج کا سفر کچھ زیادہ ہی نا خوش گوار تھا۔
گرمی کے دنوں میں بس کا تھکا دینے والا سفر اُس کے جسم کو چور چور کرنے کے لیے
کافی تھا۔
کچھ
دیر صحن میں پڑی چارپائی پر سستا کر وہ غسل خانے میں نہانے چلا گیا۔
دن بھر گرمی کے سبب پسینے
میں شرابور جسم میں نقاہت پیدا ہو چکی تھی جس پر ٹھنڈا پانی پڑتے ہی وہ پھر سے
تازہ دم ہو گیا۔
مغرب
کے بعد دستر خوان پر کھانا چنا گیا۔ ماسٹر اللہ دتہ کو امین بخش مسجد سے ہی ساتھ
لے آیا تھا۔ آج تین ماہ بعد تمام گھرانا یکجا تھا۔
فواد کے آنے پر گھر میں
ایک نئی رونق سی آ چکی تھی۔
بھائی
کی آمد پر بہنیں خوش تھیں۔ اُسےگھیرے میں لیے بیٹھی ہیں۔ کبھی فواد اور شانزے مل
کر ماریہ کو تنگ کرتے ہیں تو کبھی ماریہ اپنی بھابھی کا سہارالے کر شانزے کو ہدف
کا نشانہ بناتے ہیں۔
تمام
بڑے بیٹھے انھیں دیکھ کر ہی خوش ہو تے جا رہے ہیں/
" ماسٹر جی!۔۔ آپ نے دکان کیوں ختم کر ڈالی" فواد نے
کھانے کے دوران ماسٹر اللہ دتہ سے سوال پوچھا۔
" بیٹا! کیا کرنی تھی دکان رکھ کر۔۔ مجھ سے نہیں چلائی جاتی
یہ دکان وغیرہ"
" اچھا تھا نا کہ آپ کا دل لگا رہتا تھا"
" دل لگانے کو یہ پورا گاؤں ہے۔۔۔ سکول ہے۔۔۔ کھیت ہیں"
" اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ دکان ختم کر رہے ہیں تو میں ہرگز
ایسا کرنے نہ دیتا۔۔۔ ویسے مومنہ تم نے خط میں بتایا کیوں نہیں مجھے؟"
چاولوں
کی ٹرے سلمیٰ کی طرف بڑھاتی مومنہ نے فواد کے سوال پر اُس کی جانب دیکھا "
ابا! نے منع کیا تھا مجھے"
مومنہ
کا یہ جواب فواد کے لیے کچھ زیادہ مطمئن ثابت نہ ہوا تھا۔ مگر وہ بات پی گیا۔
" اچھا بیٹا!۔۔۔ کل ملاقات ہوتی ہے" ماسٹر اللہ دتہ نے
کھانے کے بعد رخصت چاہی۔
" ماسٹر جی!۔۔ آپ ہمارے گھر ہی رہائش کیوں نہیں اختیار کر
لیتے" فواد نے مشورہ دیا۔
" پتر! میں نے کہا تھا ماسٹر جی کو۔۔۔ کہ مکان کرایے پر دیں
یا ایسے ہی بند کر کے ادھر ہی رہا کریں۔۔
مگر ماسٹر جی ہیں کہ مانتے نہیں" امین بخش بولا۔
" اس گھر سے مومنہ اور اُس کی ماؐ کی یادیں وابستہ ہیں۔۔ میں
کیسے چھوڑ سکتا ہوں اُسے"
اکثر
دوسروں کو اپنی بات کا قائل کرنے کے لیے لوگ اپنی بات کو دہرانے کے عادی ہوتے ہیں۔
مگر
ماسٹر اللہ دتہ کے لہجے میں کوئی خاص بات ضرور تھی۔ ایک مرتبہ اُن کی زبان سے بات
نکلنے کی دیر تھی کہ پھر کوئی شخض اُن کی بات رد نہ کر سکتا۔
رات
تمام گھر کے افراد کو اُن کے تحائف تھماتے وقت فواد نے چپکے سے مومنہ کی گھڑی جیب
میں ڈالی لی تھی۔
" مومنہ ! ذرا ادھر آنا" فواد نے مومنہ کو آواز دی جو
کمرے میں پانی رکھ رہی تھی۔
" جی!"
"تمہارا ایک تحفہ رہ گیا تھا میرے پاس"
" مگر وہ چوڑیاں تو میں نے۔۔۔" مومنہ کو بات مکمل کرنے
سے قبل ہی فواد نے اُسے روک دیا۔
" اذرا اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ"
شادی
کے بعد یہ پہلا تحفہ تھا جو فواد مومنہ کو سونپ رہا تھا۔
مومنہ
نے ہاتھ آگے بڑھایا تو فواد نے گھڑی اُس کی کلائی پر باندھ دی۔ گوری کلائیوں پر
سیاہ گھڑی بڑی جچ رہی تھی۔
وہ
چاہتا تو سونے کی یا کوئی اور قیمتی شے
بھی تحفے میں دے سکتا تھا۔ مگر اُس نے مومنہ کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اُس کی پسند کو
بھی مدِ نظر رکھا تھا۔
اُسے
یاد تھا کہ جب بچپن میں گھڑیاں نئی نئی گاؤں میں متعارف ہوئی تھیں تو اُس وقت
مومنہ کلائی گھڑی پہننے کی کتنی شوقین تھی،
" کیا ہوا؟ ۔۔۔ گھڑی پسند نہیں آئی کیا؟" فواد نے مومنہ کے اُترےہوئےچہرے کو دیکھ کر
پوچھا۔
" ایسا کچھ نہیں۔۔۔ مجھے بہت پسند آئی"
" کیا ہوا مومنہ!" فواد نے مومنہ کی ٹھوڑی ذرا اوپر کی
تاکہ اُس کا چہرہ دیکھ سکے " تم رو کیوں رہی ہو" مومنہ کی آنکھوں میں
آنسوؤ تھے۔
" اپنی قسمت پر۔۔۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ کبھی میری قسمت اچھی
ہو پائے گی۔۔ مگر اب معلوم ہوا کہ میں دنیا کی بجائے جنت میں ہوں۔۔ جہاں مجھے کوئی
دکھ تکلیف نہیں" مومنہ کی آواز بھرائی ہوئی معلوم ہوئی۔
" مومنہ! جنت میں لوگ روتے نہیں" فواد نے مومنہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بغل میں
بٹھا لیا۔
"فواد!۔۔۔ مجھے ماں کی کمی تھی۔۔۔ اللہ نے ماں دی۔۔ بہن کی
کمی تھی تو بہنوں سے نوازا۔۔ رشتوں کی کمی تو رشتہ داروں سے نوازا۔۔۔ اور سب بڑھ
کر مجھے جس سے محبت تھی اُسے میرے حق میں لکھ دیا"
فواد
نے جھانک کر مومنہ کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبت تھی، وفاداری تھی، جذبات تھے،
ساتھ چلنے کے وعدے تھے اور اُن پر عمل کرنے کے راستے تھے، قدریں تھیں اور رشتے
نبھانے کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونے کی یقین دہانی۔
اگلے
روز فجر کی نماز کے بعد فواد گھر کو لوٹا تو سلمیٰ طبعیت ناساز ہونے پر کمرے میں
سوئی پڑی تھیں۔ جبکہ مومنہ نماز پڑھ کر باورچی خانے میں جا رہی تھی۔
فواد
نے باورچی خانے میں مومنہ کی معاونت کرنا چاہی۔ باورچی خانے میں اُسے ابھی تک صرف
ایک کام ڈھنک کا آتا تھا اور وہ تھی چائے بنانا۔
" ہمارے شہری بابو تو چائے بھی اچھی بنا لیتے ہیں" مومنہ
نے تیر چلایا۔
"ہم تو ہر شے ہی اچھا
بنا لیتے ہیں" فواد نے وہ تیر پکڑ لیا تھا۔
" ویسے خاوند صاحب یہ چائےبنانا کب سیکھی؟"
" ایف اے کے امتحانات میں رات دیر تک پڑھنے سے سر درد کرنے
لگتا تھا۔۔۔ اتنی راتکو چائے بنا کر دینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا" فواد نے
بتایا " تو خود کہ تجربات سےیہ وجود میں آئی" فواد نے پیالی اُٹھا کر
اشارہ کیا۔
" مگر اب رات دیر سے چائے بنانےوالا موجود ہے" مومنہ
مسکرائی۔
" اچھا آؤ تم بھی
ناشتہ کرو"
" پہلے تایا اور ابا آ جائیں تو پھر میں بھی کر لوں گی"
" وہ آج دیر سے فارغ ہو کر واپس آئیں گے۔۔۔ تم بیٹھ کر ناشتہ
کرو"
فواد
کے اصرار پر مومنہ نے اپنا ناشتہ بھی ساتھ رکھ لیا۔ گاؤں کے دستور میں روایتی بیوی
شوہر کے سامنے کھانا رکھ کر کھانے کی مجاز ہی نہ تھی۔
مگر
وہ کوئی عام بیوی تھوڑی ہی تھی۔ گاؤں کی سب سے تعلیم یافتہ اور سندر لڑکی جو ماسٹر
اللہ دتہ کی بیٹی، امین بخش کی بہو اور سب سے بڑھ کر اب تک گاؤں میں سب سے زیادہ
پڑھے لکھے شخض فواد کی بیوی تھی۔
یہ ان تینوں کے سبب ہی تو غازی پورہ گاؤں پرانے
رسم و رواج سے نکلا تھا۔ لڑکے لڑکیاں دونوں پڑھنے لگے تھے۔
کھیتی
باڑی کے علاوہ دوسرے کام کاج کو بھی فروغ
دیا جانے لگا تھا۔ پرانی اور کمزور روایات کو توڑا جانے لگا تھا۔
اس
سب کی شروعات ان تینوں نے پہلے خود سے کی تھی اور پھر رفتہ رفتہ یہ عادات تمام
گاؤں میں پھیلتی چلی گئی۔
بیٹی
کی پیدائش پر خوشی منانے والا سب سے پہلا امین بخش تھا، بیٹی کو پڑھانے والا سب سے پہلا گاؤں میں مرد ماسٹر اللہ دتہ تھا،
پڑھی لکھی لڑکی سے شادی رچانے والا
اورلڑکیوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے والا فواد تھا۔
فواد
نے باقاعدہ طور پر پنچائیت میں بیٹھ کر لڑکیوں کو ٹیوشن دینے اور اُنھیں آگے
پڑھانے کی ذمہ داری لی تھی۔
گاؤں
والے رفتہ رفتہ اُسے سکول اور ٹیوشن بھیجنے لگے تھے۔ اب گاؤں کا پرائمری سکول کچے مکان کی بجائے ایک کشادہ عمارت پر مشتمل
تھا۔ جس میں بچے ٹاٹ کی بجائے کرسیوں پر بیٹھتے تھے۔
ماسٹر
اللہ دتہ اور فواد کی کاوش کے نتیجے میں تعلیم گاؤں کے ہر گھر میں علم کا چراغ
روشن کیے جا رہی تھی۔ اس کار ِ خیر میں کچھ حصہ مومنہ نے بھی بٹایا۔
اب
یہ تعلیم کا ہی نتیجہ تھا کہ گاؤں والے تمام ماضی کی بے دم روایات کا توڑتے جا رہے
تھے۔
غازی
پورہ میں وہم و گمان کا تصور عام پایا جاتا تھا جو اب ختم ہوتا جا رہا تھا۔ اب
کوئی رات کو برگد کے پیڑ کے قریب سے گزرنے پر خوف نہ کھاتاتھا۔
جن،
بھوت اور چڑیل نامی شے سے لوگ کم ڈرنے لگے تھے۔
جعلی
عامل اب گاؤں کی حدود کے قریب سے نہ گزرتے تھے۔
مردوں
کو احساس ہوتا جا رہا تھا کہ گھر کو سنبھالنا صرف عورتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس
میں کچھ حصہ مرد کو ڈالنا بھی شامل ہے۔
" اچھا !۔۔ تو آپ دونوں یہاں اکیلے اکیلے ناشتہ کر رہے
ہیں" ماریہ نے بورچی خانے میں چپکے سے داخل ہوتے ہوئے گویا اُن کی چوری پکڑنے
کے انداز میں کہا۔
" تم بھی آ جاؤ میری بہنا!" مومنہ بولی۔
" ماریہ!۔۔۔ تم نے نماز نہیں پڑھی آج بھی" فواد نے
استفسار کیا/
" ہاں بھیا! پڑھی تو!۔۔۔ ابھی تلاوت کر کے آ رہی ہوں"
" اتنی عقل مند کب سے ہو گئی" فواد نے بھی چھیڑنے کے
انداز میں کہا۔
" آپ دونوں تنگ کر لیں مجھے" ماریہ جھلملائی۔
" اچھا بھئی!۔۔ کوئی نہ تنگ کرے میری پیاری نند کو"
مومنہ بولی۔
" اچھا تو اب نشانہ ہم ہیں" فواد نے جواب دیا۔
" اچھا چھوڑیں یہ سب۔۔ بیٹھو ماریہ!۔۔ تمہارا ناشتہ بنا
دوں"
" نہیں آپی!۔۔ آپ باقی سب کا بنائیں۔۔ اپنا ناشتہ میں خود بنا
لوں گی"
دونوں
نند بھابھی ناشتہ بنانے لگیں ۔ سلمیٰ کا ناشتہ فواد جا کر بستر میں ہی دے آیا تھا۔
" ماریہ!۔۔ آگے کیا سوچا ہے تم نے۔۔ میٹرک تو ختم ہو گیا ۔۔اب
کیا کرنا ہے" فواد نے ماریہ سے پوچھا جو ناشتہ بنا کر پیڑھی پر بیٹھ رہی تھی۔
" بھیا! میرے دل تو آگے
پڑھنے کا ہے۔۔۔۔ ابا کہہ رہے تھے کہ بھیا آئیں گے تمہارے تو بات کریں گے"
ماریہ نے جواب دیا۔
اسی
دوران امین بخش اور ماسٹر اللہ دتہ بھی آگئے۔
" بھئی کیا باتیں ہو رہیں بھائی بہن میں" ماسٹر اللہ دتہ
چارپائی پر بیٹھے۔
" کچھ نہیں ماسٹر جی!۔۔ ماریہ کی پڑھائی کے متعلق ہو رہی
تھی"
" اچھا تو کیا سوچا ماریہ کے متعلق" ماسٹر اللہ دتہ نے
پہلے بغل میں بیٹھے امین بخش کی طرف اور پھر فواد کی طرف دیکھا۔
" پتر!۔۔ تو کیا کہتا ہے"
ماریہ
بڑی دلچسپی سے فواد، ماسٹر اللہ دتہ اور امین بخش کے چہرے کی جانب دیکھ رہی تھی۔
" ابا!۔۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ماریہ اور مومنہ دونوں آگے کی
تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں" فواد نے اپنا مدعا رکھا۔
فواد
کی بار مومنہ نے حیرت سے سر اُٹھا کر دیکھا۔
" مومنہ بچے!۔۔۔ تم آگے پڑھنا چاہتی ہو"
" ہاں مومنہ پتر!۔۔ آگے پڑھنا ہے تو نے تے دن سانوں"
ماسٹر اللہ دتہ اور امین بخش دونوں نے کہا۔
" جی" مومنہ نے بس اتنا جواب دیا اور تیزی سے باورچی
خانے میں چلی گئی۔
کچھ
دیر تینوں سر سوچتے رہے پھر امین بخش بولا۔
" پتر!۔۔ تو اس طرح کر کہ شہر میں کوئی چھوٹا موٹا گھر کرایے
پر ڈھونڈ رہے" امین بخش بولا۔
" کیوں ابا!"
" تم تینوں وہاں رہ کر آگے پڑھ لینا" امین بخش کا مشورہ
کچھ زیادہ برا نہ تھا۔
"ابا! شہر میں گھر کرایے پر لینا کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔ خدا کا شکر ہے اب میری تنخواہ اتنی
ہے کہ میں ایک گھر کا بوجھ اُٹھا سکوں۔۔۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں سارا دن تو
گھر سے باہر رہا کروں گا۔۔۔ میری غیر موجودگی میں یہ دونوں پرائے شہر میں کیسے
رہیں گی"
" بات تو تیری ٹھیک ہے۔۔۔ تیرا سارا دن تو یونیورسٹی اور پھر
ٹیوشن پڑھانے میں گزر جائے گا۔۔۔ ماریہ اور مومنہ کو کالج سے لانا اور گھر کے باقی
چھوٹے کام کون دیکھے گا"
" ابا!۔۔ پھر یا تو ان کے ساتھ کوئی رہے بھی شہر میں"
" مگر پتر!۔۔۔ میں تو جا نہیں سکتا۔۔ اور اگر تیری ماں جائے
گی تو گھر کا کیا بنے کا پیچھے سے"
" ماسٹر جی!۔۔۔ آپ کیوں نہیں
چلے چلتے" فواد نے کچھ دیر بعد مشورہ دیا۔
" مگر میں کیسے!" ماسٹر اللہ دتہ بوکھلائے۔
" ہاں!۔۔ یہ ٹھیک ہے۔۔ ماسٹر جی ! تسی چلے جاؤ" امین بخش
کو فواد کی رائے پسند آئی۔
دن
تک ماسٹر اللہ دتہ پر فواد اور امین بخش کے زور دینے سے وہ راضی ہو گئے۔
ماسٹر
اللہ دتہ کو گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل تھی اور گھر میں فواد کے بعد ایک وہی تو
تھے جو شہر کے بارے میں سمجھ بوجھ رکھتے
تھے۔
شہر میں اُن کا ساتھ جا کر
رہنے سے کافی سارے مسائل حل ہو جانے تھے۔
رات
کے کھانے کے بعد تمام گھر والوں ایک بیٹھک لگی۔ مرکزی کمرے میں چٹائی پر بیٹھ
کرشہر میں رہنے کی تجویز پر غور ہو رہا تھا۔
گھر
کرایہ پر لینے کے لیے ندیم صاحب معاون ثابت ہو سکتے تھے۔ مگر سامان کے لیے طے ہوا
کہ مومنہ کے جہیز اور باقی ضرورت کا سامان یہاں سے لاد کر شہر میں مرکوزہ مکان پر
پہنچا دیا جائے گا۔
ماریہ
اور مومنہ کا داخلہ بھی فواد نے لڑکیوں کے کالج میں کروانے کا سوچ لیا تھا۔
طے
پایا کہ کل صبح فواد قصبے جا کر ندیم صاحب کو ایک تار بھجوا دے گا جبکہ اگلے روز
اُن کے پاس مکان کا انتظام کروانے چلا جائے گا۔
ادھر
فواد اور ماسٹر اللہ دتہ ندیم صاحب کی طرف نکلے اُدھر لڑکیوں نے لاہور دیکھنے کی
خوشی میں تمام گھر کو سر پر اُٹھا لیا تھا۔
شام
کو فواد اور ماسٹر اللہ دتہ شہر پہنچے۔ ہاسٹل کے کمرے میں فواد کے علاوہ دوسرا
بسترا چھٹیوں کی وجہ سے خالی تھا۔ رات یہاں گزاری۔
رات
آرام کر کے وہ ماسٹر اللہ دتہ کو لیے ندیم صاحب کے ہاں پہنچ گیا جنھوں نے فواد کے
سسر ، چچا اور اُستاد کا پرتپاک استقبال کیا۔
ندیم
صاحب کا اپنا مکان بھی اُسی گلی میں تھا جہاں اُنھوں نے اکیڈمی کھول رکھی تھی۔
اُن
کے گھر کی بالائی منزل خالی تھی جو انھوں نے فواد کو مناسب کرایہ پر دینے کا فیصلہ
کیا۔
اتنی
بہترین جگہ وہ بھی مناسب کرایہ پر ملنا اُس کے حیرت کا باعث تھا۔
شہر میں سب سے مشکل امر
اچھا ہمسایہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہاں تو ندیم صاحب کا اپنا گھر تھا ۔ وہی ندیم
صاحب جن کے ساتھ وہ پچھلے ایک سال سے کام کرتا آ رہا تھا۔
"چلیں!۔۔ میں آپ کو مکان دکھا دوں" ندیم صاحب نے ساتھ
چلنے کو کہا۔
ٹیوشن
سے نکل کر دائیں طرف جاتی گلی پر تین مکان چھوڑ کا اگلا مکان ندیم صاحب کا تھا۔
سیاہ رنگ کے کشادہ
گیٹ کی چھوٹی راہداری سے پار ہوتے ہی وہ
ندیم صاحب کے مکان میں آ چکا تھا۔
سامنے
اُن کا خوبصورت دو منزلہ مکان تھا۔ ندیم صاحب کی پیروی کرتے ہوئے وہ مرکزی دروازے
کے بائیں جانب اوپر جاتی سیڑھیوں کی جانب چل پڑا۔
یہ
لوہے کی سیڑھیاں عام سیڑھیوں کی نسبت ذرا کشادہ تھیں اور اس کے سبب سامان اوپر
پہنچانا ذرا بھی دشوار نہ تھا اور انھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ مکان بننے کے بعد
میں یہاں لگائی گئیں تھیں۔
سیڑھیاں
بالائی منزل کی بالکونی میں جا کر ختم ہوتی تھیں۔
بالکونی
میں بیٹھا شخض مرکزی دروازے سے اندر آتے کسی بھی شخض کو آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
جب کہ ذرا کھڑا ہونے پر
گلی کا خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے ہوتا۔ یہیں تھوڑا آگے ہو کر اکیڈمی کے دروازے
پر بھی نظر پڑتی تھی۔
فواد
اور ماسٹر اللہ دتہ نے یہاں کھڑے ہو کر پہلے ہمسائے کا جائزہ لینا مناسب
سمجھا۔
لاہور
جیسے پرانے شہر میں اتنی کشادہ گلی کا ہونا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔
بالکونی
کے دروازے سے وہ اندر داخل ہوئے تو ندیم صاحب کے بتلانے پر اُسے معلوم ہوا کہ یہ
حصہ ڈرائنگ روم کا ہے۔ جسے عام لفظوں میں مہمان خانہ بھی کہا جاتا ہے۔
ماسٹر
اللہ دتہ کو شہر کی روایات پر ذرا حیرت ہوئی۔
گاؤں
میں مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے عموماََ تو کوئی الگ کمرہ نہ ہوتا مگر اگر کوئی خاص
مہمان ہوتا بھی تو اُسے ایسی جگہ بٹھایا جاتا جہاں گھر والوں سے آمنا سامنا ممکن
نہ ہوتا مگر یہاں ایسا ممکن نہ تھا۔
دروازے
کے بائیں جانب باورچی خانہ تھا جسے ندیم صاحب مسلسل " کچن" پکارے جا رہے
تھے۔
اس
حصہ سے آگے بڑھو تو دائیں اور بائیں جانب دو کمرے تھے۔ دونوں ایک ہی طرز کے بنے
تھے ۔ دونوں میں کپڑے رکھنے کے لیے الماریاں اور ہوا، روشنی کے انتظام کے لیے دو
کھڑکیاں بھی تھیں۔البتہ ساتھ مکانات بن جانے پر ان کا زیادہ فائدہ نہ تھا۔
کمروں
سے آگے بڑھنے پر ایک بڑا غسل خانہ اور
ساتھ ایک بند دروازہ تھا۔
" ندیم صاحب! یہ دروازہ کیوں بند ہے"
" اس دروازے کے پیچھے سیڑھیاں ہیں جو نچلی منزل تک جاتی
ہیں" ندیم صاحب نے بتایا" در اصل فواد میاں!۔۔ یہ گھر میں نے اپنے رہنے
کے لیے بنایا تھا مگر اتنا بڑا ضرورت نہ رہا
تو کرایہ پر دینے کا سوچا اور خدا کا کرم دیکھیے کے پہلے کرایہ دار آپ ہی
ہیں"
اس
بند دروازے کے آگے ایک راہداری تھی جس کے پار ایک اور بالکونی۔ یہ حصہ پہلی
بالکونی کے عین عقبی حصہ میں واقع تھی ۔
اس
حصہ میں دیوار کے ساتھ ذرا ذرا کیاری لگائی گئی تھی۔ یہاں دھوپ بھی اچھی لگتی اور
پہلی بالکونی کی نسبت یہ قدرِ بڑی بھی تھی۔ ایک طرف کو ایک ٹونٹی لگائی گئی تھی جس
مقصد شاید گھریلو کام کاج میں آسانی لانا تھا۔
بے
شک گھر بہت ہی خوبصورت بنایا گیا تھا۔ ہر چیز سلیقے سے بنائی گئی تھی۔ البتہ مناسب
دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب دیواروں سے کوئی جگہ پر چونا اُتر چکا تھا اور صفائی
ایسی خاص نہ تھی مگر پھر بھی گھر شاندار تھا ۔ ویسے بھی فواد کو سر چھپانے کی جگہ
ہی درکار تھی اور اس سے بہتر شاید اُسے پورے شہر میں نہ ملتی۔
گھر
دیکھ کر اپنی مکمل تسلی کر لینے پر وہ واپس جانے کو پلٹے۔ سیڑھیاں اُترتے وقت فواد
کو اُن کے بغل میں ایک اور سیڑھیاں نظر آئیں۔
" ندیم صاحب!۔ یہ سیڑھیاں۔۔"
" جی!یہ سیڑھیاں چھت پر جاتی ہیں۔۔ کیا ہے نا کہ وہاں دھوپ
اچھی لگتی ہے تو بیگم اور بچیاں دھوپ لگانے چلی جاتی ہیں سردیوں میں"
ندیم
صاحب کی اولاد میں صرف دو بیٹیاں تھیں جن میں سے بڑی بیٹی خدیجہ یونیورسٹی بے اے ختم
کرنے کو تھی جبکہ چھوٹی بیٹی کرن میٹرک میں پڑھتی تھی۔
ندیم
صاحب کی بیگم بھی ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ وہ اور اُن کی بڑی بیٹی گھر کے بالائی
حصہ میں ٹیوشن پڑھایا کرتی تھیں۔
چائے
نوش کرتے ہوئے ندیم صاحب نے بتایا کہ اب سے اُن کی بیگم دروازے کے پورچ کے حصہ میں
ٹیوشن دیا کریں گی۔
" رخصت چاہتے ہیں ندیم صاحب!۔۔۔ میں آنے سے ایک روز قبل آپ کو
تار بھجوا دوں گا"
" بہتر!۔۔۔ آپ پریشان مت ہوئیے۔۔۔ میں کل ہی تمام صفائی بھی
کروا دوں گا" ندیم صاحب نے عرض کی۔
فواد
اور ماسٹر اللہ دتہ یہاں سے سیدھا بس اڈے روانہ ہوئے۔ مگر معلوم ہوا کہ وہ بس نکل
چکی ہے اور ااگلی بس شام کو روانہ ہو گئی۔
فواد
نے ماسٹر اللہ دتہ سے مشاورت کے بعد ٹرین سے جانے کا سوچا جو ایک گھنٹہ بعد روانہ
ہونی تھی۔
بس
اڈے سے ریلوے سٹیشن کا تانگہ لیا، راستے میں شہر کی سیر کی، یونیورسٹی کو دور سے
دیکھا اور نصف گھنٹے میں ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔
فواد
نے ٹکٹ گھر سے سو روپے میں دو ٹکٹ کٹوائے
اور ماسٹر اللہ دتہ کے پاس بنچ پر بیٹھ
گیا۔
" ندیم صاحب تو بڑے اچھے آدمی ہیں" ماسٹر اللہ دتہ نے
بات شروع کی۔
" جی!۔۔ ندیم صاحب واقعی بہت اچھے بندے ہیں۔۔۔ مگر ماسٹر
جی!"
" بیٹا! مجھے ماسٹر کہنا تو بند کر دو ۔۔۔ اب تو میں تمہارا
سسر بھی ہوں"
" میں نے بچپن سے آپ کو ایسے ہی پکارا۔۔ اب کیا پکارا کروں
پھر ماسٹر جی!"
" پھر ماسٹر جی" انھوں نے تیوری چڑھائی" ایسا کرو
مجھے چچا بلا لیا کرو"
" مگر"
" مگر وگر کچھ نہیں۔۔۔ اب سے چچا بلایا کرو مجھے"
" ٹھیک ہے چچا جان" فواد مسکرایا۔
ٹرین
کی گھنٹی سن کر دونوں پلیٹ فارم تک پہنچے، سوار ہوئے ، نشستیں تلاش کیں، بیٹھے اور
ٹرین چل دی۔
ذرا
ذرا اندھیرا چھانے کو تھا تو پلیٹ فارم پر اُترے، تانگہ لے کر کر گاؤں جانے والی سڑک
پر پہنچے تو وہاں آگے گاؤں جانے والا آخری تانگہ تیار کھڑا تھا۔
اُس
پر سوار ہو کر مغرب سے کچھ دیر بعد گھر کو
پہنچ گئے۔ امین بخش اُن کی اس قدر جلد آمد پر حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ خوش اس
بنا پر کہ کام جلد نپٹ گیا۔
عشائیے
کے دوران فواد اور ماسٹر اللہ دتہ نے تمام سفر کی روداد بیان کی۔ مکان کی تفصیل
بتائی اور ندیم صاحب کی ملنساری۔
ندیم
صاحب کا سن کر امین بخش کو قدرِ اطمینان بھی ہوا کہ صد شکر کسی پہچان والے آدمی کا
گھر ہے چاہے وہ پہچان فواد کی وجہ سے ہی کیوں نہ بنی ہو۔
اگلے
روز فواد کا آرام میں گزر گیا۔ مگر اس دوران بھی وہ شہر لے کر جانے والے سامان کے
متعلق سوچتا رہا۔
شام
میں ہی وہ شکیلے کے گھر چل پڑا تاکہ اُس
کی گاڑی پر سامان لوڈ کر کے شہر پہنچایا جا سکے۔
" آج تو شہری بابو ہمارے گھر آئیں ہیں" شکیلے نے دروازہ
کھولتے ہی فواد کو دیکھتے کہا۔
" کیسا ہے یار!۔۔ معذرت! گھر کے کاموں میں مصروف ہو گیا
تھا" فواد نے صحن میں ہی ایک چارپائی
پر بیٹھ گیا۔
" چل خیر ہے۔۔ ہوتا رہتا ہے" شکیلے نے کہا" امی!
باہر فواد آیا ہے۔۔ دودھ پتی تے بنا"
شکیلے
کی آواز پر اُس کی ماں فواد کو ملنے باہر نکلیں " کی حال ہے فواد پتر!۔۔۔ آج
بڑے دناں بعد آیا" خالہ شازیہ بولیں۔
" جی خالہ! بس ذرا گھر دا چکر ہی ہن لگیا"
( جی خالہ! بس گھر کا چکر ہی اب لگا)
" یار شکیلے! تیرے سے کام ہے ایک۔۔ بڑا ضروری" فواد نے
چائے کا گھونٹ پیتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بتانا شروع کیا۔
" جی حکم کرو سرکار!"
" میں نے شہر گھر کرایہ پر لیا ہے۔۔ تیری پرجھائی اور ماریہ
دونوں کی پڑھائی کے واسطے"
" واہ جی! مبارکاں"
" خیر مبارک!۔۔۔ اب وہاں سامان پہنچانا ہے "
" سامان پہنچ تو جائے گا مگر وقت بڑا لگے گا"
" وقت کی کوئی بات نہیں۔۔۔ تو یہ بتا کہ چل پائے گا"
فواد نے پوچھا۔
" ہاں کیوں نہیں!۔۔ میرا ویر حکم کرے تو جان بھی حاضر ہے یہ
تو بس سامان پہنچانا ہے"
" چل پھر کل شام کو آئیں۔۔۔ سامان لوڈ کر لیں گے" فواد
نے کہا۔
تمام
رات اور اگلا دن شہر بھیجے جاے والا سامان
علیحدہ کرتے گزر گئی۔ خواتین کی سستی کے باعث کپڑوں کے صندوق ٹھیک سے بند نہ ہوئے
تھے۔
رات
فواد نے اپنے طور پر صندوق دیکھے، تمام لے کر جانے والا سامان علیحدہ کیا اور غیر
ضروری سامان کو ایک طرف رکھ دیا۔
کچھ
چیزیں جیسے چولہا اور برتنوں وغیرہ کی کمی تھی جسے شہر سے ہی خریدنے کا پروگرام
بنایا گیا۔
تمام
رات جاگنے کے سبب وہ صبح فجر کی نماز گھر پر ہی پڑھ کر پھر سے سو گیا۔ دس بجے کے
قریب اُٹھا اور قصبے ندیم صاحب کو تار بھجوانے چلا گیا۔
ظہر
تک گھر لوٹا اور کچھ دیر سستانے کے بعد شکیلے کا انتظار کرنے لگا۔ شکیلا عصر کے
فوراََ بعد اپنی گاڑی لیے حاضر ہوا۔
اُس کے ساتھ فواد اور اُس
کے منسلکہ دو دوست بھی تھے۔ مغرب کے بعد بھی اندھیرا ہو جانے پر امین بخش اور
ماسٹر اللہ دتہ سمیت چاروں سامان گاڑی میں رکھتے رہے۔
سامان گاڑی میں رکھ لینے کے بعد شکیلا گاڑی اپنے گھر کھڑی کر
آیا تھا۔ جبکہ صبح جلدی نکلنے کا پروگرام بنایا گیا۔
امین
بخش اور ماسٹر اللہ دتہ بھی ساتھ چلنا چاہتے تھے مگر فواد نے سختی سے منع کر دیا ۔
محض شکیل اور فواد ہی شہر کو نکلے۔
رات
تین بجے کے قریب فواد گھر سے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا شکیلے کے گھر کی جانب چلا جہاں
شکیلا پہلے سے انتظار میں کھڑا تھا۔
منہ
اندھیرے دونوں نکلے۔ گاؤں کی سنسان گلیوں میں گاڑی کے پہیوں نے خوب آواز کی جبکہ
بتیوں نے دور دور تک مکانات کے چھت روشن کر دیے تھے۔
گاؤں
کے کچے راستوں سے ہوتی ہوئی گاڑی جس وقت تک سڑک پر نہ پہنچی تب تک گاؤں کی فضا میں
ایک عجیب سا شور رہا۔
فجر
کی اذان اُنھیں قصبے سے کافی آگے نکل کر سنائی دی۔ سڑک کنارے ہی کھڑے ہو کر دونوں
نے باری باری سامان کی رکھوالی سمیت نماز ادا کی اور پھر منزل کی جانب چل دیے۔ صبح
نو کے قریب وہ لاہور کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔
" چل شکیلے! آج تجھے شہر کی مشہور حلوہ پوری سے ناشتہ کرواتا
ہوں" فواد نے شکیل کو حلوہ پوری کے نام پر چونکا دیا تھا۔
" یارا فواد!۔۔ تیری مہربانی کے تو نے مجھے جیسے گنوار کو بھی
ایسی ایسی چیزیں دکھا دیں جو میں نے سوچی بھی نہیں تھیں" شہر کی رنگینی کو
دیکھتے ہوئے شکیل نے فواد سے کہا۔
وہ
پہلے فواد کے ہاسٹل پہنچے۔ شہریار موجود
نہ تھا تو فوا د نے باسط اور ثاقب کو بھی ساتھ مدد کے لیے چلنے کو کہا۔
اپنا
بستر اور بقیہ سامان بھی ہمراہ لیا۔ وارڈن کے پاس جا کر اپنا حساب مکمل کرنے کے
بعد نام خارج کروایا۔
چاروں
وہاں سے ندیم صاحب کے مکان پر پہنچے۔ فواد نے اُنھیں اکیڈمی میں اطلاع دی تو وہ
بھی اکیڈمی سے ایک نوکر لیے پہنچ گئے۔
دو
گھنٹے میں سامان گاڑی سے اُتار کر اندر رکھا جا چکا تھا۔ اصل دقت بیڈ کو
سیڑھیوں کے ذریعہ اندر پہنچاتے ہوئے محسوس
ہوئی۔
صوفے
اور لکڑی کی کرسیوں کو فواد نے دروازے کے ساتھ لگوا دیا تھا۔ ایک کمرے میں بیڈ اور
دوسرے میں دیوار کے ساتھ چار چارپائیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔
تمام
صندوق ایک کمرے میں رکھ دیے گئے تھے۔ باورچی خانے میں ضرورت کی تھوڑی بہت اشیاء
رکھ دی گئی تھیں۔ بیڈ کے اوپر ہی تمام بستر ایسے ہی پھینک دیے گئے تھے۔ گھر میں سب چیزیں موجود تو تھیں
مگر کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر نہ تھی۔
" ندیم صاحب آپ سے ایک بات کرنی تھی" فواد نے تمام سامان
اندر رکھ دینے کے بعد کہا۔
" جی حکم کریں جناب!"
" ندیم صاحب! میری بیگم اور بہن نے آگے پڑھائی کرنی ہے اسی لیے یہاں آ رہے
ہیں۔۔۔۔ آپ ذرا بتا سکتے ہیں کہ لڑکیوں کے کالج داخلہ کیسے ممکن ہو گا"
" ارے کیا بات کرہے ہیں فواد میاں!۔۔ میری بیگم بھی تو لڑکیوں
کے کالج پڑھاتی رہیں اور میں خود ابھی تک اُسی کالج میں پڑھاتا ہوں۔۔۔ داخلہ کی
کیا فکر ہے ۔۔۔ فواراََ ہی کروا دیں گے"
" یہ تو بہت بہتر ہو گیا۔۔۔ شکر ہے یہ پریشانی بھی سر سے
اُتری" فواد بے فکر ہو چکا تھا۔
ندیم
صاحب نے تمام لڑکوں کی چائے سے تواضع کرنا چاہی مگر فواد نے منع کر دیا۔ دن کے ایک
بج رہے تھے۔
اتنا
کام کرنے کے بعد فواد نے بطورِ تواضع سب احباب کو دن کا کھانا اپنی جیب سے
کھلوایا۔ کچھ شادی کی دعوت بھی رہتی تھی جو ابھی ہی مکمل کی۔
واپسی
پر باسط اور ثاقب کو ہاسٹل اُتارا، گھر کے
لیے بازار سے کچھ ضرورت کی چیزیں خریدیں، کھانے کا کچھ سامان ہمراہ لیا اور سہ پہر
تین کے قریب پھر سے چل دیے۔
مغرب
کے قریب فواد نے شکیلے سے گاڑی سڑک کنارے گاڑی روکنے کو کہا۔ یہ چھوٹا سا ہوٹل عموماََ لمبے سفر کرنے والے اور خصوصاََ
ٹرک ڈرائیور حضرات کے لیے مناسب تھا۔
ایک
مختصر سی حد بندی کے آر گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ اور پار چارپائیوں کے بیچ میز لگے
پڑے تھے۔ جن پر اکثریت حضرات لیٹے سستا رہے تھے۔
بائیں
طرف نماز ادا کرنے کی جگہ جس کے پیچھے وضو خانہ اور غسل خانہ بنایا گیا تھا۔
گاڑی
کھڑے کرتے ہی ہوٹل کی اُس چھوٹی سی مسجد میں اذان دیے جانے لگی تھی۔
فواد
اور شکیل گاڑی سے اُترے اور وضو خانے میں وضو کرنے کے بعد نماز میں مشغول ہو گئے۔
نماز
سے فارغ ہوتے ہی شکیل ترتیب سے رکھی ہوئی چارپائیوں میں سے ایک پر تھکاوٹ کے باعث
لیٹ گیا۔ اسی دوران فواد بھی نماز پڑھ کر واپس آ چکا تھا۔
" کیوں بھئی شکیلے!۔۔۔ تھک گیا ہے کیا؟"
" صبح سے گاڑی چلا رہا ہوں۔۔۔ اب بندہ تھکے بھی نہیں
کیا"
" چل تو آرام کر تھوڑی دیر۔۔ میں چائے پانی کا انتظام کرواکر
آیا" فواد نے یہ بولا اور ہوٹل انتظامیہ کی جانب چل دیا۔
کچھ
دیر بعد واپس آیا تو شکیلا آنکھیں بند کیے ابھی تک لیٹا پڑا تھا۔
نصف
گھنٹہ شکیل آرام کرتا رہا۔ اسی دوران کھانا بھی آ گیا تب فواد کو اُسے اُٹھانا
پڑا۔
" چل شکیلے!۔۔ کھانا کھا لے" فواد بولا۔
کھانا
تھا تو سادہ مگر ذائقہ لا جواب تھا اور اوپر سے چائے کی پیالی میں جوش ایسا کہ ایک
لمحے کو تو دونوں دن بھر کی تھکن بھول گئے تھے۔
دن
بھر کی تھکاوٹ کے بعد جب پیٹ میں کوئی بھی شے جائے تو اُس کا ذائقہ لاجواب ہی لگتا
ہے۔
تقریباََ
ایک گھنٹہ یہاں ٹھہرنے کے بعد اُنھوں نے اپنا سفر پھر سے شروع کیا۔
کچھ
آرام کرنے سے اور کچھ چائے پینےکے باعث اُس میں چستی آ چکی تھی۔
بقول
شکیل کہ " چائے میرے لیے پیٹرول ہے" اور یقیناََ یہ چائے کا ہی کمال تھا
کہ اب وہ تازہ دم ہو کر گاڑی چلا رہا تھا۔
رات
بارہ کے قریب وہ گاؤں پہنچ چکے تھے۔ گاؤں میں داخل ہوتے وقت اُنھیں تمام گھر بار
آسانی نظر آ رہے تھے۔
تمام گلیاں رات کے اس پہر
ویران اور سنسان ہو چکی تھیں۔ مگر اب بھی کچھ گھروں میں سے روشنی نظر آ رہی تھی۔
بچپن
میں جب کبھی ایسی صورتحال سے واسطہ پڑتا تو اُسے یہی بتایا جاتا کہ جس گھروں سے
روشنی نظر آ رہی ہے یا تو وہاںکوئی مجبوری ہے اور یا وہاں کے رہائشی عبادت و ریاضت
کی تیاری میں مصروف ہیں۔
مگر
آج دور کچھ اور تھا۔ آج ان گھرانوں سے
روشنی نظر آنے کا سبب ہفتے کی وہ رات تھی جس میں ٹی وی پر فلم چلائی جاتی تھی۔
شکیل
کے گھر گاڑی کھڑی کرنے کے بعد جب وہ اپنے گھر کو لوٹ رہا تھا تو اپنے چچا فضل
الہیٰ کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے اُسے اندر چلتے ٹی وی پر اونچے اونچے گانوں کی
آواز آسانی سے سنائی دے رہی تھی۔
ذرا
حیرت سے اُس نے چچا کے دروازے پر نظر ڈالی اور آگے چل دیا۔
ساڑھے
بارہ کے قریب دروازے پر دستک سن کر امین بخش اور سلمیٰ دونوں نیند سے بیدار ہو چکے
تھے۔ اس وقت سوائے فواد کے اور کسی کے آنے کی توقع نہ کی جا سکتی تھی۔
امین
بخش نے لالٹین اُٹھائی اور سلمیٰ نے پلو میں ایک کلہاڑی کا دستہ احتیاط کے طور پر۔
" اس ویلے کون ہے" امین بخش نے دروازے کے اندر سے ہی
کھولے بغیر آواز لگائی۔
" ابا جی! میں فواد" فواد کی آواز امین بخش اور سلمیٰ کی
سماعتوں میں پڑ چکی تھی۔
دروازہ
کھولا گیا تو باہر فواد ہی تھا۔ جس کے چہرے کے تاثرات شدید تھکاوٹ کا پتا بتا رہے
تھے۔ فواد گھر کے اندر پہنچا تو بقیہ تمام گھرانا سویا پڑا تھا۔
" پتر ! روٹی لاؤں تیرے لیے" سلمیٰ نے پوچھا۔
" نہیں امی!۔۔ بس چائے کی ایک پیالی"
فواد
کپڑے بدل کر واپس آیا تو چائے بھی تیار تھی۔ فواد نے چائے کی چسکی لی اور سونے کی
خاطر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
بغیر
کوئی آواز کیے وہ بستر پر لیٹ گیا۔ تھکاوٹ کے باعث نیند نے اُسے ایسے آن گھیرا
جیسے تالاب میں گرداب کسی بیرونی شے کو۔ جس کا نکلنا، بچنا، بچانا آسان نہیں رہتا۔
Comments
Post a Comment