قسط نمبر: 21
انسان کی زندگی پر جمود طاری ہونا اُس کی موت سمجھے جانے کے مترادف ہے۔ یہ زندگی مسلسل بہاؤ کا نام ہے اور بہاؤ بھی کسی ندی کا، جس کا پانی رکنے پر بدوبو دار اور زہریلا مانا جاتا ہے۔ جمود موت ہے اور حرکت زندگی۔
خدا
کی اس وسیع و عریض کائنات میں موجود ہر شے کسی نے کسی صورت میں ، کسی نہ کسی طور
پر حرکت کے ضمرے میں آتی ہے۔ ہر شے اپنے وجود کو بر قرار اور مزید مستحکم کرنے کے واسطے اپنی جگہ چھوڑ کر
آگے بڑھنے کی کوشش میں مگن ہے۔
پر
شے وقت کے سانچے میں اپنے وجود کو ڈھالنے میں لگی ہے۔چاہے وہ چرند پرند ہوں یا پھر
حیوان انسان۔
برادری
میں خبر پھیلی کہ فواد شہر میں رہائش اختیار کر رہا ہے تو متعدد سوالوں نے بھی جنم
لینا شروع کر دیا۔
سوال
بذاتِ خود تو بری شے نہ ہیں مگر ان کو کرنے کا طریقہ، سلیقہ اور وقت۔ مگر جب یہی
سوال اعتراض کا وجود ڈھال لیں تو پہلے سازشیں اور پھر رنجشیں وغیرہ وجود میں لینے
لگتی ہیں۔
فواد
یونیورسٹی سے دو ہفتوں کی چھٹیوں پر گھر واپس تو آیا تھا مگر محض چار دن ہی باقی
بچے تھے اور یہ چھٹیاں بھی تو سف میں کٹی تھیں۔
کل
صبح فواد، ماریہ، مومنہ اور ماسٹر اللہ دتہ نے شہر روازنہ ہونا تھا۔ امین بخش نے
تمام برادری کی دعوت کی جس کے اختتام پر دعائے خیر کی گئی۔
برادری
کے متعدد افراد اور خصوصاََ فضل الہیٰ اور اُس کی بیوی نے لڑکیوں کے آگے پڑھنے پر
اعتراض کیا۔ مگر اُن کی بات پر کون کان دھرنے والا تھا۔
" ہائے ہائے!۔۔ امین بخش کو تو دیکھو۔۔۔ بیٹیوں کو شہر پڑھانے
چلا ہے"
" یہ کیسا غیرت والا مرد ہے فواد ۔۔۔ جو بیوی کو گھر بٹھانے
کی بجائے شہر میں پڑھائے گا"
ایسی
کئی باتیں گاؤں میں اُن کی پیٹھ پیچھے کی گئی تھیں۔ مگر در حقیقت فواد اپنے اس عمل
سے گاؤں میں ایسی داغ بیل ڈالنے جا رہا تھا جس سے گاؤں کی تاریخ ہی بدلنے والی
تھی۔
فواد
کی دیکھا دیکھی اب کئی سمجھدار گھرانوں نے بیٹیوں کو پڑھانا شروع کر دیا تھا۔
اب
گاؤں کی لڑکیوں کی تعلیم محض قرآن مجید پڑھنے اور گھریلو کام کاج سیکھنا نہ تھا۔
بلکہ اب وہ بھی لڑکوں کے ہمراہ سکول جانے لگی تھیں۔
لڑکیوں
کا مڈل اور پھر میٹرک پاس کرنے میں کچھ ہاتھ مومنہ کا بھی تھا۔ جو ہر شام ٹیوشن
میں ایسی لڑکیوں پر خوب محنت کرتی تھی جس پڑھائی کی جانب ذرا سی بھی سنجیدگی دکھاتی تھیں۔
رات
بھر سوائے ماسٹر اللہ دتہ کے کوئی بھی سو نہ سکا۔
ماریہ تو پہلی بار والدین
سے جدا ہونے والی تھی، مومنہ غازی پورہ سے باہر پہلے بار نکلنے والی تھی جبکہ فواد
اگلے سفر کے متعلق خائف کی بنا پر۔
فواد
کو لاہور جیسے بڑے شہر کے متعلق ا گزشتہ ایک سال میں اب کافی سمجھ بوجھ ہو چکی تھی
مگر پھر بھی وہ خود کو اتنا اہل نہ سمجھتا
تھا کہ ایک گھرانہ چلا سکے۔
ہمیشہ
سے وہ زندگی میں راستوں کی ٹھیک پہچان کرنے میں ناکام ہوتا آیا تھا۔ ایسے میں سر
یوسف کا ایک قول اُسے شدت سے یاد آتا۔
" بیٹا!۔۔ کبھی راستوں کے پیچھے بھاگ کر زندگی تلاش مت
کرنا۔۔۔ بلکہ زندگی جیو۔۔۔ راستے خود بخود ملتے چلے جائیں گے" کالج کی
لائبریری میں بیٹھے ہوئے سر یوسف کا یہ جملہ اُسے اب بھی اپنے کانوں میں سنائی
دیتا تھا۔
فواد
نے اپنے سامنے ایک ہدف مقرر کر رکھا تھا اور وہ گاؤں غریب زندگی سے نکل کر شہر کی
با عزت اور معاشی طور پر اچھی زندگی گزارنا۔
بچپن
سے ہی وہ کبھی اشیاء کی قلت تو کبھی معاشی طور پو تنگ دست ہونے کا سنتا آیا تھا۔
مگر اب وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کی آگے کی زندگی ایسی ہو۔
اُس
نے ہدف مقرر کر دیا تھا۔ منزل چن لی تھی۔ اب قسمت اُسے خود راستوں پر چلائے جا رہی
تھی۔
اُس
کا یہ خواب کہ گاؤں سے نکل کر شہر میں آباد ہونا اب سچ ثابت ہو رہا تھا۔ یہ پہلی سیڑھی تھی جو فواد کو اُس کے ہدف کے
قریب کرنے والی تھی۔
مگر
اب بھی بہت کچھ باقی تھا جس کو مکمل کرنے کی ضرورت تھی۔
تمام رات گھر میں کوئی سو
نہ سکا ۔ سب مرکزی کمرے میں ہی موجود تھے مگر پھر بھی کمرے میں مکمل سکوت تھا۔
رات
کے پچھلے پہر امین بخش کی ڈانٹ پر سب بستروں میں
جا لیٹے مگر صرف فواد ہی سو سکا۔ امین بخش اور سلمیٰ تو دونوں بیٹیوں کے
رخصت ہونے پر، جبکہ شانزے کل بہنوں اور بھیا کے دور ہو جانے پر افسردگی کی بنا پر
سو نہ سکی۔
فجر
کے وقت جب سلمیٰ نے سب کو جگانے کے لیے آواز دی تو سوائے فواد کے سب جاگے پڑے تھے۔
جب
سے شانزے کو معلوم ہوا تھا کہ اب مومنہ اور ماریہ باجی دونوں بھیا کے ساتھ شہر
رہنے جا رہی ہیں تب سے وہ افسردہ بھی تھی مگر گھر کے کاموں پر بھی دھیان دینے لگی
تھی۔
آج
سلمیٰ نے شانزے کی معاونت سے ہی ناشتہ بنایا تھا۔ مومنہ اور ماریہ کو باورچی خانے
سے دور رہنے کی تاکید کی گئی تھی۔
" یہ تم دونوں سوگ بعد میں منانا پہلے جا کر تیار ہو جاؤ۔۔
وقت نہیں ہمارے پاس" فواد نے مومنہ اور ماریہ کو تاکید کی جو صحن میں ایک
ساتھ چارپائی منہ لٹکائے بیٹھی ہوئی تھیں۔
بد
دل نخواستہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں تیار ہونے کے واسطے چلی تو گئیں مگر در اصل
دل اندر سے بجھ رہا تھا۔
ماریہ نے اس کیفیت کا فواد
سے تزکرہ کیا تو وہ بولا" یہ بس کچھ دیر تمہیں برا لگے گا مگر پھر سب بہتر
ہونے لگے گا"
فواد
کی تسلی اُس پر کسی حد تک کار گر تو ثابت ہوئی مگر پھر کچھ دیر بعد ہی اُس کا جی
شہر جانے سےکترانے لگا۔
بار
بار یہ خیال اُس کی جی میں آتا کہ بھائی کسی
وجہ سے آج شہر جانے سے انکار کر دے یا پھرکم از کم وہ اُسے اپنے ساتھ لے کر نہ جائے۔
تمام
گھر والوں نے ایک ساتھ ناشتہ کیا۔ مگر ناشتہ کرنے کے دوران کوئی بھی بول نہ رہا
تھا۔ بس کبھی کبھی امین بخش فواد کو قصبے
کے حاجی رحیم کی طرف تار بھجوا کر اپنے پہنچنے کی خبر سے مطلع ہونے کی
تلقین کرتا تو کبھی سلمیٰ ماریہ اور مومنہ کو کھانا ٹھیک سے کھانے کی ہدایت کر دیا
کرتی۔
اس
کے بعد پھر سے وہی خاموشی، وہی سکوت، وہی اداسی چھا جاتی۔
ناشتہ کرنے کے بعد بقیہ
تیاری مکمل کی گئی۔
فواد
ٹرین کے ذریعہ سے جانا چاہتا تھا۔ کل شام ہی فواد نے شکیلے کو اپنی گاڑی وقت پر
لانے کی ہدایت بھی کر دی تھی۔
فواد
کی گزشتہ تین ماہ کی جمع پونجی ایک بار ہی صرف ہو رہی تھی۔ مگر پھر بھی اُس کے پاس
اچھی خاصی رقم موجود تھی۔ کچھ رقم امین بخش نے چلتے چلتے بھی تھما دی تھی۔
مقررہ
وقت پر شکیل گاڑی لیے دروازے پر کھڑا تھا۔ فواد نے اندر سے دو اٹیچی اُٹھا کر گاڑی
میں رکھے۔
محلے
کے اکثر مرد گلی کے نکڑ پر کھڑے جبکہ
خواتین دروازوں کے دروں سے جھانک رہی تھیں۔
گھر
کے تمام افراد گاڑی میں بیٹھے۔ امین بخش نے دروازے کو تالا لگایا۔
یہ دوسری بار تھا کہ محلے
والے امین بخش کے دروازے پر کواڑ دیکھ رہے تھے۔
شکیلے
نے نصف گھنٹے میں ہی گاڑی کو سٹیشن پہنچادیا۔
سٹیشن
میں داخل ہوتے ہوئے فواد کو ایک سال قبل کا وہ دن یاد آیا جب وہ اسی سٹیشن سے شہر
جانے والی ٹرین پر سوار ہوتے ہوئے بے حد اُداس اور غمگین تھا۔ آج بلکل وہی کیفیت
اُس کر علاوہ باقی سب پر طاری ہونے کو تھی۔
فواد
نے سو روپیہ خرچہ اور چار ٹکٹ کٹوا کر لوٹا تو تمام افراد ایک بینچ کے گرد جمع
تھے۔
ماریہ
کا چہرہ تو بلکل ہی اُتر چکا تھا جبکہ
مومنہ نے کچھ حد تک اپنے جزبات چھپا رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔
ٹرین
پلیٹ فارم میں داخل ہوتے ہی ہجوم کو سیٹی کی آواز میں اپنی طرف متوجہ کرنے لگی۔ یہ
جدائی کا وہ وقت ہوتا ہے جب رخصت کرنے
والوں کی آنکھیں جبکہ رخصت ہونے والوں کے دل رو رہے ہوتے ہیں۔
والدین
سے دور ہونے کا وقت قریب پا کر ماریہ امین بخش سے لپٹ کر رودی۔ فواد نے ماریہ کو
تسلی دینے کا ارادہ کیا تو اسی لمحے مومنہ بھی سلمیٰ سے لپٹ کر رونے لگی۔
وہ
کھڑا دیکھنے لگا کہ پہلے کس کو کس سے جدا کرے۔ اُسے سال قبل کا اپنا وہ وقت بھی
یاس آنے لگا جب اسی وقت، اسی جگہ اور ایسی ہی صورتحال میں ایسی ہی کیفیت اُس پر
طاری تھی۔
وہ
آگے بڑھااور شانزے کو گلے لگایا ، اُس کا ماتھا چوما، اور ماسٹر اللہ دتہ کو مومنہ کی طرف دیکھ کر اشارہ
کیا پھر سلمیٰ کو ماریہ کی طرف دیکھ کر۔
ماسٹر
اللہ دتہ نے آگے بڑھ کر مومنہ کے سر پر ہاتھ پھیڑ کر جدا کیا، فواد آگے بڑھ کا ماں
سے ملا پھر سلمیٰ ماریہ کی جانب متوجہ
ہوئی۔
ماریہ
مسلسل روئے جا رہی تھی۔ سلمیٰ نے ماریہ کو سینے سے لگایا، سر پر پیار دیا اور
بھائی کے ساتھ جانے کی تسلی دی۔
ٹرین
کی پہلی سیٹی بجتے ہی فواد نے مومنہ اور ماریہ کو چلنے کا کہا۔ ماسٹر اللہ دتہ اس
وقت تک اٹیچی کیس ٹرین کے ڈبے میں رکھ چکے
تھے۔
ماسٹر
اللہ دتہ کے بعد مومنہ ٹرین پر چڑھی، پھر
ماریہ کو فواد نے چلنے کا کہا اور سب سے آخر میں امین بخش اور سلمیٰ سے ہدایات
لیتا، رونی صورت لیے بھائی اور بہنوں کو ہاتھ ہلاتی شانزے کی طرف دیکھتا وہ بھی
ڈبےمیں سوار ہو گیا۔
دوسری
سیٹی بجنے کے ساتھ ہی ٹرین کے انجن نے پٹریوں پر اپنا وجود گھسیٹا۔ رفتہ رفتہ اُن
کا وجود آگے اور بقیہ دنیا پیچھے رہنے لگی۔
ٹرین کے آگے بڑھنے کے ساتھ
ساتھ وہ پلیٹ فارم کی حدود سے نکلنے لگی۔ چند لمحوں بعد ٹرین اپنی مقررہ رفتار میں
آ چکی تھی۔
فواد
نے ڈبے میں نشستیں تلاش کیں، ماسٹر اللہ
دتہ نے سامان اُٹھاکر پاؤں میں رکھا۔
" ماریہ! میری بہنا۔۔ رونے کی ضرورت نہیں ۔۔ دیکھو میں بھی تو
ہوں گا شہر میں۔۔ تمہاری بہن جیسی بھابھی بھی ہوں گی اور چچا بھی" فواد نے
ماریہ کے سر پر پیار دیتے ہوئے تسلی دی پھر کھڑکی کی طرف اُسے بٹھا کر جی بہلانا
چاہا۔
بلکل
ایسا ہی اُس نے سامنے والی نشست پر مومنہ کو بٹھا کر کیا۔
فواد
اُنھیں پٹری کے ساتھ ساتھ آتے ہر شہر اور
گاؤں کا نام بتاتا جاتا تھا۔ راستے میں آنے والا ہر بڑا شہر ، جس کے متعلق وہ بچپن
سے سنتی آئی تھیں ، بڑے شوق سے دیکھتیں۔
ذرا
ہی دیر میں اُن کا جی بہل چکا تھا۔ اب وہ دونوں کھڑکی سے باہر کا خوبصورت منظر
اپنی آنکھوں میں قید کیے جا رہی تھیں۔
ٹرین
اپنی تیز رفتاری کے سبب ہر شے پیچھے
چھوڑتی جا رہی تھی۔ اُس کے لیے بڑی سڑکوں پر چلنے والی عمدہ کاریں اور کچے ٹوٹے
پھوٹے رستے پر سر پٹ دوڑنے والا تانگہ ایک جیسا تھا۔
اُسے
نہ ہی کسی ویران بستی کے کچے مکانوں یا گنجان آباد شہروں کےعالیشان بنگلات سے کوئی سروکار تھا۔
کچھ
سٹیشن پر ٹرین رکتی تو تھالوں میں مختلف اشیاء سجائے لوگ ڈبوں میں سواریوں کے آگے
سامان بیچنا شروع کر دیتے۔
ایسے
کسی تھا ل میں عجیب و غریب کھانے کی ایک شے سجی دیکھ کر ماریہ اُس جانب متوجہ ہوئی
تو فواد بولا" ماریہ اسے شہر میں برگر کہتے ہیں۔۔۔ یہاں تو اچھا نہیں ہو گا
مگر شہر پہنچ کر تمہیں کھلا دوں گا"
مومنہ
اور ماریہ کا دل اب تک مکمل طور پر بہل چکا تھا۔
جو بیت گیا اُس پر رونے کی بجائے اب آگے آنے والی زندگی کو ہنسی خوشی بسر
کرنے کا وقت تھا۔
اب
اُنھیں گاؤں کی یاد کی بجائے لاہور شہر دیکھنے کی جلدی تھی۔
البتہ
سفر لمبا اور تھکا دینے والا تھا مگر چونکہ ماریہ اور مومنہ کا یہ پہلی مرتبہ غازی
پورہ سے باہر اور وہ بھی ٹرین کا سفر تھا تو وہ دونوں اب ہنسی خوشی اپنا سفر گزار
رہی تھیں۔
ماسٹر
اللہ دتہ خاموش بیٹھے تینوں کے چہرے پر بدلتے تاثرات ملاحظہ کر رہے تھے۔
وہ
خوش تھے کہ کس قدر جلد فواد نے ان دونوں کے اُداس چہروں پر مسکراہٹ لا دی ہے۔ وہ
کبھی اُن کی باتوں میں شریک ہوتے اور کبھی اُ ن کی ہنسی میں ۔
فواد
اور مومنہ کے چہروں کو دیکھ کر وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتے کہ اُن کی
بیٹی کو کس قدر اچھا شوہر ملا ہے۔
اڑھائی
بجے کے قریب ٹرین شہر میں داخل ہو گئی تھی۔ وہی شہر جہاں فواد گزشتہ ایک برس کے
دوران مقیم رہا آیا تھا۔
مومنہ
اور ماریہ دونوں بڑی دلچسپی سے لاہور کی
سر بفلک عمارتیں، آبادیاں، مکانات وغیرہ دیکھنے میں مگن تھیں کہ فواد نے اُنھیں
یہاں سے اُٹھ کر ڈبے کے دروازے تک جانے کو کہا۔
" تھوڑی دیر میں سٹیشن آنے والا ہے۔۔ ہمیں اب دروازے کے قریب
کھڑے ہو جانا چاہیے" فواد کے کہنے پر ماسٹر اللہ دتہ سامان اُٹھا چکے تھے۔
ٹرین
سٹیشن کی حدود میں داخل ہوئی تو مومنہ اور ماریہ دونوں کی آنکھیں اتنابڑا سٹیشن
دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
" قصبے والا سٹیشن تو اس کے مقابل کچھ نہیں" مومنہ لاہور ریلوے سٹیشن دیکھ کر بولی۔
ٹرین
رکی تو لوگوں کا ایک ہجوم ٹرین پر چڑھنے کی طرف دوڑا۔
فواد یہ دیکھ کر فوراََ
پہلے اُترا اور ماریہ کا ہاتھ تھام کر اُتارا۔ اُسے پاس کھڑے رہنے کی ہدایت دے کر
ہاتھ مومنہ کی طرف بڑھا کر اُسے اُترنے کا اشارہ کیا ۔
مومنہ
فواد کا ہاتھ پکڑے اُترنے ہی لگی تھی کہ پاؤں پھسلنے پر ڈگمگائی مگر فواد نے
سنبھال لیا تھا۔
مومنہ
کے اُترتے ہی ماسٹر اللہ دتہ بھی سامان سمیت اُتر آئے۔ اسی دوران فواد مومنہ اور
ماریہ کا ہاتھ تھامے اُنھیں ہجوم سے پڑے لے جا چکا تھا۔
سٹیشن
سے باہر نکلتے ہی رکشے اور تانگے والوں کا ایک رش اُن کی جانب بڑھا۔ فواد ایک
تانگے والے کی جانب مڑا اور ماسٹر اللہ دتہ سے سامان لے کر اُس میں لادا۔ پتہ
بتایا اور چلنے کا بولا۔
تمام
رستے مومنہ اور ماریہ لاہور کی شاندار سڑکیں ، عمدہ گاڑیاں، خوبصورت سر بفلک
عمارتیں، پارک، بڑے بازار وغیرہ دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔
جو شہر اُنھوں نے ٹی وی
میں دیکھے تھے یہ تو اُن سب سے کئی گنا بڑا اور جدا تھا۔ اس دوران فواد اُنھیں
مختلف جگہوں کے نام بھی بتاتا رہا جو اُنھیں بعد میں یاد نہ رہے۔
بچپن
سے وہ جس لاہور کو سنتی آ رہی تھیں آج وہ اُس کی سڑکوں پر گھوم رہی تھیں۔
اب
تانگہ سڑک چھوڑ کر ایک گلی میں داخل ہو چکا تھا۔ ایک گلی سے ہوتا ہوا نکڑ پر جا کر
دوسری گلی میں چلا گیا۔
یہ
گلیاں بھی کتنی عجیب سی تھیں اور ان کے اطراف میں مکانات بھی۔ اتنے خوبصورت بنگلے
اور مکان وہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ
رہی تھیں۔
گلیاں بھی پختہ ، صاف اور
کشادہ تھیں۔
دوسری
گلی میں دائیں جانب ایک بڑے بورڈ کی طرف اشارہ کے کے فواد نے بتایا " یہ وہ
اکیڈمی ہے جہاں میں پڑھاتا ہوں" فواد کے اشارہ پر مومنہ اور ماریہ دونوں نے
سر اُٹھ ا کر دیکھا جس کا دروازہ اتوار ہونے کے باعث بند تھا۔
یہاں
سے تھوڑا آگے جا کر تانگہ ایک دو منزلہ خوبصورت مکان کے سامنے رک گیا۔یہ مکان گلی
کے بائیں جانب تھا۔
پہلے
فواد اُترا پھر مومنہ اور ماسٹر اللہ دتہ۔
" بھیا!" ماریہ نے فواد کو آواز دی۔
"لو ہاتھ دو" فواد نے ماریہ کو تانگے سے اُترنے میں مدد
کی۔
تانگے
والے کو کرایہ دیا، سامان اُتارا اور دروازے پر دستک دینے چلا گیا۔
کچھ
دیر بعد دروازہ کھلا اور ندیم صاحب باہر تشریف لائے۔
" آئیے آئیے فواد صاحب!" ندیم صاحب گرم جوشی سے بغل گیر
ہوئے۔
" کیسے ہیں ندیم صاحب!"
" اللہ کا شکر ہے!۔۔ آپ بتائیں ۔۔ سفر ٹھیک گزرا۔۔ اچھا اندر
تو چلیے" ندیم صاحب نے رستہ چھوڑا " ارے خدیجہ کی ماں۔۔ ذرا باہر تو
آئیے۔۔۔ دیکھیں تو کون آیا" ندیم صاحب نے اپنی بیگم ناہیدکو آواز دی۔
" ندیم صاحب! تعارف کرواتا چلوں۔۔۔ یہ میری بیگم ہیں مومنہ۔۔
یہ میری پیاری سی بہن ۔۔ اور چچا سے تو آپ مل چکے ہیں"
ندیم
صاحب کی بیگم سمیت اُن کی دونوں بیٹیاں بھی باہر تشریف لے آئیں۔
مومنہ
کو مکان دیکھنے کا بے شوق تھا۔ فواد نے سیڑھیوں کی جانب اشارہ کر کے اوپر جانے کا
راستہ بتایا۔ مومنہ اور ماریہ دونوں اُس جانب تیزی سے بڑھیں۔
فواد
اور ماسٹر اللہ دتہ اُن کے پیچھے پیچھے سامان تھامے چلے آ رہے تھے۔
" شہر میں ایسے ہی گھر ہوتے ہیں۔۔ اب گاؤں بھول جاؤ"
ماریہ اور مومنہ کے مکان تنگ ہونے کے اعتراض پر فواد نے جواب دیا۔
لمبے
سفر کی وجہ سے تھکاوٹ سبھی کو تھی۔ مگر آرام کرنے کی مناسب جگہ نظر نہ آرہی تھی۔
جس کو جہاں جگہ ملی لیٹ گیا۔ کوئی صوفے پر، کوئی چارپائی پر، کوئی کرسیوں پر اور
کوئی نیچے زمین پر چادر بچھا کر۔
گھنٹہ
بھر آرام کرنے کے بعد مکان کو گھر میں بدلنے کی ٹھانی گئی۔
لڑکیوں
نے کمر باندھ کر جھاڑو اُٹھایا اور گھر کی صفائی شروع کر دی۔ پہلے ایک کمرے میں
جھاڑو لگائی گئی، پھر ہمسائیوں سے پونچھا مانگ کر لگایا گیا۔
چچا
بھتیجے نے صاف کمرے میں بیڈ لگائے، چارپائی بچھائی، بستروں سے دھول صاف کر کے
اُنھیں بچھایا۔
پھر
باہر نکلے اور صوفوں کو اُن کی جگہ پر رکھا، کرسیوں کو تریب دی۔ جب ہر لحاظ سے
مطمئن ہو گئے کہ اب کام ہمارے ذمہ کا نہیں رہا تو فواد نے بازار سے سودا سلف اور
باورچی خانے کا بقیہ سامان لانے کی سوچی۔
ایک
جانب فواد بازار کو گیا دوسری جانب لڑکیاں ابھی تک صفائی میں لگی تھیں۔ گھنٹہ بھر
میں اُنھوں نے تمام گھر کو چمکا کر رکھ دیا تھا۔
صفائی
کے بعد کا کام سامان کو سمیٹنا تھا، اب صندوق کھلے اور اُن میں سے سامان نکل نکل
کر الماریوں میں جانے لگا۔ماسٹر اللہ دتہ نے تمام سامان فواد کی ہدایات کے مطابق
الماریوں میں رکھوایا۔
بائیں
طرف والے کمرے میں دو بیڈ اور ایک طرف کو ایک چارپائی بچھا دی گئی۔ جبکہ دوسرے
کمرے میں ایک چارپائی بچھا کر ایک طرف کو
خالی صندوق رکھ دیے گئے۔
یہ کمرہ ماسٹر اللہ دتہ نے
اپنے واسطے چنا تھا۔
بقیہ
دو چارپائیوں کو عقبی بالکونی میں رکھ دیا گیا۔ تاکہ عام دنوں میں کھلے آسمان تلے
بیٹھا جائے۔
اب
یہ محض ایک مکان نہیں بلکہ گھر لگ رہا تھا۔ جس میں سامان کی بجائے اب مکین آ کر
آباد ہو چکے تھے۔
تمام
کام نپٹا کر مومنہ نے باورچی خانی کی جانب رخ کیا۔ تمام برتن سلیقے سے لگائے، خشک
مصالحے نکال نکال کر رکھے۔ مگر کچھ مسائل نظر آنے لگے تھے۔
جیسے
پانی کہاں سے پیا جائے گا، چولہے کے لیے انگیٹھی کہاں ہے، لکڑیاں کدھر کو رکھی
جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔
فواد
کے آنے کا انتظار کیا جانے لگا۔ اُسے گئے ڈیڑھ گھنٹے سے قریب وقت ہو چکا تھا۔ مغرب
کی اذان سنائی دیتے ہی سب نے باری باری باہر لگی پانی کی ٹونٹی سے وضو کیا۔
نماز
پڑھی اور پھر بیٹھے فواد کا انتظار کرنے لگے۔ ماریہ بار بار بالکونی تک جاتی اور
پھر پلٹ آتی۔ اندھیرا چھا چکا تھا۔ تینوں بیٹھے انتظار میں تھے کہ سیڑھیوں سے کسی
کے اوپر آنے کی آواز پر ماریہ نے باہر جھانک کر دیکھا تو سامان میں لدا ہوا فواد
تھا۔
ایک
ہاتھ میں مختلف تھیلے جن میں گھر کی متعدد ضرورت کی اشیاء اُٹھا رکھی تھیں جبکہ دوسرے ہاتھ میں ایک بھاری
بھرکم شے۔
" بھیا! بڑی دیر کر دی آپ نے۔۔ اور یہ کیا اُٹھا رکھا
ہے"
" یہ چولہا ہے" فواد نے سامان دروازے کے قریب ہی رکھتے
ہوئے کہا۔
" چولہا؟۔۔ اور یہ" ماریہ حیران ہوئی۔
" ہاں۔۔۔ یہ چولہا ہے اس کے ساتھ گیس کا سلنڈر لگے گا"
فواد نے سانس درست کرتے ہوئے کہا۔
" مگر گیس والے چولہے کی کیا ضرورت ہے۔۔ ہم لکڑیوں پر کھانا
بنا لیا کریں گے" مومنہ بولی۔
"ارے میری زوجہ! گھر میں کس جگہ پر لکڑیوں کا چولہا بناؤ گی۔۔
اور یہ شہر ہے ۔۔ یہاں لکڑیاں سستے میں ملتی بھی نہیں"
" فواد ٹھیک کہہ رہا ہے" ماسٹر اللہ دتہ نے حمایت کی۔
" چاچا جی ! آپ یہ بلب لگا دیں گھر میں۔۔ میں بازار سے رات کا
کھانا لے کر آتا ہوں"فواد پھر سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔
ابھی
وہ چلتا ہوا سیڑھیوں کے قریب ہی پہنچا تھا کہ ندیم صاحب اُسے اوپر کی جانب آتے
دکھائی دیے۔
"فواد میاں! وہ میں کہنے آ رہا تھا کہ آج رات کا کھانا آپ ہماری طرف کھائیے گا"
" مگر اس تکلف کی کیا ضرورت تھی ندیم صاحب!"
" ارے کوئی بات نہیں!۔۔۔ ویسے بھی نئی جگہ میں سیٹ ہونے میں
وقت لگتا ہے ذرا"
اب
بازار سے کھانا لانے کی ضرورت تو رہی نہ تھی۔ اس لیے فواد واپس کو لوٹ گیا۔
" بھیا! آپ اتنی جلدی واپس آ گئے" اُسے واپس آتا دیکھ کر
ماریہ بولی۔
" ہاں ! وہ ندیم صاحب مل گئے تھے۔۔۔اُنھوں نے رات کے کھانے پر
دعوت دی ہے"
فواد
نے ماسٹر اللہ دتہ کے ہاتھ سے بلب لیے اور تمام گھر میں مختلف مقامات پر لگا دیے۔
کچھ
جگہوں پر ٹیوب لائٹ لگنی تھی جسے ویسے ہی چھوڑ دیا گیا۔
گھر
کا سب کام مکمل ہو کر ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ ندیم صاحب نے بالکونی کے دروازے پر
ہلکی سی دستک دی۔
" آئیے ندیم صاحب!" ماسٹر اللہ دتہ کرسی سے اُٹھ کھڑے
ہوئے۔
" جی کھانا تیار ہو چکا ہے۔۔ آپ لوگ تشریف لائیے "
" جی ضرور!" ماسٹر اللہ دتہ چل کھڑےہوئے۔
اُن
کے پیچھے پیچھے مومنہ اور ماریہ بھی سر جھکائے،سر پر ڈوپٹہ ڈالے چل پڑیں۔ جب کہ
فواد منہ ہاتھ دھو کر ذرا دیر سے پہنچا۔
فواد
کے آنے تک دستر خوان پر کھانا چن دیا گیا تھا۔ندیم صاحب کا پورا گھرانا یہاں موجود
تھا۔
مومنہ
اور ماریہ نے تو خدیجہ اور کرن سے دوستی بھی بنا لی تھی۔ چاروں خوش گپیاں کرنے میں
مصروف تھیں۔
عشائیہ
کے دوران ہی ماریہ اور مومنہ کے داخلے کی بات چلی۔ندیم صاحب، اُن کی بیگم ناہید
اور بڑی بیٹی خدیجہ تینوں ہی روزانہ صبح اُسی کالج جاتے تھے۔
طے
ہوا کہ کل صبح دس بجے فواد ان دونوں کو لے کر لڑکیوں کے سرکاری کالج چلا آئے گا
جہاں ندیم صاحب اُن کا داخلہ کروا دیں گے۔
ندیم
صاحب کی بیٹی خدیجہ بضد تھی کہ ماریہ اور مومنہ روزانہ اُس کے ساتھ کالج جایا کریں
گی۔
مگر
خدیجہ کی اس بات کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ ماریہ اور مومنہ کو شہر کی ذرا بھی
سمجھ بوجھ نہیں ۔
مزید یہ کہ خدیجہ تو کچھ
عرصہ میں کالج سے اپنی پڑھائی ختم کر دے گی اُس کے بعد ان کے آنے جانے کا انتظام
کیا ہوگا۔
بلا
آخر یہ طے ہوا کہ روز صبح فواد جاتے ہوئے تینوں کو کالج میں چھوڑ جایا کرے گا اور
یونیورسٹی سے واپسی پر یا وہ خود اور یا ماسٹر اللہ دتہ لے آیا کریں گے۔
یہ
رائے قابلِ قبول سمجھی گئی اور فوراََ ہی تسلیم کر لی گئی۔
کھانا
کھا کروہ لوٹے تو تھکاوٹ کے باعث چاروں کو برا حال تھا۔ سب آتے ہی اپنے اپنے
بستروں میں لیٹ گئے۔
ماسٹر
اللہ دتہ نے تو باورچی خانے کے ساتھ والا کمرہ علیحدہ اپنے لیے رکھا تھا۔ یہاں یا
تو صندوق اور دیگر سامان تھا اور یا ماسٹر اللہ دتہ کی چارپائی۔
جبکہ
بائیں طرف والے قدر بڑے کمرے میں دو بیڈ اور ایک طرف کو تیسری چارپائی بچھا کر تین
لوگوں کے بستر لگا دیے گئے تھے۔
رات
بستر پر کروٹیں بدلتے گزری۔ نئی جگہ پر
نیند اور سونے کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آنکھوں میں نیند بھی تھی مگر پھر
رات کا زیادہ حصہ بستر پر کروٹیں بدلتے بدلتے گزر گیا۔ البتہ فواد چین سے سو چکا
تھا۔
صبح
فواد سمیت کوئی بھی نماز کے لیے نہ جاگ سکا۔ ایک وجہ تو تمام رات کو وہ نئی جگہ پر
سو نہ پائے تھے اور دوسرا فجر کی اذان کانوں میں نہ پڑنا تھی۔
گاؤں
میں تو گھر پار مسجد تھی، جس کے سپیکر کا رخ بھی انھی کے گھر کی جانب تھا۔ اُدھر
موذن نے اذان دی اِدھر یہ نیند سے بیدار
ہو کر وضو کرنے پہنچ گئے۔
نئی
جگہ اور
نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا ذرا وقت طلب اور دشوار کام ضرور تھا مگر
ناممکن نہیں۔
ندیم
صاحب نے چائے سمیت ہلکا پھلکا ناشتہ بھجوا دیا تھا۔ مگر اُن کے ناشتہ لانے سے پہلے
ہی فواد بازار سے بھی پراٹھے خرید کر لے آیا تھا۔
اب
ندیم صاحب کیا جانیں کہ ان دیسی لوگوں کا انڈہ ڈبل روٹی سے گزارہ کہاں ممکن تھا۔
ناشتہ
کرنے کے بعد فواد بازار سے گیس سلنڈر لینے چل دیا۔
یہ وہ وقت تھا جب گیس کا
رواج صرف شہروں میں تھا۔ گاؤں میں ابھی تک گیس نام کی کوئی چیز نہ پہنچی تھی۔
اس
وقت گیس کوئی اتنی عام بھی نہ تھی اور قیمت بھی بہت تھی۔
البتہ
ضرورت کی شے پر خرچنا تو تھا۔
" چاچا جی!" فواد نے گیس سلنڈر باورچی خانے میں لگانے کے
بعد ماسٹر اللہ دتہ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
" جی بیٹا!"
" چاچا جی! میرے پاس اب پیسے صرف سودا سلف کے رہ گئے ہیں۔۔۔
اس بار خرچہ بہت سا ہو گیا" فواد خرچہ کرنے کی تفصیل بتا رہا تھا۔
" بیٹا! تیرے ابا نے مجھے چلتے ہوئے کچھ پیسے تھما دیے تھے وہ
مجھ سے لے لینا"
" جی بہتر!" فواد بولا " مگر مجھے پریشانی یہ ہے کہ
اگر ایسے ہی چلا تو خرچہ برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔ میں حساب کرتا ہوں اگر
خرچہ بڑھ گیا تو اکیڈمی میں زیادہ وقت لگا لیا کریں گے"
باورچی
خانے میں کام کرتی مومنہ کے کانوں میں ان کی آواز صاف جاتی سنائی دے ہی تھی۔ وہ
فواد کے کندھوں پر بڑھتا ہوا بوجھ محسوس کر رہی تھی۔ کم عمری میں ہی وہ گھر بار کی
ذمہ داریاں سنبھالنا شروع کر چکا تھا۔
دس
بجے کے قریب وہ مومنہ اور ماریہ کو ساتھ لے کر لڑکیوں کے سرکاری کالج کی جانب چل
دیا۔
یہی
گلی سیدھی جاکر بڑی گلی میں ملی جہاں سے دائیں جانب جاتی گلی میں وہ تینوں مڑے۔
تھوڑا
آگے چلنے پر وہ ایک چوک میں پہنچے جہاں سے
بائیں جانب جانے والا راستہ سڑک پر جا کر کھلا اور وہ سامنے دائیں طرف ذرا آگے ہی
کالج کا مرکزی دروازہ نظر آنے لگا تھا۔
سبز
رنگ کے اس وسیع دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی مومنہ اور ماریہ دنگ رہ گئیں۔ اس قدر
خوبصورت دالان جس کے وسط میں فوارا۔ دائیں
طرف کو ایک بڑا زمین کا ٹکرا جس پر بچھی سبز گھاس کی چادر کے ارد گرد پھولوں کی
ننھی ننھی کیاریاں سلیقے سے بنائیں گئی تھیں۔
یوں
معلوم ہوتا تھا جیسے پھولوں کے یہ پودے کسی خط کو زمین پر کھینچ کر اُس پر لگائے
گئے ہیں تب ہی تو اس ترتیب سے تھے۔
فواد
نے داخلہ آفس میں ندیم صاحب کا نام لیا تو ایک صاحب خود ہی اُٹھ چلے آئے۔
" آپ فواد صاحب ہیں" ناک پر عینک رکھے ہوئے وہ شخض کہہ
رہا تھا۔
" جی ہاں!" فواد نے بتلایا۔
" ندیم صاحب تو پرنسپل صاحب کے ساتھ کسی خاص میٹنگ میں مصروف
ہیں۔۔ وہ آپ کا بتا گئے تھے ۔۔ آئیے میں آپ کا کام کر دوں"
فواد
نے مومنہ اور ماریہ کا داخلہ اُن کی متعلقہ شعبوں میں یعنی بلترتیب ایم اے اور ایف اے میں کروایا۔
کالج
میں جماعتوں کا آغاز اگلی سوموار سے تھا۔
اس
کا مطلب یہ ایک ہفتہ اُن دونوں کے پاس فارغ تھا۔
واپسی
پر گھر جاتے ہوئے فواد نے اُنھیں راستے کی پہچان کا طریقہ بھی بتایا ۔تاکہ کسی
موقع پر اکیلے واپس گھر آنے پر کوئی دشواری نہ ہو۔
آج
پہلی مرتبہ فواد نے یونیورسٹی سے چھٹی کی تھی۔ آج سے اُس کی یونیورسٹی بھی کھلنی
تھی مگر مومنہ اور ماریہ کے داخلے کی وجہ سے وہ یونیورسٹی نہ جا سکا۔
٭٭٭
آج
ایک عجیب بات ہوئی۔ گزشتہ ایک سال میں فواد سے یونیورسٹی کی ایک کلاس بھی نہ چھوٹی
تھی اور کل تو اُس نے چھٹی بھی کر لی تھی۔
یہ
تمام دن اُس کا بہت بڑا لگا تھا۔یونیورسٹی سے چھٹیوں کے دوران اُس کا جی اب گھر
میں ہر گز نہیں لگتا تھا۔
یونیورسٹی
آتے ہوئے کم از کم اُسے فواد نظر تو آتا رہا تھا مگر چھٹیوں کے دوران ایسا بھی
معلوم نہیں تھا۔
"یارسدرے!" نورین بولی مگر سدرہ کو گھورتے دیکھ کر
فوراََ بولی " سدرہ!۔۔ آج پریشان کیوں ہو"
" تم جانتی ہو میری پریشانی کا سبب۔۔ آج وہ نہیں آیا ابھی
تک۔۔ اور کل بھی نہیں آیا تھا" لان میں بیٹھ کر مرکزی دروازے کی طرف نظریں
جمائے ہوئی سدرہ بولی۔
" تم نے شہریار سے نہیں پوچھا؟"
" ہاں !پوچھا تھا"
" تو کیا بولا اُس نے؟"
" پہلے تو وہ سیدھے منہ بولا ہی نہیں۔۔۔ اور جب بولا تو یہی
کہ فود نے ہاسٹل چھوڑ دیا ہے"
Comments
Post a Comment