قسط نمبر: 22

 دنیا میں آئے ہر انسان کے نزدیک اُس کی چاہت کے مطابق کوئی شے دنیا کی حسین ترین چیز ہوتی ہے۔

 کوئی دشت و باغباں کو سب سے زیادہ خوبصورت گردانتا ہے تو کوئی سبزہ زاروں کے عین بیچ سے سانپ کی طرح رنگی ہوئی ٹھنڈے پانی کی ندی کو خوبصورت اور حسین سمجھتا ہے۔

کوئی کائنا ت کی خوبصورتی کو مخالف جنس میں تلاش کرتا ہے تو کوئی قدرت کے حسین مظاہرات کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔

مگر در حقیقت دنیا کی سب سے حسین ترین شے وہ آنکھ ہے جو خوبصورتی کو دیکھ  اور محسوس کر پائے۔

دنیا میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جن کے نزدیک خوبصورت چہروں سے زیادہ خوبصورت دل معنی رکھتے ہیں۔

 ایسے لوگ خوبصورتی کی اصل پہچان کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔فواد کا نام بھی اُنھی چند لوگوں کی فہرست میں آتا تھا۔

اگرچہ ظاہری بناوٹ مناسب بناؤ سنگھار اور تزئین و آرائش سے ممکن ہے مگر دل کی خوبصورتی کے لیے نہ کسی بناؤ سنگھار کی ضرورت ہے اور نہ ہی نمود و نمائش کے لیے۔

کیوں کہ خوبصورت دل ایک ایسے چراغ کی مانند ہوتا ہے جس کی ٹمٹماتی لو بھی آس پاس روشنی کیے رہتی ہے۔

شہر میں آئے ہوئے اُسے دوسرا اور گھر لیے ہوئے ایک سال ہو چکا تھا۔ اس ایک سال کے دوران اُس گھر داری کے بھی مناسب طریقے آ چکے تھے۔

ماسٹر اللہ دتہ پہلے تین ماہ ہی رہ کر لوٹ گئے تھے۔ اُن کے لیے شہر کی زندگی بے زار  اور بے لطف تھی۔ اُن کے نزدیک گاؤں ہی بہتر تھا جہاں گلی محلے میں وہ کسی سے بات تو کر سکتے تھے۔

سارا دن یا تو وہ اپنے کمرے میں بیٹھے رہتے یا پھر کبھی شام میں بالکونی میں چارپائی بچھا کر لیٹے رہتے۔

کبھی کبھار گھر کے کسی کام سے بازار کا چکر لگانا پڑتا ورنہ عموماََ گھر کے تمام کام فواد خود ہی کر دیا کرتا تھا۔

نہ شہر اُن کے لیے تھا اور نہ ہی وہ شہر کے لیے تھے۔ لحاظہ اُنھوں نے گاؤں جانا مناسب سمجھا۔

" فواد بیٹا!۔۔۔ میں گاؤں واپس جانا چاہتا ہوں" ایک روز آخر تنگ  آ کر اُنھوں نے فواد سے کہہ ہی ڈالا۔

" مگر کیوں چاچا!۔۔۔ یہاں کوئی مسئلہ آ رہا ہے؟"

" بس بیٹا! تمام دن گھر میں موقوف رہ رہ کر اکتا گیا ہوں۔۔۔ مجھ سے یہاں اب نہیں رہنے ہوتا۔۔۔ گاؤں جاؤں گا تو کم از کم اپنی عمر کے لوگوں میں اُٹھوں بیٹھوں گا"

ماسٹر اللہ دتہ کی بات بلکل بجا تھی۔ یہاں اُن کی عمر کے صرف ندیم صاحب ہی تو تھے مگر اُن سے بھی ماسٹر اللہ دتہ کی اچھی نہیں بنتی تھی۔

مومنہ اور ماریہ کا اپنے معمول میں آنا ہی تھا کہ ماسٹر اللہ دتہ نے گاؤں جانے کی ٹرین پکڑی۔ کیوں کہ اُن کے وہاں رہنے یا نہ رہنے سے کسی کے معمول میں فرق نہ پڑنے والا تھا۔

روز صبح فجر کی نماز پر فواد پہلے مومنہ کو جگاتا اور پھر ماریہ کو۔ وہ مسجد میں فجر کی نماز ادا کرنے کا عادی تھی اور اُس کی اسی عادت سے اب محلے کی مسجد آباد ہونے لگی تھی۔

پہلے وہ خود سویرے مسجد جانے لگا۔ کچھ دن اُسے روز فجر کی نماز پر مسجد جاتا دیکھ ندیم صاحب نے بھی ساتھ جا کر نماز مسجد میں ادا کرنے کا ارادہ کیا۔

ان دو کو دیکھ کر اور دو ۔ پھر یوں ہی سلسلہ بڑھتا گیا۔

نماز پڑھ کر فواد واپس آتا تو دونوں بھابھی نند نماز پڑھ کر اپنے اپنے کاموں میں لگ چکی ہوتیں۔ ایک صفائی کرتی تو دوسری ناشتہ بناتی۔

جس دن دونوں میں سے کسی ایک کا بھی کالج میں کوئی امتحان وغیرہ ہوتا تو وہ نماز کے بعد اپنا کام چھوڑ کر کتاب بغل میں لیے گھر میں ٹہل ٹہل کر پڑھتی دکھائی دیتی۔

فواد نے اپنے اس دولت کدے پر چند اصول لاگو کر رکھے تھے جن پر ہر ایک بشمول اُسے بھی  عمل پیرا ہونا  پڑتا تھا۔

گھر کی ذمہ داریوں کو مختلف حصوں میں آپس میں بانٹ  رکھا تھا اور ہر ایک کے لیے اپنے حصے کا کام کرنا لازم تھا۔

 یہ نہیں تھا کہ ہر اصول اُس کی طرف سے لاگو ہوئے ہوں بلکہ ماسٹر اللہ دتہ کے رخصت ہونے کے بعد تینوں نے باہم مشاورت سے یہ اصول بنائے اور اپنائے تھے۔

گھر میں  کھانا بنانے کی ذمہ داری مومنہ کی تھی۔ جبکہ کمروں کی صفائی ستھرائی پر ماریہ معمور تھی۔

گھر کی صفائی عموماََ کالج سے واپسی پر آ کر کی جاتی ۔کیوں کہ اس وقت سوائے ماریہ کے باقی سب ہی مصروف ہوتے تھے۔

ہر ہفتہ رات کو کھانا فواد بنایا کرتا۔  اس دوران ماریہ اور مومنہ اُس کے پاس کھڑے ہو کر یہ سرگرمی اس شوق سے دیکھا کرتیں جیسے کوئی فلم دیکھ رہی ہو۔

ذرا مرچ مصالحے تیز ہونے پر اُن کے چہرے کے بگڑتے تاثرات دیکھ کر فواد ہنسنے لگتا۔ کبھی وہ دونوں اُس کی کسی ہنسی پر۔

گویا یہ رات ہفتہ بھر میں سب سے مزے کی رات ہوتی۔

پھر اتوار کی صبح کا ناشتہ نہ مومنہ بناتی اور نہ ہی ماریہ بلکہ فواد کو حکم ہوتوا کہ بازار سے خرید کر لائے۔

کبھی وہ حلوہ پوری لے آتا تو کبھی پراٹھوں کے ساتھ چنے اور ٹھنڈی لسی۔

عام دنوں  میں تینوں ایک ساتھ ناشتہ کرتے  اور پھر تمام تیاری مکمل کرنے کے بعد ایک ساتھ ہی روانہ ہوتے۔

فواد دونوں کو کالج کے دروازے پر چھوڑ کر اپنی یونیورسٹی چلا جاتا اور پھر یونیورسٹی سے واپس آتے وقت دونوں کو ساتھ لیتا جاتا۔ ک

بھی کبھار اگر کسی بنا پر وہ وقت پر پہنچ سکنے سے قاصر ہوتو تو دونوں خود ہی چلتی ہوئیں گھر چلی جایا کرتی تھیں۔

 گھر پہنچ کر فواد ذرا دیر کو سستا۔ اس دوران مومنہ کھانا بناتی اور کھانا کھا کر وہ کچھ پہر سو جاتا۔

عصر کی نماز کے بعد فواد اکیڈمی پڑھانے چلا جاتا جبکہ مومنہ اور ماریہ بالائی مکان سے اُتر کر ندیم صاحب کے پورچ میں جہاں محلے کی لڑکیاں ٹیوشن پڑھنے آیا کرتی تھیں۔

اب ٹیوشن پڑھانے کی تمام ذمہ داری ناہید خاتون نے خدیجہ اور مومنہ کے سپرد کر دی تھی۔ خدیجہ سے بھی اچھا مومنہ نے اس فریضے کو سنبھالا۔

پھر خدیجہ  کا رشتہ آیا اور اُس کی منگنی طے ہونے کے بعد کرن نے ذرا مداخلت شروع کی ۔ اب مومنہ اور کرن سمیت ماریہ بھی اپنے سے چھوٹی لڑکیوں کو پڑھانے لگی تھی۔

کچھ ہی ماہ میں ندیم صاحب کا پورچ بھر گیا تھا اور مومنہ کی جیب میں بھی معقول رقم آنے گلی تھی۔

ایک اضافہ جو مومنہ نے کیا تھا وہ بچیوں کو قرآن پڑھانے کا بھی تھا۔ البتہ اس کی فیس وہ وصول نہ کیا کرتی مگر چند محلے کے عزت دار گھرانے اپنی بیٹی کا سپارہ  یا قران ختم کرنے کی خوشی میں کبھی رقم اور کبھی کوئی شے تحفے میں دے جایا کرتے۔

گویا مسٹر اینڈ مسز فواد نے چند ماہ میں ہی محلے میں اپنا نام پیدا کر دیا تھا۔ خود ندیم صاحب بھی فواد کو اپنا بیٹا تسلیم کرنے لگے تھے کیوں کہ وہ اُن کی بیٹیوں کا بھائی اور زوجہ کے لیے بیٹے کی حیثیت جو رکھتا تھا۔

خدیجہ تو فواد سے بڑا ہوتے ہوئے بھی اُسے بھائی کہہ کر بلایا کرتی اور کرن تو فواد کو بھائی کہنے کا پورا پورا فائدہ اُس سے مختلف فرمائشیں کرنے کی صورت میں اُٹھا لیا کرتی ۔

 فواد نے خود بھی یہ کہہ رکھا تھا کہ اُس کے لیے جسے ماریہ ویسے کرن۔

مغرب سے کچھ بعد فواد گھر کو لوٹ کر آتا تو مونہ کھانا بناتی اور ماریہ اُس کی معاونت کرتی۔ کھانے کے بعد کچھ دیر نشست چلتی۔ کسی موضوع پر بولا جاتا۔ سب اپنے دن کا معمول بتاتے۔ 

پھر سب علیحدہ علیحدہ بیٹھ کر اپنی پڑھائی کرنے لگتے۔ کسی جگہ مومنہ کو مدد کی ضرورت پڑتی تو فواد کے پاس آ جاتی۔ کبھی ماریہ کو کچھ سمجھ نہ آتا تو وہ یا مومنہ کے پاس اور یا فود کے پاس کتابیں اُٹھائے پہنچ جاتی۔

فواد نے کتابیں پڑھنے کا شوق اپنے سمیت مومنہ اور ماریہ کو بھی لگا دیا تھا۔ اب وہ دونوں بھی کالج کی لائبریری سے کتابیں لایا کرتیں اور فواد یونیورسٹی سے۔

جو کتاب تینوں میں سے کسی نے پڑھنی ہوتی اور وہ لائبریری میں موجود نہ ہوتی تو وہ کتاب فواد بازار سے خریدنےچلا جاتا۔

گرمیوں میں چارپائی عقبی بالکونی میں بچھا کر سو جایا کرتے جبکہ سردیوں کے لیے رضائی کمبل تو وہ گھر سے لے آئے تھے۔

ہر اڑھائی یا تین ماہ بعد وہ گھر چکر لگاتے۔ کبھی گھر سے کوئی ملنے، رہنے آ جاتا۔

 شانزے کو تو فواد گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں میں اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ وہ کچھ دن ہی شہر میں رہ کر اکتا گئی اور پھر گاؤں جا کر اُس کا پھر سے بھیا کے پاس جا کر رہنے کا دل کرنے لگا۔

 فواد کی بدولت اکیڈمی میں بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا۔ ہر لڑکا فواد سے پڑھنا چاہتا تھا۔ فواد کے رہتے ہوئے اکیڈمی میں آئے روز نیا بچہ داخل ہوتا جا رہا تھا۔

"فواد بیٹا!۔۔ یہ کیسے کر لیتے ہو آپ" ندیم صاحب نے ایک روز سوال کیا۔

" کیا ندیم صاحب؟"

" آخر آپ کے پاس کون سا جادو ہے جو بچے آپ کی طرف ایسے کھینچے چلے آتے ہیں" وہ فواد کے پاس پڑھنے والے بچوں کی تعداد پر حیران تھے۔

" دیکھیں ندیم صاحب!۔۔۔ میرے دو اصول ہیں۔۔۔ ایک یہ کہ بچوں کو اُستاد کی بجائے دوست بن کر پڑھاؤ اور دوست سختی نہیں کرتے۔۔۔ دوسرا یہ کہ بچوں کو پڑھاتے وقت موضوع میں اتنی گہرائی میں چلے جاؤ کہ کوئی بات سمجھنے والی باقی نہ بچے"

" تو کیا آپ بچوں پر سختی بھی کرتے ہیں؟"

" بلکل نہیں ندیم صاحب!۔۔۔ میرا مقصد ان کو پڑھانا ہے ۔۔ نہ کہ ذہنی اور جسمانی سختی کر کے بچے کا حال اور مستقبل خراب کرنا۔۔۔۔ یہ ایک عام المیہ ہے کہ اگر بچہ پڑھ نہیں رہا تو اُس پر سختی کی جائے۔۔۔ ۔ جب کہ اُس کی ذہنیت کو سمجھ کر بھی اُسے راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے"یہ فواد کی رائے تھی۔

" آپ کی بات سو فیصد درست ہے بیٹا!۔۔۔ میں خود بچوں پر سختی کرنے کے حق میں نہیں"

فواد نہ صرف اکیڈمی میں بلکہ گھر میں بھی ندیم صاحب کا معاون بن کر رہتا تھا۔

اکثر اکیڈمی سے لوٹتے وقت فواد اپنےساتھ ندیم صاحب کے بھی کام نپٹاآیا کرتا۔

 حتی کہ ناہید بیگم تو اب ندیم صاحب کی بجائے فواد سے گھر کے کام کروا لیا کرتیں۔

ندیم صاحب خود فواد کو اپنے بیٹے کے برابر تسلیم کرتے تھے۔ اب وہ بھی فواد کو فواد صاحب کی بجائے فواد بیٹا کہہ کر بلانے لگے تھے۔

" فواد بیٹا!۔۔ اگر تم شادی شدہ نہ ہوتے تو میں تمہیں اپنا داماد بنا لیتا" یہ خواہش ندیم صاحب نے ایک دن فواد سے کی۔

وہ تو بات کر کے بھول گئے مگر فواد کو سوچ میں ڈوبا چھوڑ گئے۔ " سدرہ نے بھی تو محبت کا دعوی ٰ کیا تھا۔۔۔ وہ بھی تو شادی کی خواہش مند تھی" فواد نے سوچا۔

٭٭٭

یہ عشق بھی عجیب آگ ہے جسے اپنے اندر لگنے والا شخض بعد میں محسوس کرتا ہے مگر اس کی تپش باہر کے افراد پہلے محسوس کر لیتے ہیں۔

جب انسان کی شخضیت نکھرنے لگے۔ جب اُس کا غرور، گھمنڈ اور تکبر خاک میں ملنے لگے۔ جب تبدیلی اُس کے اندر سے آنے لگے اُس وقت سمجھ لو کہ وہ عشق کی بھٹی میں سلگ رہا ہے۔

" سدرہ! تم اب بھی فواد سے محبت کرتی ہو؟" نورین نے لائبریری میں بیٹھے ہوئے سوال کیا۔

" یہ کیسا سوال ہے؟" سدرہ چونکی۔

" تم نے ایک سال تک فواد سے اس متعلق بات نہیں کی اس وجہ سے پوچھ رہی ہوں"

" یہ ضروری نہیں کہ میرے دل کے حال سے وہ ہر وقت با خبر رہے۔۔۔ ویسے بھی محبت میں اُس سے کرتی ہوں وہ نہیں"
" مگر اُسے بھی تو معلوم ہو نا کہ تم کس آگ میں سلگ رہی ہو۔۔۔ وہ جانے تو سہی تمہارے بارے میں"

" میں اُسے جانتی ہوں یہی بہت ہے" سدرہ بولی۔

کہیں نہ کہیں سدرہ کے دل پر نورین کی بات اثر کر گئی۔ تب ہی نورین کے جانے کے بعد وہ لائبریری میں بڑی دیر بیٹھ کر اسی متعلق سوچتی رہی۔

اُس کی نظریں تو کتاب پر تھیں مگر ذہن نورین کی بات پر غور کرنے کا کہہ رہا تھا۔ شاید اسی وجہ سے الفاظ اُسے کتاب پر تیرتے نظر آ رہے تھے۔

فواد بھی اُس کی سامنے والی میز پر براجمان کوئی انگریزی کتب پڑھ رہا تھا۔

" السلام و علیکم!"سدرہ فواد کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی۔

" وعلیکم السلام!" فواد نے نظر اُٹھا کر سدرہ کو دیکھا۔

" کیسے ہو فواد!"

" اللہ کا شکر ہے!۔۔ تم بتاؤ" آج لہجے خوش گوار لگ رہا تھا۔

" الحمدُ اللہ!"

" گڈ" فواد اتنا کہہ کر دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہو گیا۔

" میں نے تم سے کوئی ضروری بات کرنی تھی فواد!" سدرہ نےدھیمے لہجے میں بولا۔

" ہاں بولو!"

" یہاں نہیں کر سکتی" سدرہ نے آس پاس نظریں دوڑائیں۔

سدرہ کا یہ جملہ سن کر فواد کا تقریباََ سال پہلے کا وہ دن یاد آ گیا جب سدرہ نے فواد سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔

"میں کیفے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں" سدرہ یہ بول کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" تم نے جو کہنا ہے یہیں کہہ دو۔۔۔ میں کیفے میں نہیں آ رہا"

فواد کا کیفے میں جا کر سدرہ کی بات سننے کا ہر گز ارادہ نہ تھا۔

مگر سدرہ کے لہجے میں کوئی ایسی خاص بات اُسے ضرور محسوس ہوئی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کے قدم کیفے کی جانب کھینچے چلے گئے۔

حتیٰ کہ کیفے کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی وہ اندر جانا نہیں چاہتا تھا مگر صرف اس وجہ سے چلنے پر رضامند ہوا کہ اگر وہ نہ گیا تو کیا معلوم سدرہ شام تک اُس کے انتظار میں وہیں بیٹھی رہے۔

اُس نے پختہ ارادہ بنا لیا تھا کہ آج اگر سدرہ نے محبت کا پھر سے دعویٰ کیا تو وہ تمام بات ایک لمحے میں ختم کر دے گا۔

گزشتہ ایک سال سے وہ مسلسل نوٹ کر رہا تھا کہ یونیورسٹی پہنچتے ہی سدرہ اُس کی منتظر ہوتی۔

تمام دن وہ فواد سے بات کرنے کا بہانہ تلاش کرتی۔

کلاس میں اُس کے پیچھے بیٹھ کر تمام لیکچر سننے کی بجائے اُسے تکتی رہتی۔

اور لائبریری میں بھی اُس کے سامنے والی میز پر بیٹھ کر اُسی کی بتائی کتابیں پڑھتی۔

پہلے پہلے فواد کو سدرہ کا ایسا کرنا نہایت عجیب اور برا معلوم ہوا۔ اُس کا دل سدرہ کی ایسی حرکات پر کڑھنے لگتا تھا۔

مگر پھر رفتہ رفتہ اُسے بھی اس  سب کی عادت ہونے لگی تھی۔

ویسے بھی اب ایک سال ہونے کو تھا اور سدرہ نے محبت نامی کسی موضوع پر بات نہ کی تھی۔

فواد کو یقین تھا کہ سدرہ کے دل میں جلنے والی آگ بہت پہلے کی بجھ چکی ہے۔

کیفے میں داخل ہوا تو الٹے ہاتھ پر سب سے آخری میز پر سدرہ اکیلی بیٹھی کھڑکی سے باہر نا جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔

" جی سدرہ!۔۔ بولو کیا بات کرنی تھی" فواد نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

"مجھے اُمید نہیں تھی کہ تم آؤ گے۔۔ مگر پھر دل کہتا تھا کہ تم اتنے بھی بے وفا نہیں" سدرہ کی نظروں نے فواد کے چہرے کا طواف کیا۔

" تم نے جو بات کرنی ہے وہ کہہ سکتی ہو۔۔ میں سن رہا ہوں" فواد نے میز پر کھے گلاس کو ہاتھوں میں گھمانا شروع کر دیا ۔

"فواد!۔۔۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں"

" اچھا۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔ اور؟" اُس کے لہجے وہ وہی سرد مہری تھی۔

" تمہیں فرق نہیں پڑتا میری محبت سے؟"

" جب تک تم اپنی محبت کو اپنے تک محدود رکھوگی۔۔ تب تک مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا"

" فواد! میں تمہاری محبت میں آئے روز مرتی ہوں۔۔ تمہاری یاد میں جیتی ہوں۔۔۔ اور بے رخی پر تڑپتی ہوں"

" مت مرا کرو میری محبت میں۔۔۔ مت جیو میری یاد میں۔۔۔ مت تڑپا کرو میری بے رخی پر" اُس کا چہرہ اب بھی کسی بھی تاثر سے سپاٹ تھا۔

شاید جملے اُس پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔

" مگر  کیوں؟"

" میں شادی شدہ ہوں سدرہ۔۔ تم مجھے بھول جاؤ اور اپنی زندگی آگے جیو"

فواد کا یہ جملہ سدرہ پر کسی بم کی طرح گرا۔

اُسے پھر نہ معلوم ہوا کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ بس وقت جامد ہوگیا، وجود ساقت ہو گیا، دل رک سا گیا ، چہرہ جھک سا گیا۔

سدرہ کے چہرے پر یک دم بدلتے تاثرات فواد کو یہ بتانے کو کافی تھے کہ آج کے روز اُس کی محبت کا جنازہ اُٹھنے کو ہے۔

وہ جان گیا تھا کہ سدرہ کی یہ خاموشی کسی بہت بڑے طوفان کی علامت ہیں۔

فواد کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ سدرہ کی اپنی لگائی آگ آج اُس کے آنسوؤں سے بجھنے والی ہے۔

فواد کی آنکھوں کے سامنے ناجانے کتنے رنگ سدرہ کے چہرے پر آکر غائب ہو گئے۔

ایک پل کو اُسے سدرہ پر رحم آیا مگر وہ  کسی صورت بھی سدرہ کی مدد کرنے سے قاصر تھا۔

سدرہ کو خود میں گم سم چھوڑ کر وہ خاموشی  کے ساتھ کیفے سے باہر نکل آیا۔

جبکہ سدرہ اُس کے جانے کے بعد بھی بڑی دیر تک اُس کی باتون کو سوچ  کو روتی رہی اور جب غم شدت سے بڑھ گیا تو کیفے سے نکل کر گاڑی میں آ بیٹھی۔

 فوادکا آخری جملہ اُس کے حواس اُڑانے کے لیے کافی تھا۔

تمام راستے آنسوؤ اُس کی آنکھوں سے نکل کر رخسار پر بہتے رہے۔

اُس معلوم ہی نہ ہوا کب گاڑی گھر کے پورچ میں آ کر رک گئی۔ اُس نے دروازہ کھولا اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں جا گھسی۔

دروازہ مقفل کر کے وہ زور زور سے رونے لگی۔ وہ چیخ رہی تھی، چلا رہی تھی، سنگھار میز سے چیزیں اُٹھا اُٹھا کر زمین پر پٹخ رہی تھی ۔

 سائیڈ ٹیبل پر پڑا کانچ کا گلدان بھی اُس نے زور سے زمین پر دے مارا تھا۔ جو اُس کی آنکھوں کے سامنے کرچی کرچی ہو کر زمین پر بکھر چکا تھا۔

اتنا ظالم وہ آج سے پہلے کبھی نہ روئی تھی۔  اُسے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ فواد کی بے رخی پر رو رہی ہے یا قسمت کی ستم ظریفی پر۔

اُسے لگتا تھا وہ کائنات کی سب سے خوش قسمت ترین لڑکی ہے جس کے پاس سب کچھ موجود ہے۔

بڑا گھر، گاڑی، نام، شہرت، عزت۔ حتیٰ کہ وہ سب کچھ جو ایک لڑکی اپنی زندگی میں چاہتی ہے۔

مگر آج اُسے معلوم ہوا کہ اُس کے بد قسمت اس کائنات میں کوئی بھی نہیں۔ آج اُس پر یہ راز افشاں ہوا کہ اُس کے پاس کچھ بھی اپنا نہیں۔

زندگی میں ایک شخض کو ہی تو اُس نے دل سے چاہا تھا اور وہ بھی قسمت اُس کے حق میں لکھنے کو تیار نہ تھی۔

فواد نے سیدھے سادے الفاظ میں اُسے ٹھکرا دیا تھا اور ٹھکرایا بھی یہ کہہ کر تھا کہ سدرہ جیسی لڑکی وہ اپنے مقدر میں نہیں چاہتا۔

"مگر اس عمر میں اُس کی شادی کیسے ہو سکتی ہے؟"  سدرہ نے خود کو تسلی دینے کا بہانہ تلاش کیا مگر پھر خود ہی اپنی بات کی نفی بھی کر دی۔

" اگر اس عمر میں مجھے محبت ہو سکتی ہے تو اُس کی شادی بھی ہو سکتی ہے" سدرہ نے اپنے سوال کا ہر بار کی طرح خود ہی جواب دیا۔

رات بھر وہ روتی رہی۔ کبھی بستر کنارے ، کبھی دور فرش پر بیٹھ کر سر گھٹنوں پر رکھ کر بچوں کی مانند، کبھی چیزیں زمین پر پٹخ کر، کبھی خود کو جھنجھوڑ کر، کبھی فواد کو یاد کر کے، کبھی چاند کو دیکھ کر، کبھی فواد کی غزل اور قلم کو آنکھوں سے لگا کر۔

کبھی وہ ہنس دیتی اور کبھی ہنستے ہنستے رو دیتی۔ اُس کا دل ٹوٹ کر ٹکروں میں بکھر چکا تھا۔

رات پہروں کی بجائے پل بھر میں کٹ گئی تھی ۔ اُس کا جی نماز کو چاہا۔ کیوں کہ ایک اُس کا رب ہی تھا  جو اُس کے غموں کا بہتر سے مداوا کر سکتا تھا۔

نماز میں سجدہ کرتے ہی اُس کا دل روئی کے گالے کی مانند ہلکا پھلکا ہو گیا۔ ایسا لگا جیسے  کسی نے اُس کے دل سے تمام غم نچوڑ لیا ہو۔

نماز پڑھ کر وہ پلنگ پر بیٹھی تو  کچھ دیر بعد ہی اُسے لیٹنے کا جی چاہا۔ لیٹی تو آنکھیں بند کرنے کا۔ آنکھیں بند کیں تو فواد کو سوچنے کا اور فواد کا خیال ذہن میں آتے ہی، اُس کا چہرہ آنکھوں کے گرد منڈلانے لگا اور پھر آنسوؤں کا یک ریلا اُس کی آنکھوں سے رواں ہو کر اُس کے وجود کو بہانے لگا۔

وہ پھر سے رونے لگی تھی۔ وہ زور سے زور سے چیخنا چاہتی تھی مگر شاید اُس کے حلق میں آواز اٹک کر رہ گئی تھی۔ آنکھیں آنسوؤں سے خالی ہو چکی تھیں۔

 یہ نر م بستر اُسے کانٹوں کا سا محسوس ہوا۔  ایک پل کے لیے بھی مزید اُس سے لیٹنے نہ ہوا اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔  مگر بیٹھنے سے بھی جی گبھرانے لگا تو اُٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔

خود پر غصہ کرنے اور زور زور سے رونے کے ساتھ ساتھ سامنے نظر آتی ہر شے کو اُٹھا کر زمین پر پٹخنے لگی۔

شاید ہی کمرے میں کوئی ایسی کانچ کی شے بشی تھی تو زمین پر بکھر کر ٹوٹ نہ چکی ہو۔

جب خودپر چیخ چیخ کر تھگ گئی تو ایک طرف کو زمین پر بیٹھ کر اُس نے سر گھٹنوں پر کھ لیا اور پھر سے رونے لگی۔

٭٭٭

" بیگم !۔۔ بیگم !۔۔ ارے کہاں ہو ؟" کامران صاحب لاؤنج میں کھڑے آواز دے رہے تھے/

" آ رہی ہوں۔۔ ایسا کیا ہو گیا" ثوبیہ کمرے سے نکل کر آئیں۔

" پہلے یہ بتاؤ کہ سدرے کہاں ہے"

" سدرہ اپنے کمرے میں ہے۔۔ کیوں؟"

" اچھا ادھر بیٹھو۔۔ تمہیں بات بتاؤں"

" بیٹھ گئی۔۔ اب بتائیے کہ کیوں خوش ہیں آپ اتنے؟"

" تم جانتی ہو آج کیا ہوا؟"

" کیا؟"

" توقیر علی نے  اپنے بیٹے جمال کے لیے سدرہ کا ہاتھ مانگا" کامران صاحب نے خوشی سے بتایا۔

" یہ تو بہت خوشی کی بات ہے "

" ہاں !۔۔ مگر سدرہ کی مرضی بھی تو ہونی چاہیے"

" سدرہ تو خوش ہی ہو گی۔۔ میں جانتی ہوں کہ اندر سے وہ بھی جمال کو پسند کرتی ہو گی"

" ایسا ہو جائے تو بڑا چھا رہے گا۔۔۔ ہماری دوستی  اور بزنس اب رشتہ داری میں بدل جائے گی" کامران صاحب بول رہے تھے۔

رات کھانے پر بھی سدرہ اپنے کمرے سے نہ نکلی۔ ایک بار وہ اُس ے بات کرنے آئے مگر پھر دروازے سے لوٹ گئے۔

صبح وہ نماز کے بعد واک پر جانے کے لیے تیار تھے جب لاؤنج میں سے گزرتے ہوئے اُنھیں سدرہ کے کمرے سے کچھ چیزیں گر کر ٹوٹنے کی آواز ائی۔

پریشانی کے عالم میں وہ سدرہ کے کمرے کی جانب پھرے۔  مگر دروازہ کے قریب پہنچ کر اُنھیں اندر سے کوئی آواز سنائی نہ دی اور دروازہ بھی اندر سے مقفل تھا۔

وہ جانتے تھے کہ سدرہ اس وقت سوتی ہے۔ اگر تو یہ اُن کا وہم تھا تو دروازے پر دستک دینے سے سدرہ جاگ سکتی تھی۔

مگر ناجانے کیوں  اُنھیں ایک بے چینی سے ہو رہی تھی۔ وہ لوٹ کر اپنے کمرے میں آئےاور سدرہ کے کمرے  کی چابی اُٹھا لائے۔

چابی گھومنے کی دیر تھی کہ دروازہ کھل گیا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر سدرہ سو رہی ہوئی تو اُسے سوتا چھوڑ کر لوٹ آئیں گے مگر یہاں تو کچھ عجیب عالم تھا۔

دروازہ کھول کر اندھیرے کمرے میں وہ جوں ہی داخل ہوئے تو پاؤں کے نیچے کانچ کے ٹکڑوں نے اُنھیں اپنی جانب متوجہ کیا۔

چونک کر  اُنھوں نے اپنے فرش پر کانچ کے ٹکڑے دیکھے پھر ذرا پیچھے ہو کر کمرے میں بتی جلا دی۔ کمرا روشن ہونے کی دیر تھی کہ اُن پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔

سدرہ کا تمام کمرا بکھرا پڑا تھا۔ فرش پر متعدد اشیاء ٹوٹ کر بکھری پڑی تھیں، سنگھار میز بلکل خالی اور اُس کا تمام سامان بھی فرش پر گرا پڑا ہے اور پلنگ سدرہ سے خالی۔

یوں معلوم ہوتا تھا کہ راتوں رات کسی زلزلے نے کمرے کی حالت ہی بگاڑ دی ہو۔

ایک کونے میں اُنھیں سدرہ گھٹنوں پر بازو پھیلا کر سر رکھے نظر آئی۔

وہ فوراََ اُس کی جانب بڑھے۔ مگر سدرہ اور کامران صاحب کے فرش پر بے شمار کانچ کے ٹکڑے حائل تھے ۔ جن کی پرواہ کیے بغیر وہ دوڑے۔

" سدرے!۔۔ میر ی بیٹی کیا ہوا تمہیں"

وہ اتنا تو جانتے تھے کہ سدرہ غصے کے عالم میں اکثر چیزیں توڑ دیا کرتی ہے مگر وہ اپنے کمرے کی ایسی حالت بھی بنا سکتی ہے اس بات سے وہ واقف نہ تھے۔

کمرے کی حالت اُنھیں یہ بتانے کو کافی تھی کہ آج سدرہ کے ساتھ لازماََ کچھ برا  واقع پیش آیا ہے جو اُس نے اپنے بابا کو بھی نہیں بتایا۔

کامران صاحب نے سدرہ کے چہرے کو اُٹھایا تو ایک پل میں ہی اُن کا وجود کانپ گیا۔

اُس کی سرخ آنکھیں بیتی تمام رات میں روتے رہنے کی شاہد تھیں۔

اُس کے خوبصورت چہرے سے روتے رہنے کی بنا پر گلابی رنگ پھیکا پڑ چکا تھا۔ ریشمی سیاہ گھنے بال بکھرے پڑ چکے تھے۔

ایک ہی رات نے اُس کے حسن کو کتنا ماند کر دیا تھا۔

" سدرے! میری بچی کیا ہو۔۔۔ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے" کامران صاحب سدرہ کو دیکھ کر کانپ  گئے۔

" یہ تمہارے بازو پر زخم کیسا۔۔ اور اتنا خون بہہ رہا ہے"

کامران صاحب کی بات پر سدرہ نے اپنے بازو کی جانب دیکھاپڑی جہاں کانچ کے ٹکڑے لگنے سے زخم ہو چکا تھا اور خون کی بوندیں سفید فرش پر مسلسل گر رہی تھیں۔

 جو زخم فواد نے اُس کے دل پر لگایا تھا اُس کے مقابل تو اس معمولی زخم کی کوئی اہمیت نہ تھی اور نہ ہی اس کے درد میں وہ لذت تھی۔

سدرہ اپنے والد کے چہرے پر پریشانی اور فکر کے تاثر بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ وہ اُنھیں اُٹھ کر کمرے سے باہر کی جانب بھی بھاگتا ہوا دیکھ سکتی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ لوٹے اور سدرہ کو پلنگ پر بٹھا کر اُس کی مرہم پٹی کرنے لگے۔ 

مرہم پٹی کرنے کے بعد اُنھوں نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا  اور  ایسی حالت بنانے کی وجہ پوچھی۔

مگر سدرہ کچھ بتانے کی بجائےپھر سے رونے لگی اور کامران صاحب اُس کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر تھپتھپانے لگے۔

کامران صاحب سدرہ کے سب پہلے اور پرانے دوست تھے۔ وہ اپنے راز کی بات سے اُنھیں آگاہ کیا کرتی تھی تھی اور اب کی بار بھی ایسا کرنے لگی۔

" بابا!۔۔ میں اُس سے محبت کرتی ہوں اور وہ شادی شدہ ہے" کامران صاحب کے کندھے پر سر رکھ کر  وہ ہلکی سی آواز میں بتانے لگی۔

" کس سے محبت؟" اُنھوں نے کپکپائی آواز میں پوچھا۔

" فواد سے"

Comments

Popular Posts