قسط نمبر: 23

 محبت کی اُس آخری سیڑھی کو عشق کہتے ہیں جہاں پہنچتے پہنچتے انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ محبت جنون سکھاتی ہے مگر جنون میں آوارگی دریا میں آئی تغیانی کی مانند انسان  کا خش و خاشاک تک بہا لے جاتی ہے۔

صبح سدرہ کی بات پر کامران صاحب بڑے حیران ہوئے۔ وہ اُس شخض سے ملنے کے خواہش مند تھے جنھوں نے اُن کی بیٹی کو محض چند ماہ میں اس قدر بدل کر رکھ دیا۔

وہ لڑکی جو سینیما جانے، فلمیں دیکھنے اور گانے سننے کی شوقین تھی وہ اب نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اپنا وقت صرف کرتی تھی۔

یہاں تک کہ وہ خود سدرہ کے کہنے پر نماز پڑھنا شروع کر چکے تھے۔ ایسا کون تھا جس نے اُن کی بیٹی کی سمت ہی بدل دی۔

وہ جانتے تھے کہ جوانی کی محبت میں انسان  بے شما رغلطیاں کر دیتا ہے۔ راہِ راست سے بھٹک کر برے فعل کا مرتکب ہو جاتا ہے۔

مگر یہ محبت بھی عجیب تھی جس میں سدرہ  روز بروز راہِ راست پر آ رہی تھی۔

عموماََ لڑکے  کسی لڑکی کی محبت کا اقرار سننے کے لیے بے زار ہوتے ہیں مگر یہ  لڑکا بھی عجیب معلوم ہو رہا تھا۔

 یہ جانتے ہوئے بھی کہ شہر کے  ایک نامور کاروباری شخض کی اکلوتی بیٹی ہوتے ہوئے بھی وہ اُس کی محبت کو اگر قبول نہیں کر رہا تھا تو معاملہ کچھ زیادہ سنگین تھا۔

سدرہ کو سلا کر وہ کمرے کا تمام سامان خود ہی سمیٹنے لگے تھے۔

ثوبیہ کو سدرہ کا خیال رکھنے کا کہہ کر وہ آفس آ گئے تھے اور تمام دن وہ اُس لڑکے کے متعلق سوچتے رہے۔

شام میں آفس سے جلدی آ گئے تھے اور سدرہ کی سہیلی نورین کو گھر بلوا لیا تھا۔

" یار! تم نے فواد کے متعلق اپنے بابا کو بھی بتا دیا ؟" نورین نے سدرہ سے کمرے میں آتے ہی پوچھا۔

" کیوں ؟۔۔ کیا ہوا؟" سدرہ جو پہلے نورین کے اچانک آنے پر حیران تھی مزید حیران ہو گئی۔

" انکل مجھے سے پوچھ رہے کہ تمہارے ساتھ فواد نامی کون سا لڑکا پڑھتا ہے"

" تو پھر تم نے کیا بتایا؟"

" میں نے بتایا کہ ذرا غریب گھرانے کا لڑکا ہے۔۔۔ ٹاپر ہے۔۔ بہت لائق ہے۔۔۔پھر انکل نے مجھے سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتا ہے تو میں نے بتایا کہ پہلے تو یونیورسٹی کے پاس والے بوائز ہاسٹل میں رہتا تھا اب معلوم نہیں"

" اور پھر کچھ پوچھا کہ بس یہی"

" پوچھ رہے تھے کہ اُس کے کسی رومیٹ کا نام لو تو میں نے شہریار کا نام لیا"

" ارے پاگل تم نے سب کچھ اگل دیا۔۔۔ کیا ضرورت تھی یہ سب بتانے کی"

" یار! مجھے کیا معلوم تھا"

کامران صاحب نورین سے تمام تفصیل معلوم کر کے اُسی بتائے ہوئے لڑکوں کے ہاسٹل پہنچ گئے۔

اندرونِ بازار میں بالائی منزل پر وہ کوئی عام سا ہاسٹل تھا۔ جہاں تک پہنچنے کے لیے اُنھیں گاڑی سے اُتر کر جانا پڑا تھا۔

ہاسٹل پہنچ کر اُنھوں نے وارڈن سے شہریار نامی لڑکے کو بلاوا بھیجا۔

" بیٹا ! مجھے  فواد سے کسی اہم وجہ سے ملنا ہے۔۔ کیا آپ مجھے اُس کا پتہ دے سکتے ہیں" کامران صاحب نے شہریار سے پوچھا۔

" جی سر! میں پتہ تو دے دیتا ہوں۔۔۔ مگر آپ کون ہیں؟" شہریار نے پوچھا۔

" میں فواد کا  رشتہ دار ہوں " اُنھوں نے جھوٹ بولا۔

" مگر جہاں تک میں جانتا ہوں فواد کا کوئی بھی رشتہ دار شہر میں نہیں رہتا"  جھوٹ پکڑا جا چکا تھا۔

" دیکھو بیٹا!۔۔ میرا فواد سے بہت ضروری کام ہے۔۔ مجھے اُس سے ہر حالت میں ملنا ہے"

" مجھے اُس کے گھر کا تو نہیں معلوم۔۔ البتہ اکیڈمی کا پتہ معلوم ہے جہاں وہ پڑھاتا ہے" شہریار نے ناچار اُنھیں پتہ دے ہی دیا۔

کامران صاحب وہاں سے سیدھا ندیم صاحب کی اکیڈمی پہنچے۔ دروازے پر فواد کو بلوانے کا پیغام دیا۔ اُنھیں ایک علیحدہ کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنے کو کہا گیا۔

جہاں عموماََ مہمان اور بچوں کے والدین بٹھائے جاتے تھے۔ معمول کی طرح فواد نے یہی سمجھا کہ کسی بچے کے والد اُس سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔

پڑھا کر وہ فارغ ہوا تو اُس کمرے کی جانب چل دیا جہاں کامران صاحب کو بٹھایا گیا تھا۔

" السلام علیکم!۔۔ معذرت خواہ ہوں۔۔ بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھا" فواد نے کمرے میں آتے ہی کہا۔

" وعلیکم السلام!۔۔ آپ ہی فواد ہو؟" کامران صاحب نے فواد سے مصاحفہ کرتے ہوئے ہی پوچھا۔

" جی!۔۔ میرا نام ہی فواد محمود ہے" فواد نے پینٹ کوٹ میں ملبوس کامران صاحب کا جائزہ لیا،

"میرا نام کامران ہے۔۔۔ میں سدرہ کا والد ہوں" کامران صاحب نے بتایا۔

" کون سدرہ؟" اُس نے پوچھا " سدرہ یوسفزئی" ناجانے کیوں اُس کے ذہن میں اسی سدرہ کا خیال آیا۔

" جی ہاں!"

" کیا میں وہ بات جان سکتا ہوں جو آپ کو یہاں کھینچ لائی"

" میں تمہیں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کی زندگی سے نکل جاؤ"

" دیکھیں سر!۔۔ میں آپ کی بیٹی سے محبت نہیں کرتا" فواد نے تحمل سے بات کی۔

" مگر وہ تو کرتی ہے "

" جناب !  آپ اُسے سمجھائیں کہ مجھ سے محبت کر کے وہ خود کو برباد نہ کرے۔۔۔ یہ راستہ آگے سے بند ہے۔۔ اس کی کوئی منزل نہیں ہے"

" تم میری بیٹی کی زندگی میں آئے ہی کیوں؟۔۔ اور آ گئے ہو تو جاتے کیوں نہیں؟" کامران صاحب اب بھی تمام غلطی کا قصور وار فواد کو سمجھتے تھے۔

" دیکھیں جناب!۔۔ میں نہیں جانتا اُسے مجھ سے کب کیوں اور کیسے محبت ہوئی۔۔ میں نے تو اُسے کبھی  ٹھیک سےدیکھا بھی نہیں۔۔ ۔اور نہ ہی اُس سے بات کی۔۔۔ بلکہ ہر لڑکی سے بات کرتے ہوئے کتراتا رہا" وہ بڑے تحمل سے بول رہا تھا " جناب ! جب سدرہ نے مجھ سے اپنی محبت کا اقرار کیا تب میں شادی شدہ تھا۔۔۔ میں نے اُسی لمحے سدرہ کو روکنا چاہا مگر وہ نہ رکی"

" تمہیں چاہیے تھا کہ تم اُسے ہر صورت روکو۔۔۔ مجھے خبر کرنی چاہیے تھی تمہیں" کامران صاحب بولے۔

"میں اتنا فارغ نہ تھا کہ اُس کی محبت پر غور کرتا۔۔۔ میں شادی شدہ ہوں اور گھر کا واحد کفیل بھی"

کامران صاحب کے پاس کوئی بھی ایسا جواز نہ رہا تھا جسے وہ فواد کے خلاف استعمال کر سکیں۔ اُس کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جس پر وہ اُس کی کہی باتوں کے قائل ہو گئے۔

فوا د کا ہر جواز اُنھیں درست معلوم ہوا۔ فواد کی باتوں سے اُنھیں معلوم ہو چکا تھا کہ  وہ غلطی پر نہیں ہے۔

وہ گھر لوٹے تو ایسے کہ جیسے کوئی جنگ سے شکست زدہ لوٹ رہا ہو۔

یہ ایک ایسی اُلجھی صورتحال تھی جس کے حل کا کوئی راستہ نہ سوجھتا تھا۔

اگر فواد شادی شدہ نہ ہوتا تو  سدرہ سے اُس کا رشتہ طے ہونا کوئی مشکل بات نہ تھی اور شادی کے بعد وہ اپنا کاروبار بھی اُس کے حوالے کر سکتے تھے۔

مگر دوسری طرف اگر وہ توقیر علی کے بیٹے جمال سے سدرہ کا رشتہ طے نہیں کرتے تو کاروبار کا ایک بڑا حصہ بھی جائے گا۔

اب چونکہ فواد شادی شدہ ہے تو سدرہ کے سر سے محبت کا بھوت اُتارنا قدرِ آسان ہے۔

ایک آدمی کو بھیج کر وہ فواد کے متعلق سب کچھ جان چکے تھے۔ وہ فواد کی قابلیت پر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی کارکردگی سے بہت حد تک متاثر تھے۔

سکول، کالج اور یونیورسٹی کے ہر امتحان میں وہ اول رہا آیا تھا۔ یونیورسٹی میں داخلہ بھی سکالرشپ پر، ایک چھوٹے سے گاؤں کو چھوڑ کر وہ اپنے بل بوتے پر اتنے بڑے شہر میں بھی آبا د ہوا تھا۔

شام کو کہا ہوا فواد کا ایک ایک جملہ اُن کے کانوں میں گونج کر اُن کے حافظے پر ایک طعنے کی حیثیت سے ضرب لگا رہا تھا۔

وہ آنکھیں بند کیے صوفے کی پشت پر اپنا سر رکھے بیٹھے ہوئے تھے کہ جب ہولے سے کوئی اُن کے پاس بیٹھ اور پنا سر اُن کے کندھوں پر رکھ دیا۔

اُنھوں نے سر اُٹھا کر آنکھیں کھولیں اور دیکھا تو اُن کے بغل میں سدرہ بیٹھی تھی۔

جس نے اپنا سر اُن کے کندھوں پر رکھا ہوا تھا۔

بچپن میں جب کبھی اُسے کسی چیز کی فرمائش کرنا ہوتی تو وہ ایسے ہی کیا کرتی تھی۔ مگر اس بار اُس کی فرمائش بہت بڑی تھی۔ جس کو پورا کرنے کی سقط اُن میں نہ تھی۔

" سدرے!"

" سدرہ بولا کریں بابا!" اُس نے ٹوکا۔

" سدرہ!۔۔۔ بیٹی کل توقیر علی نے اپنے بیٹے جمال کے لیے تمہارا رشتہ مانگا ہے" اُنھوں نے سدرہ کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

" نہ کر دیں بابا!" سدرہ چپکے سے بولی۔
" کیا تمہیں جمال پسند نہیں؟" اُنھوں نے پوچھا۔

" مجھے صرف فواد پسند ہے"

اسی دوران ٹی وی پر مغرب کی اذان چلائی گئی۔

" میری نماز کا وقت ہو گیا بابا!۔۔۔ آپ بھی پڑھ لینا" سدرہ خاموشی سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

رات کے کھانے پر بھی وہ سدرہ کے معصوم سے چہرے کو دیکھتے جا رہے تھے۔ اُن کی زندگی میں کھلنے والی یہ معصوم سی کلی، جس کے چہرے پر وہ ہمیشہ وہ مسکراہٹ دیکھنے کے عادی تھے، اب یہ پھول اس قدر مرجھا سا کیوں گیا تھا۔

یہ رنگوں میں کھیلنے والی حسین پری اب بے رنگ کیوں دکھائی دے رہی تھی۔

٭٭٭

" مومنہ!۔۔۔ مومنہ!" باہر بالکونی میں بیٹھا وہ مومنہ کو آواز دے رہا تھا۔

" ہاں آئی!" مومنہ نے باورچی خانے سے آوازلگائی۔

باورچی خانے سے نکل کر وہ عقبی بالکونی میں آئی تو فواد چارپائی پر لیٹا آسمان پر موجود تاروں کو  تک رہا تھا۔

یہ اُس کا پرانا مشغلہ تھا۔

" خیریت تھی" مومنہ نے بالکونی کے دروزے میں کھڑے ہو کر پوچھا۔

مومنہ کی موجودگی کا احساس ہو کر بیٹھا تھا۔

" یہاں بیٹھو" فواد نے چارپائی پر ذرا جگہ چھوڑی۔

اُن کی شادی کو دو سال کا عرصہ ہونے کو تھا۔ اس تمام عرصے میں وہ مکمل طور پر فواد کو جان گئی تھی ۔

آج جس انداز میں اُس نے مومنہ کو بیٹھنےکا کہا تھا ۔ یقیناََ کوئی بہت اہم بات تھی۔

" مومنہ! کیا تم جانتی ہو میں تم سے محبت کرتا ہوں" فواد نے تاروں کو گھورتے ہوئے کہا۔

" میں صرف جانتی نہیں ہوں بلکہ دل سے تمہارے محبت کو مانتی ہوں"

"مومنہ!  تو پھر یہ بات اپنے دل پر لکھ رکھو کہ میں مرتے دم تک میری محبت میں تم کوئی کمی نہ دیکھو گی"

" مجھے معلوم ہے۔۔۔ مگر یہ سب آج اور اس وقت کہنے کا مقصد"

" میری یونیورسٹی میں ایک لڑکی ہے مومنہ!" مومنہ کے دل پر اچانک کوئی ضرب لگی مگر وہ پر سکون رہی۔

" جس نے مجھے سے ایک سال قبل محبت کا دعویٰ کیا جسے میں نے سختی سے جھٹلا دیا۔۔۔میں اُسے اور اُس کی محبت کو اپنے سامنے بہت غیر معمولی تصور کرتا تھا ۔۔۔ شاید اسی لیے تمہیں بتانا مناسب نہ سمجھا"

" کیا اب بھی وہ تم سے محبت کرتی ہے؟" مومنہ نے دل کے لیے تسلی چاہی۔

" ہاں!۔۔۔ بہت شدت سے"

" تم کیا چاہتےہو"

" میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے بھول جائے۔۔۔ نہ وہ میرے لائق ہے اور نہ میں اُس کے"

" ایسا کیوں؟" مومنہ حیران ہوئی تھی۔

" اُس کے والد شہر کی مشہور کاروباری شخضیت کامران یوسفزئی ہیں۔۔۔ وہ سونے کی چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی ہم غریبوں میں کہاں رہ سکتی ہے"

" تم مجھے ایک سال بعد آج یہ سب کیوں بتا رہے ہو" مومنہ کے چہرے پر ذرا سی خفگی تھی۔

" مومنہ!۔۔ تم میری روح کا حصہ ہو۔۔۔ تم میری بیوی ہو۔۔ میری محبت ہو۔۔۔ بھلا میں تم سے کوئی بات بھی کیوں چھپا سکتا ہوں" وہ مومنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے چکا تھا " میرے نزدیک یہ بات بہت غیر معمولی تھی  اس لیے میں نے نہ اس متعلق پہلے سوچا تھا اور نہ تمہیں بتایا"

" تو آج آخر ایسا کیا ہوا؟"

" آج بات صرف محبت تک نہیں رہی۔۔۔ اب یہ محبت عشق کی شکل اختیار کر چکی ہے۔۔۔ اور مجھے ڈر ہے کہ سدرہ کے اندر لگتی یہ آگ اُس کے ساتھ ہمیں بھی راکھ کر دے گی"

٭٭٭

گاؤں سے گئے ہوئے اُنھیں اڑھائی ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔  ہر خط میں وہ اُنھیں گھر چکر لگانے کا کہتے مگر فواد کے بقول مصروفیات زیادہ ہونے کے باعث وہ تینوں اگلے ایک ماہ تک گاؤں نہیں آ سکتے تھے اور اس کی بھی بڑی وجہ ماریہ کے امتحانات تھے جو اگلے ماہ سے شروع ہو رہے تھے۔

امین بخش کا خیال تھا کہ اگر وہ تینوں گاؤں نہیں آ سکتے تو گھر سے ہی کوئی فرد اُن کی خیریت دریافت کرنے چلا جائے۔

ماسٹر اللہ دتہ نے اس مقصد کے لیے خود کو پیش کیا۔ وہ فارغ بھی تھے اور امین بخش کی نسبت اُنھیں گاؤں میں زیادہ کام بھی نہ تھا۔

قصبے سے اکیڈمی کے نمبر پر فون کر کے فواد کو ماسٹر اللہ دتہ کی آمد کے متعلق مطلع کر دیا گیا۔

صبح دس بجے والی بس پر وہ شہر آ رہے تھے۔

رات بھر ماسٹر اللہ دتہ بیٹی سے ملنے کی خوشی میں ٹھیک سے سو نہیں پائے اور صبح وقت سے قبل بیدار بھی ہو گئے۔

" خیر ہے نا ماسٹر جی!۔۔۔ آج کچھ زیادہ صفائی نہیں ہو رہی" امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ کو  آج معمول سے زیادہ مسجد کی صفائی کرتا دیکھ کر پوچھا۔

" بس یار امین بخش!۔۔۔ سوچا پھر ناجانے کس وقت صفائی کو موقع ملتا ہے" ماسٹر اللہ دتہ کی آنکھوں میں چمکتی روشنی کی حدت کو امین بخش محسوس کر سکتا تھا۔

ناشتے کے بعد ماسٹر اللہ دتہ سیدھا قبرستان چلے گئے۔ جہاں اپنی زوجہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے کے بعد بڑی دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔

دیکھنے والے یوں دیکھتے جیسے ماسٹر اللہ دتہ بیوی کی قبر کے سرہانے بیٹھے اُن سے بات کر رہے ہیں۔

وہا ں سے لوٹے تو سفر کی تیاریاں شروع کر دیں۔ سلمیٰ نے کل شام ہی اُنھیں شہر لے جانےوالا سامان تھما دیا تھا۔ جسےاُنھوں نے بڑی احتیاط سے اٹیچی میں ڈال لیا تھا۔

رات بیٹھ کر اُنھوں نے چولہے پر خود سوجی کے لڈو تیار کیے جو اُن کی بیٹی مومنہ بڑے شوق سے کھاتی ہے۔

مومنہ کی ماں تو بچپن میں چل بسی تھی مگر ماسٹر اللہ دتہ نے کسی بھی لمحے اُسے ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کو وہ ہر ایک کام کر دیا کرتے۔

" امین بخش ! یہ چابی اب تیرے حوالے" تمام گھر کو ایک نظر اچھے سے ڈالنے کے بعد اُنھوں نے دروازہ مقفل کیا اور چابی مین بخش کے حوالے کر دی۔

شکیلے کی گاڑی نے اُنھیں قصبے کے بس اڈے پر اُتار دیا تھا۔

اٹیچی سنبھالتے ہوئے وہ بس اڈے سے ٹکٹ کٹوا کر ابھی بیٹھے ہی تھے کہ بس آ گئی۔

شاید قسمت آج اُنھیں اپنے پیاروں سے جلدی ملوانا چاہتی تھی۔

٭٭٭

فواد  کو یونیورسٹی سے لوٹے ابھی ذرا سا ہی وقت ہوا تھا کہ دروازے پر چپڑاسی اُسے بلانے آن موجود ہوا۔ جس نے آتے ہی اُسے فوراَ اکیڈمی پہنچنے کی اطلاع دی۔

عموماَََ ایسی صورتحاں تب پیش آتی جب اکیڈمی میں کسی بچے کے والدین فواد سے ملنے آتے ۔ آج اُس کا جی تو نہ تھا کیوں کہ کچھ دیر بعد اُسے بس اڈے سے ماسٹر اللہ دتہ کو لینے جانا تھا۔

اکیڈمی پہنچ کر اُسے معلوم ہوا کہ  شکیلے کا فون اُس کی غیر موجودگی میں آیا تھا۔

کچھ دیر ہی گزری کہ پھر سے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔

" السلام علیکم!" فواد نے فون اُٹھا کر کہا۔

" وعلیکم السلام!۔۔ فواد؟"

" ہاں شکیلے میں ہی ہوں!۔۔۔ کیا حال ہے۔۔ خیریت ہے نا سب!"

" خیریت نہیں یارا!۔۔ ماسٹر جی جس بس پر آ رہے تھے اُس کا حادثہ ہو گیا ہے۔۔۔ کوئی بندہ نہیں بچا  " شکیلے کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔

" حادثہ؟۔۔۔ کب اور کس وقت؟۔۔ ماسٹر جی تو سلامت ہیں نا!"

" دس بجے بس نکلی اور  قصبے کے باہر والے پل پر ایک ٹریکٹر کی ٹکر سے نہر میں جا گری۔۔۔ ماسٹر جی کو ابھی  قصبے کے ہسپتال پہنچایا ہے۔۔ تو جلدی گاؤں آ جا بھابھی کے ساتھ۔۔۔ ماسٹر جی کی حالت بہت نازک ہے۔۔۔ کچھ معلوم نہیں رات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے"

" میں چھ  بجے والی ٹرین سے گاؤں آ رہا ہوں۔۔ تو ایسے کرنا کہ رات ڈیڑھ بجے کے قریب کسی کو سٹیشن بھیج دینا"

یہ وقت رونے دھونے کا نہیں تھا۔ اُسے جلد از جلد گاؤں پہنچنا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس خبر کا مومنہ پر کیا اثر ہوگا۔ وہ مومنہ کو یہ بات بتانے سے کترا بھی رہا تھا۔

" کیا ہوا بیٹا!۔۔۔ کس کا فون تھا۔۔ خیریت تو ہے نا!" ندیم صاحب نے فواد کے چہرے پر پریشانی کے گہرے تاثرات دیکھ کر پوچھا۔

" ندیم صاحب!۔۔۔ مومنہ کے والد یہاں آ رہے تھے اور راستے میں اُن کی بس حادثے کا شکار ہو گئی"

" یہ تو بہت بری خبر ہے۔۔۔ ایسے کرو کہ بچیوں کو لے کر فوراَََ گاؤں چلے جاؤ"

" میں بھی وہی سوچ رہا ہوں"

" تم تیاری کرو۔۔ میں چپڑاسی کو بھیج کر تانگہ منگواتا ہوں"

" جی بہتر"

فواد اکیڈمی سے فوراََ گھر کی جانب چل دیا۔ اُس کے چہرے پر موجود تاثرات کسی انہونی کی خبر دے رہے تھے۔

" مومنہ!۔۔ ماریہ!۔۔۔ جلدی سے اپنا سامان باندھو۔۔۔ ہم ابھی گاؤں جا رہے ہیں"

ماریہ اور مومنہ جو پہلے ہی فواد کے اچانک جانے اور آنے پر حیران تھیں مزید حیرت میں مبتلا ہو گئیں۔

" مگر کیوں؟ ۔۔ سب خیریت ہے نا!۔۔ کچھ ہو تو نہیں گیا گاؤں میں؟" مومنہ نے فواد کو ہڑبراتے دیکھ کر پوچھا۔
" ابھی کچھ بھی بتانے کا وقت نہیں۔۔۔ تم دونوں جلدی کرو ۔۔۔ ہمیں  شام چھ والی ٹرین پکڑنی ہے" فواد کہتا ہوا اندے کمرے میں چلا گیا۔

ایک اٹیچی میں تمام ضرورت کا سامان ڈالنے کے بعد وہ اُنھیں اُسی  کپڑوں میں لے کر  چل دیے۔ ب

اہر کے دروازے کو تالا لگا کر ایک چابی خود رکھی اور دوسری ندیم صاحب کے حوالے کر دی۔

چپڑاسی تانگہ لا چکا تھا۔ دروازے سے ہی وہ تانگے پر بیٹھے اور تانگہ سٹیشن کی جانب چل دیا۔ تمام راستے نہ مومنہ اور ماریہ کچھ پوچھ سکیں اور نہ ہی فواد بتا سکا۔

سب کچھ اس قدر جلدی میں ہوا تھا کہ وہ گھر کا سامان بھی نہ سمیٹ سکی تھی۔

سٹیشن پہنچ کر فواد نے تین ٹکٹ کٹوائے اور پلٹ فارم پر ٹرین آنے کا انتظار کرنے لگے۔

ٹرین آنے کو ابھی آدھ گھنٹہ تھا۔ فواد نے پلیٹ فارم سے ہی نان کباب لے کر پاس رکھ لیے۔  ایک تھرموس میں وہ گھر سے پانی بھی بھر لائے تھے۔

ٹرین آئی تو وہ اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے بعد فواد کے کہنے پر کھانا کھانے لگے۔ وہ جانتا تھا کہ مومنہ کو حقیقی خبر معلوم ہو جانے کے بعد وہ نہ تو کچھ کھائے گی اور نہ کچھ پی سکے گی۔

جب اُسے اطمینان ہو گیا کہ مومنہ اور ماریہ دونوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا ہے اور اب وہ اُس کی بات بھی غور سے سننے کے اہل ہو چکی ہیں تو اُس نے ماریہ کو اُٹھ کر اس جانب آنے کا اشارہ کیا اور خود مومنہ کے پاس جا بیٹھا۔

" مومنہ!۔۔ شام میں مجھے گاؤں سے فون آیا تھا"

" کس کا فون تھا؟" مومنہ نے فواد کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔

" شکیلے کا"

" کیا کہہ رہا تھا؟" مومنہ نے پوچھا۔

" بتا رہا تھا کہ۔۔۔ کہ چاچا  کی صحت خراب ہے"

" کیا ہوا ابا کو؟۔۔۔ وہ ٹھیک تو ہیں نا؟۔۔۔ وہ تو شہر آ رہے تھے" مومنہ پریشان ہوئی۔

" چاچا جس بس پر آرہے تھے وہ نہر میں گر گئی" فواد نے دھیمے سے کہا۔

" کیا؟۔۔۔ ابا کی بس نہر میں گر گئی؟۔۔ اور مجھے اتنا دیر سے کیوں معلوم ہو رہا ہے؟" مومنہ کے لہجے میں خفگی نمایاں تھی۔

" چاچا کی حالت کچھ ٹھیک نہیں ہے مومنہ!۔۔۔ تم ہر لحاظ سے خود کو تیار کر رکھو" فواد نے مومنہ کو حوصلہ دینا چاہا مگر آنسو تھے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

مومنہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ کبھی فواد سے شکوہ کرنے لگتی۔ کبھی پہلے بتانے کا گلہ کرتی اور کبھی اپنے ابا کی صحت کی دعا کرنے لگتی۔

فواد نے اُسے حوصلہ دینے کی کوشش تو کر رہا تھا مگر وہ کس حد تک اُسی تسلی دیتا۔

 اب مومنہ اُس کے کندھے پر سر رکھ کر رو رہی تھی اور فواد اُس کے سر کو تھپتھپانے کے ساتھ ساتھ تسلی امیز جملے زبان سے ادا کر رہا تھا۔

ناجانے کس وقت مومنہ کی آنکھ لگ گئی اور اُس کا سر فواد کے کندھوں پر ہی دھرا رہا۔

فواد کے کہنے پر ماریہ نے بھی فواد کے کندھے پر سر رکھ لیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بھی سو چکی تھی۔ جبکہ فواد تمام رات جاگتا رہا۔

صبح ایک کے قریب ٹرین متعلقہ سٹیشن پر پہنچی۔ فوا د نے ماریہ اور مومنہ کو جگایا اور سامان اُٹھا کر نکلنے لگا۔

پہلے خود اُتر کا سامان زمین پر رکھا اور پھر باری باری مومنہ اور ماریہ کوہاتھ پکڑ کر ٹرین سے اُتارا۔

سٹیشن سے باہر نکلا توگاؤں کا ایک لڑکا شکیلے کی گاڑی لے کر کھڑا ملا۔ فواد نے آگے بڑھ کر فواد سے ماسٹر اللہ دتہ کی صحت سرگوشی میں پوچھی۔

٭٭٭

قصبے کے واحد ہسپتال کے اندر اور باہر لوگوں کا بے پناہ رش تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والے تقریباََ سبھی افراد کو اسی ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا۔

کچھ لوگ تو موقع پر ہی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ زیادہ تر کی موت پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی جبکہ چند ایک کھڑکی توڑ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

وہ چند لوگ جن میں ابھی زندگی کی رمق باقی تھی اُنھیں فوراََ ہی ہسپتال پہنچایا گیا۔

بس میں موجود سواریوں کے کے لواحقین کبھی ہسپتال میں اپنے پیاروں کو تلاش کرتے تو کبھی حادثے کی جگہ پر۔

گاؤں میں یہ خبر پہنچنے کی دیر تھی کہ گاؤں کے تمام مرد ہسپتال کی جانب دوڑ پڑے۔

ماسٹراللہ دتہ اُن چند خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنھیں موقع پر موجو د لوگوں نے بروقت ہسپتال پہنچا دیا تھا۔

گاؤں والوں کی ہسپتال آمد پر ہی شکیلے نے اُنھیں تمام صورتحال سے آگاہ کر دیا کہ کیسے اُس کے دوست نے اُسے اس واقع کے متعلق آگاہ کیا اور کسی طرح وہ ماسٹر اللہ دتہ کو ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوا۔

ایمرجنسی وارڈ کے باہر لوگوں کا رش ہوتے ہوئے بھی بلکل سناٹا تھا۔ مگر جیسے ہی کوئی ڈاکٹر یا نرس باہر کو نکلتی تو تمام گاؤں والوں کی زبان پر یہی فقرہ آتا " ماسٹر جی کیسے ہیں اب؟"

ماسٹر اللہ دتہ کی حالت سنگین تھی۔

" مریض کا کافی خون بہہ چکا ہے۔۔ اسے خون کی اشد ضرورت ہے۔۔ آپ لوگوں میں سے جو خون دینا چاہتا ہے وہ ہمارے ساتھ آئے" ایک ڈاکٹر نےباہر  آ کر کہا۔

امین بخش سمیت پانچ لوگ خون دینے پہنچ چکے تھے مگر اُن میں سے صرف دو کو چن کر بقیہ تمام کو واپس بھیج دیا گیا۔

خون کی بوتلیں ماسٹر اللہ دتہ کو لگانے سے پہلے ہی اُن کی حالت بگڑنے لگی۔ کافی خون ضائع ہوجانے کے سبب اُن  کا سانس بھی مزید اُکھڑتا جا رہا تھا۔

تمام ڈاکٹر اپنی تگ و دو میں مصروف تھے۔  آپریشن تھیٹر کے باہر ایک ہنگامہ سا لگ چکا تھا۔  امین بخش اور دیگر گاؤں والے ڈاکٹروں اور نرسوں کے چہرے  پر پیشانی دیکھ رہے تھے۔

پھر اچانک ایک سکوت سا طاری ہو گیا۔ وہ ہنگامہ، وہ تگ وڈور اب تھم چکی تھی۔

 چند ڈاکٹر  آپریشن تھیٹر سے باہر نکلے تو گاؤں والوں نے اُن کے گرد ایک گھیرا بنا لیا تھا۔


 ہم معزرت خواہ ہیں کہ آپ کے ماسٹر جی کو ہم نہیں بچا سکے۔۔۔ اُن کا کافی خون یہاں آنے سے پہلے ہی ضائع ہو چکا تھا۔۔۔ اُن کے پھیپڑوں میں بھی کافی پانی بھر چکا تھا جس کی وجہ سے سانس بحال ہونا مشکل تھا۔۔۔۔ ورثا کے لواحقین کچھ دیر تک ڈیڈ باڈی لے جا سکتے ہیں" مقدم ڈاکٹر امین بخش اور بقیہ گاؤں والوں سے مخاطب تھے۔

یہ خبر گاؤں والوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھی۔

کچھ مرد حضرات یہ خبر سن کر فوراََ ہی گاؤں رخصت ہو گئے جہاں اکثر خواتین امین بخش کے گھر ، جبکہ مرد ماسٹر اللہ دتہ کے دروازے پر کھڑے کسی خبر کے منتظر تھے۔

ماسٹر اللہ دتہ کی وفات کی خبر گاؤں میں سب سے پہلے ملک امیر حمزہ کو سنائی گئی جو ماسٹر اللہ دتہ کے گھر ہی براجمان تھا۔

حافظ سیف اللہ کو ماسٹر جی کی وفات کا اعلان کرنے کو کہا گیا۔ گھر کے مقفل دروازوں کو کھول دیا گیا۔

 امین بخش کے گھر سلمیٰ تک بھی پیغام پہنچ چکا تھا۔ فضل الہیٰ کی طرف بھی وفات کی خبر پہنچ چکی تھی۔

 پل بھر میں تمام گاؤں میں ماسٹر اللہ دتہ کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔

ماسٹر اللہ دتہ اور امین بخش کے گھر کے اندر اور باہر لوگوں کا رش لگ چکا تھا۔

پھر سیاہ اندھیرے میں ایک گاڑی کی روشنی دور سے آتی دکھائی دی۔ جیسے ہی یہ گاڑی برگد کے پیڑ سے بائیں طرف کو مڑی تو رونے کی آوازوں میں شدت آتی گئی۔

ماسٹر اللہ دتہ کی لاش کو اُن کے اپنے گھرویرانڈے میں رکھا گیا۔ امین بخش بلکل خاموش سا ہو کر ماسٹر اللہ دتہ کی چارپائی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا تھا۔

ماسٹر اللہ دتہ صرف امین بخش کا دوست نہیں تھا۔ بلکہ سکھ دکھ کا ساتھی اور بھائی سے بھی بڑھ کر تھا۔

رات گیارہ کے قریب چاپارئی کو اندر کمرے میں رکھ دیا گیا تھا اور مرد اِن کے گرد ہی بیٹھ گئے تھے۔

ماسٹر اللہ دتہ کے گھر کا اکثر سامان سلمیٰ نے کچھ لڑکیوں کی معاونت سے سنبھال دیا تھا ۔ سلمیٰ، شانزے اور محلے کی دیگر خواتین ایک علیحدہ کمرے میں براجمان تھیں۔

تمام رات  ماسٹر اللہ دتہ کی لاش کے اردگرد بیٹھے مرداُن کی عظمت اور گاؤں کو لے کر اُن کی بے لوث خدمت کے متعلق ایک دوسرے کو بتاتے رہے۔

گاؤں کا نہایت شریف واسی جس نے نہ کسی کو کچھ برا کہا، نہ سنا۔ تمام عمر گاؤں کے لیے وقف کرنے والا یہ شخض آج اس قدر اچانک سب کو چھوڑ کر اس دنیاِ فانی سے چلا گیا۔

صبح دو بجنے سے کچھ پہلے گاؤں کی اداس تاریکی میں شکیلے کی گاڑی  داخل ہوئی اور ماسٹر اللہ دتہ کے دروازے کے قریب جا کر رک گئی۔

گاڑی کی آواز پر اندر بیٹھے افراد چونکے۔ سلمیٰ چونکہ وقت اور معاملے کی نوعیت سے با خبر تھی تو فوراََ کمرے سے نکلی۔

اُس کی نظر کھلے ہوئے دروازے کے پار بڑی سی چادر اپنے گرد لپیٹے ہوئی مومنہ پر پڑی جو گاڑی سے اُترتے ہی زارو قطار روئے جا رہی تھی۔

آگے بڑھ کر سلمیٰ نے مومنہ کو گلے لگایا اور دونوں رو دیں۔

کسی طرح سہارا دے کر اُسے اندر کمرے میں لایا گیا تو اکثر مرد باہر نکلنے لگے۔

گھر کے درمیانے کمرے میں جہاں وہ اکثر اپنے بابا کے ساتھ مل کر کھانا کھایا کرتی تھی، کھیلا کرتی تھی اور پڑھا کرتی تھی وہاں فقط ایک چارپائی پڑ ی نظر آ رہی تھی۔

شادی کے بعد جب کبھی بھی وہ اس کمرے میں داخل ہوتی تو ماسٹر اللہ دتہ اُسے یہاں سامنے ہی بیٹھ کر کچھ نہ کچھ پڑھتے نظر آتے۔

ایسے میں وہ اُسے دیکھ کر اکثر یہ کہا کرتے کہ  " آ گئی میری شہزادی" جس پر وہ مسکرا کر کہتی کہ " اب آپ کی شہزادی ملکہ بن گئی ہے" اور پھر وہ دونوں ہنس دیتے۔

مگر اب وہ داخل ہوئی تو اندھیرے میں بلب کی ذرا سی روشنی میں وسط میں پڑی چارپائی اور اُس کے اردگرد بچھی ہوئیں دریاں بڑی بھیانک معلوم ہوئیں۔

کپکپاتے وجود کو سنبھالتے ہوئے وہ دروازے سے آگے بڑھی ۔ اُسے لگ رہا تھا کہ ابھی وہ یہاں گر جائے گی اور پھر شاید کبھی نہ اُٹھ سکے۔ کیوں کہ اُس کے پیروں میں ذرا سی بھی جان محسوس نہ ہو رہی تھی۔

چارپائی کے پاس کھڑے ہو کر وہ کچھ دیر رکی اور پھر کپکپاتے ہاتھوں سے چہرے سے چادر اُٹھا دی۔

اندھیرے میں ماسٹر اللہ دتہ کا روشن چہرہ کچھ زیادہ ہی روشن دکھائی دے رہا تھا۔  اُن کی ڈاڑھی پر خون کے ہلکے ہلکے دھبے کسی مہندی کی طرح نظر آ رہے تھے۔

ماسٹر اللہ دتہ کی بند آنکھیں اور اُن کے چہرے کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ سو چکے ہوں۔ کسی ایسی گہری نیند میں جس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔

اسی لمحے اُس کی نظر چاپرئی کے دوسری طرف کھڑے فواد پر پڑی جو امین بخش کے گلے لگ کر ناجانے کیوں رو رہا تھا۔

فوراََ ہی اُس نے اپنا دھیان ماسٹر اللہ دتہ کے چہرے کی طرف بٹایا مگر پھر اچانک ہی کمرے میں اندھیرا بڑھنے لگا۔

 یہاں تک کہ اُس کی آنکھوں کے سامنے سے ماسٹر اللہ دتہ کا چہرہ بھی رخصت ہو گیا۔ اسی دوران وہ اپنا وجود بر قرار نہ رکھ سکی اور سلمیٰ کی جانب گر پڑی۔

مومنہ کو بے ہوش ہوتا دیکھ کر فواد اور امین بخش فوراََ دوڑے۔ مومنہ کو اُٹھا کر علیحدہ کمرے میں لے جایا گیا۔ پانی کے چھینٹے منہ پر مارے گئے۔ ٹھنڈی پٹیاں سر پر رکھی گئیں۔ نصف گھنٹے بعد مومنہ کو ہوش آیا۔

" ابا جاگ گئے یا نہیں" ہوش آتے ہی مومنہ  نے سلمیٰ ہاتھ پکڑے کر پوچھا "فواد! جا کر ابا کو جگاؤ۔۔۔ اُن کی نماز قضا ہوہ رہی ہے۔۔۔ آج تو وہ تہجد پر بھی نہیں اُٹھے"

وہ صدمے میں تھی۔ اُس کی سمجھ میں اس وقت کوئی بات بھی نہیں آر ہی تھی

وہ اپنے گھر کے صحن میں کافی جانے پہچانے چہرے تو دیکھ سکتی تھی مگر اُن کے رونے کے سبب سے نا واقف تھی۔

کبھی کبھار اُس کے حواس درست ہوتے تو وہ چہرے کو دیکھ کر زور زور سے رونے لگتی، کبھی چیخ و پکار شروع کر دیتی تو کبھی خاموشی سے بیٹھ کر سب دیکھنے لگتی۔

صبح نو بجے تک قبر تیار کر دی گئی تھی۔ جنازے کی تیاریاں شروع  ہو چکی تھیں۔ امین بخش تو بے دھیان سا ہو کر الگ بیٹھا تھا۔

فواد نے آتے ہی سب انتظامات دیکھ لیے تھے۔ قبرنکلوانے سے لے کر مرد و خواتین کے بیٹھنے کی جگہ کے تعین تک فواد نے سب کچھ طے کر دیا تھا۔

صحن کے وسط میں چارپائی پر ماسٹر اللہ دتہ کے بے جان وجود کے اردگرد لوگوں کا ایک ہجوم کھڑا تھا۔

ماسٹر اللہ دتہ کے خونی رشتہ دار تو نہ تھے مگر پھر بھی اُن کا بھائی، بھابھی، بیٹا، بیٹی، بھتیجے، بھتیجیوں، بھانجے اور بھانجیاں کھڑی تھیں۔

ہر پرایا بھی اپنا تھا۔ صحن میں مرد و خواتین، بوڑھےبزرگ، بچے بڑے حتیٰ کے تمام گاؤں والے زارو قطار روئے جا رہے تھے۔

کوئی بھی اس غیر متوقع موت پر راضی نہ تھا۔ مگر تقدیر کے فیصلے متقدم تھے۔ یہ تو فطرت کے قوانین تھے۔ کوئی جلدی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو کوئی دیر سے۔ کسی کی قسمت میں طبعی موت آتی ہے تو کسی کے حصے میں ہنگامی موت۔

عورتوں کی وین ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جنازے کا وقت آن پہنچا تھا۔

 جیسے ہی چارپائی اُٹھانے کے لیے مرد آگے بڑھ اسی لمحے مومنہ نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا۔

آج ایک آخری خونی رشتہ بھی چھن چکا تھا۔ اتنا رونا، چیخنا اور چلانا تو بنتا تھا اُس کے حق میں۔ اسی لیے تو کوئی اُسے روک نہ رہا تھا۔

جنازہ گاؤں کی گلیوں سے ہوتا ہوا قبرستان کے قریب پہنچا۔ جہاں ایک خالی زمین دیکھ کر حافظ سیف اللہ نے نماز ِ جنازہ پڑھا دیا۔

غازی پورہ کی تاریخ لکھنے والے قلم لکھتے ہیں، سنانے والی زبانیں سناتی ہیں ، پڑھنے والے دل پڑھتے ہیں اور سننے والے کان سنتے ہیں کہ  نہ ماسٹر اللہ دتہ سے پہلے اور نہ اُن کے بعد کوئی شخض اس قدر مرتبے کا حامل ہو سکا جو اُنھیں حاصل تھا۔ وہ کسی کے بھی نہیں تھے اور سب کے تھے۔

تمام گاؤں اُن کا شاگرد، تمام گاؤں والے اُن کی برادری اور عزیز۔

ہر ایک سے سلام دعا، ہر ایک سے اُٹھنا بیٹھنا۔ نہ کسی سے کبھی کسی بات پر لڑائی نہ جھگڑوں میں شرکت۔ ہمیشہ دکھ سکھ میں وہ ساتھ کھڑے نظر آتے۔

تدفین  کے دوران بیٹے کی ذمہ داریاں فواد نے ادا کیں۔ ماسٹر اللہ دتہ کی جسدِ خاکی قبر میں اُتارنے والوں میں بھی فواد اور شکیل سمیت ملک امیر حمزہ کا بیٹا شامل تھا۔

قبر پر مٹی ڈالنے والوں میں اپنے پرایے گاؤں کے سبھی لوگ شامل تھے۔

دوسری جانب مومنہ کی حالت کچھ درست نہ تھی۔ پاس کے ہسپتال سے ایک نرس کو بلایا گیا جس نے آتے ہی معائنہ کیا اور دوائی لکھ کر دے گئی۔

دوائی کے اثر سے مومنہ شام میں ایسے سوئی کے تمام رات سوتی رہ گئی۔

ماسٹر اللہ دتہ کی وفات کے بعد اُن کا یہ گھر بلکل سنسنان ہو چکا تھا۔ مومنہ بضد تھی کہ وہ یہاں ہی رہے گی مگر فواد اُسے ایسے کرنے سے منع کرتا رہا۔

اگر مومنہ اس گھر میں رکتی تو لازم تھا کہ گھر کے کسی کونے سے ماسٹر اللہ دتہ کی یادیں اُٹھ کر اُسے کے ہوش و حواس پر پھر سے قابض ہوجائیں۔ اسی سبب وہ اُس کے یہاں رکنے پر  رضامند نہ تھا۔

روز صبح امین بخش نماز کے بعد اکیلے مسجد کی صفائی کرتا۔ کیوں کہ اب اُس کے ساتھ تو زندہ نہ رہے تھے۔

وہاں سے لوٹتا تو سلمیٰ ناشتہ رکھتی اور ناشتہ کر لینے کے بعد وہ ماسٹر اللہ دتہ کے گھر کا دروازہ جا کر کھولتا۔

اُسے یاد پڑتا تھا کہ ہر شام عصر کے بعد وہ دونوں بیلی یہیں اسی صحن میں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ مگر اب یہ گھر سنسنان اور ویران تھا۔

ایک بات جس سے امین بخش کے سوا باقی سب نآشنا تھے، وہ یہ کہ ماسٹر اللہ دتہ یہ گھر اپنی بیٹی کو جہیز میں دے گئے تھے۔

لیکن اُنھوں نے وعدہ چاہا تھا کہ امین بخش یہ بات اُن کے مرنے تک کسی کو نہ بتائے۔

امین بخش روز صبح ماسٹر اللہ دتہ کے گھر کی بیٹھک کا دروازہ کھول کر بیٹھ جاتا اور دن بھر فاتحہ خوانی کرنے والے حضرات کا تانتا بندھا رہتا۔

یہی صورتحال گھر کے اندر کمرے میں عورتوں کی طرف رہتی۔

امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ کا چوتھا بھی بلکل اسی طرح کروایا جس طرح اپنی ماں کے مرنے پر تھا۔

کوئی یہ توقع نہیں کر سکتا تھا کہ ماسٹر اللہ دتہ کا اس دنیا میں کوئی رشتہ باقی نہیں بچا۔ اُن کا نام لینے والے، اُنھیں یاد کرنے والے، اُنھیں دل میں بسانے والے کئی لوگ گاؤں کے کونے کونے میں موجود تھے۔

یہی حال ہر جمعرات کو رہتا۔ محلے اور گاؤں کے ہر بندے نے اپنی بساط کے مطابق جمعرات کروانے میں حصہ ڈالا۔

Comments

Popular Posts