قسط نمبر : 24

 مناسب اور بہترین تعلیم و تربیت اور نہ ہی عالی نسب خاندان سے وابستگی بلکہ انسان کی پختہ سوچ ہی اُس کی شخضیت کی واضع عکاسی کرتی ہے۔ انسان کی یہ سوچ اُس کے کردار کی صورت میں نکھر کر منظر پر آتی ہے اور کردار کی یہ عکاسی جزبات و احساسات کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔

اپنے جزبات و احساسات کو قابو میں رکھنے والا شخض ہی حقیقتاََ کامیاب ہے۔ کیوں کہ نہ تو اپنے اور نہ ہی پرائے ایسے شخض کے کرادر اور بلاشبہ شخضیت کے متعلق ہی کوئی واضع اندازہ لگا سکتے ہیں۔ 

ایک ہفتہ وہ یونیورسٹی نہیں آئی تھی اور اب ہفتے سے زائد ہونے کو تھا اور فواد اُسے یونیورسٹی میں کہیں نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔

سدرہ کے پوچھنے پر نورین نے بتایا کہ اُس نے فواد کو اُس دن کے بعد یونیورسٹی نہیں دیکھا جس روز وہ سدرہ کے گھر گئی تھی۔

" ضرور بابا نے اُسے کچھ ایسا بولا ہے کہ وہ یونیورسٹی چھوڑ کر چلا گیا" سدرہ پریشانی مین سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔

" شاید کوئی اور مسئلے ہو" نورین نے پھر سے تسلی دی۔

" یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ کہیں اُس نے میری وجہ سے تو نہیں چھوڑ دی یونیورسٹی۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں نے اُس سے محبت کا دعویٰ کیا ، پھر بابا نے اُسے کوئی دھمکی دی اور اُس نے پیچھا چھڑانے کے لیے یونیورسٹی چھوڑ دی۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔ یہ میں نے کیا کر دیا"

" یار مت رو تم۔۔۔ اُس نے یونیورسٹی چھوڑی نہیں  ہو گی۔۔ کوئی اور مسئلہ ہو گا" نورین تسلی دے رہی تھی۔

اسی دوران نورین کی نظریں سامنے دروازے پر جا کر ٹک گئیں  جہاں  کاٹن کے سفیدشلوار قمیض میں ملبوس، کندھے پر بستہ لٹکائے، کلائی سے وقت دیکھتا، چلتا آتا ہوا فواد دکھائی دیے رہا تھا۔

فواد کو اس روپ میں اگر کوئی بھی لڑکی دیکھے تو دیوانہ ہوئے بغیر کیسے رہے۔

سدرہ نے اُس سے محبت کر کے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ وہ تو ایسا تھا کہ ایک سدرہ کی بجائے ہزاروں سدرہ کی محبت کے لائق تھا۔

" سدرہ! "

" کیا ہے"

" وہ دیکھو۔۔ فواد "نورین بولی۔

" کدھر۔۔ کہاں"  سدرہ نے سر اُٹھا کر آس پاس  نظریں گھماتے ہوئے پوچھا۔

" وہ سامنے شہباز کے پاس کھڑا ہے" نورین نے اشارے سے بتایا۔

سدرہ نے سامنے کی جانب دیکھا تو لان کی حدود سے پرے، کیاریوں سے ذرا دور ہو کر فواد شہباز کے بغل میں اس طرح کھڑا تھا کہ اُس کا یک رخ سدرہ کے سامنے تھا اور دوسرا نظروں سے اوجھل۔

اُسے یہوں محسوس ہوا کہ جیسے اُس کے قلب سے دل تمام زنجیریں توڑ کر فواد کی جانب دوڑ پڑا ہو۔ جیسے اُس کا وجود ساقت سا ہو گیا ہو۔ جیسے نہ رگوں میں خون کی گردش جا رہی ہے اور نہ جسم میں سانس کی۔

 گھنٹی کی آواز پر اُس نے پھر کر دیکھا اور شہباز کو اشارے سے چلنے کا بول دیا۔

 اسی لمحے سدرہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور بلکل اُس راستے کے قریب کھڑی ہو چکی تھی جہاں سے فواد گزرنے والا تھا۔

" کیسے ہو فواد؟" سدرہ نے فواد سے گزرتے ہوئے پوچھا۔

" اچھا ہوں" فواد نے جواب دیا اور بغیر رکے، بغیر ٹھیک سے سدرہ کی  جانب دیکھے آگے چل دیا۔ جبکہ سدرہ ساقت کھڑی رہ گئی۔

اُس کی آنکھوں کی نمی اس قدر تھی کہ فواد پوچھ سکے کہ وہ رو کیوں رہی ہے کم از کم وہ اُس سے صحت کے متعلق بھی تو پوچھ سکتا تھا۔

کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اُس کا وجود ان تین ہفتوں میں اتنا گھل کیا۔ مگر شاید ہر بار انسان کا توقع پر اُترنا ممکن نہیں ہوتا۔

٭٭٭

شہر سے آئے ہوئے اُسے دو ہفتے ہونے کو تھے۔ اُس کے امتحانات بھی قریب آنے والے تھے اور پڑھائی کا حرج بھی ہو رہا تھا۔

چونکہ مومنہ تو چالیس دن تک نہ آ سکتی تھی اس لیے فواد اور ماریہ دونوں شہر چلے آئے۔

ماریہ کھانا بنانے کے متعلق کچھ نہ کچھ جانتی تھی۔ جو رہی سہی کثر تھی وہ بازار کا کھانا پوری کر دیتا تھا۔

شام کو وہ پہنچے اور صبح سے اپنے معمول پر پھر سے رواں دواں۔

اگلے روز صبح ماریہ کو کالج چھوڑ کر وہ اپنی یونیورسٹی چلا گیا۔ جہاں اُسے کے تمام ساتھی انتظار کرتے ملے۔

گزشتہ چند روز میں یونیورسٹی میں اُس کی کلاس کے افراد اور اُساتذہ اکرام فواد کی اچانک اتنی لمبی غیر حاضری پر خاصے حیران تھے۔

فواد نے آتے ہی اس سنگین حادثے کی اطلاع دی تو تعزیت کرنے والوں کی قطار لگ گئی۔

یونیورسٹی سے نکل کر وہ ماریہ کے کالج گیا اور اُسے لیے سیدھا گھر۔

 کچھ دیر سستا کر وہ اکیڈمی کی جانب چل دیا اور ماریہ کو بولتا گیا کہ وہ ندیم صاحب کے گھر کرن اور خدیجہ کے پاس چلی جائے۔

یہ معمول جوں کا توں چلتا رہا جب تک کہ ماسٹر اللہ دتہ کے چالیسویں کا دن قریب نہ آ گیا۔ اتفاق سے یہ دن ہفتہ کے روز بن رہا تھا۔

فواد اور ماریہ جمعہ شام کو گاؤں پہنچ چکے تھے۔  ہفتہ کو چالیسواں کیا گیا اور اتوار کو فواد اپنے اور ماریہ کے ساتھ مومنہ کو بھی شہر لیتا آیا۔

وہ نہیں چاہتا تھا کہ گاؤں کی غیر محفوظ فضا میں مومنہ ذرا دیر کے لیے بھی رہے۔

اتوار شام کو وہ گھر پہنچے تو ندیم صاحب کا پورا گھرانہ مومنہ کے پاس تعزیت کے لیے پہنچا۔ ہر کوئی اپنے لحاظ سے دلجوئی کرتا رہا۔

مومنہ کالج گئی تو یہی صورتحال کچھ وہاں بھی رہی۔ کیوں کہ فواد نے اُس کے کالج پہلے ہی اطلاع کر رکھی تھی۔

وہ گاؤں میں تھی تو گاؤں کا چپہ چپہ اُسے ماسٹر اللہ دتہ کی یاد ستاتا تھا۔

 کسی جگہ وہ اُن کے کندھوں پر سوار ہو کر گھومنے جاتی تو کسی جگہ وہ اُس کا ہاتھ تھامے سکول سے گھر لا رہے ہوتے۔

اب یہاں آئی تو گھر کے ہر حصے سے اُسے اپنے ابا کی یادیں وابستہ سی معلوم ہوتیں۔

کبھی وہ کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھتے دکھائی دیتے تو کبھی بازار سے سودا سلف لا کر باورچی خانے کے دروازے کے قریب رکھتے ہوئے۔

کبھی وہ اُسے بالکونی میں کھڑے ہو کر گلی کی جانب گھورتے ہوئے محسوس ہوتے تو کبھی بازار سے لوٹ کر شہر کی شکایتیں کرتے۔

ایسی صورت میں وہ اکثر گھر کے کام کرتے کرتے رو دیتی مگر پھر ماریہ اور فواد کی صحبت اُس کا جی بہلائے رکھتی تھی۔

اپنوں کو کھونے کا ڈر، اُن سے رخصت ہونے کا خوف اور اُن بغیر جینے کا تصور ہمیں کتنا بھیانک لگتا ہے۔ مگر در حقیقت ایک بار ہمارا راستہ اُن سے جدا ہو جائے، ہماری منزلیں مختلف ہو جائین اور ہم اُن سے بچھڑ کر تنہا اپنے بنائے راستوں پر چلنے لگیں تو پھر  نہ اُن کی یاد ہمارے دلوں پر کوئی زیادہ کیفیت طاری کر سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ہم پر غالب آ سکتا ہے۔ کیوں کہ وہ تمام ڈر اور خوف جس کے سبب ہم اب تک رکے ہوتے ہیں وہ اُن کے رخصت ہوتے ہی اُن کے ساتھ جاتا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو اپنے اندر محسوس کرنے سے حقیقت واضع ہو سکتی ہے۔ انسان بس دوسروں کو کھونے سے ڈرتا ہے مگر در اصل وہ اُن کے بغیر جی بھی سکتا ہے اور مر بھی سکتا ہے۔

Comments

Popular Posts