قسط نمبر: 25
جب انسان ایک مرتبہ عشق کے سمند میں غوطہ زن ہو جائے تو پھر نہ اُسے ڈوب جانے کی فکر لاحق ہوتی ہے اور نہ کنارے تک بسلامت پہنچنے کی۔
انسان کئی مرتبہ لہروں سے
لڑ جھگڑ کر تیرتا ہوا اپنی منزل کے قریب جا پہنچتا ہے مگر پھر ایک بڑی لہر آتی ہے
اور اُسے اپنی منزل سے مزید دور کر دیتی ہے۔
ایسے
میں ہمت ہار جانے والا شخض بزدل اور پست حوصلہ کہلاتا ہے۔ جو عشق کے گرداب میں
پھنس تو گیا مگر نکلنے کے راستے سے محروم ہے۔
ایم
۔ اے کا دورانیہ ختم ہونے کو فقط ایک ماہ رہ گیا تھا۔ اس ایک ماہ میں اُن کے
امتحانات بھی تھے جن کے لیے اُنھیں سر توڑ محنت کرنا تھی۔
اب
فواد ہمیشہ سدرہ کے سامنے آنے سے کتراتہ تھا۔ وہ اُس کے سامنے والے میز پر آ کر
بیٹھتی تو وہ اُٹھ کر کسی اور میز پر چلا جاتا۔ وہ بات کرنا چاہتی تو وہ نظر انداز
کر کے آگے بڑھ جاتا۔
ایسا
وہ صرف اس لیے کرتا تاکہ سدرہ کے دل میں جو فواد نامی محبت کا بت براجمان ہے اُسے
سدرہ خود اپنے ہاتھوں سے نیست و نابود کردے۔
مگر
پھر بھی سدرہ اُس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈ لیا کرتی۔ سال بھر سے تو اب وہ کپڑے
بھی اس ڈھنگ کے پہنتی جو فواد کے مظابق ہر گز برے نہ ہوں۔
ہرنئے
گانے پر تبصرہ کرنے والی، ہر فلم کو پہلے دیکھنے کی شوقین، ہر نیا فیشن سب سے پہلے
متعارف کروانے والی لڑکی کے سر پر اب ہمیشہ ڈوپٹہ ہوتا تھا۔
نماز
کی پابندی بھی لازم تھی اور فلمیں گانے تو وہ سننا بھی گوارہ نہ کرتی۔
یونیورسٹی
میں جو وقت وہ کیفے میں بیٹھ کر گانے سننے میں صرف کیا کرتی تھی اب اُسی وقت میں
وہ لائبریری میں بیٹھ کر اقبال اور رومی کو پڑھتی۔
کوئی
یقین نہیں کر سکتا تھا کہ سال پہلے والی سدرہ اور آج والی ایک ہی ہے۔
خود
فواد بھی اس قدر جلد تبدیلی پر حیران تھا۔ یقیناََ سدرہ خوبصورت تھی اور اب خدا کے
کرم سے وہ خوب سیرت بھی بنتی جا رہی تھی مگر پھر بھی فواد اُسے قبول نہ کر سکتا
تھا۔
وہ
اُسے جتنا نظر انداز کرتا اُتنا ہی سدرہ کے دل میں گھر کرتا جا تا۔ فواد کے لیے
سدرہ کی محبت روز بروز بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
عورت
محبت بہت کم کرتی ہے۔ مگر جب کرتی ہے تو اس شان سے کہ زمانے والے کانپ کر رہ جاتے
ہیں۔
ایک
آخری باراُس نے فواد سے کچھ کہنا چاہا۔ ایک آخری بار اپنا حال فواد کے گوش گزارنا
چاہا۔ ایک آخری بار اُس کے پتھر دل کو موم کرنے کی جسارت کرنا چاہی۔
فواد
لائبریری میں بیٹھا مطالعہِ کتب میں مصروف تھا جب سدرہ اُس کے سامنے والی کرسی پر
آ کر بیٹھی۔
مگر
سدرہ کو بیٹھتا دیکھ کر فواد فوراََ ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔
" فواد! آج میں تم سے ایک آخری بات کرنا چاہتی ہوں" سدرہ
نے فواد کو اُٹھتے دیکھ کر کہا۔
" کہو!"
" میں کیفے میں تمہارا انتظار کروں گی"
" مت کرنا۔۔۔ میں کبھی نہیں آؤں گا" فواد نے بولا اور
کتاب شیلف میں رکھ کر لائبریری سے باہر نکل گیا۔
سدرہ
حسبِ معمول کیفے میں چلی گئی اور شام چار بجے تک انتظار کرنے کے بعد گھر چلی گئی۔
یونیورسٹی میں بات پھیل چکی تھی کہ سدرہ فواد سے محبت کرنے لگی ہے مگر فواد شادی شدہ ہے۔
کیسی
عجیب شے ہے یہ محبت بھی۔ یہ حسب و نسب، اونچ نیچ وغیرہ دیکھ کر نہیں ہوتی۔ کیا برا
تھا اگر سدرہ کوکسی ایسے لڑکے سے محبت ہوتی جو فواد کی طرح شادی شدہ نہ ہوتاکیا
غلط تھا جو وہ فواد کی طرح کسی چھوٹے گھرانے کا لڑکا نہ ہوتا۔ وہ لڑکا جمال بھی تو
ہو سکتا تھا۔ جس نہ صرف اونچے گھرانے کا خوش شکل لڑکا تھا بلکہ فواد کی طرح شادی
کے بندھن میں بھی ابھی تک نہ بندھا تھا۔
مگر وہ فواد نہیں تھا اور نہ ہی وہ سدرہ کی محبت۔
" فواد! کل سدرہ چار بجے تک کیفے میں تمہارا انتظار کرتی رہی
اور آج پھر وہیں بیٹھی ہے" نورین نے فواد کو بتلایا جو لائبریری سے نکل رہا
تھا۔
" اُسے کہا کہ یہ پاگل پن نہ کرے اور گھر جائے اپنے"
فواد نے بولا۔
" مگر وہ سنتی کب ہے کسی کی" نورین بولی مگر فواد آگے جا
چکا تھا۔
" ان دونوں پاگلوں کے بیچ میں پھنس گئی" نورین خود سے
بولی۔
یونیورسٹی
کے مرکزی دروازے سے باہر نکل کر اُس نے گھڑی پر سے وقت دیکھا تو ابھی ساڑھے بارہ ہوئے تھے ۔
سڑک
کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ اپنے دن کے بقیہ معمول کو ترتیب دینے لگا تھا جب اُس کی
نظر کیفے کی کھڑکی کے پار چہرہ لٹکائے بیٹھی ہوئی سدرہ پر پڑی۔
نورین
کی بات سے وہ جان چکا تھا کہ سدرہ آج پھر اُس کے انتظار میں وہیں بیٹھی رہے گی۔
ایک شریف گھرانے کی لڑکی کا ایسے کیفے میں کسی لڑکے کے انتظار کی خاطر رکنا کچھ اچھا
بھی نہ تھا۔
بے
دلی سے کیفے میں چلا گیا۔ گزشتہ دو دفعہ یہاں آنا اُس کے حق میں کچھ بہتر
ثابت نہ ہوا تھا۔
" یہ آخری بار میں اس کیفے میں تمہاری وجہ سے آ رہا
ہوں" فواد کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
" میں کل بھی تمہارے انتظار میں یہاں بیٹھی رہی اور قیامت تک بیٹھی
رہ سکتی تھی"
" مگر قیامت تک شاید میں زندہ نہ رہتا۔۔۔ خیر بولو کیا چاہتی
ہو مجھ سے"
" میں تم سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ تم کیا چاہتے ہو مجھ
سے؟" سدرہ نے جواباَََ سوال کیا۔
" میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تم ایک اچھے گھرانے کی شریف لڑکی ہو
اور ایسی فضول محبت میں پڑ کر اپنا مستقبل خراب مت کرو جس کی کوئی منزل نہیں
ہے"
" تم محبت کو فضول کہتے ہو؟"
" محبت بذات خود فضول نہیں ہے۔۔۔ یہ جذبہ تو دو دلوں اور
روحوں کو آپس میں جوڑنے کا ایک خوبصورت رشتہ ہے۔۔۔ میں اُس محبت کو فضول کہہ رہا
ہوں جس کی کوئی منزل نہ ہو۔۔۔ جس میں اُس چیز کا حصول ہی ممکن نہ ہو جس کی آپ چاہت
کرتے ہیں"
" میری چاہت تم ہو" سدرہ بولی "اور تمہیں پانے کے
لیے میں ہر شے قربان کر کے اپنی منزل کا تعین اور راستوں کا انتخاب کر سکتی
ہوں"
" ایسا ممکن نہیں ہے سدرہ!"
" کیوں ممکن نہیں ہے؟"
" میرا دل پہلے ہی کسی کا ہو چکا ہے۔۔۔ میری روح پہلے ہی کسی
دوسری کے ساتھ منسلک ہو چکی ہے۔۔۔ میرے عقد میں پہلے سے ہی ایک لڑکی موجود
ہے"
" اسلام میں مرد کو چار شادیاں جائز ہیں" پہلی بار سدرہ
نے فواد کو لاجواب کرنا چاہا۔
" مگر اس صورت میں جب پہلی کی رضامندی ہو" مگر فواد کا
جملہ سدرہ کو لاجواب کرنے کے لیے کافی تھا۔
" اگر میں تمہاری بیوی کو
تمہاری دوسری شادی کے لیے منا لوں تو؟" سدرہ بولی۔
" فائدہ نہیں"
" کیوں؟"
" میں رضامند نہیں ہوں گا" فواد بولا۔
" مگر کیا وجہ ہے؟۔۔۔ تم رضامند کیوں نہیں ہو گے۔۔۔ کیا میری
محبت میں کمی ہے"
" میرے کندھوں پر پہلے بہت بوجھ ہے سدرہ!۔۔۔ میں پہلے بہت ذمہ
داریوں کا بوکھ برداشت کر رہا ہوں۔۔ ذرا سی ٹیوشن کی تنخواہ سے دو گھر چلا رہا
ہوں۔۔ تمہیں کیسے رکھ سکوں گا"
آج
پہلی بار فواد نے جانے انجانے میں سدرہ کی بات کو تصور کیا۔ کسی نہ کسی صورت میں
ہی سہی مگر وہ سدرہ کی بات پر غور تو کرسکا۔ یہی سدرہ کے نزدیک محبت کی پہلی سیڑھی
کو عبور کرنے کے مترادف تھی۔
" جب تم میرا نام لیتے ہو تو دل میں ایک کپکپی سی طاری ہو
جاتی ہے۔۔۔ تم فکر نہ کرو فواد!۔۔۔ میرے پاپا کا بڑا وسیع کاروبار ہے"
" میں کسی کا گھر داماد بن کر اُن کے ٹکڑوں پر پلنے کی بجائے
بھوکا مرجانا بہتر سمجھوں گا" فواد کے لہجے میں سختی آ چکی تھی " تم
مجھے پر اپنے والد کے کاروبار اور روپے پیسے کا رعب مت جھاڑو۔۔۔ اور نہ ہی مجھ سے
ایسی کسی چیز کی توقع رکھا۔۔۔ فواد محمود اپنے بل بوتے پر آج تک آگے بڑھا اور بڑھتا
رہے گا۔۔ انشاءاللہ" فواد غصے کے عالم میں وہاں سے اُٹھ چکا تھا۔
" فواد ! تم غلط سمجھ
رہے ہو۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔
فواد میری بات تو سنو" سدرہ فواد کے جانے پر اُسے آواز دینے لگی تھی مگر تب
تک وہ کیفے کے دروازے سے باہر نکل چکا تھا اور اُسے روکنا ممکن نہ تھا۔
٭٭٭
ایم
اے کے امتحان سر پر آتے ہی فواد نے اپنی تمام سرگرمیاں موقوف کر دیں سوائے گھر کی
چند اہم ذمہ داریوں کے جیسے بازار سے سودا سلف لانا، ماریہ اور مومنہ کو کالج
چھوڑنا وغیرہ۔
دن
بھر وہ امتحان کی تیاری کرتا اور شام کو حسبِ معمول ٹیوشن پڑھاتا۔ کیوں کہ وہی تو
گھر میں چولہا جلانے کا سبب تھا۔
امتحان
اُس کی اُمید سے زیادہ اچھے ہو گئے تھے۔ امتحان سے فارغ ہونا اور آگے کی زندگی اُس
کا انتظار کرتے ہوئے نظر آ رہی تھی۔
ایم
اے کے بعد اُسے کیا کرنا تھا یہ امر سوچنے کے لائق تھا۔ پڑھائی کے معاملات میں
اُسے جب کبھی بھی کوئی مشکل پریشانی درپیش آتی تو وہ سر یوسف کو خط لکھا کرتا۔
امتحان
ختم ہوتے ہی ایک خط میں تمام تفصیل لکھ کر سر یوسف کے پتہ پر ارسال کر دیا۔
اس
دوران فواد نے وقت ضائع کرنے کی بجائے ایک سکول میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہ
ملازمت بھی ندیم صاحب کی وجہ سے اُسے حاصل ہوئی تھی۔
انھی
دنوں ندیم صاحب کی بڑی بیٹی خدیجہ کا رشتہ طے ہو چکا تھا۔ اُس کی شادی کی تیاریاں
بھی کی جا رہی تھیں۔
اس
موقع پر فواد نے بھی بھائیوں والی تمام ذمہ داریاں نبھائیں۔ شادی کے تمام معاملات
میں بطورِ بھائی شرکت کی۔ حتیٰ کے شادی کے
تمام انتظامات بھی فواد نے کروائے۔
ندیم
صاحب بھی فواد کی وجہ سےکم فکر مند تھے۔ البتہ اُن کے خاندان کے کچھ رشتہ دار فواد
کی وجہ سے اُن سے ناراض ضرور ہوئے مگر اُنھوں نے یہ رویہ ہر بار کی طرح نظر انداز
کیے رکھا۔
شادی
سے فارغ ہونے کے کچھ دن بعد فواد کو سر یوسف کا خط موصول ہوا جس میں اُنھوں نے
علالت کے سبب خط دیر سے بھیجنے پر معذرت کی۔
اس
کے علاوہ اُنھوں نے فواد کی آئندہ کی زندگی میں اچھے فیصلے کرنے کی تلقین کرنے کے
ساتھ ساتھ اُسے مقابلے کے امتحان میں شرکت کرنے کا مشورہ دیا۔
بلاشبہ
یہ مشورہ اچھا تھا۔ سر یوسف کا کوئی مشورہ بھی اُس کے حق میں آج تک برا ثابت نہ
ہوا تھا تو یہ کیسے ہو سکتا تھا۔
اگلے
روز ہی صبح اُس نے دفتر جا کر پتا کیا تو معلوم ہوا کہ امتحان کو ابھی چھ ماہ کا
عرصہ رہتا ہے۔ اُسی وقت ایک عرضی لکھی اور امتحان میں شرکت کافارم پُرکردیا۔
گھر
لوٹتے لوٹتے ہی وہ متعلقہ نصاب کی چند کتابیں خریدتا چلا آیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے
وہ پہلے ہی مقابلے کے امتحان کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا اور اکثر کتابوں کو
خرید خرید کر گھر میں انبار لگا رکھا تھا۔
اب
اُس کا معمول کچھ یوں ہوتا کہ روز صبح سکول جا کر پڑھاتا، دن میں جا کر ماریہ اور مومنہ کو لے کر آتا اور شام
میں اکیڈمی میں پڑھانے لگتا۔
رات
کو جو وقت بچتا اُس میں سے کچھ حصہ آرام
اور کچھ امتحان کی تیاری میں لگاتا۔
وہ
اپنے ساتھ ہمیشہ ایک کتاب سکول اور اکیڈمی لے کر جاتا۔ ذرا سا بھی وقت ملتا تو
فوراََ کتاب کھول کر بیٹھ جاتا۔
اُسے
اندازہ ہوا کہ سر یوسف کی بدولت وہ حوالے کی بیشتر کتب کا پہلے ہی مطالعہ کر چکا
ہے۔ یہ چیز اُس کا وقت بچانے کو بڑی معاون ثابت ہوئی۔
فواد
نے اپنے مہینہ بھر کی آمدن کا ایک معقول حصہ اپنی کتابوں کے لیے مختص کر رکھا تھا۔
اکثر اوقات مومنہ اور ماریہ بھی اُس کی کتابیں پڑھ لیا کرتیں تھیں۔
اس
دوران کبھی کبھار یونیورسٹی کے دوستوں یاروں سے بھی ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ اُس نے
سن رکھا تھا کہ صرف چند لڑکوں اور لڑکیوں نے ایم اے کے بعد پڑھائی جاری رکھی ہے۔
ورنہ
زیادہ تر نے اُسی کی طرح کسی نہ کسی شعبے میں ملازمت اختیار کر لی ہے۔
فواد
جس سکول میں ملازمت کر رہا تھا ۔ اُس سے ذرا دور ہی پبلک لائبریری تھی۔ جہاں وہ دن
میں اکثر اوقات فارغ وقت میں چلا جایا کرتا۔
ایک
مرتبہ ایسے ہی کسی موقع پر اُس کی نظر دور کتابوں کے بیچ میں بیٹھی سدرہ پر پڑی جس
نے اُسے ابھی تک نہ دیکھا تھا۔
وہ
چاہتا بھی نہیں تھا کہ سدرہ کی نظر اُس پر پڑے ۔ مگر آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
وہ
چپکے سے لائبریری سے باہر نکلنے والا تھا جو سدرہ کی نظر اُس پر پڑ گئی۔
مگر
وہ اُسے دیکھ کر ایسے نظر انداز کر کے چلا گیا جیسے کبھی اس سے ملاقات بھی نہ ہوئی ہو۔
شہریار
کے بقول فواد کو یہ بھی معلوم ہو چکا تھا
کہ سدرہ کے گھر والوں نے اُس کی منگنی بھی کرنا چاہی تھی مگر سدرہ نے منگنی سے صاف انکار کر دیا تھا ۔
مگر
درحقیقت اصلیت سے صرف فواد واقف تھا۔ وہ منگنی کرنے سے صرف اس وجہ سے انکاری تھی
کیوں کہ وہ اب بھی فواد کے انتظار میں تھی۔
فواد
اچھے سے جانتا تھا کہ وہ اب بھی اُس سے محبت کرتی ہے۔ جبکہ سدرہ اپنی ہر ممکن کوشش
کرتی رہی کہ کسی طرح وہ فواد کو بھلاسکے۔ مگر وہ بھلانے لائق تھا ہی نہیں۔ ہر بار
اُس کی کوشش بے سود ہی گزرتی۔
ہماری
زندگی میں بے شمار ایسے لوگ آتے ہیں جن کا بن بلائے آنا ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ مگر
پھر وہی لوگ ہماری زندگی میں اہم ترین بن جاتے ہیں۔ ہماری ترجیہات اُن کے سبب بدل
جاتی ہیں اور اُن کے بغیر ہمیں اپنی زندگی ادھوری سے لگنے لگتی ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب ہم اُن سے بے زار ہو کر
یا کسی مجبوری کو خاطر خواہ لا کر اُنھیں بھول جانا چاہیں، اُن کی یادوں کو دماغ
سے نکالنا چاہتے ہیں مگر ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔
٭٭٭
مقابلے
کا امتحان سر پر تھا جس کے لیے وہ سر توڑ محنت کر رہا تھا۔ اُس نے سکول سے ایک ماہ
کی رخصت بھی لے لی تھی۔ اکیڈمی بھی کم جا رہا تھا۔ البتہ تنخواہ کا مسئلہ درپیش
ضرور ہوا مگر امین بخش معاونت کے لیے موجود تھا۔
اُس
نے اپنی تمام تر توجہ صرف اور صرف امتحان پر مرکوز کر دی تھی۔
اب
پورے دن میں اُس کے صرف دو کام تھے۔ ماریہ اور مومنہ کو کالج چھوڑ نے اور لے جانے
کے علاوہ گھنٹہ ڈیڑھ اکیڈمی میں جانا۔
اس
کے سوا وہ بقیہ تمام دن کتابوں کے انبار میں گھرا رہتا۔ کھانا کھاتا اور پھر پڑھنے
لگتے۔ نماز پڑھتا اور پھر پڑھنے لگتا۔
حتیٰ
کے اُس نے اپنا کمرہ بھی علیحدہ کر لیا تھا۔ ماریہ اور مومنہ دونوں ایک کمرے میں
جبکہ فواد اکیلا دوسرے کمرے میں ہوتا۔
مومنہ
اور ماریہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ وہ رات سوتا بھی ہے یا نہیں۔ اُنھیں تو بس
اتنا معلوم تھا کہ وہ سوتیں تو فواد جاگ رہا ہوتا اور نماز پر بھی وہ خود ہی اُن
دونوں کا جگاتا۔
فواد
رات بھر پڑھتے رہنے کے بعد صبح ماریہ اور مومنہ کو کالج چھوڑ کر آتا اور پھر چین
سے سو جاتا۔ ڈیڑھ بجے آنکھ کھلتی تو جا کر کالج سے اُنھیں گھر لاتا۔
نماز
کے بعد کھانا کھاتے اور وہ پھر سے بیٹھ کر پڑھنے لگتا۔ عصر کے بعد اکیڈمی جاتا اور
مغرب تک لوٹ آتا۔
عشاء
سے پہلے وہ کھانا کھا چکے ہوتے اور عشاء کے بعد تینوں پڑھنے بیٹھ جاتے۔
ایک
کمرے میں فواد، دوسرے میں ماریہ اور باہر لاؤنج میں مومنہ پڑھ رہی ہوتی۔
امتحان
آنے تک اُس کی تمام تیاری مکمل ہو چکی تھی۔
اُس
کی تعلیمی زندگی میں یہ وہ واحدمتحان تھے جس میں اُس نے حد سے زیادہ محنت کی تھی۔
زندگی
تو نام ہی انسان کے امتحانات کا ہے۔ ہر قدم ، ہر راستے، ہر منزل پر امتحان ہے۔
یہ
ضروری نہیں کہ زندگی کے ہر امتحان میں انسان کامیاب ہو۔ کچھ میں ناکام ہونے پر بھی
انسان کو سبق مل ہی جاتا ہے۔
مقابلے
کا امتحان دے لینے کے بعداُس نے سکول میں دوبارہ سے پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ اب
اکیڈمی میں بھی وہ زیادہ وقت دینے لگا تھا۔
امین
بخش کو اُس نے کہہ دیا تھا کہ اب گھر میں جانورڈھور ڈنگر کی کثرت بھی ختم کرے۔ ہر
اڑھائی تین ماہ بعد گھر چکر لگانے پر وہ گھر میں
کسی نہ کسی نئی شے کا اضافہ کر آتا ۔
اب
تو یہاں بھی اُس نے نیا ٹی وی اور فریج لے رکھا تھا۔ اب مومنہ کو رات کو گوندھا آتا پانی کے برتن میں رکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اب
رات کا بچا سالن صبح بھی چل جاتا تھا۔ دودھ کے خراب ہونے کا خدشہ بھی نہ رہا تھا۔
مگر
گھر میں ٹی وی آنے کا ایک نقصان جو ہوا تھا وہ یہ پہلے جو وقت وہ کتابیں پڑھنے میں
لگاتے اب اُس وقت سب مل کر ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھتے۔
فواد
نے قائد اعظم لائبرئرئ کی رکنیت لے رکھی تھی۔ ہر جمعہ شام کو وہ تینوں وہاں جاتے
اور گھنٹہ بھر کو مختلف کتابیں کھنگال کر چند ایک اپنے واسطے چن لاتے۔
بعض
دفعہ کچھ کتابیں لائبریری سے نہ مل پاتیں
تو پھر مومنہ کی گزارش پر وہ وقت نکال کر اردو بازار جاتا اور وہاں سے وہ کتابیں
قیمت دے کر خرید لاتا۔
ایک
اتوار شام کو سیر کے لیے پارک سے واپسی پر مومنہ نے سڑک کنارے سے تنکوں کا بنا ہوا
چھوٹا سی کتابوں کی الماری بھی خرید لائی تھی۔ اب گھر میں کتابیں بکھرے رہنے کی
بجائے ایک جگہ ترتیب سے پڑی نظر آتی تھیں۔
مومنہ
کی ہر ممکن کوشش رہتی کہ اس گھر کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنایا جائے۔ پڑھائی کا
بوجھ ہوتے ہوئے بھی وہ گھر کی صفائی ستھرائی اور تزئین و آرائش کی طرف خصوصی توجہ
دیتی۔
ہر
ہفتے فواد کے ساتھ بازار جاتے ہوئے وہ کوئی نہ کوئی ایسی شے ضرور خرید لاتی جس کی
ضرورت اُسے یہاں یا گاؤں کے گھر میں پیش آتی۔
مگر
فواد کے بقول گھر میں رونق ان سجاوٹی اشیاء کی وجہ سے نہیں بلکہ مومنہ کی بدولت
ہوتی ہے۔
Comments
Post a Comment