قسط نمبر: 26
انسان اپنی زندگی میں بے شمار ارادے بناتا ہے۔ مستقبل کے لیے منصوبہ بندی تشکیل دیتا ہے۔ آنے والے دنوں کے لیے تدبیر کرتا ہے مگر قسمت اُسے کی تما م محنت پر پانی پھیر کر اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہے کہ جو راستہ اُس نے خود کے لیے چنا وہ غلط ہے۔ جس منزل پر وہ سکون کی تلاش کے لیے نکلا ہے وہ ناقص ہے۔
" ابا جی!۔۔ ماریہ کے امتحان تو ہو چکے ہیں۔۔ باقی بچے مومنہ
کے تو وہ بھی اگلے چار ماہ میں ختم ہو جائیں گے" وہ تمام تفصیل امین بخش کو
بتا رہا تھا۔
" تو نے کیا سوچا پتر!"
" ابا جی!۔۔ میرا خیال یہ ہے کہ فی الحال ماریہ اگر گاؤں رہنا چاہتی ہے تو بے
شک رک جائے۔۔ گھر رہتے ہوئے امتحانات کی تھکن بھی اُتر جائے گی"
"ماریہ اور شانزے کی آگے کی تعلیم کا کیا؟۔۔۔ یہ پڑھیں گی یا
نہیں؟"
" ابا ! میری بہنیں ہوں کر یہ کیوں نہ پڑھیں آگے؟" فواد
مسکرایا۔
" بات تو تیری بھی ٹھیک ہے" امین بخش کا قہقہ صحن میں
گونجا تھا۔
" ابا جی!۔۔۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ دونوں آگے پڑھنا
چاہیں تو انھیں اپنے ساتھ شہر لے چلوں۔۔۔ اور وہیں پڑھتی رہیں گی"
" جیسے تجھےٹھیک لگے پتر!"
ماریہ
کے امتحانات ختم ہو جانے کے بعد وہ اُسے
گاؤں چھوڑ آیا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ
امتحانات کے دوران جو تھکاوٹ ماریہ کو ہو چکی ہے وہ گاؤں کی صاف اب و ہوا میں رہنے
سے دور ہوتی جائے گی۔
مگر
امتحانات تو اُس نے بھی دیے تھے۔ تھکا تو وہ بھی تھا۔ آرام تو اُسے بھی چاہیے تھا۔
مگر وہ جانتا تھا کہ اگر اُس کے قدم رکے تو گھر کا نظام رک جائے گا۔
اب
روز صبح فواد مومنہ کو کالج کے دروازے پر چھوڑ کر اپنی سکول چلا جاتا اور چھٹی کے اوقات پر مومنہ کو لیتا آتا۔
بقیہ
دن وہی پرانے معمول کے مطابق گزر جاتا۔
مقابلے
کا امتحان دے کر اب وہ پر سکون تھا۔ کیوں کہ اب اُسے سارا دن کتابیں اپنے ساتھ لے
کر گھومنے کی ضرورت بھی نہ تھی۔
اب
وہ سکول میں بھی اچھے سے دھیان دے پاتا تھا اور اکیڈمی میں بھی اضافی گھنٹے لگاتا
تھا۔
سکول
سے ذرا فاصلے پر ہی پبلک لائبریری تھی جہاں وہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کرتے وقت
جایا کرتا تھا۔
مگر
اب چونکہ وہ امتحان دے کر فارغ ہوچکا تھا تو وہاں پابندی سے جانے کی کوئی خاص وجہ
نہ رہی تھی۔
دوسرا
جب کا اُس نے سدرہ کو اُس لائبریری میں دیکھا تھا تب سے اُن نے دن کو جانا بھی
موقوف کر دیا تھا۔
آج
سکول میں کوئی تقریب تھی جس وجہ سے وہ دن
دس بجے ہی فارغ ہو گیا تھا۔
سکول
سے وہ گھر جانے کے ارادے سے نکلا مگر لارئبریری کے قریب سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ
گھر جا کر اتنے گھنٹے وہ کیا کرے گا۔
لحاظہ
اُس نے یہ وقت لائبریری میں جا کر کتابوں کی ورق گردانی کرنے کا سوچا۔
لائبریری
میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف والی الماریوں میں نئی کتابوں کا خانہ تھا۔
جہاں سے اُس نے اپنے ذائقہ کے مطابق ایک کتاب اُٹھائی اور ذرا فاصلے پر موجود ایک
کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے لگا۔
" کیسے ہو فواد!" یہ نسوانی آواز اُس کے قریب سے ہی سنائی دی۔
یک
دم اُس کا تخیل ٹوٹا اور وہ بے دھیانی سے نظریں آواز کے تعاقب میں آس پاس دوڑانے
لگا۔
" آج بہت دنوں بعد نظر آئے"
" تم !" فواد نے پیچھے مڑ کر دیکھا " سدرہ! تم یہاں
کب آئی؟"
" میں تو پچھلے اڑھائی ماہ سے روز تمہیں تلاش کرنے یہیں آتی ہوں"
" مگر میں تو ایک روز یہاں آیا تھا" وہ جھوٹ بول رہا تھا۔
" مگر مجھے تمہاری موجودگی کا احساس روز یہاں ہوتا ہے"
ایک
وقت تھا جب فواد کے مشکل جملے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھے مگر آج کوئی اُس کے
سامنے اُس سے بھی مشکل جملے بول رہا تھا۔
" تم کب سے یہاں میرا انظار کر رہی ہو" فواد اُس کی
آنکھوں میں انتظار دیکھ چکا تھا۔
" جس دن تمہیں یہاں دیکھا تھا"
" سدرہ! " وہ کچھ بولنے لگا تھا مگر آس پاس اُٹھتی نظروں
نے اُس کے زبان بند کر دی تھی۔
" لائبریری کے پاس ایک کیفے ہے۔۔۔ میں وہاں جا رہا ہوں۔۔۔ تم
تھوڑی دیر بعد وہاں آ جانا" فواد یہ کہتا ہو وہاں سے اُٹھ گیا تھا۔
وہ
چاہتا تھا کہ آج اس قصے کو ہر حالت میں یہاں ہی ختم کر کے جائے۔
جبکہ
دوسری جانب سدرہ خوش تھی کہ اُس کی محبت فواد پر کسی حد تک تو کارگر ثابت ہوئی۔
فواد
کے جانے کے کچھ دیر بعد وہ بھی لائبریری سے نکلی۔
وہ
جانتی تھی کہ یہاں بغل میں ہی ایک اچھا کیفے موجود ہے۔
فواد
اس بات سےمکمل طور پر نآشنا تھا کہ جس پوش علاقے میں وہ روز ملازمت کی غرض سے آتا
ہے وہیں مومنہ کا گھر ہے۔
اس
علاقے کے چپہ چپہ سے سدرہ اچھے سے واقف تھی۔
سدرہ کیفے میں داخل
ہوئی توایک علیحدہ میز پر فواد کو بیٹھے
ہوئے پایا۔ جو کھڑکی سے پار کیفے کے سبزہ زار میں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس اُن
غریب بچوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔
سدرہ
ابھی کھڑی اُسے دیکھ ہی رہی تھی کہ فواد نے بیڑے کو بلا کر اُن بچوں کی جانب کچھ
اشارہ کیا اور تھوڑی دیر بعد ہی اُن بچوں کے سامنے کچھ کھانے پینے کی اشیاء رکھ دی
گئیں۔
وہ
بچے اس بات سے بے خبر یہ کھانا کس نے اور کیوں بھیجا ہے فوراََ ہی کھانے پر جھپٹ پڑے مگر اُن میں سے
ایک لڑکے نے ذرا حصہ خود کھا کر بقیہ اپنی جھولی میں ڈالنا شروع کر دیا۔ یہ منظر
دیکھ کر فواد مسکرایا۔
شاید
وہ بچہ یہ کھانا اپنے گھر میں کسی کے لیے لے جا رہا تھا۔
فواد
مسلسل باہر دیکھ کر مسکرا رہا تھا مگر شاید اُس کی آنکھوں کے کسی کونے کھدرے میں
آنسو بھی بھر آئے تھے۔
" کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟" فواد کے میز کے قریب
کھڑے ہو کر سدرہ نے پوچھا۔
" جی بیٹھیے" فواد نے ایک نظر سدرہ پر ڈالتے ہوئے کہا۔
" تم کیا چاہتی ہو مجھ سے؟" فواد نے سوال کیا۔
"یہی کہ تم میری محبت کو قبول کر لو"
" کر لیا قبول۔۔ بس؟"
" فواد!۔۔۔ میں اپنے والدین سمیت تمہارے گھر آنا چاہتی
ہوں"
" اگر مہمان بن کر آؤ تو سو بسمہ اللہ!۔۔۔ مگر یہ جان رکھو کہ
میری شادی ہو چکی ہے اور میں بہت خوش ہوں اپنی شادی سے"
" اسلام نے مرد کو دو شادیوں کی اجاز ت دے رکھی ہے تو دوسری
شادی میں آخر حرج ہی کیا ہے"
" مجھے اپنی بیوی سے بے انتہا محبت ہے۔۔۔ میں اُس پر سوتن
لانے کا ہرگز نہیں سوچ سکتا"
" کیا تمہاری بیوی مجھے جانتی ہے؟"
" ہاں!۔۔۔ میں اُسے تمہارے متعلق بتا چکا ہوں" فواد کے
لہجے میں تحمل آ چکا تھا۔
اسی
دوران ہی چائے کی دوپیالیاں اُن کی میز پر آ چکی تھیں۔
کچھ
دیر قبل ہی فواد نے اپنے لیے چائے منگوائی تھی مگر بیڑے نے ایک کی بجائے دو
پیالیاں لے آیا تھا۔
سدرہ
کو لگا شاید آج ہی اُس کے ایک کے بعد ایک ارمان پورے ہونے کو ہیں۔
" اگر تمہاری بیوی تمہاری دوسری شادی پر رضامند ہو گئی تو کیا
مجھ سے شادی کر لو گے؟"
" سدرہ ! میں نے پہلے بھی تمہیں بتایا تھا کہ ذمہ داری کا
بوجھ بہت بھاری ہوتا ہے اور تمہاری ذمہ داری اُٹھانے کے اہل میں نہیں ہوں"
فواد کا اشارہ سدرہ سمجھ چکی تھی۔
" فواد! میں تم سے کسی بڑے عالی شان گھر، گاڑی، روپے یا پیسے
کی طلب گار نہیں ہوں۔۔۔ تم مجھے جس حال میں رکھو گے میں خوش رہوں گی۔۔ ۔ مجھے بس
تمہارا ساتھ چاہیے۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہی جینا اور مرنا چاہتی ہوں"
" خدا کا واسطہ ہے سدرہ! تم محبت نہ کرو مجھ سے۔۔۔ یہ تمہیں
لے ڈوبے گی"
" محبت ہمیں پہلے ہی ڈوبا چکی ہے مزید کیا ڈبوئے گی"
سدرہ
کی بات دیر تک اُس کے دل و دماغ میں گردش کرتی رہی۔ ایک طعنہ جو کبھی فواد نے اُسے
دیا تھا اب تو وہ اُسے دوبارہ یہ طعنہ دینے کا بھی اہل نہیں رہا تھا۔
کبھی
وہ فیشن ایبل ہوا کرتی تھی مگر اب اُس سے زیادہ پرہیزگار لڑکی شاید پوری یونیورسٹی
میں نہ تھی۔
اب
وہ صورت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیرت یافتہ بھی تھی۔
اس
وقت فواد صرف دو بنیادی وجوہات کی بنیاد پر سدرہ کو قبول کرنے سے قاصر تھا۔
ایک اپنی پہلے محبت پر سوتن لانے اور
دوسرا بڑے گھر کی لڑکی سے شادی۔
٭٭٭
مومنہ
کے امتحانات سر پر آئے تو یونیورسٹی کی طرف سے چھٹیاں دے دی گئیں۔ اب وہ اپنا تمام
دن پڑھنے میں گزار دیتی۔
فواد
کی طرف سے اُسے سختی سے ہدایت تھی کہ گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگائے اور صرف
اپنے امتحانات کی تیاری کرے۔
مگر وہ کہاں رکنے والی تھی صبح فواد کو رخصت کر کے
مومنہ نے پہلے گھر کے کام نپٹائے پھر کتابیں لے کر پڑھنے بیٹھ گئی۔
کوئی گھنٹہ بھر ہی ہوا
تھا پڑھتے ہوئے جب ناہید بیگم کی آواز پر وہ نیچے گئی۔
اُسی
کی عمر کی ایک نہایت خوبرو لڑکی جو ظاہری لباس سے کسی بڑے گھرانے کی لگ رہی
تھی دروازے میں ناہید بیگم کے بغل میں
کھڑی نظر آئی۔
" جی خالہ!" مومنہ نے سیڑھیوں سے نیچے اُترتے ہی کہا۔
" بیٹا یہ تمہارے مہمان آئے ہیں" ناہید بیگم نے سدرہ کی
جانب اشارہ کیا جو آدھ دروازے کے اندر اور آدھا باہر کھڑی تھی۔
"جی!" مومنہ نے ایک نظر سدرہ کے وجود پر ڈالی جیسے پوچھ
رہی ہو کہ تم کون ہے۔
" میرا نام سدرہ ہے " اُس نے اپنا تعارف کروایا۔
" سدرہ یوسفزئی!" مومنہ نے بھنویں اُٹھا کر پوچھا۔
" جی!"
سدرہ
کا یہ جملہ سنتے ہی مومنہ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی جسے دیکھ کر سدرہ
خود بھی چونکی۔
مومنہ
آگے بڑھ کر سدرہ کے گلے ملے اور ساتھ لیے
بالائی منزل پر آگئی۔
سدرہ
کی سمجھ سے معاملہ بالا تر تھا۔ اگر مومنہ اُسے
جانتی تھی تو اتنے پرتپاک انداز میں کیوں ملی جیسے صدیوں سے واقف کار ہو۔
" تم بیٹھو! میں ابھی آئی" سدرہ کو بیٹھنے کا کہہ کر
مومنہ باورچی خانے میں گھس گئی۔
سدرہ
اب تک حیران تھی۔ مومنہ کے چہرے پر مسکراہٹ سے ہرگز یہ نہ لگتا تھا کہ اُسے معلوم
ہو گا کہ وہ یہاں کس مقصد کے تحت آئی ہے۔
" ارے اس کی کیا ضرورت تھی" سدرہ نے مومنہ کو ٹرے پر طرح طرح کے لوازمات سجائے آتا دیکھ
کر کہا۔
" ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ تم پہلی مرتبہ آئی ہو ہمارے گھر۔۔
اتنا تو بنتا ہے"
" تم مجھے جانتی ہو؟" سدرہ نے اچانک سے سوال کیا۔
" ہاں! کیوں نہیں۔۔۔ تم سدرہ یوسفزئی ہو"
" بس؟"
" اور تم فواد سے محبت بھی کرتی ہو" مومنہ کے جملے نے
سدرہ کے دل پر ایک کاری ضرب لگائی
" تمہیں ہر گز بُرا
نہیں لگا جو میں تمہارے گھر آ گئی ہوں" سدرہ نے مسکراتی ہوئی مومنہ سے
پوچھا۔
" بلکل بھی نہیں۔۔۔ میں اچھے سے محبت کے معنی اور مفہوم کو
جانتی ہوں"
فواد
اگر مومنہ سے محبت کرتا تھا تو کسی وجہ سے ہی کرتا تھا اور وہ وجہ آج سدرہ جان گئی
تھی۔ جس کی اتنی خوب صورت اور خوب سیرت بیوی ہو اُسے اپنی بیوی سے بے پناہ محبت
کرنا تو بنتا ہے۔
"بلا آخر میں نے تمہیں اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ لیا وگرنہ
باطنی آنکھوں سے تو روز دیکھتی آئی ہوں"
" کیا مطلب؟" مومنہ کے ماتھے پر شکن اُبھری۔
"فواد کو یاد کرتے ہوئے میں نے اکثر تمہیں بھی محسوس کیا۔۔۔
میں نے پہلی بار تمہیں تمہاری اور فواد کی شادی پر دیکھا تھا" سدرہ
بولی" بہت خوبصورت لگ رہی تھی تم!" سدرہ نے مومنہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ
رکھا۔
" مگر میں تمہیں نہ دیکھ سکی۔۔۔ اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے
کہ تم تو ہماری شادی پر وہاں موجود نہیں تھی"
" تم سچ کہہ رہی ہو۔۔۔ میں وہاں موجود نہیں تھی مگر میری
آنکھیں وہاں ہی ٹکی تھیں"
" میں سمجھی نہیں" مومنہ حیران ہوئی۔
" میں روز رات کو چاند میں فواد کی صورت دیکھتی ہوں۔۔ پھر اُس
کے ساتھ ساتھ مختلف چہرے میری نگاہوں کے سامنے چاند کی سطح پر آ کر گزر جاتے
ہیں۔۔۔ پھر ایک روز میں نے فواد کو دلہا بنے دیکھا"
"یہ کیسے ممکن ہے"
" تم نے اپنی شادی پر لال رنگ کا لہنگا پہن رکھا تھا۔۔۔ گلے
میں سونے کی زنجیروں والا ہار اور کلائیوں پر کڑے۔۔۔بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں
بلکل وہی انگوٹھی تھی جو تم نے ابھی پہن رکھی ہے" سدرہ نے مومنہ کے ہاتھ کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
" مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ تم وہاں موجود بھی نہیں تھی اور سب
دیکھ بھی سکتی تھی" مومنہ کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمودار ہوئے۔
اُس
کا کہا سب سچ تھا۔
" میں نے فواد کو بھی دیکھا تھا۔۔۔ سفید دم دار گھوڑی پر
بیٹھا ہوا۔۔۔ سفید کرتے پر سرخ رنگ کی
شیروانی اُس پر خوب جچ رہی تھی۔۔۔ سر پر سہرا باندھ رکھا تھا جو تمہارے پہلو میں
بیٹھتے وقت اُس نے اُتار کر رکھ دیا تھا" سدرہ سامنے کی دیوار کی طرف دیکھ کر
یوں بتا رہی تھی جیسے وہ منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا ہو۔
یہ
بتاتے ہوئے سدرہ کی آنکھوں میں نمی کو مومنہ دیکھ سکتی تھی۔
" یہ سب تم نے کیسے دیکھا سدرہ؟" مومنہ اب تک حیران تھی۔
" میں روز چاند میں دیکھتی ہوں یہ سب۔۔۔ اب تو دل پر نقش ہو
چکا ہے"
" مگر چاند ہمیں یہ سب کیوں نہیں دکھاتا"
" شاید میرے دل پر ٹھیس ہے اور فواد کی محبت بھی"
" فواد سے محبت تو میں بھی کرتی ہوں۔۔۔ اور محض دو سال سے
نہیں بلکہ بچپن سے"
" مگر تم محبت کے حصول میں کامیاب بھی تو ہو گئی۔۔ میری قسمت
میں تو یہ بھی نہیں تھا" سدرہ مایوسی
سے بولی۔
" خدا نے چاہا تو تمہاری قسمت میں اس سے بہتر ہو گا"
" فواد سے بہتر میری قسمت میں اور کیا ہو سکتا ہے"
"تم نے اپنے آنے کا مقصد نہیں بتایا" مومنہ نے بات بدلنا
چاہی۔
" میں اُس لڑکی کو دیکھنے کی خواہش مند تھی جس سے فواد اس قدر
محبت کرتا ہے" سدرہ بولی " سنو مومنہ! تم واقعی بہت خوبصورت ہو اور خوب
سیرت بھی" سدرہ نے مومنہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
" خوب صورت ہونا انسان کے بس میں نہیں ہے سدرہ!۔۔۔جبکہ خوب سیرت وہ اپنی محنت سے ہو
سکتا ہے"
" مگر میں تو نہ خوب صورت ہوں اور خوب سیرت"
" سدرہ! تم خوب صورت بھی ہو اور خوب سیرت بھی"
" مگر فواد کو تو نہیں لگتا"
" فواد لڑکیوں سے بہت کتراتا ہے سدرہ!۔۔۔ وہ تو آج تک مجھے
ٹھیک سے یہ نہیں بتا سکا کہ تم دکھتی کیسی ہو"
" مومنہ!۔۔ فواد مجھے قبول کیوں نہیں کرتا؟۔۔۔ کیا میری محبت
میں کمی ہے یا مجھ میں فرق ہے" سدرہ کی آواز میں درد کو مومنہ محسوس کر سکتی
تھی۔
" نہ تمہاری محبت میں کچھ کمی ہے اور نہ تم میں کوئی
فرق"
" مگر پھر وہ مجھ سے انکاری کیوں ہے؟"
" اس کی دو وجوہات ہیں" مومنہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔
" کیا؟" سدرہ نے استفسار کیا۔
" خاموش کیوں ہو گئی؟۔۔ کچھ تو بولو " مومنہ کو خاموش
دیکھ کر سدرہ بولی۔
" ایک تو وہ مجھ پر سوتن لانے سے کتراتا ہے اور دوسرا وہ خود
کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ایک بڑے گھرانے کی لڑکی سے شادی کر کے ایک ساتھ دو گھر
بسا سکے۔۔ ۔ وہ ڈرتا ہے کہ معلوم نہیں وہ تمہیں کبھی ایسی زندگی دے سکے گا جیسے تم
نے اپنے والد کے گھر بسر کی۔۔۔ تم جانتی نہیں ہو سدرہ! کہ ہم کتنے غریب رہے۔۔۔ یہ
تو فواد ہے جس نے اُس غریب گاؤں سے نکل کر شہر میں اپنی دنیا بسانی چاہی۔۔۔ تم اُس
دیہات میں ذرا بھی جی نہ پاؤ گی" مومنہ نے تمام تفصیل سدرہ کے سامنے رکھ دی
تھی۔
" میں فواد کے لیے اب تک سب چھوڑا اور آگے بھی سب کچھ چھوڑ
سکتی ہوں۔۔ وہ چاہے مجھے کسی بڑے شہر کے عالیشان محل میں رکھے یا چھوٹے گاؤں کے
کچے مکان میں۔۔۔ میں ہر طرح سے رہ لوں گی"
" سدرہ!۔۔۔ تم فواد کو بھول کر آگے اپنی زندگی شروع کرو۔۔۔
مزید اپنے والدین کو پریشان نہ کرو جو پہلے سے تمہاری وجہ سے پریشان ہیں۔۔۔۔ میں
یہ سب اس وجہ سے نہیں کہہ رہی کہ میں تمہیں اپنی سوتن دیکھنا نہیں چاہتی بلکہ اس
وجہ سے کہہ رہی ہوں کہ مجھے تمہاری بلکل ویسے ہی پرواہ ہے جیسے فواد کو"
" کیا کہا؟۔۔۔ فواد کو میری پرواہ ہے؟" سدرہ نے مومنہ کی
بات بیچ میں ٹوک دی۔
" ہاں!۔۔ اُسے تمہاری پرواہ ہے۔۔ وہ یہی چاہتا ہے کہ اگر تم
اُس سے محبت کرتی ہو تو اپنی زندگی میں آگے بڑھ جاؤ۔۔۔ اپنے بوڑھے والدین کا خیال کرو اور اُسے بھول
جاؤ"
" مومنہ! میں نہیں مانتی کہ تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے۔۔۔
اگر کی ہوتی تو تم جانتی کہ محبت کو بھلا دینا ایک ناممکن امر ہے"
سدرہ
کی بات پر مومنہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اُس کی زبان گنگ ہو گئی ہو۔ سدرہ نے اُسے
لا جواب کر چھوڑا تھا۔
یقیناََ
اُس لڑکی میں کوئی جنون تھا اگر فواد کے بقول کہا جائے تو عشق کا جنون۔
" مومنہ! میں نے فواد سے بے انتہا محبت کی اور وہ بھی
پاکیزہ۔۔۔ میں نے اُسے حاصل کرنے کے لیے کوئی غلط راستہ نہ چنا۔۔۔ کوئی بُرا
ہتھکنڈہ نہ آزمایا۔۔۔ اگر وہ مجھے نہ بھی ملا تو میں یہی سمجھوں گی کہ خدا نے مجھے
اُس کے لائق نہ سمجھا اور شاید میری ہی محبت میں کسی جگہ کمی رہ گئی ۔۔۔ مومنہ!یہ
جانتے ہوئے بھی کہ فواد ایک غریب گھر کا امیر لڑکا ہے۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ
شادی شدہ ہے۔۔۔ میری محبت میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا۔۔۔ کیوں؟"
وہ
سدرہ کی آنکھوں میں مسلسل جھانک رہی تھی جہاں اُسے محبت کے محض درد ہی دکھ رہے تھے۔
سدرہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی
۔ اُس کے وجود میں محبت سرایت کر چکی تھی۔ مومنہ کو لگا کہ شاید اب سدرہ رو دے گی
مگر وہ بڑی دلیری سے اپنے آنسو چھپائے رکھے رہی۔
" مومنہ! مجھے ایک بات تو بتاؤ۔۔۔ اگر تم یہ جانتی ہو کہ میں
تمہارے شوہر سے محبت کرتی ہوں۔۔ پھر بھی تم نے مجھے اپنے پاس بٹھایا۔۔۔ بڑے آرام
اور تحمل سے بات کی۔۔ اس کی کیا وجہ
ہے" سدرہ جو مومنہ کے رویے پر حیران تھی بلا آخر سوال پوچھ ہی بیٹھی۔
" سدرہ! ایک تو تم ہماری مہمان ہو۔۔۔ مہمان کے ساتھ ہم ایسا
ہی سلوک کیا کرتے ہیں۔۔ اور دوسرا تم فواد سے محبت کرتی ہو۔۔۔ جو میری محبت سے
محبت کرے گا اُسے میں ایسی ہی عزت دوں گی" مومنہ کی بات سن کر سدرہ کو اُس پر
بے انتہا رشک آیا۔
جب
اُسے معلوم ہوا تھا کہ فواد کی شادی ہو چکی ہے تو اُسے فواد کی بیوی کو دیکھے بغیر
ہی اُس سے نفرت سی ہونے لگی تھی۔ وہ اُس مقام پر خود کو دیکھنے کی خواہش مند تھی۔
مگر پھر رفتہ رفتہ یہ نفرت فواد سے محبت
کرتے ہوئے ماند پڑ گئی۔
سدرہ
کوئی عام لڑکی نہ تھی مگر پھر بھی فواد سے محبت کر بیٹھی۔ اب فواد جس لڑکی سے محبت
کرتا ہے بلا شبہ وہ مقام و مرتبے میں بہت اعلیٰ ہو گی۔
اگر
اس وقت مومنہ کی جگہ وہ خود ہوتی تو نا جانے کب کی اُسے گھر کے دروازے سے باہر
نکال چکی ہوتی۔
مگر
نا معلوم یہ مومنہ کس مٹی سے بنی تھی۔ جو اپنے شوہر کی محبوبہ کے پاس بیٹھ کر
اُس کی دلجوئی کر رہی تھی۔
" مومنہ! کیا تم مجھے میری محبت کے حصول میں مدد کرو گی"
"سدرہ! بھلا ایسا کون شخض ہے جو اپنی محبت میں شراکت داری قبول کرے" مومنہ کی ایک
بات اُسے خاموش کروانے کو کافی تھی۔
اُسے
لگا شاید وہ یہیں سے ناکام ہو چکی ہے۔
" لیکن اگر فواد تمہیں اپنی زندگی میں خود قبول کر لیتے ہیں تو
مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ میں فواد سے اتنی محبت کرتی ہوں کہ اُس کے فیصلے کی قدر
کر سکوں" مومنہ کی بات سن کر سدرہ کو ایک جھٹکا سا لگا۔
وہ
مومنہ سے اس بات کی اُمید نہ کر رہی تھی۔
گزشتہ
اتنی دیر سے یہ پہلا موقع تھا جو وہ براہِ راست رو رہی تھی وگرنہ مومنہ اُس کے دل
کو روتا ہوا تو ناجانے کب کا محسوس کر رہی تھی۔
" تمہارا بہت شکریہ مومنہ!۔۔۔ تم جانتی نہیں تم نے میری جان
پر کتنا رحم کیا ہے۔۔۔ میں مری جا رہی تھی مگر تمہاری بات نے میرے زخموں کو مرہم
لگائی۔۔۔ تمہارا بہت بہت شکریہ مومنہ!"
وہ سدرہ کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگائے ہوئے تھی۔
محبت
کرنے والے بھی نرالے ہوتے ہیں۔ اُس کے طور طریقے باقیوں سے جدا ہی نظر آتے ہیں۔ دل
تو ہر کوئی رکھتا ہے مگر دل کیا کیفیات کا اظہار کرنا صرف محبت کرنے والی ہی اچھے
سے جانتے ہیں۔
Comments
Post a Comment