قسط نمبر: 27

 وقت انسان کی زندگی میں تغیر لانے کا سبب بنتا ہے۔ تمام عمر ایک جگہ پر پابند رہ کر، ایک جیسے طور طریقے پر عمل پیرا ہو کر، ایک جیسے طرزِ زندگی اختیار کرنا انسان کے بس میں ممکن نہ ہے۔

بدلتے وقت کے ساتھ نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی ہر دوسری شے خود کو موجودہ وقت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔

وقت نے ذرا پلٹی کھائی تو گاؤں اور گاؤں کے واسیوں کے طرزِ زندگی بھی بدل گئے۔ اب کھیتی باڑی کے وہ پرانے اور روایتی طریقے ختم ہو چکے تھے۔

صبح سے شام تک جانوروں سے زمین پر ہل چلانے کا رواج جا چکا تھا۔ ہل چلانے اور بیجائی سے لے کر فصل کی کٹائی اور گہائی کے بعد گندم کو بیچنے تک سب کچھ وقت کے ساتھ بدل چکا تھا۔

گاؤںوالوں نے اب اچھے بیل پالنے کی بجائے ٹریکٹر پر گزارہ کر لیا تھا۔ اس سلسلے میں زمینداروں نے ٹریکٹر خرید لیے تھے جس میں سرِ فہرست ملک امیر حمزہ تھا۔

اب گاؤں کے چند ٹریکٹر ہی ہل چلانے کے کام کر دیتے۔ بیجائی بھی آسانی سے ہو جاتی، فصل کی کٹائی پر بھی مزدور معمور کیے جانے لگے ، تھریشر نے تو گہائی  کا کام ہی آسان کر دیا تھا اور گندم قصبے تک پہنچانا تو ذرا بھی دشوار نہ رہا تھا۔

وقت نے گاؤں کو ایک نیا روپ بخش دیا تھا۔ اب سکول کے اوقات کار میں گلیوں میں بچے کو کھیلنے کے شور کی جگہ سکول میں اُن کی پڑھنے کی آواز گونجتی معلوم ہوتی۔

عورتیں کنویں سے پانی بھر کر لانے، چارہ کاٹنے اور مویشیوں کے گوبر سے اوپلے لگانے کی فکر سے آزاد ہو چکی تھیں۔ اب اُن کا وقت ٹی  وی دیکھنے، گھر کی صفائی ستھرائی اور کھانے تک محدود تھا۔

یہی حال مردوں کا بھی تھا۔ جو کھیتی باڑی کی فکر سے آزاد تمام دن یا تو مویشی چرانے اور یا گپیں ہانکنے میں گزار دیتے۔

گاؤں کے محض چند زمینداروں کے ہاں مویشی باقی بچے تھے۔ جن سے تمام گاؤں اور گاؤں سے باہر بھی دودھ کی ترسیل جاری رہتی تھی۔

نئی نسل نے کھیتی باڑی کی بجائے قصبے جا کر کام کرنا زیادہ پسند کیا تھا۔ اب تو  شکیلے کے علاوہ بھی گاؤں سے چند اور گاڑیاں بھی روز قصبے جایا کرتیں۔

گاؤں میں اب چوپال کا نظام بھی معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی ایک وجہ گاؤں کے ہر گھر میں بیٹھک اور مہمان خانے کا قیام بھی تھا۔

پنچائیت کا نظام سنبھالنے والے بھی اکثر لوگ چل بسے تھے۔ جو باقی بچے تھے اُن میں امین بخش اور ملک امیر حمزہ باقی بچے تھے۔

جب سے ملک امیر حمزہ کی بیٹی کی شادی چوہدری شفیق کے بیٹے بخت حیات سے ہوئی تھی تب سے اُس کی شہرت میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔

گاؤں کی اکثر گلیاں اب پختہ ہو چکی تھیں۔ گاؤں میں بھی اب سکوٹر  نام کی شے چلنے لگی تھی۔ اکثر گھرانوں میں اب  گیس والا چولہا بھی جلنے لگا تھا۔

کھیتوں میں کام کرتے مردوں، چارہ کاٹ کر لاتی عورتوں، دکانوں پر بیٹھے بزرگوں اور گلی میں کھیلتے بچوں کے منہ تو تب کھلے رہ گئے جب کالے رنگ کی چمچماتی بڑی گاڑی گاؤں کی حدود کے اندر داخل ہوئی۔

چوہدری شفیق بھی علاقے کا سب سے امیر ترین آدمی ہونے کے باوجود اتنی بڑی گاڑی نہ رکھ سکا تھا۔

گاؤں کے بچے  کھیل کود چھوڑ کر اُس گاڑی کے پیچھے دوڑنے لگے تھے جس کی رفتار گاؤں کی حدود میں آتے ہی کافی سست ہو چکی تھی۔

برگد کے پیڑ کے پاس آکر وہ گاڑی ذرا دیر کو رکی تو گاؤں کے اکثر لوگ یہاں اکٹھے ہونے لگے تھے۔

گاؤں والوں کی نظریں اس خوبصورت گاڑی کے چارروں طرف گھومے جا رہی تھیں۔

یک لخت گاڑی کا اگلا دروازہ کھلا جس میں سے ایک شخض باہر نکلا۔

اندازہ ہو رہا تھا کہ گاڑی کی پچھلی نشستوں پر کچھ لوگ براجمان ہیں۔

" فواد محمود صاحب کا گھر کون سا ہے" گاڑی سے نکلتے ہوئے اُس شخض نے اپنے سامنے کھڑی اُس جماعت پر نظر ڈالی جن کی نگاہیں اُسے ہی گھور رہی تھیں۔

" یہ سامنے والی گلی میں  مسجد سے آگے بائیں ہاتھ پر تیسرا گھر ہے" ایک شخض بولا۔

شکریہ ادا کرتے ہوئے اُس نے وہ گاڑی بتائی ہوئی گلی میں موڑی جہاں گاڑی داخل کرنے میں قدرِ دشواری بھی تھی۔

گلی کے عین وسط میں  شہر کے برعکس ایک بڑی نالی بنائی گئی تھی ۔ اتنی بڑی گاڑی کو گلی میں داخل ہوتا دیکھ کر اپنے گھر کے سامنے نالی کے حصے کو صاف کرتی عورت نے اپنے بچاؤ کے لیے راستہ چھوڑا۔

گلی کے دونوں جانب زمین کے خالی ٹکڑوں پر جانوروں کا گوبر پڑا نظر آسکتا تھا۔

جب کہ کچے مکانوں کی چھوٹی چاردیواری کے باہر اسی گوبر کے اوپلے بھی لگے نظر آ رہے تھے۔

مسجد کے بعد بائیں  جانب تیسرے گھر کے دروازے کے سامنے گاڑی رکی ۔  گاڑی سے تین لوگ اپنے کپڑے نالی کے پانی سے گیلا ہونے سے بچاتے ہوئے نیچے اُترے۔

گاؤں کے غریب واسی اس چمچماتی گاڑی سے پینٹ کوٹ میں ملبوس مرد اور اُس کے ہمراہ بڑے عمدہ لباس میں ملبوس ایک عورت اور لڑکی کو دیکھ رہے تھے۔

اُن کے نزدیک یہ کسی فلم کے سین سے کم نہ تھا۔ جس میں ایک بڑی گاڑی گاؤں میں داخل ہو کر ایک مکان کے پاس رکتی ہے اور اُن میں اچھے اچھے کپڑے پہنے لوگ باہر نکلتے  دکھائی دیتے ہیں۔

عورتیں دروازوں کی اووٹ سے ، مرد گلی کے نکڑ پر ، لڑکیاں دیوار سے اور بچے گلی میں کھڑے ہو کر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

امین بخش کے گھر کے آدھ کھلے دروازے سے باہر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ صحن میں چارپائی پر لیٹا امین بخش گاڑی کے اُس کے مکان کے سامنے رکنے پر قدرِ حیران ہو کر اُٹھ بیٹھا تھا۔

مگر جب اُس نے گاڑی سے نکلتے افراد کو اس گھر کی دروازے کی جانب نظر جمائے دیکھا تو چارپائی سے اُٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا۔

شکل و صورت سے تو یہ کسی بہت بڑے گھرانے کے لگ رہے تھے۔ مگر وہ یہاں کس مقصد سے آئے۔

" فواد محمود کا گھر یہی ہے"  پینٹ کوٹ میں ملبوس اُس وجیہ شخضیت   نے امین بخش سے بولا۔

" جی ہاں!۔۔۔ فواد میرا ہی پتر ہے۔۔۔ آپ کون؟" امین بخش دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر تینوں کو گھورتے ہوا بولا۔

" ہم لاہور سے آئے ہیں فواد کو ملنے" مہمان نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ امین بخش کی طرف بڑھایا۔

"آئیے آئیے!۔۔۔ جی آیاں نوں" امین بخش نے مصاحفہ کرنے کی بجائے گلے ملنا زیادہ بہتر سمجھا ۔

جب کہ اُس سے پسینے کی بو اُس پینٹ کوٹ والےشہری بابو کو آسانی سے آ رہی تھی۔

" فواد پتر!۔۔۔ باہر آ۔۔ ویکھ تیرے مہمان آئے ہیں" امین بخش نے خوش آمدید کہتے  ہوئے فواد کو آواز دی۔

کچھ ہی دیر میں باورچی خانے سے مومنہ اور ماریہ، مرکزی کمرے سے سلمیٰ اور شانزے سے اور اطراف واے کمرے سے فواد باہر نکل آئے۔

ما سوائے فواد اور مومنہ کے گھر کا کوئی بھی فرد ان مہمانوں کو نہیں پہچان سکا تھا۔

مومنہ حیران اُن کی اچانک آمد پر  اور پریشان آگے نمودار ہونے والی صورتحال پر تھی۔

وہ مسلسل فواد کو گھورے جا رہی تھی۔ کیوں کہ اُس کی اطلاع کے بغیر اُن کا یہاں آنا ممکن نہ تھا۔

٭٭٭

مومنہ کے امتحانات ختم ہوئے تو  اتفاق سے اُنھی دنوں اُسے بھی سکول سے چھٹیاں ملنے والی تھیں۔

امین بخش کچھ دن پہلے ہی کسی کام سے شہر آیا تھا تو واپسی پر اُس نے مومنہ کو ساتھ بھجوا دیا جبکہ خود وہ سکول سے چھٹیوں کے انتظار میں وہیں رک گیا۔

صبح میں مومنہ امین بخش کے ساتھ گاؤں روانہ ہوچکی تھی۔ دن میں وہ شہریار ، باسط، شہباز اور یونیورسٹی کے دوسرے دوستوں کے ساتھ دعوت اُڑانے میں مصروف رہا تھا۔

شام میں لوٹا ہی تھا کہ دروازے پر دستک سن کر وہ بالائی منزل سے نیچے اُترا۔

دروازے کھولنے پر کامران صاحب کو دیکھ کر وہ چونکا۔  آج چھ ماہ بعد وہ اُس کے پاس آئے تھے تو ضرور کوئی خاص بات تھی۔

اُنھیں بالائی منزل پر ٹھہرا کر وہ کرن سے چائے بنانے کا کہہ آیا تھا۔

 البتہ مومنہ موجود نہ تھی مگر وہ پھر بھی اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے مہمان کی تواضع میں کوئی کمی نہیں لانا چاہتا تھا۔

" بیٹا !کس خاطر تواضع کے چکر میں پڑ گئے " وہ اپنے  سامنے میز پر رکھے لوازمات کو دیکھ کر کہہ رہے تھے۔

" آپ مہمان ہیں۔۔۔ اتنا تو بنتا ہے۔۔۔ آپ بتائیں۔۔ خیریت سے آنا ہوا"

" بیٹا! آج تمہارے در پر شہر کا مشہور کاروباری آدمی کامران نہیں بلکہ ایک لاچار باپ آیا ہے"

" میں آپ کی بات سمجھا نہیں" فواد نے حیرت کا اظہار کیا۔

" فواد! میں تم سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ میری بیٹی کو بچا لو" اُنھوں نے اپنے ہاتھ جوڑ کر فواد کے سامنے کر دیے تھے۔

" خدا را! ایسا نہ کریں" فواد نے کامران صاحب کے ہاتھ نیچے کیے" کیا ہوا سدرہ کو؟"

" مجھ سے سدرہ کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔۔۔ تمام رات  بالکونی میں کھڑے ہو کر نا جانے چاند میں کیا دیکھتی رہتی ہے۔۔۔ صبح جب میں اپنی بچی کو دیکھتا ہوں تو اُس معصوم جان کی آنکھیں اور پاؤں سوزش کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔۔۔ وہ معصوم سی کلی گھلتے جا رہی ہے ۔۔۔ جانتے ہو اُس نے پڑھائی بھی چھوڑ دی۔۔ وہ ٹوٹ چکی ہے فواد!۔۔۔ اُسے بچا لو " کامران صاحب رو رہے تھے۔

آنسو اُس کے رخسار سے بہہ کر اُن کے ہاتھوں کی پشت کو گیلا کرتے جا رہے تھے۔

سچ ہے مضبوط سے مضبوط اور قوی دل باپ کا دل بھی بیٹی کے لیے پگھل جاتا ہے۔

" مگر جناب ! میں آپ کی بیٹی کو کیسے بچا سکتا ہوں" فواد نے سوال کیا۔

" جو وہ چاہتی ہے وہ مان لو۔۔۔ تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں میں" کامران صاحب نے ہاتھ جوڑ کر سامنے کرتے ہوئے کہا۔

" خدا کا واسطہ مت دیں جناب!۔۔۔ جو وہ چاہتی ہے ویسا میں نہیں کر سکتا "

" مگر کیوں؟"

" وہ شادی کرنا چاہتی ہے مجھ سے۔۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں"

" مگر اسلام تو چار شادیوں کی اجازت بھی دیتا ہے۔۔ تم دوسری شادی کو لو سدرہ سے۔۔۔ کم از کم اُسے جیتا ہوا تو دیکھوں گا۔۔۔ روز مرتے دیکھنے کی ہمت نہیں رہی اب مجھ میں"

" ایسا ممکن نہیں"

" کیوں؟"

" میں ڈرتا ہوں کہ نا معلوم شادی کے بعد اُسے ویسی زندگی بھی دے سکوں گا جیسی وہ آپ کے پاس گزار رہی ہے۔۔۔ میں ڈرتا ہوں کہ نا جانے میں دو بیویوں میں عدل بھی کر پاؤں گا یا نہیں۔۔۔ مجھے خوف ہے کہ میں اُس کے اخراجات اُٹھا بھی سکوں گا یا نہیں۔۔۔ وہ بڑی گاڑیوں میں گھومنے والی اور میں ساری عمر لوکل بسوں کے دھکے کھانے والا۔۔۔ وہ بڑے اور عالیشان مکان میں رہنے والی اور میں چھوٹے سے گاؤں میں چھوٹے سے کسان کے چھوٹے سے مکان میں پلنے والا ایک غریب لڑکا جو ایسے حالات سے بھی گزرا ہے کہ دوسرے وقت کی روٹی بھی نصیب نہ ہوتی تھی۔۔۔ وہ مجھ سے شادی کر کے ایسی جگہ جانا چاہتی ہے جہاں سوائے غربت کے اور کچھ بھی نہیں۔۔۔ آپ بھی بتائیں جناب! ۔۔۔ کیا آپ اپنی بیٹی کو  گاؤں کی دیسی لڑکیوں کی طرح گوبر صاف کرتے، کنویں سے پانی بھر کر لاتے ، چارہ کاٹتے اور دودھ دوھتے دیکھنا چاہیں گے؟" ایک بار میں ہی اُس نے دل کی آگ کو باہر نکال پھینکا۔

سچ ہے خاموش انسان ایک بھٹی کی مانند ہوتا ہے۔ آگ لگنے پر ہی اُس کے اندر کیا ہے معلوم ہوتا ہے۔

فواد کی بات سن کر پہلے سے پریشان کامران صاحب مزید پریشان ہو گئے۔ آنکھوں سے نظر کا چشمہ اُتار کر میز پر رکھا اور آنکھوں کو مسلنے لگے۔

" فواد ! میں تمہیں اپنا تمام کاروبار سونپتا ہوں۔۔۔ جاؤ میری بیٹی کو خوش رکھنا بس" کامران صاحب بولے۔

انسان کی زندگی میں ایسے بہت سے موقع آتے ہیں جب اُسے لگتا ہے کہ اُس کی زندگی کا مقصد پورا ہونے کو ہے۔

 جس چیز کی تمنا میں وہ اتنا چلا تھا وہ منزل اُس کو مل چکی ہے۔ اُس کا خواب حقیقت کے روپے میں اُس کے سامنے آنے گلتا ہے۔

 مگر درحقیقت یہ انسان کی حقیقی منزل کا صرف ایک عکس ہوتا ہے اور عکس فریب کا دوسرا نام ہے۔

اہل عقل زندگی کے اس فریب سے بچنے کی راہ تلاش کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اس راہ پر چلتے ہوئے اتنے با شعور ہو چکے ہوتے ہیں کہ محنت کا صلہ وقت پر لینے کی عادت ہو جاتی ہے۔

فواد کا خواب غازی پوری کی تند و تاریک جہالت اورغربت سے نکل کر شہر کی رنگینی میں اعلیٰ مقام تلاش کرنا تھا۔

فواد ہر وہ کام کرنا چاہتا تھا جس کی تمنا اُسے جانے انجانے میں بھی کی ہو۔ وہ تمام عمر روپے کے پیچھے بھاگنے کی بجائے روپیے کو اپنی مٹھی میں لا کر اُس سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا چاہتا تھا۔

کامران صاحب کا اُسے اپنا کاروبار سونپنے کی پیشکش اُس کے لیے بہت بڑی تھی۔ وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پورے خاندان کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھ سکتا تھا۔

" مجھے آپ کے کاروبار سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔ وہ آپ کا تھا اور آپ ہی اُسے رکھیے"

کامران صاحب فواد کی بات پر چونکے۔

یہ شخض کسی مٹی سے بنا تھا۔ شہرے کے اعلیٰ نسب خاندان کی بیٹی اُس سے شادی کرنے کو تڑپ رہی تھی مگر یہ تھا کہ اُسے قبول کرنے سے انکاری ۔

 اب شہر کا سب سے بڑا کاروباری آدمی اُسے اپنا کروڑوں کا کاروبار سونپ رہا تھا۔ ایسا کاروبار جس کی شاخیں دوسرے ممالک میں بھی پھیلنے لگی تھیں وہ بغیر کسی محنت مشقت کے اُس کو دیا جا رہا تھا مگر یہ پھر انکاری۔

"مگر میں تمہاری بات سمجھ نہ سکا۔۔۔ کروڑوں روپے مالیت کا کاروبار سونپنے کی پیشکش کو تم ایسے کیسے رد کر سکتے ہو" کامران صاحب حیران تھے۔

" میں اپنے گاؤں کی تاریخ میں اپنا نام ان حروف میں لکھوانا چاہتا کہ گاؤں کا منڈا شہر کی لڑکی کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر اُس کی تمام دولت لے اُڑا"

" تمہیں گاؤں والوں کی پرواہ ہے۔۔۔ کیا تم نے اپنی زندگی گاؤں والوں کے ساتھ گزارنی ہے؟"

" اُن گاؤں والوں کے سبب ہی تو میں  آج کھیتوں میں ہل چلانے کی بجائے آپ کے سامنے بیٹھا ہوں۔۔۔۔ میں اپنی منزل پانے کے لیے اس راستے پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا"

" مگر میں تمہارے در پر اپنی بیٹی کی زندگی کی بھیک مانگنے آیا ہوں فواد!" کامران صاحب بولے۔

" آپ  کا کاروبار صرف میرے لیے یا میرے خاندان کے لیے سود مند ہو گا۔۔۔ مگر آپ کے کاروبار کی بنا پر اپنے گاؤں کی تقدیر کا فیصلہ  نہیں کرنا چاہتا"

"مگر میری بیٹی تمہاری خاطر جل رہی ہے ۔۔ اُسے اس آگ سے نکالو"

"  میں نے سدرہ کو روکا تھا اس آتش میں آنے سے۔۔ میرے منع کرنے کے باوجود وہ اس راہ میں آئی" فواد   کی بات پر کامران صاحب خاموش ہو گئے۔

مگر پھر اچانک ہی اُنھیں کچھ خیال آیا اور کوٹ کی جیب سے ایک بند لفافہ نکالنے لگے۔

" یہ لو فواد!۔۔ پڑھ لو" کامران صاھب نے وہ لفافہ فواد کی طرف بڑھایا۔

" یہ کیا ہے " فواد نے پوچھا۔

" میں روز رات کو سدرہ کو یہ خط لکھتے دیکھتا ہوں۔۔۔ روز وہ یہ خط لکھتی ہے پھر تمام رات اسے پڑھتی بھی رہتی ہے۔۔۔ میں نے اکثر اُس سے سنا کہ وہ یہ سرخ لفافہ تمہارے نام ڈاک پر بھیجنا چاہتی ہے مگر روز  اُس کے ہاتھ مجھے یہ خط دیتے ہوئےکپکپا جاتے ہے۔۔۔ آج صبح جب وہ سو رہی تھی تو اُس کی الماری کے سب سے اوپر والے خانے سے میں یہ خط چپکے سے نکال لایا۔۔۔ تاکہ پڑھ سکوں۔۔۔ مگر میری ہمت نہیں ہے۔۔۔ تم خود ہی پڑھو"

فواد نے سرخ رنگ کے اس لفافے کو ہاتھ میں لے کر بڑے غور سے چاروں طرف سے ایسے دیکھا جیسے کسی نہایت معتبرک شے کو دیکھ  رہا ہو۔

فواد کی انگلیوں نے لال رنگ کے لفافے  کے اندر چھپا ایک تہہ شدہ سفید ورق نکالا۔

ذرا دیر کو رہ رک کر اس تہہ شدہ کو کاغذ کو گھورتا رہا۔ ایک نظر کامران صاحب پر ڈالتے ہوئے اُس نے وہ ورق  کھول کر پڑھنا شروع کیا۔

"میرا یہ خط اُس شخض کے نام جو میری روح کا قرار ہے، آنکھوں کی بینائی ہے اور دل کا سکون ہے۔

اُس شخض کے نام  جس کے بغیر میرا جینا اور مرنا محال ہے۔

اُس شخض کے نام میرے ہاتھوں سے لکھی میری یہ تحریر جس کی خاطر میں سب کچھ لٹانے کے بعد بھی سب کچھ لٹا سکتی ہوں۔

اُس شخض کے نام جس کے لائق میں تو  نہیں ہوں مگر بغیر اُس کے اب آرام بھی نہیں۔

اُس شخض کے نام جسے میرا دل قرار اور دنیا والے فواد محمود کے نام سے جانتے ہیں۔

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ مجھے کب، کیسے، کیوں اور کس طرح تم سے محبت ہوئی ۔۔۔۔ مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ میری محبت حقیق اور پاکیزہ تھی۔۔۔ تمہیں جانا۔۔۔ تمہیں مانا۔۔۔ تمہیں دل سے چاہا۔۔۔ تم سے محبت کی۔۔۔ تمہاری خوشی میں سب سے زیادہ خوش اور تمہارے غم میں تم سے بھی بڑھ کر غمگین ہوئی۔

مجھے تمہارے  لباس، تمہارے رہن سہن، تمہاری روایات اور طور طریقے سے محبت نہیں ہوئی فواد!۔۔۔ بلکہ مجھے صرف تم سے اور تمہاری ذات سے محبت ہوئی ہے۔

لوگ کہتے ہیں محبت صلہ مانگتی ہے۔۔۔ شاید وہ اپنی جگہ درست ہوں مگر میرے نزدیک محبت ایک امتحان ہے۔۔۔ جس میں کامیاب صرف چند ہوتے ہیں مگر امتحان کے دستور سے ہر کوئی واقف ہو جاتا ہے۔

فواد! تم سے محبت کرنا بھی میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں رہا۔۔۔ یہ امتحان میری زندگی کے تمام امتحانات سے مختلف رہا ہے۔ مگر ایسا کہنا کہ مجھے تمہاری محبت سے کچھ صلہ نہ ملا ہرگز ہی غلط ہوگا۔

کیوں کہ فواد! تم نے مجھے بدل دیا۔۔۔ مجھ جیسی گناہ گار اور بھٹکی ہوئی لڑکی کو تم نے راہ حق پر چلایا۔۔۔ موسیقی کی شوقین کو تلاوتِ قرآن پر لگایا۔۔۔ ناچنے کودنے کی بجائے نماز و تہجد کا پابند بنایا اور فیشن پرست لڑکی کو پردہ اور لباس کی مصلحت سے آگاہ کروایا۔

تم جانتے ہو میں نے جب تم سے محبت کرنا شروع کی تو تمہیں پانے کی غرض  تھی مگر در حقیقت میں خود کو ہی کھوتی چلی گئی۔

آج بھیڑ میں کھڑے ہو کر سینکڑوں لوگوں میں سے بھی تمہیں تو تلاش کر سکتی ہوں۔۔۔ ہزاروں آوازوں میں سے بھی تمہاری آواز کو پہچان سکتی ہوں  ۔۔۔ مگر  آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو بھی پہچان نہیں سکتی۔۔۔ تمہاری یاد میں چیختے چلاتے ہوئے اپنی آواز بھی اجنبی سی  لگتی ہے۔

میں نیم پاگل ہو چکی ہوں فواد!۔۔۔۔ تمام رات تمہیں یاد کر کے چاند میں تلاش  کرنے میں گزر جاتی ہے اور دن تمہیں دیکھنے اور سننے کی تڑپ میں۔۔۔ تمہیں سوچتی ہوئے میں خود کو بھی بھول جاتی  ہوں۔۔۔ اکثر میں روتے روتے سو جاتی ہوں اور سوتے سوتے رو پڑتی ہوں۔

فواد! کیا ہو جو میں کسی بڑے گھرانے کی لڑکی ہوں۔۔۔ کیا ہوا جو میری زندگی کا  ابتدائی حصہ ایک اونچی طرزِ زندگی میں بسر ہو گیا۔ مگر میری بقیہ زندگی تو تمہارے ساتھ جینے میں بسر ہو سکتی ہے نا!

فواد! میں تمہارے لیے سب کچھ چھوڑ چکی ہوں۔۔۔ جینا بھی۔۔۔ میں اپنی بقیہ زندگی تمہارے لیے گزار سکتی ہوں۔۔۔ چاہے تم مجھے ملو یا نہ ملو۔۔۔ مگر تمہاری یاد تو میرا سہارا رہے گی نا!

تم جانتے ہو میری آج تک بہت سہیلیاں رہ چکی ہیں مگر کوئی بھی میری بہن کا روپ نہ دھار سکی۔۔۔ تم کہتے تھے نا کہ تم مجھے اپنی بیوی پر سوتن نہیں لانا چاہتے۔۔۔ مگر جب میں اُس سے ملی تو مجھے اُس میں اپنی بہن کا روپ دکھائی دیا۔

تمہارے عشق میں جلنے والی ایک ادنیٰ لڑکی"

فواد کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ کمرے کی نیم تاریکی میں بھی کامران صاحب اُس کی آنکھوں میں نمی کو دیکھ سکتے تھے۔

کامران صاحب فواد کی نم آنکھوں میں سے اپنی بیٹی کے جذبات کا عکس دیکھ رہے تھے۔ مگر ناجانے کیوں اُنھیں فواد کو دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں بھی نم دکھائی دیں۔

فواد نے خط پڑھ کر اُسے ایک طرف کیا اور باہر دیکھنے لگا جیسے کسی بڑے فیصلے کے متعلق سوچ رہا ہو۔

 جیسے سوچ رہا ہو کہ اُس سے غلطی کس جگہ ہوئی۔ یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہوئے یا یونیورسٹی میں تقریرکرتے ہوئے یا پھر کینٹین میں دوستوں میں گھرا بیٹھ کر اپنی غزل سناتے ہوئے۔

اُس نے بائیں ہاتھ میں پکڑے خط کو اپنے چہرے کے سامنے کیا اور آخری جملی زیرِ لب دہرایا " تمہارے عشق میں جلنے والی ایک ادنیٰ لڑکی"

" سدرہ کہتی ہے نا! کہ اُسے میری ذات سے محبت ہوئی ہے۔۔۔ تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔ آپ سدرہ اور اُس کی والدہ سمیت ایک مکمل دن اور رات ہمارے گاؤں آ کر رہیں تاکہ سدرہ کو بھی معلوم ہو جائے اور آپ کو بھی کہ فواد محمود کا رہن سہن کیسا ہے۔۔۔ اگر پھر بھی اُسے مجھ سے محبت رہی تو گھر والوں کے سامنے میں اُس سے شادی کرنے کو تیار ہو جاؤں گا" فواد آنکھوں کو صاف کرتا ہوا بولا۔

" تمہارا بہت شکریہ میرے بیٹے!۔۔۔ خدا  کے فیصلےتمہارے اور میری بیٹی کے حق میں بہتر ثابت ہو" کامران صاحب دعا دیتے ہوئے بولے۔

" آپ ایسے کریں کہ تین بعد ہمارے گاؤں آ جائیں۔۔۔ رات وہیں رکیے گا۔۔۔ اس دوران میرے گھر والوں اور خصوصاََ  میری بیوی کے سامنے تمام بات کھل کر بیان ہو جائے گی" فواد بولا " یہ لیں میرے گاؤں کا پتا" فواد نے میز پر سے قلم اُٹھا کر خط کی ہی پچھلے جانب لکھ دیا۔

" میں گھر جا کر ہی   سدرہ کو یہ خوش خبری سناؤں گا۔۔۔ اور پرسوں صبح ہی ہم تمہارے گاؤں کے لیے روانہ ہو پڑیں گے"

" جی بہتر!۔۔۔ میں بھی کل صبح گاؤں روانہ ہو جاؤں گا" فواد بولا۔

فواد سے اُس کے گھر کا پتا لے کر وہ اپنے گھر بڑی خوشی سے چل دیے۔ اُنھیں اپنی بیٹی کے جینے کی ایک نئی اُمید مل گئی تھی۔ اب کم از کم وہ اپنی بیٹی کے چہرے پر رونق تو دیکھ سکتے تھے۔

Comments

Popular Posts