قسط نمبر: 28
زندگی اور موت کے کھیل میں انسان بعض دفعہ ایسے فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے جو شاید اُس کے بنائے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتے۔
کئی
بار انسان کو اپنے قاعدے ، قوانین اور اصول توڑ کر آگے بڑھتے رہنے کے لیے بڑے کٹھن
فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
جہاں
ایک طرف وہ کچھ پا رہا ہوتا ہے تو عین مخالف سمت کوئی شے اُس سے چھن بھی رہی ہوتی
ہے۔
" یہ میرے والد ہیں امین بخش، یہ میری والدہ سلمیٰ بنت حیدر،
میری دونوں بہنیں ماریہ اور شانزے" فواد مہمانوں سے اپنے گھر والوں کا تعارف
کروا رہا تھا " اور یہ میری بیگم ہیں مومنہ فواد"
آخری
تعارف مہمانوں میں سے کچھ پر بجلی بن کر گرا۔
ملاقاتیں
ہوئیں، تعارف ہوئے، گلے ملے گئے۔ ایک فرقہ مہمان بنا تو دوسرا میزبان۔
مہمانوں
کی تواضع کی گئی۔
" ابا جی!۔۔۔ یہ مہمان لاہور سے میری دعوت پر آئے ہیں اور رات
یہاں قیام کریں گے" فواد نے امین بخش کو بتایا۔
ماسوائے
مومنہ کے باقی کوئی بھی ان اچانک مہمانوں کو نہ جانتا تھا جن کی آمد پر محلہ تو
کیا بلکہ پورا گاؤں حیران وششد تھا۔
ایک
معمولی سے کسان کے بیٹے جو شہر میں چند روپے کے عوض ملازم ہے اُس کے گھر اتنی بڑی
گاڑی میں مہمان کیسے آ سکتے ہیں۔
امین
بخش کا خیال تھا کہ شاید یہ فواد کے کوئی ایسے شناسا ہیں جن کے ہاں آنا جانا لگا
رہتا ہے۔ تبھی تو مومنہ اور سدرہ ایسی گھلی
ملی بیٹھی تھیں۔
فواد
کے کہنے پر کامران صاحب کی گاڑی اور ڈرائیورکو ملک امیر حمزہ کے چوپال بھجوا دیا
گیا۔
ماسٹر
اللہ دتہ کے گھر کو بھی کھلوا کر صفائی کر دی گئی تھی۔ مہمان رات یہاں گزارنے والے
تھے۔
وہ
دن میں پہنچے تھے۔ شام میں چائے کے ساتھ نصیر حلوئی کی دکان سے تازہ اور گرم جلیبی
اور سموسوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔
گاؤں
کی خوبصورت اور پر سکون فضا میں عین آبادی کے وسط میں موجود گھر کی صحن میں بیٹھ
کر خالص دودھ کی چائے کے ساتھ تازہ اور گرم لوازمات کھانےکو جو مزہ تھا وہ لاہور
جیسے قدیم شہر کی بیشتر دکانوں سے زیادہ بہتر لگ رہا تھا۔
سدرہ
کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی مومنہ لمحے بہ لمحے فواد سے آنکھوں میں ہی آگے کی تدبیر
کے متعلق پوچھتی رہی تھی جو بڑی آسانی سے اُسے مطمئن رہنے کا اشارہ کرتا رہا۔
فواد
نے گھر میں ہدایت کر رکھی تھی کہ مہمانوں کی آؤ بھگت خالصتاََ گاؤں کی روایات کے
مطابق ہونا چاہیے۔
عصر
کی نماز کے بعد وہ کامران صاحب کو لے کر کھیتوں کی جانب چل دیا تاکہ گاؤں کی سیر
کروا سکے۔ سدرہ کو مومنہ ، ماریہ اور شانزے کے ہمراہ کیا جبکہ ثوبیہ بیگم باہر
جانے سے کتراتی رہیں۔
اگر
اُن کی بیٹی کی خواہش، مرضی اور ضد نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی اس گاؤں کی حدود کے پاس
سے بھی گزرنا گوارہ نہ کرتیں۔
لہلاتے
سب کھیتوں کے بیچ میں کام کرتے گاؤں کے مرد و خواتین، فصلوں کو پانی دینے اور کاشتکاری کے روایتی اور پرانے طریقوں
کو اس قدر قریب سے دیکھنے کا اتفاق کامران صاحب کو پہلی مرتبہ ہو رہا تھا۔
اُ
ن کے لیے یہ سب نئی چیزیں تھیں۔ اُن کا خاندان پنجاب میں رہتے ہوئے بھی کبھی
کاشتکاری سے وابستہ نہ ہوا تھا۔
اُن کا خاندان شروع سے ہی
کاروبار سے مسلک تھا اور بعض لوگوں کا
خیال تا یہاں تک تھا کہ ان کا دادا کا کبھی اتنا بڑا کاروبار تھا کہ پشاور سے
بنگال تک چلتا تھا۔
مگر
پھر تقسیم ہند کے بعد سب ہاتھ سے جاتا رہا اور آگے آنے والی نسل نے بھی رہے سہے
کاروبار کی ٹکڑے کر کے شیرازہ بکھیر دیا۔
یہ
کامران صاحب ہی تھے جنھوں نے اپنی میراث میں آنے والے چھوٹے سے کاروبار کو بڑھا کر
اس قدر وسیع کر دیا تھا۔
تمام
عمر شہر کی بھگ دوڑ میں گزارتے ہوئے اُنھیں کبھی بھی اپنے جسم و روح کو سکون دینے کا سامان میسر نہ ہوا تھا۔
یہ
پر سکون فضا اُن کی روح کو معطر اور جسم کو تازگی بخش رہی تھی۔
فواد
اور کامران صاحب ایک راستے سے جب کہ مومنہ اور سدرہ وغیرہ دوسرے راستے سے گاؤں کی
سیر کر رہی تھیں۔
وہ
کامران صاحب کو کھیت اور کاشتکاری کے طریقوں کے متعلق آگاہ کر رہا تھا تو مومنہ
دوسری جانب سدرہ کو کنویں سے پانی بھر کر گھڑے کو سر پر اُٹھانے کے طریقے سے
روشناس کروا رہی تھی۔
مومنہ
اُسے بتا رہی تھی کہ کیسے گاؤں کی عورتیں مردوں کھیتوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ
کام کرتی ہیں۔
شام
کے وقت تو یوں بھی گاؤں کی رونق اپنی پوری آب و تاب پر ہوتی تھی اور اوپر سے شہری
بابو اور میم صاحب کو دیکھنے کے بچوں کے شوق نے کچھ مزید ہی رونق میں اضافہ کر دیا
تھا۔
گاؤں
کے آس پاس کے کھیتوں ، جنگلات اور پہاڑوں کے متعلق آگاہ کرتا ہوا فواد اُنھیں
اونچی پگڈنڈی کے قریب لے آیا تھا۔
یہ
جگہ کھیتوں کی طرف سے آتے ہوئے گاؤں کے راستوں کا اختتام تھا۔ یہاں بیٹھ کر ڈھلتے
سورج کو دیکھنے کا فواد کا شوق برسوں کا
تھا۔
وہ
اُنھیں بتا رہا تھا کہ کیسے وہ سامنے دکھنے والے درختوں کی اووٹ میں امین بخش پر سورؤں
نےحملہ کر دیا تھا اور کیسے اُس نے گاؤں والوں کو اطلاع دی تھی۔
وہ
امین بخش کی جراّت، حوصلے اور دلیر مندی پر رشک کر رہے تھے اور ساتھ ہی ایک کم عمر لڑکے کی اپنے حواس پر قابو رکھ
کر بروقت گاؤں میں اطلاع دینے کی بات پر حیران بھی تھے۔
اسی
دوران لڑکیاں بھی گاؤں کی سیر کر کے یہاں
لوٹ آئی تھیں۔
امین
بخش کی ملکیت یہ اونچی پگڈنڈی گاؤں کے تمام کھیت ، اُن کے پیچھے وسیع گھنے جنگلات
میں گھر سر سبز و شاداب اونچے پہاڑ بڑے خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔
" اس جگہ بیٹھ کر فواد کو ڈھلتے سورج کو دیکھنے کا شوق بڑا
پرانا ہے۔۔۔ میں بچپن سے اسے روز شام یہاں بیٹھا دیکھتی آئی ہوں" مومنہ
کے بولنے پر سب اُس کی جانب متوجہ ہوئے۔
" ڈھلتا سورج اور فواد محمود" سدرہ کے لب سے بلا اختیار
ایک جملہ نکلا۔
جب
سب کی نظریں پہاڑوں کی اووٹ میں ڈھلتے سورج پر تھیں تب بھی فواد کے کان مسلسل سدرہ
کے بولے اس مختصر سے فقرے کو سن رہے تھے۔
یہ
آواز ہر سمت سے اُس کے کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ جیسے ہوا شرارتاََ
بار بار یہ جملہ اُس کے کانوں میں بول کر رخصت ہوئے جا رہی تھی۔
نا
جانے اس جملے میں ایسا کیا تھا جو بار بار اُس کے وجود کو جھنجھوڑ رہا تھا۔
" مومنہ! یہ گھر کس کا ہے" سدرہ نے ماسٹر اللہ دتہ کے
گھر میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
" میرا"
" مطلب تمہارا اور فواد کا؟"
" میرا اور میرے بابا
کا" مومنہ نے جواب دیا۔
یہ
گھر ماسٹر اللہ دتہ نے اپنی حیات میں ہی مومنہ کے نام کر دیا تھا ورنہ مومنہ کی
والدہ کے رشتہ دار کب کے ہتھیا چکے تھے۔
صحن
میں ویرانڈے کی طرف مومنہ اور سدرہ کی چارپائی بچھی تھی جبکہ صحن کے بائیں جانب
باورچی خانے کی کھڑکی سے ذرا ہٹ کر امین بخش اور کامران صاحب کی چارپائی بچھائی
گئی تھی۔
کھلے
آسمان پر تارے یوں معلوم ہو رہے تھے جیسے سیاہ چادر پر گڑھے موتی چمک رہے ہوں۔
تاروں
کی مسلسل بہتی ہوئی آبشار کے کنارے پر چاند اپنی صورت ٹکائے زمین پر بسنے والوں کی
حالتِ زار تکنے میں مصروف دکھائی دے رہا تھا۔
اس
چاند سے تو سدرہ کا پرانا واسطہ رہا تھا۔
چاند کی شفاف سطح سے وہ گاؤں کا عکس با آسانی دیکھ سکتی تھی۔
ائیر
کنڈیشنر کمروں میں تو وہ سوتی آئی تھی مگر جیسے پر سکون نیند اُسے یہاں آئی تھی وہ
کسی دوسری جگہ اُسے میسر نہ تھی۔
ہوا
میں ہلکی خنکی پنکھے کی ہوا سے زیادہ سرد
تھی۔ تاروں بھراآسمان چاند سے زیادہ خوبصورت تھا۔
فضا میں موجود سکوت شہر کی بے لطف
رنگینی اور جا بجا شور سے بے حد بہتر تھا۔
نا
جانے کتنے عرصے بعد وہ سکون کی نیند سوئی تھی۔ وگرنہ تمام رات
وہ یا تو چاند تکتے گزار دیتی اور یا
پھر فواد کو یاد کرنے میں۔
کیوں
کہ اُس کی زندگی میں صرف یہی دو سرگرمیاں ہی تو باقی بچ گئی تھیں۔
صبح
اُس کی آنکھ موذن کے اذان دینے پر کھلی۔ اذان کی آواز اس قدر واضع اور صاف تھی کہ
لگتا تھا کہ پاس میں ہی مسجد ہے۔
وہ
اُٹھ کر بیٹھی تو مومنہ کو پہلے ہی بیدار پایا۔
سامنے
امین بخش وضو کرنے کے بعد کامران صاحب کو وضو کرنے کا کہہ رہے تھے جو ابھی ہی اُٹھ
کر بیٹھے تھے۔
کامران
صاحب اور امین بخش وضو کر کے مسجد چل دیے تو دونوں نے وضو کر کے جائے نماز
سنبھالا۔
دن
کو ظہرانے پر مہمانوں کی تواضع میں گاؤں
کی کوئی سوغات نہ چھوڑی گئی۔
چونکہ
کل شام اُن کی اچانک آمد پر عشائیے میں کچھ خاص تواضع نہ ہو سکی تھی تو اس لیے وہ
ساری کسر آج کے ظہرانے میں پوری کی جانے لگی۔
بارہ
بجے ہی مرکزی کمرے میں دستر خوان لگ چکا تھا۔یہاں اب بھی نیچے بیٹھ کر کھانا کھانے
کا رواج موجود تھا۔
دیسی
مرغ کا سالن، مٹر پلاؤ، دیسی گھی میں چپڑی ہوئی تندور کی روٹیاں، ٹھنڈی لسی، خالص
دودھ کی کھیر اور فرنی سمیت دیگر طرح طرح کے لوازمات سے دستر خوان سجا تھا۔
فواد
کے بائیں جانب پہلو میں امین بخش اور کامران صاحب ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، جبکہ دائیں
جانب ماریہ اور شانزے سے آگے سدرہ اور مومنہ اکٹھی بیٹھی تھیں۔ اُدھر سامنے سلمیٰ
اور ثوبیہ بیگم۔
" امی جی! آپ ماریہ
اور شانزے کی مدد سے برتن رکھ کر فوراََ واپس آ جائیں۔۔ کچھ ضروری باتیں کرنے کو
ہیں" فواد نے کھانے کے بعد سلمیٰ سے مخاطب ہو کر کہا۔
جب
فواد کو ہر طرح سے تسلی ہو گئی کہ اب دستر خوان کے سروں پر بیٹھا ہر شخض اُس کے
بولنے کا انتظار کر رہا ہے تو اُس نے اپنی بات شروع کی۔
" ابا جی!۔۔۔ امی جی!۔۔ آج میں نے ایک خاص مقصد کے تحت دونوں
گھرانوں کو اکٹھا کیا ہے۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ میری بیوی اور میرے والدین کے سامنے
سب باتیں صاف صاف اور کھل کر سامنے آ جائیں" فواد نے بولنا شروع کیا۔
" پتر! خیر ہے نا!" امین بخش نے کچھ انہونی بھانپتے ہوئے کہا۔
کمرے
میں ایک مکمل سکوت تھا۔ جس کو محسوس کرنے والے طوفان سے پہلے کی خاموشی قرار دے
رہے تھے۔
" ابا جی!۔۔۔ کامران صاحب کی بیٹی سدرہ اور میں ہم دونوں
یونیورسٹی پڑھتے تھے۔۔۔ اور یہیں ناجانےکیسے سدرہ کو مجھ سے محبت ہو گئی"
فواد نے عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کیا۔
" کیا؟۔۔۔محبت ؟۔۔۔۔محبت ہو گئی ہے؟۔۔۔ مگر کیسے؟۔۔۔۔ کیا تو
نے بیٹی کو بتایا نہیں تھا کہ تو بیاہ چکا ہے؟" امین بخش کے بولے یہ جملے گھر
کے باقی افراد کے بھی سوال تھے۔
ایک
عدالت لگ چکی تھی۔ جس میں قاضی امین بخش،
مدعی فواد، گواہین میں مومنہ اور کامران
صاحب جبکہ ملزم میں سدرہ کو شامل کیا گیا۔
" پتر! تجھے اتنا خیال نہیں آیا کہ تیری ذرا سی غلطی بیچاری
دو معصوم لڑکیوں کی زندگی برباد کر سکتی ہے" سلمیٰ نے بھی قصوار وار فواد کو
سمجھا۔
مومنہ
پر سکون سی ہو کر بیٹھی اپنے سامنے ہونے والی اس سرگرمی کو دیکھ رہی تھی۔ اُسے
فواد پر کامل بھروسا، یقین اور اعتماد تھا۔
اگر
فواد نے اُسے پر سکون رہنے کو کہا تھا تو یقیناََ اُس کے پاس کوئی تدبیر موجود
تھی۔ شاید اس وقت ایک مومنہ ہی تھی جو فواد کو بہتر سے سمجھنے کی مجاز تھی۔
" جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مجھے سدرہ سے محبت نہیں ہوئی بلکہ اُسے مجھے سے
ہوئی۔۔۔ میں سمجھا تھا کہ وقتی جذبہ ہے جو میرے تلخ لہجے اور مسلسل نظر اندازی کے
سبب ذائل ہو جائے گا۔۔۔ کیوں کہ میں خود بھی سدرہ کو اس بھٹی میں جھونکتا ہوا نہیں
دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر شاید میں غلط تھا۔۔۔ اُن
جذبات کو ہم محبت کا نام نہیں دے سکتے جو ذرا سی نظر اندازی کے سبب ناکارہ
اور سرد پڑ جائیں" فواد کی آواز کمرے میں موجود ہر فرد بڑے اشتیاق سے سن رہا
تھا۔
ہر
ایک کے لیے فواد کے جملے حیرت کا سبب تھے اور سب سے بڑھ کر تو سدرہ اور مومنہ کے
لیے۔
" میں سدرہ کے سامنے اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نے جان
بوجھ کر اسے تکلیف دینا چاہی تاکہ کسی نہ کسی سبب وہ مجھے بھولے۔۔۔ مگر میری ہر
تدبیر ناکام ثابت ہوئی۔۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اب یہ آگ بجھنے والی نہیں تو میں نے
مومنہ کو اپنی شریقہِ حیات خیال کرتے ہوئے سب بتانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔ اور یہ کہنے
میں مجھے کوئی عار نہیں کہ واقعی مومنہ
جیسی بیوی خدا کسی کسی کو ہی عطا کرتا ہے۔۔ جو ہر مشکل میں اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی
ہو"
گھر
کے اکثر افراد اس نئے انکشاف سے حیران ہوئے۔
دونوں
میاں بیوی کے اعصاب اس قدر مضبوط تھے کہ کسی دوسرے کو اس معاملے کے متعلق کانوں
کان خبر نہ ہونے دی۔
" جب میں نے ہر طرف سے راستہ بند دیکھا تو سدرہ سے صاف صاف
کہا کہ میں اپنی بیوی سے بے انتہا محبت کرتا ہوں اور اُس پر سوتن لانے کا ہرگز بھی
نہیں سوچ سکتا" بھری بزم میں فواد کے
منہ سے محبت کا اقرار نامہ سن کر مومنہ کے گال سرخ ہونے لگے تھے۔
" میں یہی چاہتا تھا کہ آپ لوگ ہمارے رہن سہن اور رسم و رواج
کے متعلق پہلے اچھے سے جان جائیں پھر آگے کا فیصلہ کیا جائے۔۔۔اب چونکہ دونوں
گھرانے ایک دوسرے سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں تو میں یہی چاہتا ہوں کہ آپ سب اس
مسئلہ کا فیصلہ کریں اور جو بھی نتیجہ
نکلے اُسے میں قبول کرنے کو تیار ہوں"
فواد
نے اپنی عرضی عدالت کے سامنے رکھ دی تھی اور چند ہی لمحوں میں سب جان گئے کہ اس
معاملے میں ہر بار لڑکا ہی قصور وار نہیں ہوتا۔
دونوں
گھرانوں کو آمنے سامنے بٹھانے کا فواد کا فیصلہ بلا شبہ بہترین تھا۔
وہ
نہیں چاہتا تھا کہ دونوں گھرانوں میں سے کسی ایک فرد سے بھی کوئی بات ڈھکی چھپی
رہے۔
یہاں
اپنی بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے سدرہ کے والدین بھی موجود تھے اور فواد کے
والدین بھی۔
یہاں فواد کی شریقہِ حیات
بھی موجود تھی اور زوجہ بننے کی خواہش مند سدرہ بھی۔
سب کے چہرے سپاٹ ، زبانیں بند اور ذہن فواد کی بات
پر غور کرنے میں مصروف تھیں۔
" سدرہ پتر!۔۔۔ کیا تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ فواد شادی شدہ ہے
اُس سے محبت کرتی ہے؟" امین بخش نے سدرہ سے پوچھا۔
" جی تایا جان!"
" کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ فواد ایک غریب گھرانے کا ہے تو
اُس سے محبت کرتی ہے؟"
" جی تایا جان!" سدرہ نے جواب دیا" مجھے فواد کے
رہن سہن سے محبت نہیں ہوئی۔۔۔ بلکہ اُس کی ذات سے ہوئی ہے"
" کیا تجھے یہ معلوم ہے کہ فواد تجھے وہ زندگی نہ دے سکے گا جو تم اپنے
والدین کے گھر گزار رہی ہو؟"
" تایا جان! میں اُس محبت کو محبت نہیں مانتی جس میں
قربانی اور کفارے نہ ہوں" سدرہ
بولی" میں نے یہ سوچ کر فواد سے محبت نہیں کی کہ وہ مجھے وہ تمام چیزیں دے جو
میرے والدین کو مجھے دیتے ہوئے بڑھاپا آ
گیا۔۔۔ میں بس یہ چاہتی ہوں کہ یہ یک طرفہ محبت کسی رشتے میں بدل جائے۔۔۔ باقی رزق
کا ذمہ اللہ کا ہے ۔۔۔ جہاں مل، جتنا ملا، جیسا ملا مجھے قبول ہے" سدرہ کی
آنکھوں سے ناجانے کیوں آنسو بہہ نکلے تھے۔
اپنی
بات کے اختتام پر وہ آنسو سے تر چہرہ لیے کمرے سر نکل گئی۔
مومنہ نے اُس کے پیچھے
اُٹھ کر جانا چاہا مگر فواد نے اشارتاََ روک دیا اور ماریہ کو باہر جانے کا اشارہ
کیا جو شانزے کو لیے سدرہ کے پیچھے چلی گئی۔
سدرہ
کے جملے بہت بھاری تھے۔
کامران
صاحب یہی سوچ رہے تھے کہ اُن کے کندھے پر بیٹھ کر سیر کرنے والی وہ معصوم سی گڑیا
کب اتنی بڑی ہو گئی کہ اُس کے بولے جملوں پر غور کرتے کرتے دماغ کی نسیں مفلوج
ہونے لگ جائیں۔
" مومنہ پتر!۔۔۔ تو کیا کہتی ہے اس معاملے میں؟" امین
بخش نے مومنہ کی رائے چاہی۔
" بچے ! تو اس چیز کی
فکر نہ کرنا کہ تیرا بابا اس وقت یہاں موجود نہیں۔۔۔ تیری امی اور تیرے تایا تو
یہاں موجود ہی ہیں۔۔۔ جو کچھ کہنا ہے کھل کر کہنا" سلمیٰ بولا اُٹھی۔
" تایا جی!۔۔۔ اگر فواد راضی ہے تو مجھے بھی کوئی اعتراض
نہیں۔۔۔ کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ جیسا شوہر فواد دوسری شادی سے پہلے ہے ویسا ہی
وہ آگے بھی رہے گا۔۔۔ جہاں تک بات سدرہ کی ہے ۔۔۔ تو جب تک وہ فواد سے محبت کرتے
رہے گی تب تک وہ میری سوتن کی بجائے میرے سہیلی اور بہنوں جیسے رہے گی۔۔۔ لیکن اگر
اُس نے فواد کو تکلیف دینے کا ذرا سا بھی تصور ذہن میں لایا تو اُس سے بڑھ کر میرا
دشمن اور کوئی نہیں ہوگا" مومنہ نے اپنا فیصلہ بھی سنا دیا تھا۔
کمرے
میں کچھ دیر کو پھر سے وہی سکوت طاری ہو گیا جو کچھ دیر پہلے تھا۔ سب سن سکتے تھے۔
سب بول سکتے تھے۔ سب اپنی رائے دینے کا اختیار
رکھتے تھے مگر پھر بھی مکمل خاموشی تھی۔
" کامران صاحب!۔۔۔ میرے گھرانے کی طرف سے تو کسی فرد کو اس
رشتے پر کوئی اعتراض نہیں رہا۔۔۔ اور نہ ہی کوئی ایسی بات رہ گئی ہے جو آپ سے چھپی
ہو۔۔۔ آپ اپنی بیگم سے مشاورت کرنے کے بعد ہمیں بتا دیں کہ کیا آپ ایک غریب گھر کے
لڑکے سے اپنی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کا رشتہ
کرنے کو تیار ہیں" امین بخش نے کامران صاحب سے مختاطب ہو کر کہا۔
" امین بخش صاحب!" شاید وہ پہلے شخض تھےجنھوں نے امین
بخش کو بھی صاحب کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
" اپنی بیٹی کو روز گھل گھل کر مرتے دیکھنے کی بجائے اُس کسی
کے عقد میں خوش دیکھنا ہی میرے لیے بہتر ہے۔۔۔ اپنی پری جیسی بیٹی کی کوئی بھی
خواہش کہے بنا پوری کرنے والا شخض آج اپنی بیٹی کی خوشی کے لیے سب قبول کرنے کو
تیار ہے"
کامران
صاحب کی بات نے کسی شک و شہبے کی گنجائش نہ چھوڑی تھی۔
" تو کامران صاحب!۔۔۔ پھر یہ رشتہ ہماری طرف سے بھی منظور
سمجھیں" امین بخش نے کامران صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
رشتہ
طے پا لیا گیا تھا۔ ادھر کامران صاحب امین بخش سے بغل گیر ہونے کے لیے اُٹھے تو
دوسری جانب مومنہ کمرے سے باہر نکل پڑی۔
بغل
والے کمرے میں ماریہ اور شانزے کے بیچ میں سدرہ بیٹھی ہوئی فواد کے بچپن کی چند
تصاویر دیکھ رہی تھی جب اُسے دروازے سے مومنہ اندر آتی دکھائی دی۔
سدرہ
فوراََ سب چھوڑ چھاڑ کر مومنہ کی جانب لپکی۔
" کیا فیصلہ کیا سب نے؟۔۔۔ کیا میری دعائیں قبول ہوئیں؟۔۔۔
کیا حصولِ محبت میں مجھے کامیابی نصیب ہوئی؟" سدرہ نے یک لخت ہی تمام سوال کر
ڈالے۔
" مبارک ہو تمہیں سدرہ!۔۔۔ تم کامیاب ہوئی۔۔۔ تمہاری محبت جیت
گئی۔۔۔ فواد کے لیے تمہارا رشتہ قبول کر لیا گیا " مومنہ نے سدرہ کے دونوں
ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
انسان
کی آنکھ سے ہمیشہ آنسو کسی غیر توقع صورتحال پر ہی بہتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو ہم
خوشی اور دوسرے کو ہم غم کہتے ہیں۔
چونکہ
یہ دونوں صورتیں انسانی حواس کے لیے اچانک ہوتی ہیں لحاظہ چشمِ انسانی سے آنسو نکلانے کا موجب بنتے ہیں۔
مومنہ
سے گلے لگے ہوئے سدرہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ اتنے آنسو
اُس کے رخسار سے بہتے کیوں جا رہے ہیں۔ ان آنسوؤں پر وہ اپنا اختیار کھو چکی تھی۔
نا
جانے کیوں یہ آنسو تھے کہ رکنے کا نام بھی نہیں لے رہے تھے۔
اُسے
ہر گز معلوم نہیں ہوا کہ کس وقت تک اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنا رکے۔
اُس وقت بھی نہیں جب سلمیٰ
اُس کے نازک ہاتھ کی کومل انگلیوں میں فواد کے نام کی انگوٹھی پہنا رہی تھی۔
سدرہ
کو اُس وقت بھی اپنے رخسار پر آنسو بہتے ہوئے محسوس نہ ہوئے جب فواد کے سوا اُس کا
بقیہ تمام گھرانہ اُس کے ارد گرد موجود تھا اور اُسے مٹھائی کھلائی جا رہی تھی۔
اُسے
بس کچھ دکھائی دیا تو آنکھوں میں ہلکی نمی کے ساتھ مومنہ کا مسکراتا ہوا چہرہ ،
انگلی میں فواد کے نام کی یہ انگوٹھی جو اُس کی فواد سے نسبت کو ظاہر کر رہی تھی
اور دروازے کے باہر صحن میں کھڑے ہوئے فواد سے گلے ملتے ہوئے کامران صاحب۔
" مجھے اپنی قسمت پر رشک ہے فواد! کہ تم میرے ہونے والے داماد
ہو۔۔۔ مجھے تم پر اور تمہارے والدین پر فخر ہے جنھوں نے اس قدر
خوش اسلوبی سے اس مسئلے کو سلجھایا۔۔۔ اپنی بیٹی کے چہرے پر خوشی دیکھنے کے لیے
میری آنکھیں ترس گئی تھیں۔۔۔ بس میری بیٹی کو بقیہ زندگی خوش رکھنا۔۔۔ مجھے نہیں
لگتا کہ تم سے بہتر زندگی کا ساتھی کوئی میری بیٹی کا ہو سکتا ہے" کامران صاحب فواد سے مخاطب تھے۔
حصولِ
محبت میں اکثر کے حصہ میں ناکامی آتی ہے۔ مگر چند ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جن
کے مستقل صبر اور استقلال کی بدولت تقدیر اُن کے حق میں حصول ِ محبت کی سزا لکھ
دیتی ہے۔اس مقام تک پہنچنے کے لیے اُنھیں جن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اُن کا
کوئی ثانی نہیں۔
اس
کٹھن اور دشوار گزر سفر کے دوران انسان اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ بعض دفعہ تو انسان
جینے کی اُمید سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور کئی دفعہ تو اپنی منزل کے بہت قریب آ
کر بھی انسان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اور وہ خود کو مزید ہارا ہوا اور شکست کشیدہ
خیال کرنے لگتا ہے۔
مگر پھر مسلسل مشکلات میں گھرے رہنے کے بعد تقدیر
انسان کو صبر عطا کر دیتی ہے اور یہی صبر اُسے اُس کی منزل تک پہنچا دیتا ہے اور
بل آخر وہ بھی حصول محبت میں کامیاب ہو
جاتا ہے۔
Comments
Post a Comment