قسط نمبر: 29
" وہ وقت کس قدر خوبصورت ہو گا جب تم میری آماجگاہ پر آؤ گے۔
تمہارے قدموں کی وہ چاپ جسے میں سننے کو بے تاب رہتی تھی اُس وقت میرے وجود پر
خوشی سے لرزہ طاری کا موجب بنے گی۔ تمہیں اپنے قریب محسوس کرتے ہوئے میں صرف تمہیں
دیکھ اور سن سکوں گی مگر میرے لب سے ایک جملہ بھی ادا نہ ہونے پائے گا۔ مگر میرے
لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ تم خود چل کر میری آماجگاہ پر
آئے۔ میں چت لیٹے ہوئے تمہاری انگلیوں کا وہ لمس اپنی قبر کی مٹی پر محسوس کر پاؤں
گی۔ یہی میرے لیے عید کا روز ہوگا"
ڈائری
کے ورق پر اپنے ہاتھوں لکھے یہ جملے اُس کے لیے آج بے معنی تھے۔ بالکونی میں رکھی
کرسی جہاں سے وہ چاند دیکھا کرتی تھی اب اُس کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔
گلاب کے پھولوں کے ساتھ رکھے وہ ورق بھی اب اتنی
اہمیت کے حامل نہیں رہے تھے۔ اب چاند کو تکنے کی بھی کوئی وجہ نہ تھی۔
آج
کا دن اُس کی زندگی میں عید کا دن تھا۔ آج
اُس کی آرزو، اُس کی تمنا اور اُس کی خواہش پورے ہونے کا دن تھا۔
آج
اُس کی محبت کی حقیقی کامیابی کا وقت تھا۔ آج اُس کے جینے کا مقصد پورا ہونے کو
تھا۔ آج اُس کے زندگی کے کٹھن ترین امتحان
میں کامیابی نصیب ہونے والی تھی۔
آج
اُس کا نکاح فواد سے ہونے جا رہا تھا۔ آج وہ اتنے عالی شان بنگلے سے نکل کر
دوکمروں کے چھوٹے سے مکان میں رخصت ہونے جا رہی تھی۔
آج
وہ ایک نئی زندگی جینے جا رہی تھی۔ آج ایک نئے دوڑ میں وہ قدم رکھنے جا رہی تھی۔
دلہن
کے سرخ جوڑے میں ملبوس ہو کر وہ اپنے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ جہاں اُس نے اپنی
زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارہ تھا۔
یہ
پلنگ اور اس کے تقیے سردیوں کی طویل راتوں میں بھی اُس کے ساتھ مل کر رویا کرتے
تھی۔
یہ
سنگار میز جہاں کبھی اُس کے سجنے سنورنے کا خوب سامان ہوا کرتا تھا اب خالی ہو چکا
تھا۔
دیواروں
کے ساتھ لگی ہوئی یہ تصاویر اور مصوری کے خاکے اُس کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا
موجب بنتے تھے۔
یہ
بالکونی اور اس میں پڑی وہ کرسی جہاں بیٹھ کر وہ کھلی فضا میں سانس لینے کی عادی
تھی۔
فواد
کسی بھی قسم کا جہیز سدرہ کے لانے پر راضی نہ تھا۔ فواد کے بقول سدرہ جو کچھ
خریدنا چاہے وہ شادی کے بعد فواد کی محنت سے خرید کر گھر رکھ سکتی ہے۔
مگر
یہاں بھی کامران صاحب نے بلکل ماسٹر اللہ دتہ والی پالیسی اپنائی اور ضرور ت کا
چند سامان سدرہ کو دینا چاہا اور رخصتی سے ایک روز قبل ہی فواد کے لاہور والے مکان
میں بھیج دیا۔
سدرہ
دلہن کے سرخ جوڑے میں ملبوس ہو کر کمرے کا جائزہ لینے میں مصروف تھی کہ دروازہ
کھلنے کی آواز پر اُس نے مڑ کر دیکھا۔
یہ
نورین تھی جو کسی کام سے نیچے گئی ہوئی تھی۔
" فواد اور اُس کے گھر والے آ گئے ہیں" نورین نے اطلاع دی۔
" کیسا لگ رہا ہے وہ؟" سدرہ نے پوچھا۔
" تم خود ہی دیکھ لینا نکاح کے بعد " نورین نے چھیڑا ۔
شرائط
کے عین مطابق نکاح بڑی سادگی سے کیا جانا تھا۔
فواد اپنے چند عزیزوں کے
ساتھ آیا تھا جس میں اُس کے چچا اور ندیم صاحب کے گھرانے کے علاوہ یونیورسٹی کے
چند لڑکے شامل تھے۔
دوسری
طرف کامران صاحب نے بھی گھر میں اپنی چند عزیز نکاح کی تقریب میں مدعو کر رکھے
تھے۔
نکاح
کی تقریب کامران صاحب کےگھر کی لان میں منعقد ہوئی۔ دونوں گھرانوں کے مہمانوں کو
یہاں ہی بٹھایا گیا تھا۔
آج
فواد نے ہلکے سفید رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی۔ اُس کا یہ روپ سدرہ کو بلکل
یونیورسٹی جیسا معلوم ہو رہا تھا۔
نکاح
کی مختصر سی رسم کے بعد رخصتی کا وقت آ چکا تھا۔ بڑے گھر کی یہ چوکھٹ پار کرنے کا
وقت آن پہنچا تھا۔
قرآن مجید کے سائے تلے ایک طرف سے نورین اور دوسری
طرف سے ثوبیہ نے تھامے ہوئے سدرہ کو گاڑی میں بٹھایا۔
اگلی
نشست پر فواد پر براجمان تھا جبکہ گاڑی شہریار کی اپنی تھی اور وہی چلا رہا تھا۔
پچھلے
نشست پر سدرہ کے بغل میں مومنہ بیٹھی تھی۔
شہر
کے سب سے بڑے کاروباری شخض کی بیٹی ایک عام سے غریب گھرانے کے لڑکے سے دوسری شادی
کر کے رخصت ہو چکی تھی۔
ایک
پر وقار زندگی چھوڑ کر اُس نے اپنی نسبت فواد سے جوڑنا پسند کی تھی۔
وہی فواد جس سے اُسے ایک
وقت بے حد چڑ تھی۔ وہی فواد جس سے کسی وقت اُسے نفرت ہونے لگی تھی مگر پھر قسمت نے
اُس کی یہی نفرت محبت میں بدل دی۔
آج
وہ فواد کے عقد میں آ چکی تھی۔ آج وہ اُس کے نام سے منسوب ہو چکی تھی۔ آج وہ سدرہ
یوسفزئی سے سدرہ فواد بن چکی تھی۔
" میں نے ایک بات تم سے چھپا رکھی تھی سدرہ!" فواد بولا" تمہیں جب بھی یونیورسٹی میں دیکھتا
تھا تو اپنے دل پر اختیار کھونے لگتا تھا۔۔۔ مگر میں کیا کرتا میں شادی شدہ تھا
اور تم سے محبت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ مگر اب تم میری بیوی ہو اور میرا دین بھی مجھے
تم سے محبت کرنے کی تاقید کرتا ہے"
سدرہ
سمجھ نہ پائی کہ یہ اظہارِ محبت تھا یا اقرارِ جرم۔
" یہ میری طرف سے تمہیں پہلاتحفہ ہے" فواد نے جیب سے ایک
چھوٹی سی ڈبیہ سے انگوٹھی نکال کر سدرہ کے خوبصورت نازک ہاتھ کی کومل انگلی میں
پہنائی۔
" جب تک میرے جسم میں روح باقی رہی یہ انگوٹھی میری انگلی سے
جدا نہ ہو گی" وہ فواد کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرائی۔
رخصتی کے بعد ایک روز کا وقفہ چھوڑ کر فواد نے گاؤں
میں ولیمہ کی ایک دعوت رکھی جس میں برادری کے تمام افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔
امین
بخش کی برادری میں اکثر لوگوں نے فواد کی دوسری شادی پر اعتراض کیا۔ جو کسر رہ گئی
تھی وہ فضل الہیٰ کی بیوی نے طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر پوری کر دی۔
گاؤں
میں اب یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ فواد نے شہر کے کسی بڑے کاروباری شخض کی اکلوتی
بیٹی سے شادی کر لی ہے۔
یہ
قانونِ فطرت ہے کہ ایسی افواہیں اور چہ
مگوئیاں انسان کی پیٹھ پیچھے ہی کی جاتی ہیں۔
ذرا سے ذائقہ چکھنے کی
خاطر معاشرے کے چند افراد ایسی باتیں بڑے شوق سے پھیلانے کے ماہر ہوتے ہیں۔
سدرہ
سے شادی کے بعد فواد نے لاہور میں ہی مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔
فواد نے مومنہ اور سدرہ کو ہدایت کی تھی کہ مومنہ کے
امتحانات کے بعد وہ دونوں ایم اے میں داخلہ لیں۔
پھر
ایک روز رات کو اس موضوع پر باقاعدہ بحث ہوئی۔ ماریہ بھی گاؤں سے آچکی تھی۔ اُس کا
داخلہ بھی کچھ روز میں فواد بے اے میں کروانے والا تھا۔
مومنہ
اور سدرہ نے اپنے مضامین اور شعبے بھی چن
لیے تھے۔ وہ یہاں تک فیصلہ کر چکی تھیں کہ کس کالج میں داخلہ لینا اور آنے جانے کا
بندوبست کیا ہوگا۔
مومنہ
اور سدرہ کو دیکھ کر فواد کو اُن لوگوں پر حیرانی ہوتی جو یہ کہتے کہ انسان کی دو
بیویاں کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتی۔
مومنہ
اور سدرہ نہ کسی بات پر ایک دوسرے سے اختلاف کرتی تھیں اور لڑنا تو بہت دور کی
بات۔
دونوں
نے گھر کے کام اور خصوصاََ فواد کے کام آپس میں بانٹ رکھے تھے۔
اگر ایک صفائی کر رہی ہوتی
تو دوسری کپڑے دھونے میں مصروف ہوتی۔
ایک
کھانا بنا رہی ہوتی تو دوسری برتن صاف کر رہی ہوتی۔ ایسے موقع پر وہ دونوں فواد نے
کام لینا بھی خوب جانتی تھیں اور اکثر کاموں میں فواد بھی ہاتھ بٹا دیا کرتا۔
شادی
سے قبل سدرہ کھانا بنانے کے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتی تھی مگر شادی کے بعد مومنہ
سے اُس نے اتنا کچھ سیکھ لیا تھا کہ کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ اتنا لذیز
کھانا سدرہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔
شادی
کے بعد سدرہ کے چہرے کی رونق لوٹ آئی تھی۔ اب وہ پہلے سے زیادہ خوش رہنے لگی تھی۔
آنکھوں کے وہ حلقے بھی اب ختم ہو چکے تھے۔
شادی
کے ایک ماہ بعد جب نورین اُس سے ملی تو اُسے دوسال قبل والی سدرہ پایا۔
اُس کے اندر آئی ئی تبدیلی
خود فواد سمیت کامران صاحب بھی محسوس کر چکے تھے اور وہ اس معاملے میں فواد کے شکر
گزار بھی تھے۔
سدرہ
سے شادی ہو جانے کے ہفتہ بعد وہ پھر سے اپنےمعمول پر آ چکا تھا۔ روز صبح سکول جاتا
اور شام اکیڈمی میں ٹیوشن دیتا۔
فواد
کی زندگی میں نیا موڑ تو اُس روز آیا جب ایک روز وہ مومنہ کو کالج سے لے کر گھر
لوٹا تو ندیم صاحب نے ایک ڈاک کا لفافہ اُسے تھمایا جس پر فوادکا نام لکھا تھا۔
گھر
کے دروازے کھول کر وہ کرسی پر بیٹھ کر اس خاکی رنگ کے لفافے کو غور سے دیکھنے لگا۔
کیوں کہ اسے دیکھ کر کسی طرف سے بھی خط کا شبہ نہ ہوتا تھا۔
"
ماریہ! پانی تو لا دو"
فواد نے پنکھا چلاتے ہوئے خط پر ایک گہری نظر ڈالی۔
"
جی بھیا!۔۔ ابھی لائی"
ماریہ جو خود پانی پی رہی تھی گھونٹ بھرتے ہوئے بولی۔
فواد
کی انگلیوں نے لفافے کو کھولنے کی جسارت کی۔ خاکی رنگ کے لفافے میں ایک سفید رنگ
کا کاغذ لپٹا ملا۔
فواد
نے وہ ورق کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ باورچی خانے کے دروازے میں کھڑی سدرہ، صوفے پر
بیٹھی مومنہ اور سامنے گلاس لے کر کھڑی ماریہ کی نظریں بھی فواد کی نظروں کے تعاقب
میں تھیں۔ وہ اُسے بڑے غور سے یہ ورق پڑھتا ہوا دیکھ رہی تھیں۔
فواد
یہ ورق پڑھتے پڑھتے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"
کیا ہوا فواد!۔۔۔ کیا لکھا ہے
اس میں " مومنہ نے فواد کے چہرے پر خوشی دیکھتے ہوئے کہا۔
"
مومنہ! ماریہ! سدرہ!۔۔ میں
مقابلے کے امتحان میں پاس ہو گیا ہوں "
وہ
اُنھیں ہنستے ہوئے بتا رہا تھا۔ اتنی خوشی ایک ساتھ اُس کے لیے برداشت نہ ہو رہی
تھی۔
وہ
ذرا سنبھلا تو ندیم صاحب کی جانب چل پڑا۔ دروازے کے باہر کھڑے ہو کر اُنھیں آواز
دی اور چند لمحوں میں ہی وہ باہر نکل آئے۔
فواد
نے اُنھیں خبر سنائی تو وہ بھی جھوم اُٹھے۔ ناہید بیگم اور کرن بھی باہر نکل آئیں۔
بالائی منزل سے مومنہ ، سدرہ اور ماریہ بھی اُتر آئیں۔
فوراََ
ہی مٹھائی لائی گئی۔ سب نے منھ میٹھا کیا۔
"
بیٹا گھر تار بھیج کر اطلاع کر
دو!" ندیم صاحب نے مشورہ دیا۔
"
نہیں ندیم صاحب!۔۔ ایسے
نہیں۔۔۔ میں خود جا کر اُنھیں یہ خبر دوں گا" فواد نے مسکرا کر کہا۔
کچھ
دیربعد چاروں ہلکا پھلکا سامان لیے سٹیشن پر کھڑے تھے۔ آج تین ماہ سے کچھ زیادہ
وقت اُنھیں ہو گیاتھا گاؤں سے آئے ہوئے۔
فواد
نے سدرہ کو اپنے والدین کے پاس رکنے کی اجازت دے دی تھی مگر پھر بھی وہ اُن کے
ساتھ جانا چاہتی تھی۔ سدرہ کے بقول وہ فواد کی خوشی اور غمی کی ساتھی ہے۔
سٹیشن
سے تانگہ لے کر وہ بس اڈہ جانے کی بجائےفواد پہلے مٹھائی کی دکان پر گیا۔ بلکل وہی جگہ جہاں سے وہ کالج پڑھتے وقت مٹھائی
لیا کرتا تھا۔
مگر
آج کلو یا دو کلو مٹھائی لینے کی بجائے اُس نے پانچ کلو کے دو ٹوکرے لیے۔
یہاں
سے بس اڈہ پہنچے اور گاؤں کے سٹاپ پر اُترے۔ یہاں گاؤں جانے والے بے شمار تانگے
اُسے کھڑے مل رہے تھے۔
ایک
تانگے پر سوار ہو کر گاؤں پہنچے۔ برگد کے ویران پیڑ تلے تانگہ رکا اور اُسے چند
روپیے تھما کر وہ گھر کی جانب چل دیے۔
شام
کے اس پہر گاؤں کا حسن اپنے جوبن پر معلوم ہوتا تھا۔ ہر کوئی گھر سے باہر نکلا
اپنے کام میں مصروف ہے۔
بچے
کھیل کود رہے ہیں۔ عورتیں تندور جلانے کا انتظام کر رہی ہیں۔ مرد جانوروں کو ہانک
کر گھروں کی جانب لا رہے ہیں۔
اپنی
گلی میں پہنچ کر جب ماسٹر اللہ دتہ کے گھر کے پاس وہ پہنچے تو مومنہ رک کر اس مکان
کو دیکھنے لگی جہاں کبھی اُس نے بچپن گزارا تھا۔
جو
کچھ عرصہ پہلے تک اُس کے باپ کی آماجگاہ تھا۔
مگر
آج اس دروازے ہر کواڑ اُس کا منہ چڑھا رہا تھا۔
مومنہ نے پلٹ کر فواد کی جانب دیکھا تو اُس نے ہاتھ کے اشارے سے آگے چلنے
کو کہا۔
اپنے
گھر کے دروازے کے قریب پہنچ کر اُنھوں نےسےاندر سے آتی آواز کو کان لگا کر سننا
چاہا۔ جہاں امین بخش اور سلمیٰ کسی موضوع پر آپس میں جھگڑ رہے تھے۔
اُن
کا دل تھا کہ کچھ دیر اور یہاں رک کر ان کا تماشہ سنا جائے مگرماریہ کو اپنے امی
ابا سے ملنے کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔
کھٹیالی
کے چولہے پر کھانا بناتی سلمیٰ، مویشیوں کو چارہ ڈالتا ہوا امین بخش اور چارپائی
پر بیٹھ کر پڑھتی ہوئی شانزے دروازے سے چاروں کو اندر آتا دیکھ کر اس طرح چونکے
جیسے قبر سے کسی مردے کو نکلتا دیکھ لیا ہو۔
وہ
تینوں ان چاروں کے بغیر بتائے اچانک آنے پر حیران
بھی تھے اور پریشان بھی۔ مگر جس
چیز نے امین بخش کی توجہ کو پکڑا وہ فواد کے ہاتھ میں مٹھائی کے دو بڑے ٹوکرے تھے۔
"
پتر ! یہ اتنی مٹھائی کس
لیے" امین بخش نے پوچھا۔
"
ابا!۔۔ امی!۔۔ آپ کا پتر
اسسٹنٹ کمشنر لگ گیا ہے"
امین
بخش اور سلمیٰ دونوں کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ جس چیز کا اُنھوں نے کبھی خواب
بھی نہ دیکھا تھا وہ اچانک حقیقت کا روپ دھار رہی تھی۔
وہ
چھوٹے سے گاؤں کے اَن پڑھ واسی تو یہ بھی نہ جانتے تھے کہ مقابلے کا امتحان ہے کیا
شے اور فواد نے کس لیے اتنی محنت کی تھی۔
فواد
کے منہ سے اسسٹنٹ کمشنر بننے کا سن کر اُنھیں اپنی وہ دعائیں بھی قبول ہوتی ہوئی
نظر آئیں جو اُنھوں نے کبھی مانگی بھی نہ تھیں اور اگر مانگیں تھیں تو شاید مانگ کر بہت جلد بھول بھی گئے تھے۔
"
میں نے تو کبھی اسسٹنٹ کمشنر
کے سامنے بیٹھنے کا بھی نہیں سوچا اور اب میرا اپنا پتر اسسٹنٹ کمشنر بنے گا"
دسترخوان پر بیٹھے ہوئے امین بخش کہہ رہا
تھا۔
آج
شام سے اس وقت تک وہ دونوں میاں بیوی سر پکڑے بیٹھے تھے۔ خوشی کی انتہا اس قدر تھی
کہ اُنھیں سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا کریں۔
پہلے
تو فواد کو گھیرے میں لے کر بیٹھ گئے اور بار بار اصرار کرنے لگے کہ وہ سچ کہہ رہا
ہے یا مذاق میں بات ٹال رہا ہے۔ مگر جب فواد نے اُن دونوں کی قسم کھا کر بات کا
اقرار کیا تو وہ دونوں سجدے میں گر گئے۔
خوشی
اس قدر تھی کہ وہ سب کام دھندا بھول گئے۔ حتیٰ کہ چولہے پر پکنے کے لیے رکھا ہوا
سالن بھی جل گیا۔
پھر
رات میں سلمٰی نے انڈے بنا کر تین ماہ بعد آئے بیٹے ، بہو اور بیٹیوں کے سامنے
رکھا۔
"
ابا جی!۔۔۔ بس کل میں جا کر
سارے مویشی بیچ آؤں گا"
"
کیوں پتر!"
"
بس اب آپ نے مویشی رکھ کر کیا
کرنا ہے۔۔ ۔آخر آپ کا بیٹا اسسٹنٹ کمشنر بننے جا رہا ہے"
"
پتر!۔۔ تو چاہے ملک کا صدر بھی
بن جائے نا مگر تیری رگوں میں زمینداروں کا خون دوڑنا بند نہیں ہوگا" یہی وہ بات تھی جس پر امین بخش سر اُٹھا کر
حقیقی فخر کر سکتا تھا۔
اگلے
روز امین بخش نے فواد کی خوشی میں حلوہ پکا کر تمام گاؤں میں تقسیم کیا۔ گاؤں والے
فواد کے متعلق یہ جان کر اپنے حواس تک بر قرار نہ رکھ سکے۔
محلے
میں ڈھول بجائے گئے۔ فواد کو کندھوں پر اُٹھا لیا گیا۔ کوئی صدقے اُتار رہا ہے تو
کوئی پتاسے بانٹ رہا ہے۔
گاؤں
کے لڑکے کا اسسٹنٹ کمشنر بننا نہ صرف امین بخش کے لیے بلکہ پورے گاؤں اور علاقے کے
لیے خوشی اور فخر کی بات تھی۔
آس
پاس کے تمام علاقے میں یہ خبر دو اور دو چار کی طرح پھیل چکی تھی۔
بعض
لوگ تو اپنی سفارشات لیے امین بخش کے پاس حاضر بھی ہو چکے تھے مگر پھر جب فواد نے
بتایا کہ چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد اُس کے پاس کوئی اختیار آئے گا تو ہی وہ کچھ چین
سے بیٹھے۔
شام
کو ہی وہ شکیل کو ٹرک کا انتظام کرنے کو کہہ آیا تھا۔
صبح
ابھی وہ ناشتہ کر کے فارغ ہی ہوا تھا کہ شکیلے نے آ کر بتایا کہ قصبے سواریاں
اُتارنے جاتے ہوئے ہی اُس نے اپنے کسی دوست کو وقت پر ٹرک لانے کو کہہ دیا تھا۔
دس
بجے کے قریب گاؤں کی حدود میں ٹرک داخل ہوا تو اکثر گاؤں والے خلاف معمول بات کو
دیکھ کر ذرا حیران ہوئے۔
فواد
اور امین بخش نے محلے کے چند لوگوں کی معاونت سے مویشی ٹرک میں بھرے اور گھر میں
صرف ایک گائے اور چند بکریاں گھر کی ضرورت کے لیے چھوڑ دیں۔ حالانکہ فواد اس پر
بھی رضامند نہ تھا۔
امین
بخش اچھے مویشی کی قیمت سے واقف تھا۔ یہی
وجہ تھی کہ منڈی میں وہ اپنے مویشی اچھے داموں بیچ آیاا کرتا اور اس مرتبہ بھی
ایسا ہی ہوا۔
گھر
میں اب چونکہ کم مویشی رہ گئے تھے تو چھپڑ اور جانور باندھنے کی جگہ کی بھی کوئی
خاص ضرورت نہ تھی۔ دروازے کے بائیں جانب والی جگہ کو گائے اور بکریوں کے لیے چھوڑ
کر باقی تمام جگہ کو مکمل صاف کرنے کے بعد پختہ کر کے صحن کا حصہ بنا دیا گیا۔
وہ
پرانی بیل گاڑی جو امین بخش نے کسی وقت خریدی تھی۔ اب اُس ٹوٹی پھوٹی اور بیقار
گاڑی میں گائے کو چارہ ڈال دیا جاتا۔
گائے
کے تمام دودھ کو گھریلو استعمال کے لیے رکھا جاتا۔ گھر کا ہی دودھ، دہی، مکھن اور
دیسی گھی تیار کیا جاتا۔
بڑھاپے
میں چونکہ اب امین بخش کے لیے کوئی اور سرگرمی نہ تھی تو گائے اور بکریوں کو چرا
کر وہ اپنا جی بھلا لیا کرتا۔
فواد
اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا۔ جس چیز کے حصول کے لیے وہ برسوں سے مسلسل محنت
میں جتا تھا آج تقدیر نے وہ شے اُس کی قسمت میں لکھ دی۔
ایک
چھوٹے سے گاؤں کے عام سے کسان کے گھر وہ غریب اُٹھ کر آج اسسٹنٹ کمشنر بننے جا رہا
تھا۔
٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭
اس دنیا
میں انسان ایک مقصد لے کر پیدا ہوتا ہے، ایک مقصد لے کر جیتا ہے اور ایک مقصد لے
کر ہی مرتا ہے۔
ہر
انسان کا ایک ہدف ہوتا ہے جس کو وہ اپنی زندگی میں پورے کیے بغیر مرنا نہیں چاہتا
اور بیشتر اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
مگر
چند بد قسمت لوگ یا تو اپنے ہدف کے بہت قریب پہنچ کر ہار مان جاتے ہیں یا پھر موت
اُنھیں مقصد پورا کیا بغیر اس دنیاِ فانی سے لے کر رخصت ہو جاتی ہے۔
البتہ مناسب وقت میں اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی
کے لیے ہمت، حوصلہ، استقلال، اور صبر کی
ضرورت پیش آتی ہے۔
منزل
تک لے جانے والا راستہ لمبا، ویران، کٹھن اور دشوار گزار ہے۔
اس
راستے پر چلتے ہوئے انسان تھک جاتا ہے۔
اُس
کا حوصلہ جانے لگتا ہے۔
ہمت جواب دے جاتی ہے۔
راستے
کی دشواریوں سے بیزار انسان ایک روز اپنے مقصد سے ہٹنے کا ارادہ کرنے لگتا ہے۔
ایسے
میں وہ اگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے تو پھر قسمت بھی اُس کا ساتھ دینے کو
تیار ہو جاتی ہے۔
اُس
کا حوصلہ لوٹنے لگتا ہے۔
" بس تھوڑا اور" کا جملہ لب سے ادا کرتے ہوئے وہ منزل کی
جانب اپنے قدم بڑھانے لگتا ہے۔
پھر
ایک وقت آتا ہے کہ وہ منزل کے بہت قریب ہو کر بھی اُس سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایسے
وقت میں اُس کے حواس ہی اُس کے بہتر ساتھی ہوتے ہیں۔
پھر
ایک روز وہ وقت بلا آخر آ ہی جاتا ہے جس کے لیے اُس نے برسوں محنت کی ہوتی ہے۔
وہ
منزل جس کے لیے وہ ایک عرصہ سے سفر پر ہوتا ہے اب وہ اُس کے حصول میں کامیاب ہو
چکا ہوتا ہے۔
ایسا
شخض اپنے ہاتھ سے اپنی تقدیر خود لکھتا ہے۔
فواد
نے جس مقصد کے حصول کے لیے ایک عرصہ سے محنت کی تھی۔
جس منزل کے حصول کے لیے وہ
سالوں سے سفر میں تھا۔
آج
خدا کے کرم ، والدین کی دعاؤں اور اُس کی محنت سے وہ اُس منزل کو پانے میں کامیاب
ہو چکا تھا۔
آج اس اونچی پگڈنڈی پر براجمان ہو کر وہ اپنے اُس
طویل سفر کو دیکھ رہا تھا جس کے حصول کے لیے وہ ناجانے کتنے بل کھاتےدشوار گزار
راستوں سے ہو کر آیا تھا۔
زندگی
میں کتنے مقامات پر اُس کا صبر ٹوٹنے لگا تھا۔
بے
شمار ایستے واقعات اُس کی زندگی میں رہ نما ہوئے تھے جن کے سبب وہ اپنے ہدف سے روز
بروز دور ہٹتا جا رہا تھا۔
مگر
حوصلہ، ہمت اور صبر سے کام لیتے ہوئے وہ سب مشکلات طے کر گیا تھا۔
اُسے
آج بھی وہ دن بڑے اچھے سے یاد تھا کہ جب گھر میں اُس کے اسسٹنٹ کمشنر بننے کی خبر
معلوم ہوئی تھی۔
وہ
منظر آج بھی اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا جب اُس کے بوڑھےاَن پڑھ والدین کی آنکھوں
میں اپنے بیٹے کوو اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی میں بیٹھا دیکھ کر آنسو تھے۔
اُسے
اب بھی یاد تھا کہ کیسے اُس نے اپنے گاؤں اور علاقے کی خوشحالی اور ترقی کے لیے
حکومت سے مختلف بجٹ منظور کروائے تھے۔
اُسے
اب بھی یاد تھا کہ کیسے وہ شانزے کو بھی ماریہ سمیت گھر سے پڑھائی واسطے اپنے ساتھ
لے گیا تھا اور کیسےاُن کا داخلہ ایک ہی کالج میں ہوا تھا۔
گاؤں
اور اُس کی حدود پر نظر دوڑاتے ہوئے بیتے وقت کی تمام داستان اُس کے ذہن میں کسی
فلم کی طرح چلتی جا رہی تھی۔
وہ
چاہتا تو ایک عرصہ تک یہاں بیٹھ کر اس گاؤں سے باہر گزارہ وقت یاد کر سکتا تھا۔
ایک
عرصہ سے و ہ سکون کی تلاش میں رہا تھا۔
ایک
عرصہ سے وہ چین کی نیند سونا چاہتا تھا۔
ایک
عرصہ سے وہ آرام کرنا چاہتا تھا۔
آرام
اور سکون کی خاطر اُس نے گاؤں چھوڑا، گاؤں کا یہ گھر چھوڑا، گاؤں کے یہ رشتہ دار
چھوڑے اور شہر جا آباد ہوا۔
آچھا
سٹیٹس حاصل کیا، حکومت کی طرف سے بڑا گھر ملا، گاڑی ملی۔
مگر
سکون؟۔۔۔ آرام؟
تمام
عمر وہ کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری آرام کی تلاش کرتا رہا اور بلا آخر اُسے آرام ملا تو کہاں۔
وہ
جگہ جہاں اُس کی جائے پیدائش ہے۔
وہ
جگہ جہاں اُس کا بچپن گزرا۔
وہ
جگہ جہاں اُس نے اپنی زندگی کا سب سے اہم حصہ گزارا۔
وہ
جگہ جہاں اُس کے گزارے سبھی دن بہار کے
موسم کی مانند خوشگوار تھے۔
سر
کے بال سفید ہونے پر اُسے بلا آخر یہ بات بھی سمجھ آ گئی کہ جس آرام اور سکون کے
لیے وہ دنیا بھر میں مارا مارا پھرتا ہے۔
جس
آرام و سکون کی خاطر اُس نے اپنا آبائی گاؤں، آبائی محلہ، آبائی گھر چھوڑا۔
اُس کا آرام تو وہیں ہے۔
گویا
اُس کی جائے پیدائش، اُس کا آبائی گاؤں ہی تو اُس کی آخری آرام گاہ ہے۔
" ڈوبتا سورج اور فواد محمود"
یک لخت ایک نسوانی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی اور وہ اپنےخیالوں کی دنیا سے باہر نکل آیا۔
ختم شد
Comments
Post a Comment