قسط نمبر: 5
بہار
کے رنگین موسم میں آسمان پر اُڑتے ہلکے روئی کے گالے جو زمین پر بسنے والے انسانوں
کو مسکرانے، پرندوں کو چہچہانے اور باغوں میں کلیوں کے کھل کھلانے کا موجب بن رہے
تھے۔
وقت
بیت چکا تھا مگر گاؤں والوں کے اب بھی وہی معمول تھے۔ فجر کی نماز پر دن کا آغاز
کرتے۔ مسجد کی صفائی پر اب بھی وہی لوگ مقرر تھے۔امین بخش اور حافظ سیف اللہ کا
معمول تو سیدھا اور سادہ سا تھا۔
امین
بخش مسجد سے نکل کر جانوروں کو چارہ پانی ڈالتا اور پھر ناشتہ کر کے جانوروں کو لے
کر کھیتوں میں نکل جاتا اور سارا دن وہیں گزار دیتا۔
جبکہ
حافظ سیف اللہ اگر گرمیوں کے دن ہوتے تو صبح اور اگر سردیوں کا موسم ہوتا تو عصر
کے بعد گاؤں کے بچوں کو قرآنِ کریم کا سبق پڑھاتا۔
ماسٹر اللہ دتہ جو پہلے گھر جا کر ناشتہ کرنے کا عادی
تھا، اب گھر جا کر اپنے اور بیٹی مومنہ کے لیے ناشتہ بناتا۔
گاؤں
کے عین وسط میں ایک بڑا برگد کا درخت تھا۔ جہاں
گاؤں آنے جانے کے تمام راستے آپس میں ملتے تھے۔ یعنی اگر گاؤں کا کوئی بھی
شخض گاؤں سے باہر جائے یاباہر سے گاؤں آئے گا تو وہ اس چوک سے لازماََ گزرے گا۔
چاچا
شیدا فجر کی نماز سے فارغ ہوکر گھر جاتا اور وہاں سے چارپائی اور تازہ حقہ بھر کر
اس برگدکے پیڑ تلے لے آتا۔ چارپائی بچھا کر چاچا شیدا سارا دن اسی جگہ گزار دیتا۔
چاچا
شیدے کو صبح کا ناشتہ بھی یہیں بھجوا دیا جاتا۔ جس میں عموماََ مکئی کی روٹی پر
صبح کا تازہ تازہ نکلا مکھن رکھ کر لسی اور اچارکے ساتھ پیش کیا جاتا۔گاؤں کے
اکثریت بزگوں کی یہی خوراک تھی۔
گاؤں
کے دیگر بوڑھے بزرگ جن کا کئی کام دھندا نہ رہتا وہ بھی چاچا شیدے کی قیادت میں
آکر اسی برگد کے پیڑگھنی کی چھاؤں تلے چارپائی بچھا کر پڑے رہتے۔
اُن
کی تواضع کے لیے کنویں کا تازہ ٹھنڈا پانی اور حقہ ہر دم موجود رہتا۔ گویا'حقہ
پانی دستیاب ہے' کی ضرب المثل کا اطلاق ہوتا تھا۔
دن
بھر آنے جانے والوں پر نظریں گاڑھنے، گپیں ہانکنے اور حقہ پینے کے علاوہ یہ لوگ
گاؤں کے چھوٹے موٹے مسائل بھی حل کر دیا کرتے۔
جیسے گاؤں کی نکاسی آب کا انتظام، گاؤں کے لیے کسی
ضروری چیز کی فراہمی، کسی زمین کے تنازعہ کا حل، بارش کے موسم میں کن تدبیروں کا
اطلاق کرنا اور گاؤں کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا وغیرہ۔
ان
کی محفل شام گئے تک رہتی۔ عصر کی نماز کے بعد
ماسٹر اللہ دتہ آکر آخبار پڑھ کر سناتا جسے گاؤں کے بیشتر لوگ بڑے اشتیاق
سے سنتے۔ اُس کے بعد یہ محفل برخاست ہوتی۔
ماسٹر
اللہ دتہ ناشتہ کرنے کے بعد سکول کھولتا تو سب سے پہلے جو دو طالب علم ہوتے وہ ایک
تو اُس کی اپنی بیٹی مومنہ جو اُس کے ساتھ آتی اور دوسرا امین بخش کا بیٹافواد
محمود ہوتا۔ فواد اور مومنہ دونوں گہرے
دوست تھے اور ان کی دوستی کو بڑے بھی مانتے۔
سکول
کیا تھا، ایک کچا مکان جس کی کوئی چاردیواری نہ تھی۔ صحن میں ٹاٹ بچھا کر بچے بیٹھ
جاتے جبکہ ماسٹر اللہ دتہ خود ایک موڑھے پر براجمان ہو کر سبق پڑھاتے۔
کچھ بچوں کو گھر سے پیڑھی لانے کی جازت مل جاتی۔ ایسے
بچے پیڑھی پر بیٹھ کر خود کو دوسروں سے ممتاز محسوس کرتے۔
ٹاٹ
پر بیٹھنے والے باقی بچے ان کو رشک بھری
نگاہوں سے دیکھتے اور روز گھر جا کر پیڑھی لانے کی فرمائش بھی کرتے۔
سکول
میں بارہا دفعہ تختیاں لکھوئی جاتیں۔ جنھیں صاف کرنا بھی بچوں کے لیے کسی عذاب سے
کم نہ تھا۔
اس
چھوٹے سے پرائمری سکول میں بمشکل پچاس ساٹھ کے قریب بچے تھے۔ جماعت نام کی کوئی
چیز موجود نہ تھی۔
جو
بچہ بھی ماسٹر اللہ دتہ کے معیار پر پورا اُتر آتا وہ پرائمری پاس کر کے قریبی گاؤں
کے مڈل سکول چلا جاتا۔
جو
بچہ بھی مڈل پاس کر جاتا وہ گاؤں والوں کی نظر میں لائق ترین ہوتا۔ کوئی اکا دکا
مڈل پاس کر کے قصبے کے ہائی سکول پہنچ سکتے۔ مگر پھر وہاں سے فیل ہو کر فوج میں جا
بھرتی ہوتے۔
سکول
سے پہلی تفریح کے وقت تمام بچے قطار باندھے کنویں پر جاتے۔ جہاں کنویں کے پانی سے
تختیاں دھوتے اور پھر اُنھیں دھوپ میں خشک ہونا چھوڑ کر کھیل میں لگ جاتے۔
اُن
کے کھیل بھی بڑے دلچسپ ہوتے۔ جس بچے کی تختی کسی وجہ سے ٹھیک خشک نہ ہو پاتی اُس
کے لیے تمام بچے مل کر ایک گیت گاتے۔
" سوکھو سوکھو تختیو!
کالا
چور ماریا
ڈھبے
اُتے ساڑھیا
ڈھبے
اُتے کیڑے
گیارہ
گھوڑے پیڑے
اک
گھوڑا لوہے دا
پانی
پیے چوھے دا
چوھے
وچ جلماں
سارا
لوک پڑھے کلمہ
اسی
دوران ماسٹر اللہ دتہ تھوڑا وقت فارغ پا کر
گھر جاتا اور دن کے کھانے کا کچھ انتظام کرتا۔ بیوی کی وفات کے بعد ماسٹر
اللہ دتہ نے زائد عمر ہو جانے کے سبب دوسری شادی سے گریز کیا اور ہزاروں کٹھن
مشکلات کے ہونے کے باوجود بیٹی کو پالنے کا ذمہ اپنے اکلوتے سر لیا۔
سالن
خود پکاتا جبکہ روٹیوں کے لیے آٹا امین بخش کے گھر دے جاتا۔ جہاں تندور پرمحلے کی
ساری خواتین اپنا آٹا لا کر روٹیاں پکاتیں تو کوئی ماسٹر اللہ دتہ کی بھی لگا دیتا۔
جب ماسٹر اللہ دتہ سکول سے واپس لوٹتا تو روٹیاں لیتا
جاتا۔
جب
سورج اپنا سایا مکمل طور پر چھوڑ دیتا تو کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ دوسرے پہر
یعنی دن کا کھانا کھانے کے واسطے گھروں کا رُخ کرتے۔
جانوروں
کو اکثر کھیتوں میں ہی چھوڑ کر آنے کے عادی تھے۔ پیٹ میں کچھ جانے اور چارپائی پر
کچھ گھڑی آرام کرنے کے بعد جب گاؤں کے لوگ کھیتوں میں لوٹتے تو جانوروں کو اُسی
جگہ بیٹھا پاتے جہاں وہ چھوڑ کر آئے تھے۔
ایک
طرف گندم کی فصل تیار ہونے کو تھی تو دوسری طرف خربوزے کے کھیت بھی تیار تھے۔جانور
اکثر کسی فصل میں گھس کر اُ س کا تہس نہس کر دیتے۔مزید یہ کہ گزشتہ کچھ دنوں سے
جنگلی جانوروں کے حملے میں بھی شدت آ چکی تھی جن سے کئی جانور بدک کر اِدھر اُدھر
بھاگ جاتے جنھیں بعد میں ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا۔
لحاظہ
عشاءکی نماز کے بعد مسجد میں گاؤں کے لوگوں نے ان جنگلی جانوروں سے بچاؤ کی تدبیر
پر غور کرنا شروع کیا۔
کافی
غور و فکر کے بعد بلا آخر یہ طے کیا گیا کہ ایک فرد کو جانوروں اور کھیتوں کی
حفاظت کے لیے مقرر کر دیا جائے ۔
جو
گاؤں والوں کی غیر موجودگی میں اُن کے جانوروں کی نگرانی کرے۔
یہ
ذمہ داری امین بخش نے قبول کی۔ سب اُس کی دیانت داری، ایمانداری اور بہادری کے
قائل تھے۔ سب جانتے تھے کہ کسی جنگلی
جانور کے حملے کی صورت میں امین بخش سے بہتر کوئی شخض اُن کے کھیتوں اور جانوروں
کی حفاظت نہ کر سکے گا۔
چاچا
شیدے نے ایک شکاری کتا اسی مقصد کے لیے پال رکھا تھا جو اُس نے امین بخش کے حوالے
کیا۔
اب
دن کے وقت جب گاؤں کے تمام لوگ گھروں کا رخ کرتے ۔۔۔ امین بخش کھیتوں میں بیٹھ
کر اُن کے جانوروں کی نگرانی کرتا۔
گاوں
اونچی جگہ پر تھا جبکہ کھیت تھوڑی نچلی جگہ پر تھے۔ گاؤں کی چند مخصوص جگہوں سے
کھیتوں کا نظارہ بخوبی دکھ جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ امین بخش کو کھیتوں میں اکیلے
چھوڑا گیا تھا۔
امین
بخش تک کھیتوں میں روزانہ کھانا پہنچانے کی ذمہ داری فواد کی تھی۔ سکول سے آتے ہی
اُسے فوراََ کھیتوں کی جانب بھیج دیا جاتا۔
اونچے
ٹیلے پر پہنچ کر فواد کچھ پل رک کر امین بخش کو ڈھونڈتا اور پھر کھانا لے کر اُس جانب ہی چل پڑتا۔
آج
سکول سے آتے آتے فواد کو کچھ دیر ہو چکی تھی۔ گھر پہنچتے ہی سکینہ بی نے اُسے دو
تندور کی روٹیوں پر کچھ سالن اور اچار رکھ کر دیا۔ سلمیٰ اُمید سے تھی اس لیے کوئی
کام کرنے سے قاصر تھی۔
" فواد! جلدی کر یہ کھانا لے کر اپنے ابا کے پاس جا۔۔۔
آج کچھ دیری ہو گئی تیرا ابا بیچارا انتظار کر رہا ہوگا" سکینہ بی نے فکر
مندی سے کہا۔
" بے جی!سانس تو ٹھیک سے لینے
دیتی "
" سانس بعد میں نکلانا پہلے جا یہ کھانا دے آ۔۔۔اور ہاں امین کو کہنا کہ آج
لسی نہیں بنائی۔ تو کنوئیں سے پانی نکال لینا "
" اچھا بےجی!میں جاتا ہوں "
فواد نے منہ بناتے ہوئے کہا
گھر
سے نکلتے ہی اُسے ماسٹر اللہ دتہ مل گئے جو مومنہ کے ساتھ اسی طرف آ رہے تھے تاکہ
روٹیاں لیتے جائیں۔
" ہاں تو فواد!کھانا لے کر جا
رہا ہے "
" جی ماسٹر جی!"
" اچھا اپنے ابا کو کہنا کہ آج
شام کو چوہدری شفیق کو ملنے جانا ہے تو
تیار رہنا "
"ٹھیک ہے ماسٹر جی! میں بول دوں
گا "
ماسٹر
اللہ دتہ سے رخصت ہو کر فواد جلدی جلدی قدم اُٹھاتے ہوئے اونچے ٹیلے تک آیا۔ جہاں
وہ رک کر امین بخش کو ڈھونڈنے لگا۔ لیکن مقرر کردہ جگہ کے آس پاس امین بخش کا کوئی
نام و نشاں نہ تھا۔
کچی
سی عمر والے فواد کو آج زندگی میں پہلی مرتبہ چھٹی حس کا مطلب سمجھ آیا جب اُس کے
لاشعور نے کسی خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
کچھ
دیرتک فواد پریشانی میں اِدھر اُدھر نظریں گھماتا رہا۔ یک لخت ایک طرف سے اُسے چیخ
کی آواز سنائی دی۔
فواد بھاگتا ہوا ٹیلے کی اُس جانب لپکا تو دور جھاریوں
کے قریب اُسے امین بخش کلہاڑی کے ذریعے جنگلی جانوروں کے حملے سے بچنے کی کوشش
کرتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ بھورے رنگ کے جانور فواد
کے لیے نئے تھے۔
فواداُلٹے
پاؤں گاؤں کی جانب بھاگا۔ آبادی شرو ع ہوتے ہی اُس نے اونچی آواز میں "بچاؤ
بچاؤ" چلانا شروع کر دیا۔
برگد
کے پیڑتلے بیٹھے لوگوں نے فواد کو بھاگتے
آتا دیکھ کر خطرہ بھانپ لیا۔
" پتر تجھے ہوا کیا ہے ؟ کیوں
چلا رہا ہے " ایک بزرگ نے آگے ہو کر پوچھا۔
" باوا !وہ ابا ! باوا وہ ابا اُدھر کھیتوں میں " فواد
نے ہانپتے ہوئے کچھ بتانا چاہا۔
" پتر !آرام سے پہلے سانس لے پھر کچھ بول " دوسرا
بزرگ بھی آگے آ چکا تھا۔
" باوا وہ ابا پر اُدھر کھیتوں
میں کچھ جنگلی جانوروں نے حملہ کر دیا۔ ابا اُن سے لڑنے میں لگا ہے"
اِدھر
بوہڑ کے نیچے فواد کے گرد مجمع اکٹھا ہو ہی رہا تھا کہ فضلو لوہار بھاگتا ہوا آیا
اور دور سے ہی چلانا شروع کر دیا " چاچا شیدے ! کھیتوں میں امین بخش پرسورؤں
نے حملہ کر دیا ہے۔۔۔ جلدی پہنچو اُدھر"
یہ
سن کر آس پاس موجود تمام لوگوں کے اوسان ساختہ ہو گئے۔ پورے گاؤں میں ڈھندوڑا پیٹ
دیا گیا۔
آن
کی آن گاؤں کے بیشتر نوجوان کہاڑیوں، بھالوں، ڈنڈوں سمیت کھیتوں کی جانب دوڑ پڑے۔
شور
و غل کی آواز سن کر سکینہ بی دروازے سے باہر لپکی تو ماسٹر اللہ دتہ بھاگتے ہوئے
پایا۔
" ماسٹر جی یہ شور کیوں؟ تے تسی
کدھر جا رہے ہو ؟"
" ماسی وہ ! " کچھ سوچنے کے بعد دوبارہ بولا " کچھ نہیں
ماسی ! وہ گاؤں والوں نے گیڈر وں کا جھنڈ دیکھ لیا تھا تو اُس جانب کتے لے کر بھاگ
رہے ہیں "
ماسٹر
اللہ دتہ جانتا تھا کہ مائی سکینہ اپنے بیٹے کے بارے میں سن کر کھیتوں کی جانب ہی
بھاگیں گی اور گھر پر امین بخش کی بیوی سلمیٰ جو اُمید سے ہے وہ اکیلے رہ جائے گی۔
اسی
چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ماسٹر اللہ دتہ نے جھوٹ بولا اور فوراََ لوٹ گیا۔
گاؤں
والے اپنے ساتھ کتے بھی لے آئے تھے۔ اتنے سارے کتوں اور کلہاڑیاں ہاتھوں میں تھامے
بندوں کو اس طرف بھاگتا آتا دیکھ کر سور اپنے بچاؤ کی خاطر گھنے جنگل کی طرف بھاگ
کھڑے ہوئے۔
سورؤں کے ہٹتے ہی خون میں لت پت امین بخش لڑکھڑاتا ہوا
زمین پر گر پڑا۔ ادھر رحیم داد دور سے ہی امین بخش کو گرتا دیکھ کر فوراََ بولا
" فضلو !کچھ اور بندے اپنے ساتھ لے اور کتوں سمیت ان کا پیچھا کر۔ ۔۔میں امین
بخش کو دیکھتا ہوں "
فضلو
گاؤں کے دیگر نوجوانوں کو ساتھ لے کر کتوں کے پیچھے جنگل کی طرف دوڑا۔
دوسرے طرف گاؤں کے باقی ماندہ لوگ بھی ادھر پہنچ چکے
تھے۔
" رحیمے ! امین بخش ٹھیک تو ہے نا ! " ماسٹر اللہ
دتہ نے پھولتے سانس کے ساتھ کہا۔
" نہیں ماسٹر جی! امین بخش کی بائیں ران اور کمر پر گہرے زخم ہیں اور کافی خون بہہ رہا ہے"
رحیم
داد نے سر پر رکھی پگڑی کھولی اور اُس کے دو ٹکڑے کر کے ران پر کس کر باندھ دیے۔
" ماسٹر جی! کپڑے کا انتظام کرو
جس سے امین بخش کا زخم باندھا جا سکے"
ماسٹر
اللہ دتہ نے فوراََ کندھے سے صافہ اُتار اور ایک پل میں ہی چیڑ کر دو حصے کر ڈالے۔
رحیم داد اور ماسٹر اللہ دتہ نے مل کر امین بخش کے تمام زخم کپڑے سے کس کر باندھ
دیے لیکن خون ابھی بھی بہہ رہا تھا۔
" رحیمے !میں امین بخش کو
اُٹھاتا ہوں تو فوراََ گاؤں سے بیل گاڑی منگوا۔۔۔ اسے ڈسپسنسری پہنچانا ہوگا "
ماسٹر
اللہ دتہ کی بات سن کر رحیم داد کا بڑا لڑکا گاؤں کی طرف بھاگا۔
ادھر
چاچا شیدا بھی گاؤں کے بزرگوں کے ساتھ پہنچ چکا تھا۔ امین بخش کو سہارے کی مدد سے
کھیتوں سے باہر لایا گیا۔
امین
بخش نے کلہاڑی کے وار سے ایک سور مار گرایا تھا۔ جبکہ ایک کی ٹانگ زخمی ہو چکی
تھی۔ چاچا شیدے کا کتا سورؤں سے لڑتا لڑتا
ہلاک ہو چکا تھا اور اُسی کے سبب امین بخش
کی جان بھی بچ گئی تھی۔
گاؤں
سے فوراََ بیل گاڑی آ گئی امین بخش کو بیل گاڑی میں لٹایا گیا ۔ ماسٹر اللہ دتہ
اور رحیم دادساتھ ہو لیے۔
چاچا
شیدا گاؤں کے دوسرے معزز لوگوں کے ساتھ تانگے پر اُن کے پیچھے چل دیا۔ تمام راستے
فواد محمود بھی چاچا شیدے کے ہمراہ رہا۔
" ڈاکٹرصاحب کوئی زیادہ سنجیدہ
مسئلہ تو نہیں ؟" ماسٹر اللہ دتہ نے جھٹ سے ڈاکٹر سے پوچھا جو ابھی ابھی امین
بخش کے زخموں کی مرہم پٹی کر کے باہر نکلا تھا۔
" اللہ کا شکر ہے زیادہ گہرے زخم
نہیں ہوئے۔ لیکن پھر بھی میں نے انجکشن لگا دیا ہے تاکہ اگر کوئی جراثیم اند چلا
بھی گیا ہو تو دوائی کے اثر سے مر جائے"
" باقی سب تو خیریت ہے نا؟ "
" کچھ دوائیں لکھ دیتا ہوں
میڈیکل سٹور سے لے لینا اور ہر دو دن بعد
مرہم پٹی بدلنے کے لیے یہاں لے کر آنا"
ادھر
ڈاکٹر سے گفتگو ہو رہی تھی اُدھر چاچا شیدا بھی گاؤں کے باقی کچھ لوگوں کے ساتھ
پہنچ گیا۔
" ماسٹر جی! یہ ڈاکٹر بابو کیا
کہہ رہا تھا؟ امینہ ٹھیک تو ہے نا؟ کوئی مسئلہ پریشانی تو نہیں؟" چاچا شیدا
ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔
" چاچا جی !تسی گھبراؤ نہ۔ اپنا
امینہ بلکل ٹھیک ہے۔ ۔۔کچھ دنوں تک چلنے پھرنے کے قابل بھی ہو جائے گا" ماسٹر
اللہ دتہ نے تسلی دی۔
مغرب
ہونے سے پہلے امین بخش کو بیل گاڑی کے ذریعے گاؤں واپس لے آیا گیا۔ چاچا شیدا،
ماسٹر اللہ دتہ اور فوادبھی بیل گاڑی میں امین بخش کے ہمراہ تھا۔
گاؤں
کے غریب ماحول میں اندھیرا چھا چکا تھا۔ ہر گھر میں مٹی کا دیااور لالٹین جل چکی
تھیں۔ پریشان چہرے کسی کی آمد کے منتظر تھے۔
خاموش
ماحول میں بیل گاڑی کا پہیہ چلنے کی آواز
گونج رہی تھی۔
بیل
گاڑی دروازے کے بلکل کے سامنے رکی جس کے رکنے کی آواز سن کر سکینہ بی باہر صحن میں
نکل۔ تب تک چاچا شیدا دروازے کے پٹ کھول
چکا تھا اورامین بخش بھی ماسٹر اللہ دتہ کے سہارے سے دہلیز عبور کر رہا تھا۔
" پتر! تو ٹھیک تو ہے نا! زیادہ
چوٹیں تو نہیں آئیں؟ " سکینہ بی نے
امین بخش کو سفید پٹیوں میں لپٹے ہوئے دیکھ کر بے چینی سے پوچھا۔
" نہ بے! شکر ہے اللہ پاک کا جو
جان بچ گئی" ابھی امین بخش اپنا جملہ مکمل ہی نہ کر پایا تھا کہ مرکزی کمرے
کے اندر سے بچے کے رونے کی آواز آئی
امین
بخش نے مسکراہٹ کے ساتھ سکینہ بی کی جانب دیکھا جس کہ منہ سے "رحمت" کے
سوائے اور کوئی لفظ نہ نکلا۔
فواد اپنی بہن کو دیکھنے کے واسطے اند ردوڑا جبکہ
امین بخش بھی ماسٹر اللہ دتہ کے سہارے کے ذریعے
کمرے میں داخل ہو گیا۔
آج
کا دن اُس کے لیے کچھ زیادہ برا بھی نہ تھا۔ جہاں ایک طرف اُس کا جسم گہرے گھاؤ سے
دُکھ رہا تھا وہیں پر خدا نے اُسے بیٹی جیسی رحمت سے نواز کر دلی سکون مہیا فرما
دیا تھا۔
" لالہ!میں نے بیٹی کی پیدائش پر
تجھ سے زیادہ آج تک کسی کو خوش نہیں دیکھا" امین بخش کے چھوٹے بھائی نے اگلی
صبح اُس کی تیمارداری کرنے کے بعد پوچھا۔
" دیکھ فضلو! چاہے بیٹا ہو یا
بیٹی دونوں ہیں تو اللہ کے دیے ہوئے۔ تو پھر خوشی چاہے بیٹے کی پیدائش پر مناؤ یا
بیٹی کی پیدائش پر"
" پر لالہ ! بیٹی تو پرائے گھر
کی ہوتی ہے" فضل الہیٰ کی بات مکمل ہونے سے پہلے امین بخش نے اُسے ہاتھ کے
اشارے سے روک دیا۔
" نہ بیٹا پرایا ہوتا ہے اورنہ
بیٹی۔دونوں ہی میرا خون ہیں اور دونوں ہی مجھے عزیز ہیں" امین بخش نے دوٹوک
الفاط میں اپنا نکتہ بیان کر دیا ۔
گاؤں
والوں کا رواج تھا کہ بیٹے کی پیدائش پر خوشیاںمناتے پھرتے۔ پورے گاؤں میں پتاسے
بانٹے جاتے۔مٹھایاں اور جلیبیاں کھلائی
جاتیں ۔ مبارکباد یں وصول کی جاتیں ۔
جبکہ
بیٹی کی پیدائش پر گویا سوگوار کا ماحول ہو جاتا۔ بیٹی پیدا کرنے والی عورت کو لعن
طعن کیا جاتا۔ مرد غرور و غصہ میں اپنی ہی بیٹی کا منہ نہ تکتے۔ گھر والوں سے
روٹھے، گاؤں والوں سے منہ چھپاتے پھرتے۔ نہ کوئی مبارکباد دینے آتا اور نہ ہی خوشی
منانے کا کوئی رواج تھا۔
مگر
پھر امین بخش نے بیٹی کی پیدائش پر خوشی منا کر گاؤں کے اُن سلیقہ شعار اور اَن
پڑھ واسیوں کو یہ بتا دیا کہ جہاں بیٹا خدا کی نعمت ہے وہیں پر بیٹی خدا کی رحمت
ہے۔
امین
بخش کی اسی خوشی کو محسوس کرتے ہوئے فضل الہیٰ نے امین بخش سے سوال کیا جو بعد میں
اُسے نامناسب لگا۔
اس
ننھی منی گڑیا کا نام امین بخش نے بڑے سوچ و بچار کے بعد ماریہ رکھا۔ ماریہ بتول
Comments
Post a Comment