قسط نمبر: 7
نئے دن کا سورج خوشی کی پر اُمید کرن کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ نئے حسن کا نظارہ کرتی ہے، بولنے والی زبان نئے دن کو آداب بجالاتی ہے اور سننے والے کان کی سماعت میں جواباََ سلام کی صدا پڑتی ہے۔
"
فواد! فواد ! پتر اب اُٹھ بھی
جا۔ نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے" سلمیٰ بستر کنارے کھڑے فواد کو جگانے میں مصروف تھی جو لحاف میں دبکا پڑا
تھا۔
"
امی! بس تھوڑی دیر اور"
فواد بستر میں سے ہی منمنایا
"
نہ پتر! ۔۔۔ بہت وقت ہو گیا۔۔۔
اب اُٹھ جا شاباش!" سلمیٰ بھی اب باقاعدہ ضد پر تھی۔
"
اچھا امی!" نہ چاہتے ہوئے بھی فواد کو بستر سے نکلنا پڑا۔
"
گرم پانی میں نے حضرے میں رکھ
دیا ہے۔ ۔۔وضو کر لینا" سلمیٰ نے کمرے سے نکلتے ہوئے ایک آخری ہدایت کی۔
"
آدھ کھلی آنکھوں کے ساتھ فواد
نے وضو کیا اور مسجد کی راہ لی۔ جہاں نماز کے لیے صف بندی ہو چکی تھی۔
"
قسمے سلمیٰ! مینوں فواد کی ویکھ کے بڑا مندہ لگدا ہے" سکینہ بی نے
سلمیٰ کو نماز سے فارغ ہوتا دیکھ کر بولا۔ ( قسم سے سلمی! مجھے فواد کو دیکھ کر
بڑا افسوس ہوتا ہے)
"
کیوں بے جی؟" سلمیٰ نے جاہِ نماز کو طے کر کے صندوق پر رکھتے
ہوئے کہا۔
"
بیچارا رات گئے تک لالٹین کی
روشنی میں پڑھتا ہے اور صبح پھر جلدی اُٹھ جاتا" سکینہ بی نے افسوس کا اظہار
کیا۔
"
بے جی! آج کچھ قربان کر لے
تاکہ کل کچھ آرام کر لے"
"
کینڈی تے توں ٹھیک ہیں مگر
مینوں مندہ بڑا لگد ہے معصوم بچے دا۔۔۔ پتا ہے ہنڑ وی کڑیاں دی منجی نال ٹکڑ مار
لی اُس۔۔۔ ایڈی نیندر آئی سی اُس بیچارے نوں"
(
کہتی تو تم ٹھیک ہو مگر مجھے
معصوم بچے پر بڑا افسوس ہوتا ہے۔۔۔ جانتی ہو نیند میں لڑکیوں کی چارپائی سے جا ٹکڑ
ماری تھی اُس نے۔۔۔ اتنی نیند آئی تھی بیچارے کو)
"
کوئی نہیں بے جی! ہک واری
امتحان ہو گئے فر رج کے سے لئے گا" سلمیٰ سکینہ بی سے کہتی ہوئی باورچی خانے
میں چلی گئ۔
(
کوئی نہیں بے جی! ایک بار
امتحان دے لے پھر جی بھر کے سو لے گا)
سلمیٰ
کا چولہا جلاتے ہی دروزہ کھلنے کی آواز سنائی دی جس پر اُس نے سر اُٹھا کر کھڑکی
سے دیکھا تو فواد کا چہرہ نظر آیا جو نماز
کے بعد مسجد سے لوٹا تھا۔
"
فواد ! پتر تیری وردی اندرے کمرے میں رکھی ہے۔ منہ
ہاتھ دھو کر پہن لینا"
"
اچھا امی!" فواد معقول سا بولا۔
"
آگیا تو پتر!" سکینہ بی
نے فواد کو کمرے میں اندر آتا دیکھ کر کہا۔
"
جی بے!"
"
ابا کتھے ہے تیرا؟"
"
ابا اور چاچا شیدا مسجد میں
صفائی کر رہے ہیں" فواد نے کتابیں
بستے میں ڈالنے لگا۔
"کیوں پتر ! ماسٹر اللہ دتہ آج
کل صفائی نہیں کرتا مسجد کی؟"
"
نہ بے جی! مومنہ گھر پر اکیلی ہوتی ہے اور اُسے سکول بھی تو چھوڑنے
جانا ہوتا ہے۔ اس لیے ماسٹر جی جلدی واپس آ جاتے ہیں مسجد سے" فواد نے کتابیں بستے میں ڈال کر ایک نظر اپنی سوتی ہوئی بہنوں پر ڈالا اور ساتھ
والے کمرے میں چلا گیا۔
ایک
مرتبہ پھر دروازہ کھلنے کی آواز پر سلمیٰ نے کھڑکی سے جھانکا تو اس مرتبہ امین بخش
مسجد سے لوٹا تھا۔
"
فواد کے ابا! ناشتہ تیار ہے۔ تسی وی آ جاؤ"
"
میں پہلے امان نوں ویکھ
لیواں" ( میں پہلے اماں کو دیکھ لوں)
"
امی! ناشتہ تیار ہے نا؟"
فواد نے بورچی خانے میں آتے ہی پوچھا
"
ہاں تیار ہے۔۔۔ بس چائے ڈال
لوں۔۔۔ تو بیٹھ"
"
پتر! تیرے امتحان کب
ہیں؟" امین بخش نے چولہے کے قریب پیڑھی رکھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"
ابا! اگلے ہفتے سے شروع ہیں"
"
ٹھیک ٹھیک پڑھ اور نام روشن کر
میرا"
"
انشاءاللہ ابا! "
ناشتہ
کر لینے کے بعد فواد نے بستہ اُٹھایا اور
سکول کے لیے نکل پڑا۔ سکول پہنچنے کے لیے آدھہ گھنٹے پیدل کا سفر طے کرنا پڑتا
تھا۔ اسی لیے وہ ہمیشہ پون گھنٹہ قبل گھر سے نکلنے کا عادی تھا۔
فواد کے گھر سے نکلتے وقت اُس کی نظر ماسٹر اللہ دتہ
پر پڑی جو مومنہ کو ساتھ لیے اُسے سکول
چھوڑنے کے لیے نکل رہے تھے۔
لڑکوں
اور لڑکیوں کے مڈل سکول دو مختلف گاؤں میں تھے۔ جو عین مخالف سمت میں واقع تھے۔
فواد اور مومنہ
کی اگرچہ منزل ایک تھی مگر راستہ دونوں کا جدا جدا تھا۔ اب یہ تقدیر پر
مبنی تھا کہ وہ کس کے حق میں مثبت ثابت ہوتی ہے۔
چونکہ
اگلے ہفتے سے امتحان اگلے ہفتے سے شروع تھے اسی سبب سکول میں پڑھایا نہ جاتا تھا۔
البتہ پہلے دورانیے میں حاضری لگانے کے بعد امتحان کے طریقہِ کار بیان کیا جاتا۔
جس
کے بعد تمام بچے کتابیں بغلوں میں دبا کر کھیل کے میدان میں بکھر کر بیٹھ جاتے اور
بقیہ تمام دن گزشتہ اسباق کو رٹنے میں گزار دیتے۔
"
ماسٹر جی! اے کی گل ہوئی۔
پچھلے سال سے بجلی کے کھمبے ہمارے گاؤں کی حدودمیں لگ چکے ہیں مگر ابھی تک بجلی
گاؤں میں نہیں آئی" رحیم داد قصائی نے برگد کے پیڑ تلے بیٹھے ہوئے ماسٹر اللہ
دتہ سے پوچھا جو بجلی آنے کے متعلق گفتگو کر رہےتھے۔
"
پرسوں میں اور فضل الہیٰ شہر
میں بجلی کے آفس جا کر گاؤں والوں کی درخواستیں جمع کروا آئے تھے"
"
تے کی بنے گا فر؟" چاچا
شیدے نے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی پوچھا۔ ( تو کیا بنے گا پھر)
"
وہ تو کہہ رہے تھے کہ آج کل
میں میٹر کا کنکشن لگا جائیں گے۔۔۔ اب آگے دیکھو پھر"
برگد
تلے بیٹھے گاؤں کے مرد ماسٹر اللہ دتہ کی بات سے کسی حد تک مطمئن ہوگئے۔ زمانے میں جدت کے ساتھ ساتھ گاؤں
والوں نے بھی خود کو نئے سانچے میں ڈھال لیا تھا۔
اب
ماسٹر اللہ دتہ سے اخبار سننے کا رواج ختم ہو چکا تھا۔ ماسٹر اللہ دتہ کے وسیلے سے
اب گاؤں کا ہر دوسرا مرد پڑھنا جانتا تھا۔
گاؤں
والوں کا اب اہم ترین مشغلہ ریڈیو سننا رہ گیا تھا۔ تمام بوڑھے مرد جن کا کوئی کام
نہ رہتا ، وہ اسی برگد کے درخت تلے بیٹھ کر ریڈیو سنتے۔
ویلایتی
گانے سننے کا رواج گاؤں میں پہلے ہر گز نہ تھا۔ اس خالی جگہ کو ریڈیو نے ہی آ کر
پر کیا۔ ٹپے اور لوک داستانیں سننے کا رواج بھی رفتہ رفتہ معدوم ہوتا گیا۔
ریڈیو
کا نشہ گاؤں والوں پر ایسا چڑھ چکا تھا کہ کبھی کبھار اہم کام چھوڑ کر بھی وہ
ریڈیو کے سامنے کوئی پروگرام سننے بیٹھ جاتے۔
"السلام علیکم !"
فواد نے دروازہ کھول کر اندر آتے ہوئے صحن
میں بیٹھی سکینہ بی کو کہا۔
"
وعلیکم سلام! آگیا میرا
پتر!" سکینہ بی نے فواد کو کہا جس کے
چہرے پر تھکاوٹ کے اثرات واضع نمایاں تھے۔
"
شانزے! شانزے! یہ میرا بستہ تو
اندر رکھ دے" فواد نے صحن میں رکھی
چارپائی پر ہی پاؤں پھیلائے۔
"فواد ! تو ہاتھ پاؤں دھو میں
کھانا لاتی ہوں" سلمیٰ مرکزی کمرے سےنکلی اور فواد کو ہدایت کر کے باورچی خانے میں چلی گئی۔
"
بھیا! میری چیج" شانزے جو
پہلے ہی فواد کو بستہ خالی پا کر اداس تھی
اپنی توتلی زبان میں بولی۔
"
یہ لو میری گڑیا!"
فواد نے جیب سے کھانے پینے کی کچھ چیزیں
نکالی جنھیں دیکھ کرمعصوم سی کلی کا مرجھایا ہوا چہرہ اچانک سے کھل اُٹھا۔
"
اور بھیا میری؟" ماریہ نے کمرے سے نکلتے ہوئے شانزے
کے ہاتھ میں چیزیں دیکھ کر پوچھا۔
"
وہ تو میں بھول گیا"
فواد نے شرارتاََ کہا۔
ماریہ
روہانسی ہو کر اندر کو بھاگی مگر اس سے پہلے ہی فواد کی آواز نے اُس کے قدم جما دیے۔
"
ارے یہ لو تمہاری بھی"
فواد نے اُس کی طرف کچھ پیکٹ اچھالے۔
"
فواد ! تو خود کے لیے کبھی کوئی شے کیوں نہیں لیتا۔
اپنے لیے بھی لیا کر نا!"
"
امی! گاؤں میں تو کوئی اچھی
دکان ہے نہیں۔ ۔۔ اس لیے میرا دل ہوتا ہے کہ سکول سے ہی بہنوں کے لیے کچھ کھانے
پینے کی چیزیں لے کر بستہ بھر لوں"
"
بھیا! آپ بھی کھاؤ نا؟"
شانزے نے پیکٹ فواد کے منہ کر قریب کرتے
ہوئے کہا۔
"
نہ میری گڑیا! میں کھانا کھا
لوں پہلے" فواد نے پیار سے چہرہ
تھپتھپایا۔
سلمیٰ
کھانا لے کر آئی اور فواد دھوپ میں رکھی
ہی چارپائی پر ہی بیٹھ کر کھانے لگا۔ اُس کے کھانا ختم کرتے کرتے چائے کا وقت بھی
ہو چکا تھا۔
کچھ
دیر چارپائی پر سستانے کے بعد عصر کی اذان سن کر فواد نے وضو کیا اور کتابوں سمیت مسجد کر رخ کیا۔
نماز
کے بعد اُ سکا معمول تھا کہ کچھ دیر امتحان کی تیاری کرتا۔ مسجد کر خاموش ماحول اس
سلسلے میں اُس کے لیے بڑا معاون ثابت ہوتا تھا۔
پہلے
پہل کچھ لوگوں نے اُس کی اس حرکت پر اعتراض کرتے
مگر پھر حافظ سیف اللہ کی خصوصی اجازت نے اُنھیں خاموش رہنے پر مجبور کر دیا۔
عصر
کی نماز کے بعد وہ اپنی کتابیں سنبھال کر مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتا۔ اُس کے ہم
عمر ساتھی خصوصاََ اُس کا لنگوٹیا یار شکیل اُسے بارہا دفعہ کھیلنے کے لیے باہر
بلاتے مگر وہ سختی سے انکاری رہتا۔
تقریباََ
پون گھنٹہ پڑھنے کے بعد اُسے بکریوں کو لینے کے لیے کھیتوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔
اس لیے وہ بجائے گھر جانے کے ، کتابیں مسجد میں ہی چھوڑتا اور کھیتوں کی جانب نکل
پڑتا۔
جیسے
ہی اُس نے مسجد سے باہر قدم نکالا۔ ذرا فاصلے پر اُسے لوگوں کی بھیڑ نے اپنی طرف
متوجہ کیا جس کے عین درمیان میں پیلی جیکٹوں میں ملبوس لوگ بجلی کی تاروں کو الٹ
پلٹ کر رہے تھے۔
چند
ایک سر پر پیلا ہیلمٹ رکھے اور ہاتھوں میں
پیلے دستانے چڑھائے کھمبوں پر چڑھ رہے تھے۔
گاؤں
میں بجلی لگ رہی تھی اور گاؤں والے اس سرگرمی کو بڑے شوق سے دیکھ کر محظوظ ہو رہے
تھے۔
ایک
پل کے لیے اُس کا جی بھی چاہا کہ چند دیر یہیں پر رک کر یہ منظر دیکھتا رہوں۔
مگرکچھ کام ایسے بھی تھے جن کو نپٹائے بغیر گزارا ممکن نہیں تھا۔
"
فواد یارا! ادھر آ کر دیکھ۔۔۔
گاؤں میں بجلی لگتا دیکھ" شکیلے نے فواد کو آواز دی جو مسجد سے کتابیں لیے
نکلا تھا۔
"دل تو میرا بھی ہے مگر کھیتوں
سے بکریاں لینے جانا ہے"
"
اچھا یہ بھی ضروری ہے۔۔۔ چل تو
جلدی جا اور بکریاں گھر پہنچا کر واپس ادھر ہی آ جانا"
فواد تیز تیز قدموں کے ساتھ کھیتوں کی طرف نکل پڑا۔
مگر اُسے جاتے جاتے ہی کافی وقت بیت چکا تھا۔
چراہ
گاہ سے بکریوں کو ہانک کر گھر کی طرف لانا بھی ایک مشکل کام تھا۔کوئی بکری اس درخت
کے پتے کھانے کو بھاگ رہی ہے تو کوئی راہ کنارے اُگی فصل میں گھسے جا رہی ہے۔
بکریوں
کو منظم کر کے گھر لانا اُس کے لیے بے حد مشکل ہو رہا تھا۔ شام ڈھل رہی تھی اور
اگلے چند لمحوں میں مغرب کی اذان ہونے والی تھی۔
"
کاش کہ اس وقت میں بھی شکیلے
کے ساتھ کھڑا ہوتا" یہ خیال اُسے بار بار آیا۔
ہلکہ
ہلکہ اندھیرا چھا چکا تھا اور وہ بکریاں
لیے گاؤں کی حدود کے قریب پہنچ چکا تھا۔
گاؤں
کی آبادی زیادہ دور تو نہ تھی مگر ابھی بھی اُسے کچھ فاصلہ طے کرنا لازمی تھا۔ اس
جگہ سے گاؤں کے تمام گھر باآسانی نظر آتے تھے۔
مغرب
کی آواز کی گونج جیسے ہی اُس کے کانوں میں پڑی ساتھ ہی بجلی کے سبب گھروں میں لگے
بلب روشن ہو گئے اور پورا گاؤں دمق اُٹھا۔
اُفق
پر سورج کی ہلکی ہلکی سرخی، مغرب کی اذان کی خوبصورت آواز اور بتیوں کے جلنے سے
گاؤں کا وہ خوبصورت نظارہ بے شک ایک روح پرور منظر تھا۔
جہاں
ایک طرف اُسے وقت پر گھر نہ پہنچنے کا رنج تھا وہیں دل میں یہ خوشی بھی کہ وہ اُن
چند لوگوں میں سے تھا جنھوں نے گاؤں رونق
ہونے کا یہ نظارہ اپنی جیتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
Comments
Post a Comment