قسط نمبر: 8
"میں سونا چاہتا ہوں۔۔۔ ایک ایسی لمبی گہری نیند جس میں اطمینان و سکون کے سوائے کچھ نہ ہو۔۔۔ جس کے سوتے ہوئے مجھے اگلی صبح بیدار ہونے کی فکر نہ ہو۔۔ ۔ایک ایسی نیند جس کے اختتام پر مجھے پھر سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کا احساس نہ ہو۔۔۔کوئی ایسی درخت کی گھنی چھاؤں ہو۔۔ ۔کوئی ایسا ندی کا کنارہ ہو۔ جہاں میں چت لیٹ کر آنکھیں بند کروں اورسپنوں کی گہری ، خوبصورت اور شاداب وادی میں ڈوبتا چلا جاؤں۔درخت کی گھنی چھاؤں اطمینان بخش ہو اور بیتتے وقت کی طرح چلتی ہوا ٹھنڈی اور پر سکون ہو جو میری روح کو متعیر کر دے۔"
اخبار
کے ٹکڑے پر لکھا یہ پیرا گویا اُس کی زندگی کا خلاصہ تھا۔ شام سے ہی وہ بارہا دفعہ
یہ جملہ پڑھ چکا تھا۔
سکول
میں ایک ماسٹر نے اسے ایک دن یہ ہدایت کی تھی کہ زمین پر پڑا کوئی بھی کاغذ کا
ٹکڑا تمہارے لیے بہت بیش قیمتی ثابت ہو سکتا ہے۔
آج
یہ معمولی سا اخبار کا ٹکرا اُس کے لیے کتنا کارگار ثابت ہو سکتا تھا ، زمین سے
اُٹھاتے وقت اسے احساس نہ تھا۔
اُس
نے الماری سے گوند اُٹھائی اور یہ اخبار کا ٹکڑا اپنی ڈائری کے ایک ورق پر چسپاں
کر دیا۔
"
فواد ! فواد ! پتر باہر آ !
شکیلا آیا ہے" سلمیٰ نے فواد کو آواز
دی
"
ہاں شکیلے! خیریت ہے نا!"
فواد نے صحن میں کھڑے شکیلے سے پوچھا
"
آج سلطان راہی کی فلم لگی ہے ۔
آ دیکھنے چلیں"
فواد نے اجازت لینے کے انداز میں اپنی ماں سلمیٰ کی طرف دیکھا
"
تیرے امتحان تو ختم ہو گئے نا!
اب بے شک چلا جا"
"
اور ابا!"
"
تیرے ابا کو میں سمجھا دوں
گی" سلمیٰ نے پریشانی رفع کرتے ہوئے کہا
بجلی
آنے سے گاؤں والوں کی زندگی بہت حد تک بدل گئی تھی۔ بجلی سے چلنے والی اشیاء بھی
گھروں کی زینت بننا شروع ہو گئی تھیں۔
بجلی
کا پنکھا اور بلب وغیرہ تو اب ہر گھر میں عام تھےمگر چند ایسے گھرانے جہاں ماہانہ
معقول آمدن کا بندوبست تھا وہاں ٹی وی اور فریج بھی آ گئی۔
فضل
الہیٰ کا نام اس سلسلے میں غازی پورہ کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
جب
گاؤں میں یہ بات پھیلی کہ امین بخش کے بھائی فضل الہیٰ نے شہر سے کوئی ایسا ڈبہ
خرید کر لایا ہے جس میں چلتے پھرتے لوگ نظر آتے ہیں تو اکثر اپنے حواس پر یقین نہ
کر سکے۔ کچھ دن تک تو فضل الہیٰ کے گھر لوگوں کا تانتا بندھا رہا۔
فضل
الہیٰ کی بیوی اس معاملے میں بڑا نخرہ دکھاتی ۔ گھمنڈ انسان کی گردن میں اکڑ ڈال
دیتا ہے۔ مگر جب اس میں خم آتا ہے تو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
جمعرات
کو آدھی اور جمعہ کو پوری چھٹی ملک بھر میں ہوتی۔ اسی وجہ سےہر جمعرات کی رات کو
پی ٹی وی پر فلم چلائی جاتی۔ اس روز فضل الہیٰ شام کو ہی ٹی وی اُٹھا کر صحن میں
رکھ دیتا۔
گاؤں
کے چھوٹے بڑے لڑکے، لڑکیاں، بوڑھے، جوان مرد سبھی صحن میں بیٹھ کر ٹی وی پر فلم
دیکھتے۔ مختلف کرداروں پر تبصرہ کیا جاتا۔ ہنسی خوشی کی محفل کا سماں ہے۔
فضل
الہیٰ کی دیکھا دیکھی گاؤں کے چند دوسرے لوگوں نے بھی ٹی وی خرید لی۔ اب ہر محلے
کے میں ایک ایک ٹی وی آن موجود ہوئی تھی۔ اب جمعرات کی بجائے لوگ روزانہ ٹی وی
دیکھنے جاتے۔
ایک
اور حیران کن چیز جو فضل الہیٰ نے گاؤں میں متعارف کروائی وہ فریج تھی۔
گاؤں
میں یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ فضل الہیٰ کے گھر ایک ایسی الماری ہے جس میں کوئی
بھی کھانے کی شے رکھو تو وہ ٹھنڈی رہتی ہے۔
چند
دن تک گاؤں والے فریج کو الماری ہی پکارتے رہے مگر پھر فضل الہیٰ کی اصلاح پر لوگ
ٹوٹی پھوٹی زبان میں فریج کہنے لگے۔
ادھر
فضل الہیٰ شہر سے بجلی پر چلنے والی چیزیں خرید کر گھر میں انبار لگا رہا تھا جبکہ
دوسری جانب امین بخش حیران تھا کہ معمولی سی تنخواہ میں اُس کا بھائی ایسی قیمتی
چیزیں کیسے خرید سکتا ہے۔ یہی سوچ گاؤں کے دوسرے افراد کے ذہنوں پر بھی نقش تھی۔
ہر
جمعرات رات کو فضل الہیٰ کے گھر میلے کا سا سماں ہوتا۔ خاص کر کے بچوں کا اتنا رش
ہوتا کہ صحن میں کسی بڑے کو بیٹھنے کے لیے جگہ تک کم ملتی۔
فضل
الہیٰ کی بیوی ایسی بھیڑ دیکھ کر گھٹتے۔ اُس کا موقف اپنے میاں کے سامنے یہ تھا کہ
گاؤں کے بیشتر گھروں میں بھی تو ٹی وی آ چکا ہے تو پھر بھیڑ ان کے گھر ہی کیوں؟
مگر
اُس کا دماغ یہ سوچنے سمجھنے سے مفلوج تھا کہ گاؤں کا ہر بندہ فضل الہی کو امین
بخش کی وجہ سے اپنا خیال کرتا ہے اور جایا
اپنوں کے گھر جاتا ہے پرایوں کے نہیں۔
"
فواد ! بچے تیرے امتحان کیسے
ہوئے؟" ماسٹر اللہ دتہ نے فواد کو
گلی میں سے جاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
"
اللہ کا شکر ہے ماسٹر جی! بہت
اچھے ہو گئے "
"
اللہ کامیاب فرمائے"
"
اٰمین!"
"
اور سناؤ ماسی جی کا کیا حال
ہے؟ اب طبیعت ٹھیک ہوئی کچھ؟"
جی
ماسٹر جی! اب کچھ بہتر ہیں۔ کل رات کو بخار اُترا اُن کا"
"
اللہ صحت دے۔ میں کل صبح چکر
لگاؤں گا"
"
ضرور ماسٹر جی!" ماسٹر
اللہ دتہ کے آگے بڑھتے ہی فواد بھی شکیلے
کے ساتھ چچا کے گھر کی جانب مڑ گیا۔
گلی
پھڑتے ہی اُسے فضل الہیٰ کے صحن میں بیٹھا ہجوم لوگوں کی کثرت اور فلم دیکھنے کے
اُن کے اشتیاق کی واضع عکاسی کر رہا تھا۔
فضل
الہیٰ ٹی وی کے پاس ہی اپنی چارپائی پر براجمان تھا جبکہ باقی محلے والے نیچے زمین
پر۔
"
السلام ُعلیکم چاچا!"
"
وعلیکم سلام! فواد پتر کیا حال ہے"
"
اللہ کا شکر ہے۔ چاچا! اپنی
سناؤ۔ طبعیت صحت ٹھیک"
"
الحمدُاللہ! ۔۔۔پتر فلم ویکھن
آیا ہیں؟" فضل الہیٰ نے پوچھا۔
"
جی چاچا! آج فارغ ہویا تے فر
سوچیا فلم ہی ویکھ آواں" ( جی چاچا! آج فارغ ہوا تو سوچا کہ فلم دیکھنے ہی
چلے آئیں)
"
شکر ہے فلم دے بہانے چاچا دے
گھر آیا تے سہی" فضل الہیٰ کی بیوی تیوری چڑھائے بولی۔
الفاظ
معنی نہیں رکھتے مگر اُن کو ادا کرنے کا انداز ہی سب مفہوم اپنے اندر سموئے ہوئے
ہوتا ہے۔
شکیل
کے ساتھ وہ کچھ دیر تو ٹی وی پر نظرین جمائے بیٹھا رہا مگر جب چاچی کی زبان سے ادا
کردہ وہ جملے باربار اُس کے ماضی کی سماعتوں پر پڑتے تو مزید برداشت کرنا اُس کے لیے
ممکن نہ رہا اور اگلے ہی لمحے شکیل اُسے مجمع سے اُٹھ کر باہر جاتے ہوئے دیکھنے
لگا۔
"
پتر تو چھیتی نہیں آ گیا"
امین بخش نے فواد کو کمرے میں داخل ہوتا
دیکھ کر پوچھا۔
"
بس ایویں ہی ابا! دل نہیں کیتا
فلم ویکھنے تے" فواد نے بے رخی سے
جواب دیا۔
( بس
ابا! فلم دیکھنے کو جی نہیں کیا)
"
پتر آج تے توں میری غیر حاضری
وچ چلا گیا مگر آئندہ احتیاط رکھیں"
"
ٹھیک ہے ابا جی !"
فواد نے کہا اور ایک کتاب سرہانے کے بغل
میں رکھ کر بستر میں گھس گیا۔
ابھی
اُس کی آنکھ لگے ذرا ہی دیر ہوئی تھی کہ کسی کے زور سے جھنجلانے پر اُس کی آنکھ
کھل گئی۔
"
فواد ! پتر اُٹھ ۔۔۔بے دی طبیعت خراب ہے" سلمٰی
اُسے جھنجوڑتے ہوئے کہہ رہی تھی
فواد سوچے سمجھے بغیر فوراََ بستر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
سکینہ
بی کی طبیعت رات گئے کچھ بگڑ گئی تھی۔ سلمیٰ جو رات بھر اُن کے لیے جاگتی تھی ،
اُن کی حالت کچھ خراب محسوس کر کے امین بخش کو نیند سے جگا دیا۔
"
فواد !فوراََ دوڑ کر حکیم صاحب کو بلا کر لا۔۔۔ جلدی
کربے دی حالت بہت خراب ہے" امین بخش کا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا۔
فواد نے چپل پہن فوراََ حکیم صاحب کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔
فواد کے جانے کی کچھ دیر بعد ہی سکینہ بی کا سانس
اکھڑتا ہوا محسوس ہوا۔ ملک الموت اُن کی زندگی کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ جس
کی گونج اُنھیں اپنے کانوں میں سنائی دے رہی۔
ایک
لمبی اور کٹھن زندگی کا اختتام پہنچ چکا تھا۔ امین بخش کے والد سے کیا وعدہ پورا
ہو چکا تھا۔اُس غریب کو سوائے دو گز کی زمین کے اور کیا چاہیئے تھا۔
فواد کے حکیم صاحب کے ہمراہ پہنچنے میں بہت دیر ہو
چکی تھی۔سکینہ بی کی روح اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر اپنے پیاروں میں جا چکی تھی۔
محلے
میں سکینہ بی کی موت کی خبر فوراََ ہی تمام گھروں میں پہنچ گئی۔ محلے والوں کی مدد
سے گھر کا سارا سامان ایک کمرے میں منتقل کر کے اُسے مقفل کر دیا گیا۔
مرکزی
کمرے میں سکینہ بی کی میت کر اردگرد چٹائیاں اور دریاں بچھا دی گئیں۔ جانوروں کو
اُن کی جگہ سے کھول کر چاچا شیدے کے گھر باندھ دیا گیا۔
امین
بخش کی نظریں اپنے بھائی کی متلاشی تھیں۔ اُسے اپنے اکلوتے حیات خونی رشتے کے گلے
لگ کر اپنی ماں کے غم میں آنسوؤ بہانا تھا مگر اُس کی نگاہیں محلے والوں کے بیچ سے
نامراد ہو کر لوٹ آتی تھیں۔
ماسٹر
اللہ دتہ نے امین بخش کی حالت کو بھانپ کر محلے کے ایک لڑکے کو فضل الہیٰ کے گھر
بھیج دیا۔ فضل الہیٰ جو رات گئے فلم ختم ہونے پر سویا تھا، موت کی اطلاع ہوتے ہی
فوراََ چلا آیا جبکہ اُس کی بیوی جگانے پر بھی نہ اُٹھی۔
رات
کے پچھلے پہر غازی پورہ گاؤں کے وسط میں ایک باعزت گھرانے کی موت پر محلے کے جمع
افراد نے دو یتیم بھائیوں کی مسکین ہونے کی داستان، آنسوؤں کی لڑی پروتے ہوئے سنی۔
دیکھنے
والی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا جب بظاہر قوی حوصلہ امین بخش کی بین نے
سننے والے کانوں پر لرزہ طاری کر دی۔
فجر
کی اذان سے قبل غازی پورہ گاؤں کی ایک تہائی آبادی امین بخش کی بین سن کر نیند سے
بیدار ہو چکی تھی۔
فجر
کی نماز کے بعد تقریباََ تمام گاؤں امین بخش کے صحن میں جمع ہو چکا تھا اور یہی وہ
لمحہ تھا جب فضل الہیٰ کی بیوی اپنی ساس کے مرنے پر تمام گاؤں کے بعد پہنچی۔
گھمنڈ
اور غرور انسان کو لے ڈوبتا ہے، انسان کی عقل اور اُس کے حواس جاتے رہتے ہیں۔
پورے
گاؤں پر ایک سکوت تھا، ایک خاموشی تھی، ایک لرزہ طاری تھی۔
سکینہ
بی صرف امین بخش اور فضل الہیٰ کی ماں نہ تھی بلکہ گاؤں کے اکثر مردوں کی ماں اور
بہن بھی تھی۔
غازی
پورہ گاؤں کی تاریخ لکھنے والے قلم لکھتے ہیں کہ کیسے ایک عورت نے اپنی جوانی اپنے
بچوں کی اچھی پرورش میں گزار دی۔
داستان
گو سناتے ہیں کہ کیسے ایک بیوہ، یتیم اور مسکین عورت نے جاہل اور ظالم معاشرے کے
مقابل کھڑے ہو کر اپنی اولاد کو پالا پوسا۔
وہ
فضا، وہ زمین اور وہ پانی اس بات کا شاہد ہے کہ ایک عورت اتنی کمزور بھی نہیں جتنی
اس دنیا نے اُسےبنارکھا ہے۔
ظہر
سے قبل مسجد سے میت نہلانے کا تختہ منگوایا گیا۔ گاؤں کی بڑی عمر کی کچھ پرہیزگار
عورتوں کے میت کو غسل دیا۔
مسجد
سے ہی لائی گئی چادر جس پر کلمہ اور درود شریف جلی حروف میں نمایاں تھا، میت کے
اووپر ٖڈالا گیا۔
ظہر
کی نماز کے بعد سکینہ بی کا جنازہ پڑھایا گیا۔ گاؤں کا کوئی مرد شاید ایسا نہ تھا
جو جنازے میں شامل نہ ہو۔
سکینہ
بی کی قبر برادری کے ہی چند لوگوں نے مل کر کھودی۔ سکینہ بی کی میت کو قبر میں
اتارنے والوں میں بھی اُن کے دو بیٹے اور ایک پوتافواد شامل تھا۔
ایک
لمبی پر خطر زندگی کے اختتام پر سکینہ بی
کو اُن کے پیاروں کے قریب مدفن کی گیا۔
جنازے
کے بعد امین بخش کے گھر ماتم کا کھانا کھلایا جا رہا تھا۔ سلمیٰ یا اُس کی بیٹیوں
کو یہ فکر کرنے کی ضرورت ہر گز نہ تھی کہ کھانا کہاں سےآ رہا ہے اور کھلایا کہاں
جا رہا ہے۔
محلے
اور برادری کی عورتوں نے اپنے طور پر کام تقسیم کر رکھے تھے۔ مسجد سے لائی گئی دیگوں میں ہی گوشت پکا تھا۔
دیگوں
سے سالن پلیٹوں میں نکالنا، پھر اُنھیں دستر خوان تک پہنچانا، پانی اور روٹیاں
تقسیم کرنا یہ وہ اہم ذمہ داریاں تھیں جو اپنے طور پر عورتوں نے بانٹ رکھی تھیں۔
امین
بخش کے گھر پہنچنے تک سب سمیٹا جا چکا تھا۔ دریوں اور چٹائیوں وغیرہ ایک طرف رکھ
دی گئی تھیں۔ چاچا شیدے کے گھر بندھے جانوروں کو چارہ پانی ڈالا جا چکا تھا۔
اب
یہ گھر اُسے ویران سا معلوم ہو رہا تھا۔ کھڑکی کے پاس رکھی چارپائی پر اب اُسے یہ
کہنے والا کوئی نہ گا کہ "پتر! تو آگیا"
ماں
کی چارپائی کو خالی پر کر اُسے بار بار رونے کو جی چاہتا مگر رات سے اب تک مسلسل
آنسوؤ بہا بہا کر اُس کی آنکھوں سے پانی خشک ہو گیا تھا۔ اُس نے رونا بھی چاہا تو
آنکھوں سے آنسوؤ نکل نہ پائے۔
نیند
اور تھکاوٹ سے بوجھل آنکھیں چارپائی پر لیٹتے ہی سو گئیں۔ ذرا سا کھانا اُس نے
چاچا شیدے کے کہنے پر کھا تو لیا مگر دل اُس کا اچاٹ تھا۔
آج
پہلی بار فواد کو اپنا باپ بوڑھا لگا۔ آج
پہلی بار اُس کے باپ کی چہرے پر غمگینی اور پریشانی کے اثرات واضع تھے۔
موت
بذات خود اتنی تکلیف دہ نہیں جتنا اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم۔
Comments
Post a Comment