قسط نمبر: 9
اس زندگی کے بھی کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ کے بھی مختلف پہلو۔ جس پہلو سے بھی دیکھو ، وہ رنگ تمہیں مختلف کھیل کھیلتا نظر آئے گا۔ایک انسان کی زندگی ان رنگوں کے ملاپ کی بنا پر ہی روشن دکھائی دیتی ہے اور بغیر اس کے ایک گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے جس میں صرف اور صرف سکوت ہوتا ہے۔ اس اندھیرے کو دنیا والے قبر کی تاریکی سے اور سکوت کو موت کے بعد کی خاموشی سے موسوم کرتے ہیں۔
بہار
کا موسم وقت کی مسلسل بہتی چلے جانے والی ندی کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ یہ دن
حقیقتاََ سال بھر کے خوشی اور مسرت سے بھر پور دن ہوتے ہیں۔
ہر
چیز پر سبزہ، ہر شے شادماں۔۔۔ نہ گرمی اور نہ ہی سردی۔۔۔ نہ فکر اور نہ ہی فاقہ۔۔۔
نہ فرصت اور نہ ہی کام دھندا۔
طبعیت
میں تازگی، لہجے میں مٹھاس اور دل پر سکوت طاری۔ یہ سب اسی موسم کی کارخستانی تھی۔
اناج
کی فصلیں اور میوؤں سے لدی ڈالیاں پکنے کو تیار۔ ہوا کے جھونکوں میں ہلکی تپش،
دھوپ میں بیٹھنے کو طبعیت اُچاٹ۔ ذی روح سائے کی متلاشی۔
ایسی
صورت ہر سال محض سردی کے موسم کو خیر آباد کہنے اور گرمیوں کو کھلے دل سے گلے ملنے
کے لیے ہی ممکن ہوتی تھی۔
سکینہ
بی کو فوت ہوئے ایک ماہ کے قریب ہو چکا تھا۔ گاؤں میں اب بھی صفِ ماتم چالیس دن کے
لیے بچھائی جاتی تھی۔
چوتھے
روز کا قل فضل الہیٰ کی طرف سے ہوا تھا۔ جس میں علاقہ بھر کے مکین مدعو تھے۔ اب یہ
بات سمجھنے سے قاصر تھی کہ مرحومہ کے ایثالِ ثواب کے لیے درود اور قل وغیرہ تو
ٹھیک مگر اتنے لوگوں کو مدعو کرنا اور ان پر خرچہ برداشت کرنا کس ضمرے میں آتا ہے۔
ان
چالیس دنوں میں ہر جمعرات کو باقاعدہ قل ہوتا۔ جس میں محلے اور برادری والوں
کی شرکت لازم تھی۔
ہر
جمعرات کا قل مختلف لوگوں کی طرف سے کروایا جاتا۔ اس کی ایک وجہ مرحومین کے گھر
والوں پر بوجھ کم کرنا بھی تھی۔
امین
بخش کے گھر اب بھی مرکزی کمرے میں چٹائیاں اور دریاں بچھی تھیں۔ عورتیں مختلف
اوقات میں یہاں تسبیح پڑھنے آتیں۔
اس
مقصد کے لیے مسجد سے املی کے گٹھلیوں کی بوری منگوائی گئی۔ مسلسل چالیس روز تک ان
گٹھلیوں پر مخصوص تسبیح کا ورد کیا جاتا۔
گاؤں
کے ہر گھرانے میں صٖفِ ماتم چالیس دن تک نہیں رہتا تھا اور نہ ہی اس شدت سے بین
کیا جاتا جس طرح سکینہ بی کے مرنے پر کیا گیا۔
پچھلے
ماہ خانو تیلی کے بیٹا بسنت مناتا ہوا پتنگ اُڑانے کے چکر میں چھت سے گر کر مر گیا
تو دو دن بین ہوا۔۔۔ چوتھے دن صبح کو قل اور شام کو خانو کڑھنی لگا کر بیٹھ گیا۔
امین
بخش کے گھر کوئی بیٹھک تو تھی نہیں۔ اب فاتحہ خوانی کے لیے آنے والے مردوں کو چاچا
شیدے کی چوپال میں بٹھائے جانے لگا۔
امین
بخش فجر کی نماز کے بعد چوپال میں بیٹھ جاتا اور دن بھر گاؤں والے فاتحہ خوانی کے
لیے آتے رہتے۔
ان
دنوں جانوروں کو سنبھالنے کا ذمہ فواد محمود کا تھا۔ وہی جانور لے کر کھیتوں میں
جاتا اور دن بھر اُنھیں چرا کر شام کو لوٹ آتا۔
ان
دنوں فوج میں سپاہی بھرتی کرنے کی ٹیم علاقہ کے یونین کونسل میں آئی ہوئی تھی۔
گاؤں
کہ اکثر نوجون جن میں سے بیشتر فواد کی
عمر کے تھے، بھرتی ہونےکے لیے پہ درپے یونین کونسل آفس کے چکر کاٹ رہے تھے۔
"
لالہ! تسی وی فواد نوں بھرتی ہون واسطے بھیجو۔۔۔ ہور نہیں تے
سہارا ہو جائے گا" فضل الہیٰ مغرب کے بعد امین بخش کے پاس بیٹھا اُسے مشورہ
دے رہا تھا جب فواد کمرے میں داخل ہوا۔
"
فواد پتر!" امین بخش نے آواز دی۔
"
جی ابا!"
"
پتر! چاچے دے گل تے سن"
امین بخش نے فضل الہیٰ کی طرف اشارہ کیا۔
"
فواد ! توں بھرتی واسطے کیوں
نہیں جاندا؟" فضل الہیٰ نے فواد کے
کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
فواد نے حیرت سے پہلے اپنے چچا اور پھر اپنے والد کی
طرف دیکھا۔ مکمل طور پر اپنے والدین پر انحصار کرنے والے فواد پر ایسے سوال کا جواب اپنی مرضی کے مطابق دینا
ایک بہت مشکل کام تھا۔
"
میرا جی تے آگے پڑھنے کا
ہے" فواد نے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے
دھیرے سے بولا
"
فر ٹھیک ہے پتر! تیری مرضی تو
آگے پڑھنا ہے یا نہیں" امین بخش نے بول کر قصے کو یہیں تمام کرتے ہوئے کہا۔
کیا
یہ ہاں تھی؟ کیا اُسے آگے پڑھنے کی اجازت مل گئی تھی؟ جس بات کو لے کر پچھلے دو
ماہ سے وہ پریشان تھا وہ ایک لمحے میں حل ہو گئی۔
"
مگر لالہ!" فضل الہیٰ نے کچھ کہنا چاہا۔
"
ویکھ فضلو! میری اولاد جب تک
چاہے گی پڑھے گی۔۔۔ میرے کندھوں میں اتنی طاقت ابھی ہے کہ میں ان کا خرچ برداشت کر
سکوں" امین بخش نے فضل الہیٰ کی بات کاٹ کر صاف صاف الفاظ میں اپنا مدعا بیان کر دیا۔
"
باجی! تسی ہی لالہ نوں کج
سمجھاؤ" فضل الہیٰ نے سلمیٰ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
"
میں کی سمجھاواں؟"
"
ویکھو باجی! آج تیرا پترفوج وچ
ملازم ہو جاندا آے تے اگلی ساری زندگی کمائی دی فکر ختم۔ ۔ اتوں ریٹائر ہونے تے
پنشن وی۔ ویکھو باجی! اگر اپنا فواد ملاز
م ہو گیا تے کل فر باپ دا سہارا ہی بنے گا " فضل الہیٰ نے سلمیٰ کو بات
سمجھانے کے انداز میں کہی۔
سلمیٰ
نے ایک لمحے کو باپ بیٹے کے چہرے کی طرف نگاہ دوڑائی اور اگلے ہی لمحے سر نفی میں
ہلا کر کمرے سے باہر کو نکل گئی۔
"
چلو لالہ! تواڈی مرضی کہ تسی
انوں پڑھاؤ یا نہ پڑھاؤ مگر اے تے دسو کہ اے آگے پڑھے گا کی۔۔ تے تسی زمینداری نال
کس طرح پڑھاؤ گے انوں" فضل الہیٰ نے تقریباََ ہار مانتے ہوئے کہا۔
(
چلو لالہ! آپ کی مرضی کہ آگے
پڑھائیں یا پڑھائیں مگر یہ تو بتائیں کہ یہ آگے پڑھے گا کیا۔۔ اور زمینداری کے
ساتھ آپ اسے کیسے پڑھا سکتے ہیں)
"
چچا جی! آج کل حکومت بس دے
کرایے توں لے کر کالج دے سارے خرچ مفت کر
دتا" فواد نے بات میں حصہ
لینا چاہا۔
(
چچا جی! آج حکومت نے بس کے
کرائے سے لے کر کالج کی ساری پڑھائی مفت کر دی ہے)
"
کی مطلب مفت؟"
"
چچا جی! مطلب اے کہ ہک واری میرا داخلہ کالج وچ ہو
گیا تے فر میرے آن جان دا بس دا کرایا وی معاف تے نال میراپڑھنے دا خرچہ وی
معاف" فواد نے تفصیلاََ بات سمجھائی۔
(چچا جی! مطلب یہ کہ بس ایک بار
میرا داخلہ کالج میں ہو گیا تو پھر میرا آنے جانے کا بس کا کرایہ بھی معاف اور
پڑھنے کا تمام خرچ بھی معاف)
"
مگر تینوں ای پتا ہے نا کہ بس
اڈا اتھوں پیدل ادھے گھنٹے دی مسافت جتنا دور ہے"
(
مگر کیا تمہیں یہ نہیں پتا کہ
بس اڈہ یہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے)
"
جی چچا! مگر کوئی مسئلہ نہیں۔۔ او ویکھی ویسی" فواد بے فکر تھا۔
(
چچا جی! وہ کوئی مسئلہ نہیں۔۔
وہ بھی دیکھی جائے گی)
"
مگر پہلے میٹرک تو پاس ہو
جائے" فضل الہیٰ کے لہجے میں کڑواہٹ فواد نے محسوس کر لی تھی۔
"فواد ! فواد !" سلمیٰ نے
باورچی خانے سے آواز دی۔
"
جی امی ! آیا"
"
پتر!کل اپنی ماسی دے گھر صبح
صبح جائیں۔۔۔ وہ تجھے کچھ سوتر دیں گی جو تو نے ندیم قاصبی کے گھر دینے ہیں"
سلمیٰ نے باورچی خانے کے دروازے میں کھڑے فواد
کو ہدایات دیں۔
اگلی
صبح ناشتہ کرنے کے فوراََ بعد فواد اپنی
خالہ کے گھر تنا ہوا سوتر لینے پہنچ چکا تھا۔
سردیوں
کی لمبی راتوں کو عورتیں اپنا زیادہ تر وقت چرخہ کتنے میں گزار دیتیں۔ روئی چرخے
پر کتنے کے بعد سوتر کی شکل اختیار کر لیتی۔
اب
اس سوتر کو سیدھا کرنے کا بھی الگ مرحلہ تھا۔ چونکہ سکینہ بی وفات سے امین بخش کے
گھر کا نظام بگڑ چکا تھا۔ اسی لیے سلمیٰ نے سوتر کو سیدھا کروانے کے لیے اپنی بہن
کے گھر بھیج دیا۔
سوتر
کو سیدھا کرنے کا مرحلہ مقامی زبان میں تننا کہلاتا تھا۔
فواد کا اپنی خالہ کے گھر پہنچنے پر اُس کی نظر صحن
میں موجود تنکوں پر پڑی جہاں اُس کی خالہ سوتر سیدھا کرنے میں لگی تھیں۔
چھ
تنکوں کو ایک ایک گز کے فاصلے پر مٹی میں گڑھ دیا جاتا۔ پھر ایک سرے کو ایک تنکے
سے باندھ کر باقی تنکوں کے سہارے سوتر کو سیدھا کیا جاتا۔
فواد کا ذمہ تنے ہوئے سوتر کو لےکر ندیم قصب دار کے
گھر جانا تھا۔ جس کا گھر گاؤں کے پچھلے سرے واقع تھا۔
بہار
کے ان رنگین دنوں میں جہاں ہر اُس کی عمر
کا ہر دوسرا لڑکا کھلی موج مستی میں مصروف تھا وہیں اس کے کندھے احساسِ ذمہ داری
کے بھاری بوجھ تلے دب چکے تھے۔
ایک
طرف بسنت کے دن شروع ہوئے تو دوسری طرف اس کے امتحان سر پر تھے۔
جہاں
اس کے ہم عمر لڑکے سارا سارا دن پتنگوں کے پیچھے بھاگتے رہتے وہیں اس کے لیے ایک
لمحہ بھی کتابوں سر اُٹھانا مشکل ہو جاتا
تھا۔
آئے
دن مکانوں کی چھتوں پر لوگوں کا ہجوم پتنگ بازی کا مظاہرہ تکنے اور کرنے میں مگن
ہوتا تھا۔
شہر
سے خوبصورت پتنگیں اور ڈوریں خصوصاََ طور پر ان دنوں کے لیے منگوائی جاتی تھیں۔
پیچے لڑائے جاتے، اونچی پتنگوں کو اڑانے کے مقابلے ہوتے۔
پتنگ
کٹنے پر گاؤں کے لڑکے کبھی اس جانب بھاگتے تو کبھی دوسری جانب۔ کبھی پتنگ درخت کی
تہنیوں میں پھنس جاتی تو کبھی کسی کے مکان کی چھت پر گر جاتی۔
پتنگ
نظروں سے اوجھل ہو جانے پر اُس کی ڈورکی مدد سے اُس کا سراغ لگایا جاتا۔
اگر
ایسی ہی کوئی پتنگ کسی کے گھر گر جاتی تو اسی صورت میں سب سے بہادر لڑکا اُس گھر
کے مکینوں سے پتنگ واپس لینے کا مطالبہ کرتا وگرنہ کسی کی اتنی جرات نہ ہوتی کہ پتنگ واپس لی جائے۔
جو
غریب گھر کے لڑکے پتنگ اور دوڑ خریدنے کے اہل نہ ہوتے وہ پتنگ لوٹ کر اور کٹی
پتنگوں کی ڈور جمع کر کے اپنا شوق پورا کرتے۔
ان
دنوں چونکہ فواد اپنی پڑھائی میں خوب مگن
تھا لحاظہ وہ اس کھیل سے خاطر خواہ محظوظ نہ ہو سکا۔
شکیل
نے متعدد مرتبہ اُسے پتنگ اُڑانے کے لیے بلایا مگر وہ نہ گیا۔ ایسی صورت میں صرف
ایک فقرہ ہی اُس کے لب پر تھا " میرے امتحان سر پر ہیں"
ہوا
کے جھونکوں میں شدت کے آتے ہی بسنت کے دن بھی اختتام پزیر ہوئے اور یہی وہ وقت تھا
جب فواد اپنے امتحانات سے بھی فارغ ہوا۔
بدلتے
موسموں کی طرح گاؤں کے کھیل بھی بدلتے رہتے۔گاؤں میں جدھر دیکھو بچے مل کر کھیل
رہے ہیں۔
سوتر
سے بھرے تھال اُٹھائے ہوئے فواد کی نگاہیں
گاؤں کے چاروں طرف یہی نظارہ کرتی جا رہی تھیں۔
ایک
طرف ذرا بڑی عمر کی لڑکیاں آنکھ مچولی کھیل رہی ہیں تو دوسری طرف ننھی لڑکیاں گڈا
گڈی کا بیاہ رچانے میں مصروف ہیں۔
ایک
طرف مٹی کے چھوٹے چھوٹے برتنوں میں کھانا پک رہا ہے تو دوسری طرف نوجوان لڑکیاں
سوئی دھاگہ لیے سیدھے الٹے ڈنگے لگا کر سلائی کڑھائی سیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس
جانب دیکھو تو لڑکوں کی ایک جماعت گلی کے نکڑ پر چور سپاہی اور چھپن چھپائی جیسے
کھیل کھیلنے میں اپنا وقت بتا رہے ہیں تو دوسری طرف دیکھو تو ذرا بڑی عمر کے لڑکے
گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں جبکہ نوجوان بلا گیند سنبھالے میدانوں میں دکھائی دیتے ہیں۔
ان
سب سے بے نیاز ایک علیحدہ لڑکوں کی ٹولی بلور سے کھیلنے میں مگن ہے۔ یہ کھیل ایسا
دلچسپ تھا کہ فواد کو بھی ذرا دیر رک کر
دیکھنا پڑا۔
شکیلے
کے بلور داؤ پر لگے تھے اور اگر کمہاروں کا لڑکا یہ بلور نشانے پر مار کر دائرے سے
باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ بلور اُس کے۔
فواد سمیت وہاں کھڑے چند اور لڑکوں کی نظریں بھی
کمہاروں کے لڑکے پر تھیں جو اپنا بلور نشانے پر مارنے کو تیار بیٹھا تھا۔
ایک
لمحے سے بھی کم وقت میں انگلیوں کی معمولی حرکت نے بلور اچھالا جو سیدھا نشانے پر
لگا اور شکیلے کے بلور کو دھکیلتا ہوا دائرے سے باہر لے گیا۔
"
فواد ! یار تو وی آ! میں ہار رہا ہوں" شکیلے نے
فواد سے سفارش کرنے والے انداز میں بولا۔
"
اچھا صبر کر میں یہ سوتر دے کر
آیا" فواد نے بولتا ہوا تیز قدموں کے
ساتھ وہاں سے چلا آیا۔
گاؤں
میں موجود تمام زمینداروں کے گھروں سے سوتر ندیم قصب دار کے گھر ہی آتا۔ جو پھر
اُس نے مختلف طرز کے کھیس اور چادریں بنا کر دیتا۔
جس
کے عوض اُسے روپیوں کی بجائے گندم اور جو کے دانے دیے جاتے۔ اسی سے وہ تمام سال
گزار دیتا۔
چونکہ
ان دنوں کام کی زیادتی تھی اس لیے ندیم قصب دار صبح سویرے ہی کھڈی پرکام کرنا شروع
کر دیتا تھا۔
"
ندیم چاچا! یہ سوتر امی نے
بھیجے ہیں" فواد نے سوتر سے بھرا
کپڑے کا تھال ندیم قصب دار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"
ٹھیک ہے پتر! ہنڑ تو جا"
"
چاچا! اے کس دن تک ملیں گے"
"
پتر! جس دن بن گئے میں آپ ہی
دینے آ جاؤں گا" ندیم قصب دار نے مسکراتے ہوئے کہا اور دوبارہ کھڈی پر کام
کرنا شروع کر دیا۔
ویران
اور سنسان گھروں میں سے ہمیشہ وحشت سے محسوس ہوتی ہے۔ کچھ یہی حال ندیم قصب دار کے
گھر میں بھی تھا۔
اوپر
سے ندیم قصب دار کے الجھے بال اور سرخ انگاروں بھری آنکھیں مزید دہشت زدہ لگ رہی
تھیں۔
گاؤں
میں پچھلے کچھ دنوں سے یہ بات پھیلی ہوئی تھی کہ ندیم قصب دار پر جنوں کا سایہ ہے
۔ کچھ لوگ اس کی ایک وجہ اُس کا گھر میں تنہا رہنا بتاتے تھے۔
ایک
تو اُس کا گھر تھا بھی گاؤں کے سرے پر اور دوسرا وہ رہتا بھی اکیلا تھا۔
پورے
گھر میں صرف ایک چیز کی آواز سنائی دیتی تھی اور وہ تھی کھڈی کے چلنے کی آواز۔
ندیم
قصب دار کے پاس چونکہ کرنے کو اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے وہ وقت سے قبل کپڑا
تیار کر کے دیتا تھا۔
کچھ
لوگوں کا خیال تھا کہ اُس کے گھر میں موجود جن رات کو اُس کے سونے کے بعد کھڈی چلا
کر اُس پر کپڑا تیار کرتے رہتے ہیں۔
سنسان
ماحول میں جی گبھراتا ہوامحسوس کرکے
فواد فوراََ ہی لوٹ آیا۔
"
یار فواد ! اب تو کھیلنے آ
جا" شکیلے نے دور سے ہی فواد کو آتا
دیکھ کر پکارا۔
اب
کی بار دائرہ پچھلی مرتبہ کی نسبت زیادہ بڑا کھینچا گیا تھا اور داؤ پر لگے بلور
کی تعداد بھی کچھ زیادہ ہی تھی۔
فواد نے شکیلے کے ہاتھ سے ایک بلور لیا اور دائرے کے
باہر بیٹھ کر نشانہ لگانا چاہا۔
بلور
انگلیوں سے اچھلا اور سیدھا نشانے پر موجود دو بلور ایک ساتھ گھسیٹتا ہوا دائرےباہر لے آیا۔
اسی
طرح مزید تین اور چار مرتبہ فواد نے بلور
عین نشانے پر مارا اور شکیل کی جھولی بلوروں سے بھر دی۔
"
نہ بھئی نہ! میں نہیں کھیلتا
۔۔۔یہ غلط بات ہے۔۔ ۔مقابلہ میرے اور شکیلے کے درمیان تھا۔۔۔یہ فواد کیوں آ گیا" کمہاروں کا لڑکا روہناسی
انداز میں بولتا ہوا میدان سے باہر نکل گیا۔
"
اپنی ۔ واری۔ آئی۔ کوگو۔ رو
۔پیا"
(
اپنی باری تو کوگو رو پڑا)
وہاں
موجود لڑکوں نے کمہاروں کے لڑکے کو ایسے میدان چھوڑ کے بھاگتا دیکھ کر یہ جملے
کسنا شروع کر دیے۔
"
شاباش میرے شیر! آج تے تو نے
خوش کروا دیا۔۔۔ دیکھ وہ کیسے روتا ہوا میدان سے بھاگا" شکیل نے فواد کو تھپکی
دی۔
"
اچھا نا! اب زیادہ خوش نہ
ہو۔۔۔ چل گھر چل میرے ساتھ۔۔۔ آج چالیسویں کا درود ہے تیاری کرنی ہے اُس کے لیے"
"
تو چل میں کپڑے بدل کے
آیا" شکیلے نے کہا اور اپنے گھر کی جانب مڑ گیا
آج
شام کو سکینہ بی کے چالیسویں کا درود تھا۔ آج ہی ماتم کا آخری دن بھی۔ درود کے بعد
گھر سے ماتم کے لیے بچھائی جانے والی دریاں اُٹھا دی جانے ہیں۔
"
فواد ! سوتر دے آیا؟" سلمیٰ نے فواد کو دروازے سے آتا ہوا دیکھ کر پوچھا
"
جی امی! دے آیا"
"
چل اچھا ہے۔۔۔ ابھی ایسے کر کہ
اپنے ابا کی طرف جا۔۔۔ وہ چاچا شیدے کے گھر کے باہر دیگیں رکھوا رہے ہیں۔۔۔ وہاں
جا کر اُن کی مدد کروا"
"
جی امی! میں جاتا ہوں۔۔ اگر
شکیل آیا تو اُسے وہیں بھیج دینا" فواد
نے گھڑے سے پانی نکال کر پیا اور دروازے سے باہر نکل گیا
امین
بخش نے مسجد سے دیگیں نکلوا کر چاچا شیدے کے گھر کی دیوار کے ساتھ رکھوا چکا تھا۔
کھانا
بنانے کے لیے گاؤں کا سلیم نائی اپنے اوزار اُٹھا کر وہیں پہنچ چکا تھا۔
چاچا
شیدا ایک طرف چارپائی بچھائے حقہ پینے میں مصروف تھا۔ساتھ ساتھ ہر آنے جانے والے
اور دیگیں پکانے والوں پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا۔
فواد کے وہاں پہنچتے ہی شکیلا بھی آ گیا۔ امین بخش
نے دونوں کو چاچا شیدے کے پاس کھڑا دیکھ لیا تھا۔
"
فواد پتر! ادھر آ" امین بخش نے آواز دی
"
جی ابا!"
"
ایسے کر تو اور شکیلا دونوں جا
کر یہ دو پانی کی بالٹیاں کنویں سے بھر کر گھر میں رکھ آؤ"
"
ابا ! صرف دو بالٹیاں تو کافی
نہیں ہوں گی" فواد نےکچھ سوچتے ہوئے
بولا
"
بات تو تیری ٹھیک ہے۔۔ پھر
ایسے کر کہ چاچا شیدے کا کھوتا کھول اندر سے ۔۔۔اور پانی کے دو کین اس پر لاد کے
لے جا۔۔۔ وہ بھر لا۔۔۔ اب تو کافی ہو جائیں گے نا؟" امین بخش نے ہدایت دیتے
ہوئے کہا۔
"
جی ابا! یہ بہتر رہے گا"
"
شکیل تو جا کر کھوتاکھول لا۔۔۔
میں گھر سے پانی کے خالی کین اُٹھا لاتا ہوں" فواد نے شکیل سے کہا اورگھر کی جانب چل پڑا۔
پورے
غازی پورہ گاؤں میں پانی کے چار سے زائد کنویں تھے جن میں سے میٹھے پانی کے صرف دو۔
گاؤں
والے عام ضرورت کا پانی باقی کنوؤں سے بھر کر لاتے جبکہ پینے کا پانی صرف اُنھی دو
کنوؤں کا استعمال کرتے جو گاؤں کی آبادی سے باہر واقع تھے۔
یہ
گاؤں آباد کرنے والا بھی بڑا دانا لگتا تھا۔ تمام چٹانی زمین پر آبادی بنا لی جبکہ
زرخیز زمین کاشتکاری کے لیے چھوڑ دی گئی تھی۔
فواد اور شکیل دونوں گدھے پر پانی کے کین لادے کنویں
پر لائے جہاں پہلے سے پانی بھرنے والوں کا کافی رش تھا۔
کچھ
دیر تگ و دو کرنے کے بعد وہ پانی کے کین بھرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر اصل
مسئلے کی شروعات ہی یہاں سے ہوئی۔
جب
پانی کا بھر ایک کین ایک طرف لادنے کی کوشش کرتے تو گدھا ڈگمگا جاتا اور کین رکھنے
نہ پاتا۔
اب
ایک کین لادنے ہو تو دوسرا لادا جائے۔ مگر گدھا ایسا ہونے ہی نہیں دے رہا تھا۔
بلاآخر
یہ طے کیا گیا کہ ایک گدھے کو پکڑ کر رکھے گا اور دوسرا اُس پر کین لادے گا۔ کچھ
دیر تک دونوں اسی پر لڑتے تھے کہ گدھے کو قابو کون کرے۔
آخر
کار یہ ذمہ داری فواد نے قبول کی اور شکیل
نے کین اُٹھا کر فوراََ سے گدھے پر لاد یا مگر گدھا ایک جگہ رکنے کی بجائے بھاگنے
کی کوشش کرنے لگا۔
ایسے
میں فواد کی جسامت اور شکیل کے بازؤں نے
زور دکھایا اور کسی طرح گدھے پر پانی سے بھرے کین لاد ہی دیے گئے۔
اب
گدھے کو چڑھائی پر چلا کر گھر تک لانا بھی ایک کٹھن کام تھا۔
اب
کی بار اس مسئلہ کا حل یہ نکلا کہ ایک گدھے کی نتھنی تھامے آگے چلے اور دوسرا
پیچھے سے لاٹھی اُٹھائے رکھے۔
فواد نتھنے تھامے آگے چلتا رہتا اور اگر کسی جگہ
گدھا رک جاتا تو شکیلا گدھےکے گھٹنوں پر لاٹھی سے ہلکی سی ٹھوکر لگاتا اور وہ چل
پڑتا۔
دس
منٹ کا رستہ اُنھوں نے چاچا شیدے کے اس گدھے کی وجہ سے بیس منٹ میں طے کیا۔جس کی
وجہ سے امین بخش کی طرف سے اُنھیں ڈانٹ بھی سننا پڑی۔
گھر
پہنچ کر فواد نے پانی کا ایک کین باورچی
خانے کے قریب پڑے ہوئے گھڑوں میں الٹ کر خالی کیا جبکہ دوسرا وہیں پاس رکھ چھوڑا۔
اسی
دوران مومنہ اور ماریہ کمرے سے دریاں نکال
کر باہر صحن میں بچھانے لگیں۔
مومنہ کو دیکھ کر اُسے آنکھیں کچھ اور دیکھنا جیسے
بھول گئی ہوں۔ زرد رنگے کے کپڑوں میں ملبوس وہ نہایت حسین دکھائی دے تھی۔
"
ماریہ! مومنہ ! یہ دریاں الٹی
بچھا رہی ہو تم دونوں۔۔۔ دوسری طرف سے بچھاؤ" فواد نے پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا
مومنہ جو فواد
کی موجودگی سے بے خبر تھی ، اچانک اُس کی آواز سن کر چونک پڑی۔
اگر
فواد کی جگہ کوئی اور لڑکا ہوتا تو شاید
وہ اسی لمحے اندر کمرے میں چلی جاتی مگر فواد
اور وہ تو بچپن کے دوست تھے۔
مگر
چونکہ اب عمر میں اضافہ ہو چکا تھا تو ایک دوسرے سے بات کرنا کم ہوتا جا رہا تھا ۔
فواد نے پانی کا گلاس حلق میں انڈیل کر خالی کیا اور
دیگوں والی جگہ پر چلا گیا۔ جہاں امین بخش اگلے کام کے لیے اُس کا انتظار کر رہا
تھا۔
"
فواد پتر! اب گھر جا کر دریاں ہی بچھا دے"
"
ابا ! وہ لڑکیاں بچھا رہی ہیں"
"
اچھا پھر ایسا کر یہ پلیٹیں
اور گلاس لے جا!۔۔۔ اور دیکھ لینا سب تیاریاں مکمل ہیں یا نہیں"
"
ٹھیک ہے ابا!"
فواد اور شکیل دونوں نے پلیٹیں اُٹھا کر گھر لے جانا
شروع کر دیں۔
"
یار فواد ! یہ پلیٹیں تو بہت
زیادہ ہیں ۔ یہ پہنچاتے ہوئے دن تو ایسے ہی نکل جائے گا" شکیل نے تھک کر زمین
پر بیٹھ گیا۔
"
رک ! میرے ذہن میں ایک ترکیب
آئی ہے" فواد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"
کیا ترکیب؟"
"
تو ادھر ہی ٹھہر۔۔۔ میں ماسٹر
جی کے گھر سے ریڑھی لے کر آیا"
فواد بھاگا بھاگا ماسٹر اللہ دتہ کے گھر گیا مگر
وہاں دروازے پر تالا دیکھ کر واپس اپنے گھر چلا گیا۔
"
مومنہ ! مجھے ریڑھی چاہیے۔۔
ماسٹر جی کہاں ہیں؟" فواد نے مومنہ سے کہا جو صحن میں دریاں بچھا رہی تھی۔
"
ابا تو سکول میں ہوں گے۔ ۔ تم
ایسا کرو یہ چابی لے جاؤ اور خود ہی نکلا کر لے آنا" مومنہ نے پلو سے چابی نکال کر فواد کی جانب بڑھائی۔
فواد چابی لے کر ماسٹر اللہ دتہ کے گھر گیا ور وہاں
سے ریڑھی لیے شکیل کے پاس پہنچ گیا۔
اب
دونوں یڑیھی کو پلیٹوں اور گلاسوں سے بھر کر گھر میں آسانی سے پہنچانے لگے۔
گھر
میں دریاں بچھ چکی تھیں اور اب اگلا
کام یہاں جگ اور گلاس رکھنا تھا۔ فواد
اور شکیل نے پلیٹیں صحن کے ایک طرف رکھنی شروع کر دیں۔
شکیل
ریڑھی میں سامان بھر کر لاتا اور فواد
پانی کے جگ بھر بھر کر دستر خوان پر رکھنے لگا۔
اُدھر
دیگوں کے تیار ہوتے ہی امین بخش نے اُنھیں بھی گھر پہنچا دیا۔
لوگ
آنے لگے تو گھر کی عورتیں بھی اندر کمرے میں موقوف ہو گئیں۔
سالن
اور چاول کی دیگیں پک کر گھر کے صحن میں ایک طرف رکھ دی گئیں۔ تازہ روٹیاں تندور
سے منگوا لی گئیں۔
صحن
میں لوگ درود میں شرکت کے لیے جمع ہو چکے
تھے۔ حافظ سیف اللہ کے سامنے سالن اور چاول کی ایک پلیٹ سمیٹ ایک روٹی اور فروٹ
وغیرہ رکھ دیا گیا۔
ادھر
درود چلتا رہا دوسری طرف لوگوں کو کھانا کھلانے پر متعین لڑکے جن میں فواد اور شکیل کے علاوہ فضل الہیٰ کے دونوں بیٹے
احمد اور علی بھی شامل تھے علیحدہ کھڑے تھے۔
درود
ختم ہوتے ہی فروٹ کی پلیٹ حاضرین میں سے ایک مرتبہ گزاری کر اندر باورچی خانے میں
رکھ دی گئی۔
سلیم
نائی گوشت کے سالن کی پلیٹیں تیار کرتا گیا۔ فضل الہیٰ کے لڑکوں کا کام بیٹھے ہوئے
لوگوں کے سامنے سالن کی پلیٹیں رکھنا تھا جبکہ سالن بھروا کر اُن تک پہنچاچا
فواد اور شکیل کا کام تھا۔
سالن
کے بعد چاولوں سے بھری تھالیاں رکھی گئیں۔ رفتہ رفتہ لوگ کھا کر اُٹھنے لگے۔
مردوں
کے بعد عورتوں کی باری آئی۔
اب
کی بار سالن بھروانے والا صرف فواد تھا۔
جبکہ شکیل، احمد اور علی تینوں مردوں کو کھانا کھلانے کے بعد خود بھی کھا کر چلے
جا چکے تھے۔
عورتوں
کی طرف کھانا کھلانے کی ذمہ داری مومنہ ، ماریہ اور سلمیٰ کی دو بھتیجیوں کی تھی۔
جب
تمام لوگ کھانا کھا کر رخصت ہو گئے تو بچے ہوئے سالن کو گھر کے برتنوں میں بھرنے
کی بجائے محلے اور برادری والوں میں تقسیم کرنے کا سوچا گیا۔
برادری
کی جو عورت بھی گھر کو جاتی، سلمیٰ اُسے کسی برتن میں سالن ڈال کر روٹی سے ڈھانپ
کراُس کے ہاتھوں میں یہ کہہ کر تھما دیتی کہ آپ کے گھر کا فلاں بندہ نہیں آیا، یہ
اُس کی روٹی ہے۔
یہ
گاؤں کا رواج تھا۔ اگر ایک گھر سے ایک بھی شخض کسی مجبوری کی بنا پر شرکت کرنے سے
قاصر رہتا تو اُس کے حصے کی روٹی بھجوا دی جاتی۔
شام
تک تمام برادری والوں کے گھر گوشت اور چاول سے بھرے برتن پہنچ چکے تھے۔ جن لوگوں
کے گھر کھانا دیرپا ٹھنڈا رکھنے کی مشین فریج تھی اُنھوں نے تو ہفتے تک کا سالن
گھر میں رکھ لیا تھا۔
صبح
سے دن ہوا، دن سے شام اور شام سے رات مگر فواد
کے قدم رکنے نہ پائے۔ ایک پل کو سکون کا سانس لینے کی نوبت نہ آئی۔
لوگ
آتے، کھانا کھا کر چلے جاتے مگر اُن کے جانے کے بعد تمام چیزوں کو اپنی جگہ پر
دوبارہ رکھنے کے لیے بھی دگنا وقت درکار تھا۔
Comments
Post a Comment