ڈئیر ڈائری
مختلف ادوار میں مختلف لوگ ہماری زندگیوں میں داخل ہوتے ہیں۔
روزانہ ناجانے کتنے چہرے ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ بلا شبہ ان میں سے
کچھ چہرے بے حد حسین ہوتے۔ لیکن بہت کم چہرے ایسے ہوتے ہیں جو عام سے خدوخال رکھنے
کے باوجود ہمیں اس قدر بھاتے ہیں کہ آنکھ بار بار اُنھیں دیکھنے کی تمنا کرنے لگتی
ہے۔
ان چہروں کا تعلق بلا واسطہ یا بلواسطہ طور اُن روحوں سے
ہوتا ہے جن سے ہم آشنا ہوتے ہیں۔ ہاں! وہی روحیں جن سے ہم نے دوبارہ ملاقات کا عہد
کر رکھا ہوتا ہے۔ وہی روحیں جن سے ہمارا ملنا لکھا جا چکا ہے۔
٭٭٭٭٭
02 جون 2018
"امتحان سے فارغ ہوئے ایک ہفتہ کچھ دن زائد ہو چکے
ہیں۔ گزشتہ ہفتہ محض آرام اور نیند پوری
کرنے میں گزر گیا۔ امتحانات کی وجہ سے جسم
تھکاوٹ کا شکار جبکہ طبیعت بوجھل معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن الحمدُاللہ اب مکمل ہشاش
بشاش ہوں۔
گھرمیں رہتے ہوئے بوریت دور کرنے کا سب سے بہتر اور سود مند
طریقہ مطالعہ کتب تھا۔ لیکن میرے شیلف میں سجی تمام کتابوں کو میں متعدد دفعہ پڑھ
چکا تھا۔ ضرورت تھی تو نئی کتابوں کی۔
چونکہ اُردو بازار گھر سے کافی دور تھا لحاظہ روز روز
کتابیں خرید کر لانے میں مشکل درپیش ہو رہی تھی۔
اس کا حل بلاآخر یہ نکالاکہ روزانہ چند گھنٹے قریبی پبلک
لائبریری میں صَرف کیے جائیں۔
اول تو روز کوئی نہ
کوئی ایسا کام آ پڑتا جو میرے اور لائبریری کے درمیاں حائل ہو جاتا۔ لیکن بلاآخر
آج میری قسمت میں لائبریری آنا لکھا تھا۔
اس لائبریری کی سب سے منفرد چیز اس کے لان تھے۔ یہ چھوٹے
بڑے لان لائبریری کے چاروں اطراف میں واقع تھے۔جہاں درختوں کی آڑ سے آگے پھولوں
کی ایک باڑ تھی جنھیں گرمی کی شدت نے کافی حد تک متاثر کر دیا تھا۔ البتہ درختوں
کی ٹھنڈی چھاؤں سے لطف اُٹھانے کے لیے متعدد بینچ بھی لان میں نصب کیے گئے تھے۔
شیشے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک بڑا
کاؤنٹر تھا جہاں لائبریری سٹاف براجمان تھا۔ ان کے ساتھ ہی ایک علیحدہ کیبن لائبریری
ہیڈ کے لیے مختص تھا۔
کاؤنٹر سے ذرا آگے ایک بڑا دروازہ لائبریری کے مین ہال جبکہ
اُس کے دائیں جانب ایک چھوٹا دروازہ بالائی منزل جانے کے لیے مختص تھا۔
مین ہال میں داخل ہوتے ہی مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میں علوم
کے سمندر میں غوطہ لگانے جا رہا ہوں۔ اتنی کتابیں ایک ساتھ دیکھ کر کسی مجھ جیسے
کتابوں کے شیدائی کی تو بانچھیں کھلنا ممکن ہے۔
ہال کو متعدد موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا تھا۔ جیسے
اول سائنس، پھر فلسفہ، پھر تاریخ وغیرہ ۔
ادب کا حصہ دائیں جانب پانچواں تھا۔
تیسرے شیلف کی دوسری قطار میں آخر سے ساتویں کتاب علی اکبر
ناطق صاحب کی کتاب "نولکھی کوٹھی" تھی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے
لیے میں ایک عرصے سے بے چین تھا لیکن کہیں سے اس کا کوئی نمونہ دستیاب نہیں ہو رہا
تھا۔ آج بلاآخر میں یہ کتاب پڑھنے جا رہا تھا۔
لیکن جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ اس کتاب کی جانب بڑھانا چاہا
۔ میرے ہاتھ سے قبل ہی کسی کا ہاتھ اُس کتاب کو اپنے ہاتھوں میں تھام چکا تھا۔
وہ ہاتھ ایک لڑکی کا تھا۔
ناجانے اُس لڑکی کی صورت زیادہ خوبصورت تھی یا اُس کے ہاتھ
یا پھر وہ لمحات۔
میرا ہاتھ ہوا میں جبکہ آنکھیں اُس کے چہرے پر معلق
تھیں۔
"تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ اس جہان کی تو نہیں لگتی۔
کس دیس سے ہو؟ "
میرے ذہن میں ایسے سوال نا جانے کیوں آنے لگے تھے۔
ناجانے کیوں میری آنکھیں اُس کے چہرے کا طواف کرنے لگی
تھیں۔
اُس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ بے حد خوبصورت۔ شاید میں
نے آج تک ایسی خوبصورت آنکھیں نہیں دیکھی تھیں۔
اور اگر دیکھی بھی تھیں تو شاید ان جیسی کشش کسی میں نہ
تھی۔"
٭٭٭٭٭
"02 جون 2018
امتحانات ختم ہوتے ہی میں نے روز لائبریری جانے کا ارادہ کر
لیا تھا۔ لیکن ایک ہفتہ یوں ہی گزر گیا اور آخر آج میں لائبریری آئی۔
اول تو میں یوں ہی ہال میں چکر کاٹتی اور کتابوں کو گھورتی
رہی لیکن بلا آخر ادبی حصہ میں ایک کتاب پر نظر پڑی۔
"نو لکھی کوٹھی" کی ابتدائی دو اقساط میں نے ایک
پرانی میگزین میں پڑھی تھیں لیکن پھر آگے کی اقساط پڑھنے کا اتفاق نہ ہو سکا۔
اس کتاب کے نظر آنے کی دیر تھی کہ میں نے لپک کر اسے
اُٹھانا چاہا۔
لیکن اسی لمحے میں نے ایک اور ہاتھ بھی اس کتاب کی جانب
بڑھتے دیکھا۔
یہ ایک لڑکے کا ہاتھ جو شاید اس کتاب کو اُٹھانے والا تھا
لیکن شاید میرا ہاتھ اُس سے پہلے اس کتاب کو تھامنے میں کامیاب ہو گیا۔
لیکن کچھ عجیب بات ہوئی اس مختصر سے لمحے۔
ناجانے کیوں اُس کا ہاتھ ہوا میں معلق ہو گیا۔
اور اُس کی نظریں میرے چہرے پر جم گئیں۔
ہماری آنکھیں دو چار ہوئیں۔
اُس کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی روشنی چمکتی محسوس ہوئی۔
بلکل جیسے سیاہ رات میں جلتے دیے کی لو ٹمٹماتی ہے۔
ناجانے کیوں میں اُس کی گہری سیاہ آنکھوں کو گھورے جا رہی
تھی۔
"آئی ایم سوری! اگر یہ کتاب آپ کو چاہیے ۔۔۔ تو آپ رکھ
لیں" میں مخاطب ہوئی۔
" نہیں! کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ پڑھ لیں اسے۔۔۔ میں کوئی
اور کتاب دیکھ لیتا ہوں" وہ بولا اور اگلے ہی لمحے ساتھ کی کتابوں کو ٹٹولنے
لگا۔
میں یہ کتاب لے کر شیلف سے ذرا ہٹ کر کھڑکی کے قریب رکھی
ایک کرسی پر آ بیٹھی۔
میری نظر اُس پر پڑی تو وہ ذرا محنت کے بعد کوئی کتاب تلاش
کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
وہ کتاب لے کے شیلف کے دوسری جانب والی قطار میں جا بیٹھا۔
ہم دونوں بلکل مخالف سمت میں مگر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
اگرچہ میری میری نظریں کتاب پر تھیں لیکن دھیان اُسی جانب
تھا۔"
٭٭٭٭٭
"15 جون
2018
آج لائبریری کے اندر داخل ہونے کی دیر تھی کہ کاؤنٹر پر ایک
لڑکی کو "نو لکھی کوٹھی" کتاب واپس کرتے دیکھا۔ سفید جوڑے میں ملبوس، جس
پر ہلکے ریشمی دھاگے سے متعدد چھوٹے اور بڑے پھول بنائے گئے تھے اور سر پر سلیقے
سے رکھا ریشمی دوپٹا۔
اُس لڑکی کا رخ کاؤنٹر کی جانب ہونے کی وجہ سے میں اُس کا
چہرہ ٹھیک سے نہ دیکھ پایا۔
"یہ کتاب مجھے چاہیئے۔" میں ذرا کاؤنٹر کی جانب
بڑھتا ہوا بولا۔
یک لخت اُس لڑکی نے اپنا رخ آواز کے تعاقب میں میری طرف
موڑا۔
یہ وہی ماہ رخ تھی۔
نین سے نین ملنے کی دیر تھی کہ میرا وجود ساقط ہو گیا۔
الفاظ میرے حلق میں پھنسے رہ گئے جبکہ سانس کہیں جسم میں ہی معلق رہ گیا۔
اُس کی آنکھوں میں اب بھی ویسی ہی ایک غیر معمولی کشش تھی۔
" تم کہاں تھی اتنے روز؟ میری آنکھیں روز تمہیں اس
لائبریری کے آس پاس تلاش کرتی رہیں۔ کہاں چلی گئی تھی؟ کہیں پرستان واپس تو نہیں
لوٹ گئی تھی؟"
میرا ذہن میں ایسے متعدد سوال آ رہے تھے۔
اگر وہ مجھے مخاطب نہ کرتی تو شاید قیامت تک یوں ہی کھڑا
اُسے دیکھتا رہتا۔ شاید سانس یوں ہی جسم میں معلق رہتا اور اُس کے دیدار میں ہی
روح جسم سے پرواز کر جاتی۔
" میں یہ کتاب پڑھ چکی ہوں۔ اب آپ یہ کتاب ایشو کروا
سکتے ہیں" اُس نے کتاب میری جانب بڑھائی۔
اُس کے خوبصورت ہاتھوں نے کتاب کو تھام رکھا تھا۔ جبکہ
کلائی پر بندھے بریسلیٹ کی چین ہلکے سے کتاب کو چھو رہی تھی۔"
٭٭٭٭٭
"15 جون
2018
آج بہت دنوں بعد لائبریری جانا ہوا۔
گزشتہ دو ہفتوں سے گھریلو معاملات میں ایسی الجھی کہ دوبارہ
لائبریری چکر لگانے کا موقع تک نصیب نہ ہوا۔
آج لائبریری میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا کام مجھے کتاب
واپس کرنا تھا۔
ابھی سٹاف نےرجسٹر سے میرا نام تلاش کر کے اُس کے سامنے
والے کالم میں Returned لکھا ہی تھا کہ مجھے دائیں جانب سے ایک جانی
پہچانی آواز سنائی دی۔
" یہ کتاب مجھے چاہیئے"
میں نے آواز کے تعاقب میں نظریں دوڑائیں تو وہی لڑکا نظر
آیا جو اُس دن یہ کتاب اُٹھانے والا تھا۔
لیکن آج بھی وہی ہوا۔ نظریں ملنے کی دیر تھی کہ جیسے وہ سب
بھول گیا ہو۔
شاید وہ کچھ بولنے
والا تھا لیکن زبان بولنا بھول گئی۔
شاید وہ سانس لینا چاہ ررہا تھا لیکن جسم سانس لینا بھول
گیا۔
میں سمجھ نہ پائی کہ میں اُس کی حالت پر اتنا غور کیوں کر
رہی تھی۔
٭٭٭٭٭
21 جون 2018
" آج یونیورسٹی کا ٹیسٹ بھی بلا آخر دے آیا۔ رات دیر تک ٹیسٹ کی تیاری کرنے کی وجہ سے صبح
مشکل سے آنکھ کھلی۔
بھاگ دوڑ میں ناشتہ کیا اور رول نمبر سلپ اُٹھا کا گھر سے
نکل پڑا۔
ٹیسٹ نو بجے شروع ہونا تھا اور میں گھر سے تقریباَساڑھے سات
کے قریب نکلا۔قریبی میٹرو سٹیشن میرے گھر سے دس منٹ کے پیدل سفر پر ہے۔ پونے
آٹھ تک میں میڑو بس میں سوار ہو چکا تھا۔
یونیورسٹی والےمیٹرو سٹیشن پر اُترکر میں نے گھڑی سے وقت
دیکھا تو ساڑھے آٹھ ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔
نو بجنے سے ذرا قبل میں اپنی نشست پر براجمان ہو چکا تھا۔
ہال میں سینکڑوں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں امتحان دینے
کو آئے تھے۔
اپنے کالج سے بھی متعدد چہرے میں وہاں موجود دیکھ رہا تھا۔
کچھ سے ٹیسٹ دینے کے بعد ملاقات بھی ہوئی۔
کالج کا ٹاپر ہونے کی بنا پر اکثر نے میرے ساتھ ٹیسٹ ڈسکس
کرنے کی بھی کوشش کی لیکن چونکہ میں کسی بھی امتحان کے بعد اُسے ڈسکس کرنا غلط اور
وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں اسی لیے میں وہاں سے نکل آیا۔
شدید گرمی میں میٹرو کا سفر کر کے گھر پہنچا۔ کھانے کے بعد
کچھ دیر سو گیا اور عصر کے بعد واک پر نکل گیا۔"
٭٭٭٭٭
22 جون 2018
"کل گرمی شدید تھی اور یونیورسٹی کا انٹری ٹیسٹ بھی کل
ہی تھا۔ مقررہ وقت سے پندرہ منٹ پہلے یعنی
8:45 پر میں ٹیسٹ دینے کے لیے اپنی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی۔
میری بائیں جانب تین قطاریں چھوڑ کر آگےسے پونچویں سیٹ پر
وہ بیٹھا تھا۔ سادی سے بلیک پینٹ اور آف وائٹ شرٹ میں ملبوس وہ نو بجنے سے دو منٹ
قبل ہی ہال میں پہنچا۔
اُس کی آمد غیر متوقع تھی۔
ٹیسٹ کے دوران اکثر میری نظر اُس پر پڑ جاتی۔ تمام ٹیسٹ اُس نے بڑے پر سکون
انداز سے دیا۔ کہیں سے بھی بے چینی یا
پریشانی سے تاثرات دیکھنے کو نہ ملتے تھے۔
ٹیسٹ ختم ہونے سے پندرہ منٹ قبل جب گھنٹی بجا کر ہمیں متوجہ
کیا گیا تب میری نظر اُس پر پڑی تو وہ ٹیسٹ مکمل کر کے گھڑی کی سوئیاں گھور رہا
تھا۔
ابو صبح مجھے اور میری دوست ارم کو یہاں ٹیسٹ دینے کے لیے
چھوڑ گئے تھے۔ ارم کا ہال چونکہ دوسرا تھا اسی لیے میں باہر کھڑی اُس کا انتظار کر
رہی تھی جب میری نظر اذرا فاصلے پر پڑی جہاں وہ لڑکوں میں گھرا کھڑا تھا۔ بعض
لڑکیاں بھی مجھے کچھ فاصلے پر کھڑی نظر آئیں۔
شاید ہو سب اُس سے کچھ پوچھ رہے تھے۔ لیکن کچھ دیر بعد میں
نے اُسے وہاں سے نکلتے دیکھا۔
اس دوران میری کوشش یہی رہی کہ اُس کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔
"کیسا ہوا ٹیسٹ؟ "ارم کے آنے پر میں نے پوچھا۔
" بس ہو گیا یار!۔۔ چلو گیٹ پر چلتے ہیں ۔۔ انکل کھڑے
انتظار کر رہے ہوں گے"
مین گیٹ سے ذرا فاصلے پر درختوں کی چھاؤں میں ابو گاڑی لیے
کھڑے تھے۔ گاڑی میں بیٹھتے وقت مجھے وہ میٹرو
سٹیشن کی سیڑھیاں چڑھتا دکھائی دیا۔ "
٭٭٭٭٭
13 جولائی 2018
" ساون کے موسم میں کس وقت بارش برس جائے کچھ علم
نہیں۔ شہر کے کسی ایک حصے میں بارش ہے تو
ممکن ہے دوسری جانب تیز دھوپ ہو۔
موسم صاف مان کر اگر بغیر چھاتا لیے گھر سے نکل پڑو اور
اچانک سے تیز بارش برس جائے تو کبھی بس سٹینڈ، کبھی میٹرو کا پل اور کبھی کسی دکان
میں جا کر بارش سے بچاؤ کیا جاتا ہے۔
صبح بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ کچھ کتابیں خریدنے بازار
گیا اور واپسی پر اچانک بارش نے آ گھیرا۔
نتیجتاَ کتابوں کو بچاتا بھیگتا ہوا گھر پہنچا۔ البتہ شام
تک موسم بلکل صاف ہو گیا اور آسمان پر ایک بادل بھی دیکھنے کو نہ ملا۔
آج دن کو ایک اور خوشخبری نصیب ہوئی۔ یونیورسٹی کی طرف سے
کال لیٹر آ گیا تھا اور یکم ستمبر سے کلاسس شروع تھیں۔"
٭٭٭٭٭
03 اگست 2018
" آج یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔ میں اور ارم ایک ساتھ
یونیورسٹی پہنچے۔
چونکہ میسیج سے ہی ہمیں کلاسس کا معلوم ہو چکا تھا۔ اسی
واسطے گیٹ پر ہی گارڈ سے متعلقہ بلاک اور کمرے کا پوچھ لیا۔
کلاس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل ہم کلاس روم میں پہنچ چکے
تھے۔ جہاں ہم سے قبل ہی کافی لڑکے اور لڑکیاں موجود تھیں۔
پہلی کلاس شروع ہوئی اور میم نے سب کو ڈائس پر آ کر انٹرو
دینے کا کہا۔
شروعات لڑکوں کی طرف سے ہوئی۔
اگرچہ بہت لڑکوں نے انٹرو دیا۔لیکن میرا دھیان اُن میں سے
کسی پر بھی نہ تھا۔
دوسری قطار پر بیٹھا چوتھا لڑکا جب ڈائس پر اپنا تعارف
کروانے آیا تو اُس کا چہرا دیکھ کر مجھے 440 والٹ کا شدید جھٹکا لگا۔
جسے ارم نے بھی محسوس کر لیا۔
یہ توہ ہی لڑکا تھا۔
ہاں! وہی جو مجھے پہلے دن لائبریری میں نظر آیا۔
پھر دوسری مرتبہ جب میں کتاب واپس کر نے گئی تب۔
اور اُس کے بعد مسلسل مجھے لائربیری میں کثرت سے نظر آتا۔
اور یونیورسٹی کا ٹیسٹ دیتے ہوئے بھی۔
میں نہیں جانتی تھی کہ اُس کے سامنے آنے سے میں کیوں ڈر رہی
ہوں۔ "
٭٭٭٭٭
03 اگست 2018
" پرسوں ہمیں Orientation پر
بلایا گیا۔ جہاں کیمپس کے متعلق آگاہ کیا
گیا اور آئندہ سمسٹر کے متعلق چند ضروری ہدایات بھی دیں گئیں۔
اور آج بلاآخر کلاسس کا آغاز ہو رہا تھا۔
وقت پر ہی گھر سے نکلا اور کلاس سے آدھ گھنٹہ قبل کیمپس
پہنچ گیا۔
کلاس روم قائد بلاک کی دوسری منزل پر واقع تھا۔ جہاں مجھ سے
قبل صرف دو لڑکے بیٹھے تھے۔ جن میں سے ایک
سیالکوٹ اور دوسرا ملتان سے تھا۔
رفتہ رفتہ کمرہ بھرنے لگا ۔
یک لخت دروازے سے اندر داخل ہوتی لڑکی نے مجھے چونکا کر رکھ
دیا۔
یہ تو وہی لڑکی تھی
جس سے لائبریری میں ملاقات ہوئی تھی۔
وہی جس نے مجھ سے قبل کتاب اُٹھا لی تھی۔
آسمانی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ، سر پر ریشمی دوپٹا اوڑھے،
بالوں کی دو لٹوں کو چہرے سے ہٹاتے ہوئے وہ دوسری لڑکی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک نظر حاضرین پر دوڑا
کر وہ بائیں طرف والی کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھی۔
میم کے کہنے پر جب میں اپنا انٹرو دینے کے لیے ڈائس پر گیا
تو میں نے غور کیا وہ میری طرف بڑی غور سے سن رہی تھی۔
اور جب اُس نے تعارف کروایا تو مجھے معلوم ہوا اُس ماہ جبیں
کا نام کائنات تھا۔"
٭٭٭٭٭
12 ستمبر
2018
" یونیورسٹی میں پہلا ایک ماہ
بہت اچھا گزر گیا۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا سب سے اہم
تھا۔
البتہ پوری کلاس سے میں واقف ہو
چکی ہوں لیکن پھر بھی میں کوشش کرتی ہوں کہ سب سے دور رہوں۔
میری اس بات کو ارم نے بھی نوٹ کر
لیا تھا۔
"یار! جہاں کہیں کلاس کی
گیڈرنگ ہوتی ہے تم وہاں سے اُٹھ کر کیوں چلی جاتی ہو"
" مجھے اُن میں بیٹھنا پسند
نہیں"
" یار! یونیورسٹی میں چا رسال
گزارنے ہیں ۔ دوستیاں تو کرنی پڑیں گی"
" ارم! میں یہاں دوستیاں کرنے
نہیں آئی"
شاید میرا جواب اُسے کچھ زیادہ
پسند نہ آیا ہو۔ لیکن حقیقت تو یہی تھی۔
میں نے بہت کوشش کی تھی کہ میری
دوستی صرف ارم اور ایک آدھ اور لڑکی سے محدود رہے۔ جس کوشش میں بہت حد تک میں
کامیاب بھی ہوئی۔
میں نہیں چاہتی تھی کہ میں بھی اُن
لڑکیوں میں شامل ہو جاؤں جو یونیورسٹی آ کر اپنے والدین کی تربیت کو بھلا بیٹھتی
ہیں۔
اکثر کلاس سے تھوڑا فارغ وقت پا کر
جہاں دوسری لڑکیاں کیفے میں جا کر لڑکوں کے گروپ میں بیٹھ جاتی تھیں وہیں میں ارم
کو لیے اکثر لائبریری کا رخ کر لیا کرتے۔
لائبریری جانے کی تین اہم وجوہات
تھیں۔
ایک تو یہ کہ یونیورسٹی کا جتنا
کام ہے وہ لائبریری میں ہی بیٹھ کر ختم کر لیا جائے۔ کیوں کہ جب سے امی بیمار ہیں
گھر کی تمام ذمہ داریاں تو مجھ پر ہی آن پڑی ہیں۔
دوسری یہ کہ لائبریری ہی وہ واحد
جگہ ہے جہاں مجھے سکون ملتا ہے۔
اور تیسری یہ کہ میں باقی لوگوں سے فرار چاہتی تھی۔
یونیوورسٹی کے پہلے ایک ماہ میں ہی
میں نے نوٹ کر لیا تھا کہ کلاس کے اکثر لڑکوں کی یہی کوشش رہی کہ کسی لڑکی سے
دوستی کر لی جائے۔
کلاس میں تعدد گروپ بن چکے تھے۔
لیکن میرا گروپ تو ایک ہی تھا۔ یعنی میں اور ارم۔"
٭٭٭٭٭
25
اکتوبر 2018
" بلاآخر یونیورسٹی میں پہلے امتحانات آ گئے۔ چند سینئیر
سے معلوم ہوا تھا کہ یونیورسٹی کے پہلے امتحانات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
اگلے چار سالوں کا دارومدار انہی
امتحانات پر ہے۔
اسی واسطے میں امتحانات کی تیاری
میں شدت لے آیا۔ میں صبح کلاس سے قبل ہی یونیورسٹی آ جاتا اور لائبریر ی کے ایک
کونے میں بیٹھ کر امتحانات کی تیاری کرتا رہتا۔
یہی معمول کلاس کے بعد بھی ہوتا۔
ان دنوں میں نے کلاس کے کسی بھی فرد سے میل جول موقوف کر دیا۔
در اصل گزشتہ کچھ دنوں سے والد
صاحب بیمار تھے۔ اور بیماری کی وجہ سے وہ زیادہ دیر دکان پر نہ بیٹھ سکتے تھے۔
دن تو چلو کرم دین چاچا کام سنبھال
لیتے لیکن شام کے بعد اُن سے بھی کچھ خاص کام نہ ہوتا۔
اور دکان کا حساب کتاب کرنا بھی
اُن سے نہ آتا۔
شام کو یونیورسٹی سے واپسی پر میں
گھر کی بجائے سیدھا دکان کا رخ کرتا ۔ جہاں جا کر تمام حساب کتاب، کھاتے دیکھنا،
کم سامان کی لسٹ وغیرہ بنانا میری ذمہ داری ہوتی۔
کبھی نو اور کبھی دس بجے گھر واپسی
ہوتی۔
ہفتہ اتوار کو اگرچہ یونیورسٹی سے
چھٹی ہوتی لیکن ان دنوں کام کی زیادتی ہوتی۔ بس دعا یہی کہ ابو جلد صحت یاب ہو
جائیں۔ تاکہ میں اپنا پورا دھیان امتحانات کی جانب دے سکوں۔
ان دنوں ایک نہایت عجیب بات ہوئی۔
کائنات نے پہلی دفعہ مجھ سے بات کی۔
" اسلام علیکم! کیا آپ یہ
سوال سمجھا سکتے ہیں" ایک مانوس سی آواز سن کر میں نے سر اُٹھایا۔
یہ کائنات تھی۔ آج سے قبل میں نے
اُسے کسی لڑکے سے بات کرتے نہیں سنا تھا۔
" وعلیکم سلام! جی کون سا
سوال؟" میں نے ہوچھا۔
" یہ 3.2 کا پانچواں سوال" اُس نے
کتاب میز پر رکھ کر انگلی سے نشاندہی کی۔
" جی ضرور!" میں نے سوال پڑھ کر جواب دیا۔
یہ سوال حقیقتاَ ایک مشکل ترین
سوال تھا۔ جسے میں نے خود بہت محنت سے سمجھا تھا۔
" آپ بیٹھیں میں سمجھاتا
ہوں" میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا اور اپنا رجسٹر نکالنے لگا۔
" جی میں ایسے ٹھیک ہوں۔ آپ
کائنڈلی اس رجسٹر پر کر دیں" اُس نے اپنا رجسٹر میری جانب بڑھایا۔
میں نے رجسٹر پکڑا جس کے صفحات پر
اس سے قبل بھی بڑی خوبصورت لکھائی میں سوالات حل کیے گئے تھے۔
میں حیران اس بات پر تھا کہ اگر
محض کرتے وقت لکھائی ایسی ہے تو اصل میں کیسی ہو گی۔"
٭٭٭٭٭
01 نومبر
2018
" شکر ہے اللہ کا۔۔ آج یونیورسٹی میں پہلئ مڈز ختم ہو گئے۔ یہ
چند روز بہت ہی مشکل گزرے۔
تمام دن یونیورسٹی میں گزارنے کے
بعد گھر جاتے ہی آرام کرنے کی بجائے مجھے کچن میں جا کر رات کا کھانا بنانا ہوتا۔
کھانا بنا کر کچھ دیر آرام کرتی۔
پھر کھانا کھا کر کچن سمیٹنا اور
صبح ناشتے کے لیے چیزیں پہلے سے تیار رکھنا ہوتیں۔
اگر کچھ وقت بچتا تو کتابیں کھول
کر کچھ دیر پڑھ لیتی وگرنہ سو جاتی۔
امی کو جب سے ٹائیفائیڈ ہوا تھا تب
سے وہ زیادہ گھر کے کام کاج نہ کر پاتیں۔
پیپرز کی تیاری اکثر میں لائبریری
میں ہی کرتی۔ کیوں کہ میں جانتی تھی کہ گھر آ کر پڑھائی کرنا ممکن نہ ہو سکے گا۔
اور سچ بھی یہی تھا۔ ا بھی پرسوں
کی بات ہے میں کتابیں کھولے دوسرے کمرے میں بیٹھی تھی کہ کچھ سرچ کرنے کے بہانے
فون اُٹھایا اور وہیں سامنے سٹیفن ہاکنگ کا ایک کوٹ بڑا پسند آ گیا جسے سٹیٹس پر
لگا دیا۔
کچھ لمحےہی گزرے تھے کہ امی کا
میسیج آیا ، جو ساتھ والے کمرے میں بیٹھی تھیں۔
" اچھا تو یہ پڑھائی ہو رہی
ہے"
" امی! پڑھا نہیں جا رہا ۔۔
تھک گئی ہوں"
" اچھا تھک گئی ہو تو آرام
بعد میں کرنا ۔۔۔ ابھی اُٹھو اور آ کر چاول چڑھا دو چولہے پر"
بھلا ایسے ماحول میں کیسے پڑھنے ہو۔
میتھیس کی تیاری میں مجھے کچھ مشکل
درپیش آ رہی تھی۔
ایک گھنٹے سے زائد وقت میں نے ایک
ہی سوال پر خرچ دیا۔ اتنا عجیب سوال تھا کہ سمجھ میں ہی کچھ نہ آ رہا تھا۔
تب ہی میری نظر لائبریر ی میں
دائیں جانب والی دیوار کے ساتھ پر بیٹھے خرم پر پڑی۔
شاید میں ڈائری میں اُس کا نام
بتانا بھو ل گئی۔
خرم وہی لڑکا ہے جس سے میری ملاقات
آج سے چھ ماہ قبل پبلک لائبریری میں ہوئی تھی۔
خرم کا شمار کلاس کے ذہین ترین
لڑکوں میں ہوتا ہے۔
لیکن ایک بات جو اسے سب سے ممتاز
بناتی ہے وہ ہے اس کا سنجیدہ پن۔
یہ ہمیشہ خاموش اور اپنے کام سے
کام رکھنے والوں میں سے ہے۔
اس کا ٹھکانہ بھی لائبریری ہے جہاں
سے عموماَ کتابوں میں گھرا پایا جاتا ہے۔ شاید اسےکتابوں سے رغبت مجھ سے زیادہ ہے۔
کلاس میں ابھی تک میتھیس میں سب سے
آگے خرم ہے۔ کر کووز میں اس کے نمبر تقریباَ پورے ہی ہوتے ہیں۔
میں جانتی تھی کہ یہ سوال اُسے
ضرور آتا ہو گا۔ لیکن میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اُس کے پاس جا کر یہ سوال پوچھ
سکوں۔
ارم بھی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی
کہ اُسے ساتھ لے جا سکوں۔
بلا آخر میں نے ہمت پکڑی اور کتاب
اُٹھا کر اُس کے ٹیبل کی جانب چل پڑی۔
اپنے سامنے کتابوں کا ڈھیڑ لگائے
وہ اُن میں گھرا بیٹھا تھا۔
میری گزارش پر اُس نے سوال حل
کروانا شروع کر دیا۔
میں کے ساتھ ہی کھڑی تھی ۔
سوال حل کرتے وقت اُس نے ایک دفعہ
بھی نظر اُٹھا کر میری جانب نہیں دیکھا۔
وہ رجسٹر پر حل کرتے کرتے مجھے
ساتھ ساتھ سمجھاتا جاتا۔
بلاشبہ جس میٹھیڈ سے اُس نے سوال
حل کیا اس طرح تو ہمیں میتھیس کے ٹیچر نے بھی حل نہیں کروائے تھے"
٭٭٭٭٭
18
جنووری 2019
" پہلے سمسٹر کا رزلٹ آ چکا
ہے۔ الحمدُاللہ جس کی کوشش میں نے پہلے پورے سمسٹر میں کی تھی آج میں اُس میں
کامیاب ہو چکا ہوں۔
میں نے پہلے سمسٹر میں پورے بیچ
میں ٹاپ کر کے گولڈ میڈل حاصل کر لیا۔
اب مجھے جی پی اے مینٹین کرنے پر
یونیورسٹی کی طرف سے سکالرشپ بھی مل جائے گی۔
گھریلو حالات کو مدِ نظر رکھتے
ہوئے میرے لیے سکالرشپ حاصل کرنا نہایت اہم تھا۔
میری تمام کاوشیں اسی متعلق ہی تو
تھیں۔ میں یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح میرا بوجھ کم سے کم ہو۔ میرے بعد حمزہ اور
مریم کی پڑھائیاں بھی تو رہتی ہیں۔
اس مہنگائی کے دور میں گھریلو
اخراجات علیحدہ۔
ہمارے بیچ میں ایک گولڈ میڈل، دو
سلور میڈل اور ایک برونز میڈل تھے۔
سلور میڈل لینے والوں میں سے ایک
کائنات بھی تھی۔ بلاشبہ سلور میڈل حاصل کر کے اُس نے سب کو حیران ہی کر دیا۔
شاید میرے علاوہ کوئی توقع نہیں کر
سکتا تھا کہ وہ سلور میڈل حاصل کر پائے گی۔
کائنات ایک سلجھی لڑکی ہے جس کا
تعلق کسی شریف گھرانے سے لگتا ہے۔ پوری کلاس میں شاید صرف ہم ہی وہ دو لوگ ہیں جن
کا لائبریری آنے کا مقصد محض علم کے سمندر میں غوطہ زن ہونا ہے ۔ ورنہ اکثر کلاس
فیلو تو یہاں ڈیٹ مارنے کی غرض سے بھی آتے ہیں۔
میری خود بھی ہمیشہ یہی کوشش رہی
اور میں ہمیشہ سے اُن لوگوں کو پسند کرتا ہوں جو اپنے کام سے کام رکھنا پسند رکھتے
ہیں۔
مجھے ہمیشہ اُن لوگوں سے شدید نفرت
رہی جو کسی دوسرے کے کام میں بلاوجہ
مداخلت کرتے ہیں۔
یونیورسٹی میں میرا سامنا جن لوگوں
سے ہوا اُن میں چال باز لوگ بھی تھے، مطلبی بھی اور سانپ بھی۔
اسی واسطے میری کوشش پہلے ہفتے کے
بعد سے ہی یہی تھی کہ سلام دعا سب سے لیکن دوستی صرف محدود لوگوں سے۔
میں اکیلا رہنا پسند کرتا ہوں تبھی
تو تمام دن لائبریری کے کونوں میں پڑا رہتا ہوں۔
ناول آخری آرام گاہ میں پڑھا تھا
کہ "میری تنہائی میری واحد رفیق ہے
جو مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑتی "۔
یونیورسٹی میں جب لوگوں کو معلوم
ہو جائے کہ کسی خاص مضمون میں آپ کی گرفت اچھی ہے تو وہ کوشش کریں گے کہ آپ سے
تعلقات بڑھانا چاہیں۔
اُن کی تمام کوشش یہی ہوتی ہے کہ
اُس خاص مضمون میں اُنھیں آپ کی امداد یا تعاون نصیب ہو سکے۔
میں نے جیسے ہی یہ جان لیا تب سے
ہی میں نے اُن لوگوں سے فاصلہ قائم کرنا شروع کر دیا۔ بس جب کام کے لیے آتے ،
خاموشی سے اُن کا کام کر کے ایک طرف کو ہو جاتا۔
میں نہیں چاہتا ایسے لوگوں کے ساتھ
تعلق رکھوں جو بعد میں کسی صورت مجھے نقصان پہنچائیں یا جن سے میری پڑھائی متاثر
ہو۔"
٭٭٭٭٭
18 جنوری
2019
"آج رزلٹ اناؤنس ہوا۔ رزلٹ
دیکھ کر تو میں خوشی سے پاگل ہونے کے قریب تھی۔
فرسٹ سمسٹر کے نتائج سے معلوم ہوا
کہ میں نے تمام بیچ میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مجھے میری
کارکردگی پر سلور میڈل ملے گا۔
آج ابو نے بھی مجھے گلے لگا کر سر
پر پیار دیا۔
نا جانے کب سے میں اُن کی طرف سے
ایسی داد کی خواہش مند تھی۔ جب ابو نے گلے لگایا تو مجھے نہیں معلوم ایسا کیا ہوا
کہ میں زاروقطار رونے لگ گئی۔
میں آج تک سکول اور کالج میں بھی
ٹاپ کرتی آئی تھی، ملک کی نامور یونیورسٹی میں داخلہ بھی ہو گیا تھا لیکن ابو نے
کبھی کسی قسم کی داد نہیں دی۔ بس مٹھائی لے آتے اور ہلکی سی مبارک دے کر سر پر
ہاتھ پھیر دیتے۔
مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اب
یونیورسٹی سکالرشپ دے گی جس سے ابو کے سر میرا کچھ بوجھ تو کم ہو گا۔
میں متعدد مرتبہ اُنھیں امی سے یہ
کہتے سن چکی ہوں کہ " کائنات کو پڑھا کر کیا کرنا ہے ۔۔ کہیں بیاہ دو"
اب مطمئن ہوں کہ ایک تو میری فیس
بوجھ نہ بنے گی اور دوسرا کہ جب تک میری پڑھائی مکمل نہیں ہو جاتی تب تک گھر والے میری شادی کا نہیں سوچیں گے۔
ناجانے ہمارے معاشرے میں بیٹی کو
بوجھ کیوں سمجھا جاتا ہے۔
بیٹی چاہے جتنی بھی ذہین کیوں نہ
ہو اُسے ہمیشہ بیٹے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ اور ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ بیٹی کی
پڑھائی لکھائی پر خرچہ کرنے کی بجائے اُنھی پیسوں کو اُس کا جہیز تیار کرنے پر لگا
دیں۔
کب یہ معاشرہ سمجھے گا کہ بیٹی کے
لیے سب سے اچھا جہیز اُس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
یونیورسٹی میں میرے علاوہ دوسرے
سیکشن کے ایک لڑکے نے سلور میڈل لیا۔
اور ہمارے سیکشن میں سے میرے علاوہ
خرم نے فرسٹ پوزیشن حاصل کر کے گولڈ میڈل جیتا۔
اس بات کا اعزاز بھی ہمارے سیکشن
کو جاتا ہےکہ ایک سیکشن میں سے ہی دو لوگوں نے ایک گولڈ میڈل اور ایک سلور میڈل
حاصل کیا۔
خرم واقعی بہت ذہین لڑکا ہے۔ کلاس
میں سب سے منفرد اور تنہا رہنے والا۔
گولڈ میڈل لینے سے قبل بھی جب کبھی
وہ کلاس میں داخل ہوتا تو تمام لڑکے اُس کے آگے پیچھے منڈلانے لگتے۔
سب سے خوش دلی سے ملتا، سب سے گپ
شپ اچھی تھی۔
لیکن ایک بات میں نے نوٹ کی کہ وہ
لڑکیوں سے کتراتا ہے۔ اور خاص کر کے مجھ سے۔
اگرچہ ہمارے سیکشن کی کافی لڑکیوں
نے کوشش کی کہ کسی طرح اُس سے دوستی بنائی جائے لیکن وہ کسی کو اہمیت نہیں دیتا
اور اکثر لائبریری میں اکیلا ہی ایک کونے میں کتابوں میں گھرا بیٹھا رہتا۔
ہم دونوں یونیورسٹی آنے سے قبل بھی
ایک دوسرے سے مل چکے ہیں لیکن یونیورسٹی میں ایک سمسٹر گزرنے کے باوجود بھی کبھی
اس موضوع پر بات نہیں ہوئی۔
جب کبھی اُس کا میرے ساتھ آمنا
سامنا ہوا میں نے اُسے گبھرایا ہوا پایا۔
وہی خرم جو ڈائس پر بولنا شروع کرتا
ہے تو تمام کلاس کو خاموش اور متوجہ کر دیتا ہے جب میرے سامنے آتا ہے تو کچھ بول
نہیں پاتا۔
خود میری بھی تو یہی حالت ہوتی ہے
اُس کے سامنے۔
میں بھی تو ارم کے سامنے جتنا مرضی
ہے بولتی رہوں لیکن جب وہ کبھی آس پاس بیٹھا ہو تو کچھ بول نہیں پاتی۔"
٭٭٭٭٭
21 مئی
2019
"سیکنڈ سمسٹر اب ختم
ہونے کے قریب ہے۔ محض چند ہفتے ہی رہ گئے
ہیں۔
آج آئی ۔ٹی کے سبجیکٹ کی فائنل
پرزینٹیشن تھی۔ سر نے میرا، کائنات، ارم
اور حظیفہ کا ایک گروپ بنا دیا۔
ہمیشہ کائنات کے سامنے آنے سے میں
کتراتا تھا۔ ناجانے اُس لڑکی میں ایسا کیا تھا کہ جب بھی میں اُس کے سامنے جاتا
میں کچھ بولنا بھول جاتا ۔
لیکن ایسا بھی تھا کہ جب بھی اُسے
دیکھتا مجھے ایک عجیب سی فرحت کا احساس ہوتا۔
چونکہ میری کمیونیکیشن سکلز باقی
سب کی نسبت کافی بہتر تھیں اس لیے مجھے گروپ لیڈر بنا دیا گیا۔
میں نے لیب کے کمپیوٹر سے سلائڈز
بنائیں اور ہر ممبر کر کردار مختص کر دیا۔
اس تمام دوران کائنات سے میری اکثر
بات چیت ہوتی۔ موضوعات کی تیاری میں وہ
اکثر میری مدد کرتی۔
کبھی کبھار واٹس ایپ چیٹ پر بھی
ہماری بات ہو جاتی۔
لیکن ہماری گفتگو کا تمام تر موضوع
پریزنٹیشن یا یونیورسٹی کا کام رہتا۔
کبھی کبھار پریزنٹیشن کی بجائے ہم
دوسرے مضامین میں بھی ایک دوسرے کی مدد کر دیا کرتے۔
اس دوران میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ
کائنات اُن لڑکیوں جیسی نہیں ہے جو کام کی غرض سے کسی سے دوستی بنائے۔ وہ اگر کسی
ایک معاملے میں مدد لیتی تو دوسری جانب دوسرے معاملے میں مدد بھی کرتی۔
یہ تو سال قبل ہی معلوم ہو چکا تھا کہ اُسے بھی میری طرح
کتابوں سے لگاؤ ہے۔ وہ بھی کتابوں کو اُتنا ہی چاہتی ہے جتنا میں۔
لیکن ابھی تک ہمارے درمیان پبلک لائبریری والے واقعے پر بات
نہیں ہوئی تھی۔
وہ کلاس میں زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔ لیکن آج پرزینٹیشن
دیتے وقت مجھے اُس کے بولنے کے انداز نے متاثر کر دیا۔
جس طرح اُس نے پرزینٹیشن کے دوران eye contact maintain کیا اور جس انداز سے وہ اپنے موضوع کو لے کر دلائل
دیتی رہی وہ واقعی حیران کن تھا۔
وہ بات ہمیشہ قدرِ آہستہ کرتی لیکن بات کرتے وقت ایک ایک
لفظ نہایت سلیقے اور آرام سے ادا کرتی۔ گویا الفاظ مزید نکھر کر سنائی دیتے۔"
٭٭٭٭٭
21 مئی 2019
" آج فائنل
پریزنٹیشن میں خرم کی لیڈرشپ سکلز نے مجھے متاثر کر کے رکھ دیا۔ وہ وقعی ایک حیرت
انگیز لڑکا ہے۔
اس سے قبل ہماری کبھی اتنی بات چیت نہ ہوئی۔ لیکن پریزنٹیشن
کی تیاری میں اکثر بات چیت ہوتی رہتی۔
وہ بات نہایت مہذب لہجے میں کرتا۔ اور مخاطب بھی ہمیشہ بہت
سلیقے اور احترام سے کرتا۔
وہ اُن لڑکوں جیسا نہیں تھا جن سے کسی مجبوری کے واسطے محض
ایک دفعہ بات کر ڈالو تو پیچھا ہی نہ چھوڑیں۔ اور کرید کرید کر آپ کی ذاتی زندگی
کے متعلق سوا ل کرنا شروع کر دیں۔
اکثر موضوعات کی تیاری میں جب کوئی مشکل ہوتی تو ہم گروپ
ممبران واٹس ایپ گروپ میں بات کرلیتے۔ اُنھی دنوں ہماری بات چیت واٹس ایپ پر بھی
شروع ہوئی۔
میں نے سوائے ہفتہ رات کہ کبھی اُسے گیارہ کے بعد آن لائن
نہ پایا۔ اکثر رات کو دیر سے کیا جانے والے میسیج کا رپلائی وہ صبح پانچ بجے کے
قریب دیا کرتا۔ شاید وہ جلدی سونے اور
جاگنے کا عادی ہے۔
اب ہم دوسرے مضامین میں بھی ایک دوسرے کی مدد کر دیا کرتے۔
اول تو وہ تمام مضامین کے نوٹس بناتا لیکن پھر بھی اگر کسی ٹاپک پر اُس کے پاس
نوٹس موجود نہ ہوتے تو وہ بذریعہ میسیج مجھ سے مدد طلب کر لیتا۔
واقعی اُس نے ریاضی سے متعلقہ جتنے مضامین میں میری مدد کی
ہے اُس کے بدلے میری تھوڑی بہت مدد ایسی کچھ خاص اہمیت تو نہیں رکھتی۔
خرم ہماری کلاس کے اُن چند لڑکوں میں سے ایک ہے جس کی
کمیونیکیشن سکلز بہت اچھی ہیں۔
خرم کی انھی سکلز کی وجہ سے آج ہمارے گروپ نے بہترین
پریزنٹیشن دی۔ واقعی ہمارے گروپ کی اتنی جاندار پریزنٹیشن کی وجہ صرف وہی تھا۔
پہلے دن کی طرح اب میں اُس سے کسی قسم کی مدد لینے سے
کتراتی نہیں۔ اور نہ ہی اُس کے سامنے آنے سے اب مجھ میں کسی قسم کا خوف جنم لیتا
ہے۔
آج کلاس کے بعد میں لائبریری میں بیٹھ کر نوٹس بنا رہی تھی۔
لیکن مجھے معلوم ہوا کہ میرے نوٹس میں کچھ
کمی ہے۔ لحاظہ میں خرم سے نوٹس مانگنے چلی گئی۔
چونکہ صرف چند ٹاپکس کا فرق تھا تو میں اُس کے سامنے والی
کرسی پر ہی بیٹھ کر نوٹس بنانے لگی۔
اُس کے سامنے میز پر پڑی ایک کتاب " نو لکھی کوٹھی
" کو دیکھ کر مجھے گزشتہ سال کا واقعہ یاد آ گیا۔ جب پہلی مرتبہ ہماری ملاقات
ہوئی تھی۔
زندگی میں کچھ واقعات ہمارے چاہے بغیر رہ نما ہو جاتے ہیں۔
نہ ہمارے جی نے کبھی اُن کی خواہش کی ہوتی ہے اور نہ اُن کو لے کر کبھی کوئی
تدبیر۔ یہ معمولی سے واقعات بھی ہمارے زندگی کے رخ کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیتے
ہیں۔
٭٭٭٭٭
17 جون
2019
" آج فائنل پیپر بھی ہو گیا۔
اگلے کچھ ماہ موسمِ گرما کی چھٹیاں رہیں گی۔ اس دوران یونیورسٹی بند رہے گی۔
اگرچہ مجھے خوشی ہے کہ یونیورسٹی
میں ایک سال بہت اچھا گزر گیا۔ لیکن ناجانے کیوں آج دل کچھ افسردہ بھی ہے۔
اب روز یونیورسٹی آنے کی عادت
ہوچکی ہے۔ دل میں کہیں یہ چبھن بھی ہے کہ
اگلے کچھ ماہ میں اس یونیورسٹی کو نہ دیکھ
سکوں۔
نہ یونیورسٹی کی فضا سے موتر ہونے
کا موقع ملے گا۔ نہ اپنا فالتو وقت لائبریری میں گزار پاؤں گا۔
گیٹ کی طرف رخ کرتے وقت میرے پاؤں
کچھ بوجھل سے ہو رہے تھے۔
اسی دوران میری نظر کائنات پر پڑی۔
ہمیشہ کی طرح ہو ارم کے ساتھ باتیں کرتی گیٹ کی جانب بڑھ رہی تھی۔
میں وہیں کھڑا اُسے دیکھنے لگا۔
کسی لڑکی کو اتنی دیر دیکھنا کبھی
میری عادت نہ ٹھہری تھی۔لیکن آج ناجانے کیوں بے اختیار میں اُسے دیکھنے لگا تھا۔
ہاں یہ بات سچ ہے کہ جب بھی کائنات
میرے سامنے آئی مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔ میرے ہاتھ کپکپانے لگتے اور
میں ٹھیک طرح سے بول بھی نہ پاتا۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ایک
سال میں ناجانے کب اور کیوں مجھے اُس کی عادت ہونے لگی تھی۔ یہ بات بڑی عجیب معلوم
ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُسے دیکھ کر میری آنکھوں کو راحت ملنے لگی تھی۔
میری کیفیت اُس وقت کیسی تھی، میں
ڈائری لکھتے وقت یہ بیان نہیں کر سکتا۔ شاید زندگی میں پہلی بار میرے پاس الفاظ کی
کمی واقع ہوئی ہے۔
اگر اس قسم کی کسی کیفیت کو لوگ
محبت کا نام دیتے ہیں تو میں خدا سے دعا کرتا ہوں مجھے کبھی محبت نہ ہو۔
ابھی میرے کندھوں پر بہت سی ذمہ
داریوں کا بوجھ بھی آن پڑا ہے۔
میرے اپنے مقاصد بھی ہیں جن کو میں
پورا کرنا چاہتا ہوں۔ اور مجھے اپنا مستقبل بھی بہتر کرنا ہے۔
اسی واسطے میں نہیں چاہتا کہ اس
وقت مجھے کسی سے بھی محبت ہو۔
اگلے دو ماہ میں کالج کے پرنسپل سر
طاہر کے بھائی کی کمپنی میں کام شروع کرنے والا ہوں۔ اس سے میرا مقصد محض یہی ہے کہ کچھ رقم جمع کر
سکوں اور دوسرا پریکٹیکل فیلڈ کے لیے پہلے سے تیار ہو سکوں۔
چونکہ اس سے قبل بھی میں اُن کے
ساتھ کام کر سکا ہوں لحاظہ اس دفعہ وہ مجھے معاوضہ بھی ادا کریں گے۔"
٭٭٭٭٭
24 ستمبر
2019
"تھرڈ سمسٹر شروع ہوئے
تقریباَ دو ہفتے سے کچھ دن زائد ہو چکے ہیں۔ یونیورسٹی میں پہلے دن قدم رکھتے ہی
میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس ڈائری میں صرف یونیورسٹی کے واقعات درج کروں گی۔
گزشرہ کچھ روز مصروفیات کے سبب
ڈائری نہ لکھ پائی۔
امی کی صحت اب کچھ زیادہ اچھی نہیں
رہتی۔ دن میں گھر کا تھوڑا بہت کام وہ کر یتی ہیں۔ باقی مریم سکول سے آ کر کچھ
سنبھال لیتی۔
مریم واقعی ایک سمجھدار لڑکی ہے۔
جب سے امی کی صحت خراب ہوئی ہے تب سے میں نے گھر کے کاموں میں اُسے اپنے ساتھ لگا
لیا۔ اور ماشاء اللہ بہت جلد چیزیں سیکھ گئی۔ کم سے کم چائے بنا لیتی ہے، کپڑے
تھوڑے بہت استری کر لیتی ہے اور جھاڑو دینا سیکھ گئی ہے۔
مجھے پریشانی حمزہ دیتا ہے۔ ناجانے
وہ کب یہ بات سمجھے گا کہ ہمارے گھریلو حالات اس قدر اچھے بھی نہیں ہیں کہ اُس کی
ہر فرمائش پوری کی جائے۔
ابو بھی حمزہ کی ہر فرمائش پوری
کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ مجھے افسوس تب ہوتا ہے جب ابو ہم بیٹیوں کو پیچھے کر کے
حمزہ کو ترجیع دیتے ہیں۔
ابھی کچھ روز پہلے کی بات ہے میں ایک
ہفتے تک روز ابو کو بازار سے کچھ کتابیں لانے کا کہتی رہی لیکن وہ نہ لائے اور وجہ
یہ بتائی کہ کتابیں مہنگی ہیں۔ جب کہ حمزہ
نے پرانی سائیکل ہوتے ہوئے بھی نئی کی فرمائش کی تو شام میں خود ساتھ لے جا
کر بازار سے خرید کر دی۔
افسوس تو بہت ہوا۔ دل بھی بہت چاہا
کہ اکیلے بیٹھ کر روؤں۔ ابو ہمیشہ ہ بیٹیوں کو اگنور کرتے ہیں۔
لیکن اب میں روؤں گی نہیں بلکہ ہر
مشکل سے نکلنے کے لیے خود کوئی تدبیر کروں گی۔
موسم سرما کی چھٹیوں میں محلے کے
بچوں کو میں ٹیوشن پڑھاتی رہی۔ یونیورسٹی کھلنے سے میں نے ٹیوشن کا وقت شام میں
تھوڑا لیٹ کر دیا۔
اب چار کے قریب میں یونیورسٹی سے
گھر پہنچتی ہوں اور پھر شام سات تک محلے کے کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں۔
الحمدُاللہ اب مہینے کے اختتام پر
میں کچھ اتنی رقم جوڑ لیتی ہوں کہ دل بہلانے کو کچھ کتابیں خرید سکوں۔
میں ان افسانوی ناول کو پڑھ کر
اپنی زندگی کو ناول کی ہیروئن کی زندگی سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہوں، اور یہی خواہش
کرتی ہوں کسی روز خدا مجھے میرے مقاصد میں کامیاب کرے۔
موسمِ سرما کی چھٹیوں میں میرا
کلاس کے کسی فرد سے رابطہ نہیں تھا، سوائے ارم کے۔ ایک تو وہ اچھی دوست ہونے کے
ساتھ ساتھ محلے دار بھی تھی اور اوپر سے کلاس فیلو بھی۔
کلاس کی چندلڑکیوں نے ایک آدھ دفعہ
حال چال پوچھے کے لیے میسیج کیا۔
اس تمام عرصے کے دوران میری خرم سے
بھی کسی معاملے پر بات نہ ہوئی۔ شاید ایک دفعہ اُس کا کوئی میسیج آیا تھا لیکن کس
معاملے پر یہ مجھے یاد نہیں آ رہا۔باقی لوگوں کی طرح وہ روز روز سٹیٹس لگانا بھی
پسند نہیں کرتا۔
موسم گرما کی چھٹیوں میں متعدد
دفعہ اُس کا خیال ضرور آیا۔ وہ کیا کر رہا ہو گا۔ کون سی کتاب پڑھ رہا ہو گا وغیرہ
وغیرہ۔
میں جاننا چاہتی تھی کہ اُس نے
موسمِ گرما کی چھٹیوں کسی گزاری ہوں گی۔
شاید قسمت اچھی کہ اس کا جواب بھی
خود اُس کی ہی زبانی معلوم ہو گیا۔ جب حظیفہ نے اُس سے کیفے میں اس متعلق سوال کیا
اور اُس نے بتایا کہ وہ کسی فرم میں کام کرتا رہا۔
ڈئیر ڈائری میں نہیں جانتی میں
کیوں ایسے ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھے تو کبھی کسی لڑکے کے متعلق جاننے میں اتنی دلچسپی
نہیں رہی۔
میں نہیں جانتی کیوں لیکن دل چاہتا
ہے کہ خرم کے متعلق زیادہ سے زیادہ جان سکوں۔
"
٭٭٭٭٭
25 جنوری
2020
" گزشتہ کچھ ماہ سے دنیا کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ گزشتہ
سال کے اختتام پر اسٹریلیا کے جنگلات میں آگ بھڑک اُٹھی جو بڑھتے بڑھے لاکھوں ایکڑ
پر پھیل گئی۔ اس بھیانک آگ نے میلوں رقبے پر پھیلے جنگلات کو اپنی لپیٹ میں لے
لیا۔ بے شمار جانور جل گئے اور یہ آگ ہفتوں تک جلتی رہی۔
اسی دوران ایک اور خبر سامنے آئی کہ گزشتہ ماہ یعنی دسمبر
2019 میں چین کے ایک شہر میں چمگادڑوں سے سے ایک وبا پھوٹ کر انسانوں میں منتقل ہو
گئی۔ تفصیل یہ بتائی جاتی ہے کہ کسی خاص طرز کی بیماری میں مبتلا چمگادڑ کو کسی
چینی فرد نے کھایا جس سے وہ بیماری اُس میں اور پھر دوسرےافراد میں منتقل ہونا
شروع ہو گئی۔
رفتہ رفتہ یہ وبا چین کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل رہی ہے
اور متعدد اموات بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ اسے کووڈ 19 کا نام دیا گیا ہے۔
چونکہ چین دنیا بھر سے تجارت کرتا ہے اسی واسطے اب یہ وبا
چین سے نکل کر دوسرے ممالک میں بھی پھیل رہی ہے۔
چند محققین نے کووڈ کو ایک صدی قبل آنے والے Bird flu سے بھی تشبیہ دے رہے ہیں۔
جس کی علامات اور اثرات بلکل اسی جیسے تھے اور جس کے پھیلنے کا انداز بھی بلکل
کووڈ جیسا تھا۔
مجھے فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں یہ وبا پوری دنیا میں نہ
پھیل جائے۔ کیوں کہ خدا نخواستہ اگر یہ وبا پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں بھی
پھیل گئی ، جہاں پہلے سے وسائل کی کمی ہے تو وہاں کی عوام اور حکومت کو بے شمار
مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ہم تو خدا سے اچھے کی ہی اُمید کر سکتے ہیں۔
اس لمحے مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وقت مجھ سے آگے بھاگ رہا
ہے۔میں وقت کی ڈور کو تھامنے کی تو ہر ممکن کوشش کرتا ہوں لیکن ہر بار کی طرح وہ
میرے ہاتھ سے چھوت جاتی ہے۔
مجھے وقت بہت تیز چلتا محسوس ہو رہا ہے۔ ابھی کل کی ہی تو
بات تھی کہ یونیورسٹی میں آئے تھے، اور اب تیسرا سمسٹر بھی اختتام کو پہنچنے والا
ہے۔
یونیورسٹی میں تو دن کا معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس قدر تیزی
سے گزر جاتا ہے۔ شام کو دیر سے گھر پہنچنا، کھانا کھا کر جتنا ہو سکے پڑھنا اور
پھر صبح اُٹھ کر اُسی دوڑ میں شامل ہو جانا جس میں باقی لوگ شامل ہیں۔
یونیورسٹی سے چھٹی صرف دو دن ہوتی ہے یعنی ہفتہ اور اتوار ۔
یہ دو دون بھی گھریلو مصروفیات میں گزر جاتے ہیں۔
میں ڈائری لکھوں اور کائنات کا تذکرہ بھول جاؤں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
کائنات سے اب ہچکچاہٹ پہلے جیسی نہیں رہی۔ کبھی کبھار باتیں
کرتے وقت ہنسی مذاق بھی ہو جاتا ہے لیکن ادب کا پہلو وہیں کا وہیں ہے۔ میری یہی
کوشش ہے کہ حدود کے اندر رہ کر بات چیت کی جائے اور شاید اُس کا بھی ایسا ہی خیال
ہے۔
ہم دوست نہیں ہیں ۔ محض کلاس فیلو ہیں جو ضرورت پڑنے پر کسی
مضمون پر دوسرے کی مدد کر دیتے ہیں۔"
٭٭٭٭٭
28 فروری 2020
" ایک ہفتہ ہونے کو ہے امی کو گزرے۔
گزشتہ ایک ماہ سے وہ بیمار تھیں۔ جب لوکل ڈاکٹر کی دوا سے
امی کو آرام نہ آیا تو ابا اُنھیں پولی کلینک لے گئے۔
تب میں امی کے ساتھ
تھی۔ جہاں ڈاکٹر سے دیکھتے ہی امی کو ایڈمٹ کر لیا۔
گزشتہ ایک سال میں امی بہت کمزور ہو چکی تھیں۔ اول امی کو
ٹائیفائیڈ ہواتھا۔ لیکن اُس کے بعد اُنھیں
اکثر جسم میں درد رہتا اور روز بروز کمزور ہوتی چلی گئیں۔ امی کی رنگت بھی اُجھلی ہو گئی تھی۔
پولی کلینک کے ڈاکٹر سے پہلے امی کو ایڈمٹ کیا اور پھر
متعدد ٹیسٹ کروانے کے لیے لکھ دیے۔ میری چھٹی حس نے مجھے کسی بری چیز کے لیے خبر
دار کر دیا تھا۔
ٹیسٹ رپورٹ پڑھتے وقت میں نے ڈاکٹر
کے چہرے کے تاثرات بدلتے دیکھے۔
" آپ لوگوں اب تک کہاں تھے ؟
۔۔۔۔ انھیں پہلے کیوں نہیں لایا گیا؟" ڈاکٹر نے ذرا خفگی سے کہا۔
" اصل میں ٹائیفائیڈ کے بعد
سےیہ زیادہ کمزور ہونے لگیں۔ لیکن ہم سمجھے شاید ٹائیفائیڈ کا اثر ہے" ابا نے
جواب دیا۔
" ٹائیفائیڈ کب ہوا
تھا؟"
" ڈیڑھ سال پہلے"
"ٹائیفائیڈ ڈیڑھ سال پہلے ہوا
تھا اور اُس کے بعد تو کم از کم آپ لوگ ان
کا پراپر چیک اپ کرواتے "
" ڈاکٹر صاحب کیا ہوا؟ رپورٹ
میں کیا ہے؟" میں نے پوچھا۔
" آپ کی مریضہ کے گردے فیل ہو چکے ہیں" مجھے لگا ڈاکٹر کی اس بات نے میرے حواس ساکت کر
دیے ہیں۔
اس کے بعد مجھ میں تو کوئی بات کرنے کی ہمت باقی نہ بچی۔
امی کے گردے فیل ہونے کا مطلب میں جانتی تھی۔
" لیکن اس سے قبل تو انھیں گردوں کی کوئی بیماری نہ
تھی؟" ابا نے تشویش کا اظہار کیا۔
" یہ رپورٹ مجھے بتا رہی ہے کہ مریضہ کو CKD V کو پار کیے
تقریباَ چھ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ جس کا مطلب مریضہ کم سے کم گزشتہ دو
سالوں سے گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے ۔۔۔ کیا آپ نے پہلے کبھی ان کی شوگر چیک
کروائی؟"
" انھیں شوگر
جیسی کوئی بیماری پہلے نہیں تھی"
" اس وقت ان کی شوگر 600 سے بھی زیادہ چل رہی ہے"
ڈاکٹر سے رپورٹ سے دیکھ کر پڑھا " بہتر ہے آپ ان کے لیے دعا گو رہیں ۔۔۔ ہم
کوشش کریں گے کہ آج رات سے ہی ان کے ڈائلسز شروع کر دیں"
اگلی جتنی دیر ہم ڈاکٹر کے کمرے میں رہے میں نہیں جانتی کیا
گفتگو ہوئی۔ بس مجھے یہ یاد رہا کہ امی کے پاس جاتے ہی میں نے اُن کے منہ کوپیار
دے کر اُن کے گلے لگ کر روتی رہی۔
اُس کے بعد اگلے تین ہفتے تک اُن کے ڈائلسز چلتے رہے ۔ کبھی
کبھار دائلسز سے امی بہت بہتر ہو جاتی ہیں اور کبھی وہ دائلسز مشین سے تنگ آ کر
شور مچا دیتیں۔
اڑھائی ہفتوں بعد ڈاکٹر نے اُنھیں یہ کہہ کر دسچارج کر دیا
کہ تین بعد ڈائلسز کے لیے پھر سے لے آئیں۔
ایک ہفتہ میں ہم دو دفعہ ڈائلسز کے لیے جاتے رہے لیکن پھر
امی کی طبیعت اچانک سے خراب ہو گئی۔
میں اُس وقت یونیورسٹی میں تھی جب مجھے ابو کی کال آئی کہ
امی کی طبیعت خراب ہونے پر وہ اُنھیں ہسپتال لے جا رہے ہیں۔
میں کلاس چھوڑ کر سیدھا اُن کے پاس ہسپتال پہنچی۔
اگلے دو دن میں نے بغیر سوئے امی کے سرہانے گزار دیے۔ امی
سے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تھا۔
وہ وقت میں کبھی نہیں بھول سکتی جب ڈائلسز کے دوران امی کی
طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ میں نے فوراَ چیخ کر ڈاکٹرز کو بلایا۔ ڈائلسز مشین فوراَ
اُتار دی گئی۔
نرس نے ایمرجینسی کال کی ۔ یک لخت امی کے بیڈ کے قریب پردہ لگا دیا گیا۔ وارڈ کے
باہر سے چند ڈاکٹر فوراَ بھاگتے ہوئے آئے۔
میں نے امی کے پاس جانا چاہا لیکن نرس نے مجھے روک دیا۔
وہ پانچ منٹ میری زندگی میں سب سے بھاری منٹ گزرے ۔ ان پانچ
منٹ میں ، ناجانے کتنی دعائیں میں نے کر ڈالیں۔
پانچ منٹ بعد ایک ایک کر کے ڈاکٹر باہر آنے لگے۔ ایک ڈاکٹر
میرے گلے گئی اور کچھ دیر بعد آہستگی سے بولی " بیٹا! اللہ تمہاری امی کے
درجات بلند کرے"
مجھے لگا جیسے چھت میرے سر پر آن گرا ہو۔ مجھے اپنے ارد گرد
ہر چیز رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وارڈ میں موجود دوسرے مریضوں کے لواحقین بھی میرے
پاس آنے لگے لیکن مجھے اُن میں سے کسی سے کچھ غرض نہیں تھی۔
میں امی کے پاس گئی اور اُن کے چہرے پر ایک پیار دیا۔ پیار
دیتے وقت شاید میری آنکھوں سے کچھ آنسو ؤ نکلے جنھوں نے امی کے گال کو گیلا کر
دیا۔
مجھے چاہیے تھا میں چیخ چیخ کر روتی۔ پورا ہسپتال سر پر
اُٹھا لیتی لیکن نا جانے کیوں میں نہ ہی چیخی چلائی اور نہ ہی زارو قطار روئی۔
بات بات پر گھر اُٹھا لینے والی لڑکی آج اپنی ماں کی موت پر
خاموش تھی۔
میں نے فون نکالا اور ابو کو اطلاع کی۔ پھر وارڈ وائے کو ایمبولنس کا انتظام کرنے کو
کہا۔
کچھ دیر بعد مجھے اطلاع دے دی گئی کہ ایمبولنس باہر پہنچ
چکی ہے۔ اسی دوران امی کو کفن اوڑھا دیا گیا تھا۔ تمام کاغذی کاروائی بھی کر دی
گئی تھی۔
میں نے سامان سمیٹا ، امی کی لاش کو ایمبولنس میں ڈال دیا
گیا تھا۔ میں نے ڈرائیور کو راستہ سمجھایا اور ابو کو اطلاع کر دی۔
میں ایمبولنس کی کھڑکی سے دیکھ سکتی تھی کہ جب ایمبولنس
ہماری گلی میں داخل ہوئی تو اکثر لوگ اس جانب لپکے۔
جب امی کا جنازہ اُٹھائے جانے لگا تب مجھے ہوش آیا کہ میں
چیخ چیخ کر روئی۔ جب تک امی کا جنازہ ہماری گلی سے گزر نہ گیا تب تک میں چیختی رہی
اور اُس کے بعد جیسے مجھے بتایا گیا کہ میں بے ہوش ہو گئی ۔
امی کے گزرنے کے بعد گھر کا معمول تو جیسے ختم ہی ہو گیا۔
امی کے بغیر گھر مکمل ویران معلوم ہوتا۔
کچھ روز تو ابو گھر رہے پھر وہ بھی آفس جانے لگے۔ مریم اور حمزہ کو بھی میں نے سکول بھیجنا شروع کر دیا۔
اس وقت امی کی وفات کو ہفتہ گزر چکا ہے۔ اب محلے کی عورتیں بھی اتنا گھر نہیں آتیں۔
پھوپھو کے کہنے پر اب میں بھی کل سے یونیورسٹی جایا کروں گی۔ ویسے بھی گھر کے ہر
کونے سے امی کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔"
٭٭٭٭٭
01 مارچ 2020
" کائنات کو آج یونیورسٹی میں دیکھا۔ اپنی والدہ کی وفات کے بعد آج وہ پہلی مرتبہ یونیورسٹی آئی
تھی۔ ارم کے ذریعہ کلاس کے بیشتر لوگوں کو اُس کی والدہ کے متعلق علم ہو چکا تھا۔
وہ بہت کمزور، اُداس اور تھکی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔
آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ وہ گزشتہ کئی راتوں سے
ٹھیک طرح سے نہ سوئی۔
چند روز قبل میں ارم سے کائنات کے متعلق پوچھ چکا تھا۔ اُس
کے بتانے پر معلوم ہوا کہ کائنات اپنی والدہ سے بہت اٹیچ تھی۔ مزید برآں گھر میں بڑی ہونے کی وجہ سے گھر کی ذمہ داری
اُس پر آن پڑی تھی۔
آج اُس کی حالت دیکھ کر مجھے سے رہا نہ گیا اور بلا آخر
اُسے لائبریری میں چپ چاپ ارم کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر میں اُن کی جانب چل دیا۔
" کائنات ! مجھے آپ کی والدہ کا سن کہ نہایت افسوس
ہوا" میں نے اُسے مخاطب کیا " دیکھیں اس دنیا میں ہر شخض کو متعدد چیزیں
عزیز اور قیمتی ہوتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کے بھی کھونے سے انسان اتنا افسردہ
نہیں ہوتا جتنا کسی قریبی عزیز کے گزرنے سے۔ اور خاص کر کے اگر وہ والدہ ہوں تو
انسان کے جذبات پر کیا اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ میں بہت اچھے سے لگا سکتا ہوں۔
لیکن کائنات! ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ گزرنے والے تو رضائے الہی سے گزر گئے۔
لیکن اپنے پیچھے ہمیں اور دوسروں کو چھوڑ گئے۔ اب اُن کے بعد ہم ہی تو ہیں جو بقیہ
بچ جانے والوں کی دیکھ بھال کریں گے۔ اس وقت تمام ذمہ داری آپ پر آ چکی ہے۔ میری
خدا سے دعا ہے کہ خدا آپ کے دل کو صبر عطا فرمائے ، آپ کی والدہ کے درجات بلند کرے
اور آپ کو آئندہ آنے والی زندگی کے لیے تیار کرے۔"
میں رکا تو کائنات کچھ لمحوں تک بھیگی آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھتی رہی پھر سر جھکا کر بڑی
آہستگی سے بولی " آمین ۔ آپ کے الفاظ مجھے حوصلہ دینے کے لیے کافی ہیں"
میں اُس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا لیکن میں جانتا تھا
کہ وہ رو رہی ہے۔
مزید کچھ لمحے میں نے اُس کے بولنے کا انتظار کیا لیکن پھر
چلا آیا۔ مجھے اُس کی یہ حالت دیکھ کر واقعی بہت افسوس ہوا۔
میں جانتا تھا کہ اب سے اُس کی زندگی کبھی پہلے جیسی نہیں
رہے گی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُمید ہے کہ وہ بہتر ہوتی جائے گی۔
آج شام کو ٹی وی پر ایک خبر سن کر نہایت دکھ ہوا۔ کووڈ 19
پوری دنیا میں نہایت تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ کورونا کا پہلا کیس بھی پاکستان
میں آن پہنچا ہے ۔
اگرچہ ہماری حکومت کوشش میں ہے کہ کسی طرح اس وبا کو ملک
میں پھیلنے سے روک سکے لیکن ہم اچھے سے جانتے ہیں کہ کسی بھی وبا کو روکنے کے لیے
وہاں کی حکومت کی بجائے وہاں کی عوا کا کردار زیادہ اہم ہے۔"
٭٭٭٭٭
14 مارچ 2020
" ایک دل دہلا دینے والی خبر ٹی وی پر نشر ہوئی ۔
کورونا کے بڑھتے ہوئے کیس کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے ملک بھر کے تمام
تعلیمی ادارے 31 مارچ تک بند کر دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ ملک کے تمام بڑے
شہروں میں لاک ڈاؤن بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔
اس دوران بڑی عجیب و غریب باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔
جیسے چند لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ دراصل یہ وبا دنیا کے امیر
لوگوں خاص کر کے بل گیٹس کی طرف سے پھیلائی گئی ہے تاکہ بعد میں اس ویکسین کا نام
لے کر لوگوں کے اجسام میں ایک الیکٹرانک چپ ڈال دی جائے۔ جس سے بعد میں دنیا بھر
کے لوگوں کو کنٹرول کیا جائے۔
کچھ لوگ اسے اللہ کا عذاب بھی کہہ رہے ہیں۔ اس دوران ملک کے
مختلف کونوں سے مختلف حکیموں نے دنیا بھر کے ڈاکٹروں اور سائنس دانوں سے قبل ہی اس
وبا کا علاج دریافت کر لی ہے۔ حکیم صاحب یہ مخصوص ٹوٹکا محض 500 میں فروخت کر رہے
ہیں۔
اسی طرح چند ایسے پیرفقیر بھی نظر آئے جو مخصوص دم کر تے
ہیں جس سے لوگوں کو کورونا وائرس نہیں ہوتا۔ پیر صاحب بھی اپنا یہ مخصوص دم چند
روپوں کے عوض فروخت کر کے جنت میں سیٹ بک کروانے والے تھے لیکن افسوس اُنھیں خود
بھی کورنا وائرس ہو گیا۔
WHO نے صاف صاف بتا دیا کہ کم سے کم 20 سیکنڈ صابن
سے ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے آپ اس وبا سے محفوط رہ
سکتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری عوام ان نیم
حکیموں اور ان برائے نام پیروں فقیروں کے پاس جانا پسند کرتی ہے۔
امی کے بعد سے میرا گھر میں دل نہیں لگتا تھا۔ ہر کونے سے
امی کے وجود کو احساس ہوتا لحاظہ اسی
واسطے میں نے یونیورسٹی جانا شروع کر دیا تھا۔
یونیورسٹی میں دن سکون سے گزر جاتا۔ شام کو اپسی پر گھر کے
تمام کام دیکھنا میری ذمہ داری تھی۔
اول تو ابو نے زور دیا کہ یونیورسٹی چھوڑ دو لیکن پھر
پھوپھو ، چاچو اور ماموں کی سفارش میں ابو کو یہ فیصلہ موقوف کرنا پڑا ۔
ویسے بھی میری یونیورسٹی سے گھر کے کسی معاملے پر فرق نہیں
پڑا۔ حمزہ اور مریم کی تمام ذمہ داری میں نے اُٹھا لی تھی۔ اُن کے کپڑے استری کرنے
سے لے کر سکول کے معاملات تک سب میں ہی دیکھ رہی تھی۔
گھر میں جن جن چیزوں کی ضرورت محسوس ہوتی وہ میں ایک پرچی
میں لکھ کر صبح ابو کو دے دیتی جو واپسی پر اپنے ساتھ لیتے آتے۔
پہلے دن جب یونیورسٹی گئی تو اُس روز دل بہت دکھی تھا۔ میں
کلاس فیلوز کی تعزیت سے بہت تنگ آ چکی تھی لیکن نا جانے خرم کے الفاظ میں ایسا کیا
تھا کہ جسے سن کر اول تو مجھے رونا آیا لیکن پھر دل کو بہت اطمینان اور سکون ہو
گیا۔
اب کل سے یونیورسٹی بند ہو رہی ہے۔ اگلے دو ہفتے گھر رہ کر
میں جانتی ہوں اکتا جاؤں گی۔ گھر میں رہتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ فلاں کمرے سے امی
نکل کر باہر آ جائیں گی۔ شاید ابھی کھانے کے لیے آواز لگائیں۔ میں خدا سے دعا کرتی
ہوں کہ جلد ہی مجھے حوصلہ عطا فرمائے ۔ "
٭٭٭٭٭
17 اپریل 2020
" جب گزشتہ ماہ 14 مارچ کو تعلیمی ادارے بند ہوئے تو
میں جانتا تھا کہ اب یہ اتنی جلدی دوبارہ نہیں کھلنے والے۔ کیوں کہ جس تیزی سے
کورونا پھیل رہا ہے اسے روکنا مشکل ہو رہا ہے۔
ابھی کچھ روز قبل کی بات ہے کہ ہماری گلی میں بھی ایک گھر
سے ایک صاحب کورونا کی وبا سے فوت ہو گئے ۔ اللہ درجات بلند کرے۔
میں ہر نماز میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے خدا بس اس وبا سے
موت نہ دینا۔
ٹی وی پر ایسے بہت سے جنازے دیکھے جن میں گنے چنے 10 لوگ بھی موجود نہ تھے۔ کورونا سے وفات پانے والے لوگوں کے بیشتر جنازے
ایسے ہی ہوتے ہیں۔ نہ کوئی رشتہ دار فوت ہونے والے کا آخری دیدار کر سکتا ہے نہ
جنازے میں ٹھیک طرح سے شرکت کر سکتا ہے۔
لوگوں میں اس وبا کو لے کے بہر خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ گھروں
سے نکلنا موقوف ہو چکا ہے۔ ہر شے بند ہے۔
تعلیمی اداروں نے پڑھائی آن لائن شروع کر دی۔ ورک فرام ہوم
کا کنسپٹ آ چکا ہے۔ جس میں لوگ گھروں میں
بیٹھ کر آن لائن ہی کام کر رہے ہیں۔
سڑکوں پر پولیس چکر کاٹ رہی ہے۔ کوئی شخض گھر سے باہر قدم
نہیں رکھ سکتا۔ دنیا بھر میں ایمرجینسی نافذ ہے۔
چین، انڈیا اور امریکا کا سب سے بڑا حال ہے۔ بہت اموات ہو
رہی ہیں۔
انڈیا میں تو اتنے لوگ اس وبا سے وفات پائے کہ جلانے کے لیے
سندل کی لکڑی کم پڑ گئی ۔ ایسی ایک فوٹو سوشل میڈیا پر دیکھی جس میں ایک بڑے میدان
میں لوگوں کی چتا کو آگ دی جا رہی تھی۔
پاکستان میں سب سے زیادہ کیس صوبہ پنجاب میں دیکھنے کو مل
رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اکانومی تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ ترقی پزیر ممالک کا تو کوئی
حال نہ رہا۔لیکن اس معاملے میں ہماری حکومت سراہنے کے قابل ہے۔ حکومتِ پاکستان نے
دوسرے ممالک کی نسبت بر وقت انتظامات کر کے اس وبا کو بہت بڑے پیمانے پر پھیلنے سے
روک رکھا ہے۔
ہماری یونیورسٹی نے بھی HEC کی ہدایات پر عمل کرتے
ہوئے آن لائن کلاس کا اجرا کر دیا تھا۔ اس وقت ہماری تمام کلاسیں آن لائن ہی ہوتی
ہیں۔
لیکن آن لائن کلاسوں میں کبھی انٹرنیٹ کا مسئلہ آ جاتا ہے
تو کبھی ڈوائس چلنا بند ہو جاتی ہے۔"
٭٭٭٭٭
15 جولائی 2020
" چار ماہ ہو
چکے ہیں لیکن ابھی تک یونیورسٹی بند ہے ۔ابتدائی کچھ روز تو میں گھر رہنے سے اکتائی پھر ایک ماہ بعد گھر رہ کر آن لائن کلاسس میں پڑھنا
زیادہ پسند آ گیا۔ لیکن اب میں پھر گھر
رہنے سے اکتا گئی ہوں۔ اب جی چاہتا ہے کہ
یونیورسٹی جلد سے جلد کھل جائے۔ لیکن یہ کورونا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لر رہا۔
اگرچہ اب کورونا کا وار تھوڑا کم ہو چکا ہے لیکن ابھی تک
مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔بیشتر شہر اب بھی کورونا کی لپیٹ میں ہیں اور متعدد
مقامات پر اب بھی کورونا کا زور جوں کا توں موجود ہے۔
اب بازار بھی کھلنا شروع ہو گئے ہیں لیکن بازار کھلنے کے بھی
اوقات مختص ہیں۔ کہیں ذرا سا رش بھی نہیں
ہونے دیا جاتا۔
ہمارے امتحان جو مئی کے اختتام پر متوقع تھے وہ اب جا کر
ختم ہوئے ۔یہ زندگی میں پہلے امتحان تھے جو میں نے گھرسے دیے ۔ یعنی یہ امتحان بھی
آن لائن ہوئے تھے۔
میٹرک اور انٹر کے امتحانات جو اس سال ہونے تھے وہ تو گزشتہ
ماہ میں ہی کینسل ہو گئے تھے۔ نویں اور گیارہویں جماعت والے جب اگلے سال دسویں اور
بارہویں کے امتحان بالترتیب دیں گے تو اُن کی دونوں جماعتوں کے نمبر لگ جائیں گے۔
یعنی امتحان صرف ایک سال کے اور نمبر دوسالوں کے لگیں گے۔ جبکہ وہ طالب علم جو اس
سال بارہویں اور دسویں میں تھے اُنھیں پچھلے نمبروں کی بنیاد پر اس سال نمبر دیے
جائیں گے۔
اُبو کا بھی ورک
فرام ہوم چل رہا ہے ۔ پہلئ روز صبح اُٹھ کر تیار ہو کے آفس جاتے اور اب بستر پر ہی
ناشتہ کرتے اور وہیں سے آفس کا کام شروع کر دیتے۔ یہی حال حمزہ اور مریم کا بھی
ہے۔
امی کی وفات کے بعد سے مریم گھر کے کاموں میں میرا پورا
پورا ہاتھ بٹاتی ہے ۔ حمزہ میں بھی کچھ بدلاؤ تو ضرور آیا لیکن اتنا نہیں کہ میں
مطمئن ہو سکوں۔ اُمید ہے کہ وہ بھی جلد راہِ راست پر آ جائے گا۔"
٭٭٭٭٭
29 اگست 2020
" کچھ روز میں یونیورسٹی کھلنے والی ہے ۔ حکومت نے
تعلیمی اداروں کو ایس – او – پیز (SOP’s) کے ساتھ ادارے کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ جس کے مطابق
آدھی تعداد، سماجی فاصلہ، ماسک اور
سنیٹائزر کا استعمال لازمی قرار دیا۔
کورونا نے نظامِ زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا۔خاص کر کے چھوٹے
کاروبار پر سب سے زیادہ اثر ہوا۔ غریب لوگوں پر تو کورونا ایک عذاب بن کر نازل
ہوا۔
تمام چھوٹے کاروبار کرنے والے حضرات کا بہت برے طریقے سے
کورونا سے متاثر ہوئے۔ خود ابو کی دکان ایک لمبے عرصے تک بند رہی۔
اگرچہ حکومت نے جنرل سٹور کھولنے کی اجازت بعد میں دے دی
تھی لیکن جتنا عرصہ دکان بند رہی اُس تمام عرصہ ابو نقصان برداشت کرتے رہے۔ دکان
کا کریہ، نوکر کی تنخواہ، بجلی کا بل یہ تمام اخراجات تو دینے ہی تھے۔ اس پر سے جو
چیزیں دکان میں پڑی پڑی خراب ہو گئیں اُن کا نقصان علیحدہ۔
بازار کھلنے کی دیر تھی کہ عالمی مارکیٹ میں چیزوں کی
قیمتیں مہنگی ہونا شروع ہو گئیں۔ گندم کی قلت سے آٹا کم ہوا، چینی کی قیمتیں بھی
آسمان پر جا پہنچی اور اس کے علاوہ متعدد اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں بے پناہ
اضافے سے غریب آدمی کا تو کچھ نہ بچا۔
خدا سے یہی دعا ہے کہ کورونا جیسا عذاب پھر سے کسی قوم پر
نازل مت کرنا۔
یہ ایسی وبا تھی کہ
جس میں خدا کے گھر کا طواف بھی بند ہو گیا۔ صدیوں میں پہلی دفعہ حج نہ ہوا۔
یہاں تک مساجد میں نماز پڑھتے وقت بھی سماجی فاصلہ رکھنے کو کہا گیا۔
کورونا بھی اس دنیا کو ایک سبق دینے آیا تھا۔ انسان سمجھنے
لگا تھا کہ وہ ہر حالات کا اچھے سے مقابلہ کرنا جانتا ہے۔ لیکن قدرت اس انسان کو
بتانا چاہتی تھی کہ نہیں ایسے بہت سے معاملات ابھی موجود ہیں جن میں انسان ابھی تک
کچھ نہیں کر سکتا۔
فی الحال تک کورونا وائرس کی کوئی ویکسین، کوئی دوا کسی بھی ملک نے نہیں
بنائی۔ البتہ بہت حد تک اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول لازمی کر لیا ہے۔
الحمدُ اللہ اب یونیورسٹی کھلنے والی ہے۔ اُمید ہے وقت کے
ساتھ ساتھ تمام چیزیں نارمل ہو جائیں گی۔"
٭٭٭٭٭
28 فروری 2021
" امی کو بچھڑے آج ایک سال ہو چکا ہے۔ میں وہ دن کسیے
بھول سکتی ہوں جب امی ہم سب کو چھوڑ کر اگلی منزل کی جانب رواں ہو گئیں۔ امی کی
وفات میری زندگی میں ایک ٹرنگ پوائنٹ تھا۔ اُن کے بعد زندگی مکمل بدل کر رہ گئی
ہے۔
میں چاہتی ہوں کاش امی کو بتا سکتی کہ اس ایک سال میں کیا
کچھ بدلا۔
آج میں اس ڈائری میں امی کو مخاطب کر کے ہی لکھوں گی۔
"امی ! آپ کے بعد نہ صرف میری بلکہ ہم سب کی زندگی بدل
کر رہ گئی۔ آپ کوکھونا میرے لیے سب سے مشکل تھا۔ آپ کے بعد ہم سب کی زندگیوں میں
بہت بدلاؤ آیا۔
حمزہ آپ کو بہت یاد کرتا تھا۔ اُسے بہت وقت لگا ٹھیک ہونے
میں۔ اب ماشاء اللہ وہ پڑھائی پر بھی پورا دھیان دیتا ہے۔ کھیل کود اور محلے کے
لڑکوں کے ساتھ آوارہ گردی بھی اُس نے چھوڑ دی ہے۔
مریم شروع میں تو آپ کو یاد کر کے بہت روتی۔ کچھ دنوں تک تو
رات کو سوتے ہوئے بھی ایک چیخ سے اُٹھ جاتی اور پھر گھنٹوں آپ کا نام لر کر روتی
رہتی۔ کچھ ہفتے میں اُسے اپنے ساتھ سلاتی رہی۔ رفتہ رفتہ وہ بہتر ہوتی گئی۔ امی !
مریم بہت سمجھدار ہو چکی ہے۔آپ جانتی ہیں وہ آپ سے کتنا اٹیچ تھی۔
ابو بتاتے نہیں لیکن ابھی بھی آپ کو یاد کرتے ہیں۔ جب بھی
کمرے میں داخل ہوتے ہیں اُن کی نظر آپ کے بستر پر ضرورت جاتی ہے۔ اس آرزو میں کہ
شاید آپ وہاں بیٹھی ہوں۔
میں آج بھی آپ کا بستر، آپ کا تکیہ، آپ کی چادر وہیں رکھتی
ہوں۔ ہم بہن بھائیوں کو جب آپ کی یاد زیادہ ستاتی ہے تو آپ کے بستر پر جا کر بیٹھ
جاتے ہیں۔ اُس میں سے آپ کی خوشبو آتی ہے امی۔
آپ کے بعد میں نے گھر کا سارا کام سنبھال لیا تھا۔ صبح
یونیورسٹی جاتے ہوئے میں دن کا کھانا بھی بنا جاتی ہوں۔ میرے واپس آنے تک مریم اور
حمزہ گھر کا خیال رکھتے ہیں۔
آپ کے بغیر گزشتہ دو عیدیں بہت پھیکی گزریں۔ آپ ہوتی تھیں
تو ہمارے کپڑے خود تیار کرواتیں، مزے مزے کے کھانے بناتیں۔ ہماری عید تو آپ سے تھی
امی۔ آپ کے بغیر سب اُدھورا ہے۔"
اس سے زیادہ کچھ لکھنے کی میری ہمت نہ ہوئی۔یہ ایک ورق جو
لکھا روتے ہوئے ہی لکھا ۔
آج صبح بازار کچھ چیزیں لینے گئی تو سٹیشنری کی دکان کے پاس
سے گزرتے ہوئے کچھ کتابیں لینے کی یاد آئی۔
کتابیں لیتے وقت
میری نظر وہاں ایک طرف کو رکھی ڈائری پر نظر پڑی۔ یہ نارنجی رنگ کی جلد
والی ڈائری جس پر ایک آف وائٹ لکیر فرنٹ سائڈ سے شروع ہو کر پچھلی جانب تک جا رہی
تھی۔
اس کے ایک طرف پنسل رکھنے کی جگہ بھی بنی ہوئی تھی اور اوپر
نارنجی رنگ کا ایک الاسٹک، تاکہ ڈائری بند ہی رہے۔
وہاں اس قسم کی صرف دو ہی ڈائریاں پڑی تھیں۔ میں نے ایک اُٹھائی اور کاؤنٹر پر قیمت
ادا کر کے تھیلے میں ڈال لی۔ وہ بات علیحدہ ہے کہ میں کتابیں لینا بھول گئی۔
جب کچھ دیر بعد میں وہاں سے دوبارہ گزری اور کتابیں لینے
لگی تو اُس ریک پر میں نے اس ڈائری کے ساتھ والا پیس غائب پایا۔"
٭٭٭٭٭
5 مارچ 2021
" پچھلی ڈائری ختم ہونے کو تھی اس لیے کچھ روز قبل میں
یہ ڈائری بازار سے خرید لایا۔ گزشتہ کچھ
سالوں سے میں سٹیشنری کا تمام سامان ایک ہی دکان سے خرید رہا ہوں۔
اُس روز بھی جب ڈائری خریدنے وہاں گیا تو ایک کونے میں پڑی
اس ڈائری نے نا جانے کیوں مجھے اپنی جانب کھینچا۔
مجھے اس ڈائری کی جلد بڑی خوبصورت لگی جس واسطے میں نے اس
ڈائری کو خرید لیا۔
اب سے میں اپنے روز کے معمولات اسی میں لکھا کروں گا۔
ڈئیر ڈائری تمہارے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو میری ذات
کو سب سے اچھا جانتے ہو۔ میری زندگی میں کیا ہوا رہا تم سب سے آگاہ ہو۔
یہ حقیقت ہے کہ جس روز میں نے کائنات کو اُس پبلک لائبریری
میں دیکھا تھا اُسی دن مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ اگر ہماری ملاقات پھر کبھی ہوئی
تو یہ بات میرے لیے مشکل ہو جائے گی۔
پھر جب اُسے یونیورسٹی میں دیکھا تو اپنا دل اُس کے پاس
گرفتار ہوتا محسوس ہوا۔ جس روز اُس نے پہلی دفعہ مجھ سے بات کی، اُسی روز مجھے لگا
کہ خدا مجھے بچا لے۔ کیوں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ آگے مجھ پر کیسا مشکل وقت آنے
والا ہے۔
کورونا کے وہ چند ماہ جو میں نے گھر گزارے وہ نہایت ہی کٹھن
تھے۔ جب تک میں اُسے دیکھ نہ لوں، جب تک اُس کی آؤاز میرے کانوں میں نہ پڑے نا
جانے کیوں مجھے سکون نہیں آتا۔
یہ بات سچ ہے کہ ہم دونوں دوست نہیں ہیں لیکن اچھے کلاس
فیلوز ہیں۔
ڈئیر ڈائری میں اُس کے سامنے تو کنفیس نہیں کرسکتا لیکن
تمہارے سامنے کرتا ہوں۔ اس وقت میرے دل میں اُسے لے کر جو جذبات ہیں ، اگر اسے ہی
لوگ محبت کا نام دیتے ہیں تو ہاں! مجھے محبت ہو چکی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کیا میں کبھی
اُسے بتا بھی پاؤں گا یا نہیں۔ اگر بتایا تو اُس کا جواب کیا ہوگا۔ اُس کا ردِ عمل
کیسا ہو گا۔
لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ وہ ایک سمجھدار لڑکی ہے۔ شاید وہ
جان چکی ہو گی کہ میرے دل میں اُس کے لیے کس قسم کے جذبات ہیں۔ اگر کسی روز میں نے
اُس سے اظہار کر بھی دیا تو تو مجھے یقین ہے کہ وہ جواب دیتے وقت ہمیشہ کی طرح
تحمل کا مظاہرہ کرے گی۔"
٭٭٭٭٭
20 اپریل 2021
" نا جانے خرم میں ایسی کیا بات ہے کہ جب بھی وہ مجھ
سے بات کرتا ہے جی چاہتا ہے بس اُسے سنتی رہوں اور اُس کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو
دیکھتی رہوں۔
وہ ہمیشہ مجھ سے بات کرتے ہوئے گبھرایا جایا کرتا تھا۔
ہمیشہ بات کرتے میرے چہرے کی بجائے ادھر اُدھر دیکھتا۔
لیکن اب وہ نہ ہی گبھراتا ہے اور نہ ادھر اُدھر دیکھتا ہے۔
اکثر کلاس میں بھی میں نوٹ کرتی ہوں کہ وہ لڑکیوں والی سائڈ
پر منہ تک بھی نہیں موڑتا۔ لائبریری میں بھی اُس کا یہی حال ہے۔ اُس کے پاس سے کون
گزر رہا ہے، کیا کر رہا ہے ۔ اس بات سے اُسے کچھ غرض نہیں۔ وہ بس اپنے کام میں لگا
ہے۔
جب کبھی میری نظریں اُس سے ملتی ہیں تو پورے وجود میں ایک
عجیب سا احساس بہتا چلا جاتا ہے۔ میں نہیں جانتا یہ احساس کیسا ہے اور کیوں ہے۔
لیکن مجھے اُس کی آنکھوں میں ایک کشش سی معلوم ہوتی ہے۔
بلکل ویسی کشش جو مجھے اُس روز اُس پبلک لائبریری میں محسوس ہوئی تھی جب میں
نے پہلی دفعہ خرم کو دیکھا تھا۔
میں ڈرتی تھی کہ کہیں وہ بھی اُسی یونیورسٹی میں نہ جائے جس
کا ٹیسٹ میں دے رہی ہوں۔ میں اپنی راہیں اُس کے ساتھ ملنے سے روکنا چاہتی تھی۔
لیکن بلا آخر وہی ہو ا جو قسمت کو مظور تھا۔ ہم نہ صرف ایک
یونیورسٹی میں بلکہ ایک ہی کلاس میں آ گئے۔ یہاں تک پہلے سمسٹر سے اب تک ہمیشہ
پہلی پوزیشن بھی اُس کی آتی اور دوسری میری۔
میری ڈائری میں بھی آدھی سے زیادہ باتیں بھی اُسی کے متعلق
ہیں۔
میں ڈرتی ہوں اُس دن سے کہ جس دن اُس نے میرے سامنے اپنے
جذبات ا ظہار کیا۔ کیوں کہ اُس روز مجھے باقاعدہ اُس کے متعلق سوچنا پڑے گا۔
کون لڑکی ہے جو یہ نہیں چاہے گی کہ اُس کی زندگی میں
ایسا شخض ہے جو لائق بھی ہو، خوبصورت بھی،
لوگوں کی قدر کرنا جانتا ہو، عزت دینے اور
لینے کے سلیقے سے بھی آگاہ ہو، جو واقعی زندگی کا مطلب سمجھتا ہو اور اپنے مستقبل
کو لے کر سنجیدہ ہو۔
لیکن فی الحال کے لیے میں خدا سے دعا کرتی ہوں کہ مجھے کسی
قسم کی بھی ذلت اور آزمائش سے بچائے رکھے۔
٭٭٭٭٭
13 دسمبر 2021
" کچھ روز قبل ایک بڑا عجیب واقعہ رہ نما ہوا۔ لائبریری
میں کچھ کلاس فیلوز مجھ سے کچھ ٹاپک مجھنے آئے تھے۔ جن میں عبداللہ، حظیفہ، کائنات
اور ارم تھے۔
ڈئیر ڈائری ویسے تو میں تمہیں اپنے بیگ میں رکھتا ہوں لیکن
اُس روز لائبریری میں میرے میز پر پڑی تھی۔
جب کائنات وہاں آئی تو بلکل ویسی ڈائری میں نے اُس کے پاس
بھی دیکھی۔ اُس نے بھی یہ ڈائری دیکھ لی تھی ۔
" ایک جیسی ڈائری" میں نے اُس کی ڈائری پر نظر جماتے ہوئے کہا۔
جس کے جواب میں وہ بس مسکرا دی۔
میں نہیں جانتا یہ کس وقت ہوا لیکن میرے اندازے میں ٹاپک
سمجھتے وقت شاید کائنات نے ڈائری میز پر رکھ دی ہو جہاں ہم دونوں کی ڈائریاں آپس
میں گھل مل گئی ہوں اور جاتے وقت وہ غلطی سے میری ڈائری اُٹھا کے لے گئی اور میں
اُس کی۔
اُس رات جب میں نے ڈائری کھولی تو پہلا وقت کھولتے ہی مجھے
احساس ہو گیا کہ یہ ڈائری تو کائنات کی ہے۔
میں نے یہ ڈائری پڑھنا مناسب نہ سمجھا اور بند کر کے رکھنے
لگا لیکن بند کرتے ہوئے میری نظر اپنے نام پر جا پڑی۔
ہاں! اس ڈائری میں کائنات نے میرا تذکرہ متعدد مقامات پر کر
رکھا تھا۔
نا چاہتے ہوئے بھی میں یہ ڈائری پڑھنے لگا۔ جیسے جیسے ڈائری
پڑھتا گیا بہت سے راز مجھ پر کھلتے چلے گئے۔
جیسے ہم دونوں نے یہ ڈائری ایک ہی جگہ سے خریدی تھی اور اُس
دن پبلک لائبریری میں جو احساس مجھے محسوس ہوا وہی کائنات کو بھی محسوس ہوا۔
اُس تمام رات میں نے اُس کی ڈائری پڑھ ڈالی۔ میں اُمید نہیں
کر رہا تھا کہ کائنات کے دل میں بھی بلکل وہی جذبات ہیں جو میرے دل میں ہیں۔
یہ آگ یک طرفہ نہیں تھی بلکہ دو طرفہ تھی۔
اگر یک طرفہ ہوتی تو میں عذاب برداشت کر لیتا لیکن اب یہ دو
طرفہ ہے تو میں اُسے اس آگ میں جلتا دیکھ نہیں سکتا۔
مجھےاس معاملے پر مناسب غور و فکر کے بعد ہی کسی قسم کا
فیصلہ کرنا ہو گا۔"
٭٭٭٭٭
13 دسمبر 2021
" صبح خرم نے ڈائری واپس کی۔ کل لائبریری میں غلطی سے
وہ میری اور میں اُس کی ڈائری اُٹھا لائی تھی۔
لائبریری میں اُس کے ہاتھ میں بلکل میری جیسی ڈائری دیکھ
مجھے شدید حیرت ہوئی۔ کیوں کہ اُس روز جب میں یہ ڈائری خرید رہی تھی تو وہاں اس
جیسی دو ڈائریاں پڑی تھیں۔ میرے خریدنے کے کچھ دیر بعد ہی دوسری بھی کوئی خرید لے
گیا اور لازماَ وہ ڈائری خریدنے والا خرم ہی تھا۔
اس سے قبل میں نہیں جانتی تھی کہ اُسے بھی میری طرح ڈائری
لکھنے کی عادت ہے۔
اس ڈائری میں سب سے پہلی تاریخ 5 مارچ 2021 کی درج تھی۔ میں
یہ ڈائری بند کر کے رکھ دینے والی تھی اگر میں نے وہاں اپنا نام نہ پڑھ لیا ہوتا۔
جیسے میری ڈائری میں اُس کا تذکرہ ہوتا تھا ویسے ہی اُس کی
ڈائری میں میرا تذکرہ تقریباَ روز ہی ہوتا۔
جس بات سے میں کترا رہی تھی۔ جس سے میں ڈر رہی تھی آخر وہی
معاملہ ہوا۔ خرم نے ڈائری میں صاف صاف الفاظ میں اظہار کیا ہوا تھا۔
مجھے پوری اُمید ہے کہ جیسے میں نے اُس کی ڈائری پڑھی ویسے
ہی اُس نے بھی پڑھی ۔ کیوں کہ ڈائری کا ایک ورق ہلکا سا مڑا ہوا محسوس ہوا۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی میرے جذبات و احساسات کے متعلق جان
چکا ہو گا۔
لیکن ابھی تک اُس نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
میں نہیں جانتی اگر وہ بات کرتا ہے تو میں اُس کا کیا جواب
دوں گی۔"
٭٭٭٭٭
11 مارچ 2022
" میرے کالج کے پرنسپل سر احمد کے بھائی یعنی سر طاہر
نے اس سال کے آغاز میں ہی مجھے اپنی کمپنی جوائن کرنے کی آفر دے دی تھی۔
میں روز کے چار گھنٹے اُن کی کمپنی میں کام کر رہا ہوں۔ فی
الحال تنخواہ 35 ہزار ہے۔ لیکن کنٹریکٹ کے مطابق گرجیویشن کے بعد 8 گھنٹے کام کرنے
پر وہ مجھے 70 ہزار ماہانہ تنخواہ دیں گے۔
میرے لیے اپنے کئیریر کا آغاز اس سے زیادہ اچھا اور کیا ہو
سکتا تھا۔
کائنات کی ڈائری پڑھ لینے کے بعد میں اُس کے جذبات سے واقف
تو ہو چکا تھا لیکن میں نے کائنات سے اُس متعلق کوئی ایسی بات نہیں کی۔ کیوں کہ
میں چاہتا تھا کہ پہلے سر طاہر کی کمپنی جوائن کر لوں پھر کائنات سے کوئی بات کروں
گا۔
میں نہیں چاہتا تھا کہ کائنات کو کوئی جھوٹے یا کمزور خواب
دکھاؤں جن کا نہ کوئی مقصد ہو اور نہ ہی وہ کبھی کامیاب ہوں۔
آج شام کو بڑے سوچ بچار کے بعد میں نے کائنات کو میسیج کر
دیا کہ میں اُس سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اُسے معلوم ہو
گا کہ میں کس متعلق بات کرنے والا ہوں۔"
٭٭٭٭٭
12 مارچ 2022
" کل رات خرم نے کچھ ضروری بات کرنے کے کہا تھا۔ آج
یونیورسٹی میں بلا آخر وہ اس موضوع کے متعلق بات کرنے لگا۔
اول تو کچھ دیر ہم دونوں خاموشی سے آمنے سامنے بیٹھے رہے۔
اُس کی نظریں میز پر جمی ہوئی تھیں۔
" کائنات! آج سے تین ماہ قبل ہم ایک دوسرے کی ڈائری
پڑھ کر ایک دوسرے کے جذبات سے واقف ہو چکے ہیں" اُس نے خاموشی توڑی۔
اس وقت کیفے میں اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی مجھے اس بات کی
پرواہ تھی کہ کوئی ہماری بات سن کر کیسے ردِ عمل کا اظہار کرے گا۔
" میں اُسی دن آپ سے سب کلئیر کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ
فیلینگز جو میرے الفاظ کی صورت میں میری ڈائری میں موجود تھے اُن کا اظہار آپ کے
سامنے کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ لیکن میں آپ کو کسی بھی قسم کی جھوٹی دنیا کے حسین خواب
نہیں دکھانا چاہتا تھا"
وہ ابھی تک سر نیچے
کیے باتیں کر رہا تھا۔ میں سانس روکے اُس کی باتیں سن رہی تھی۔
" میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اُس ڈائری میں جو کچھ
لکھا تھا وہ سچ تھا ۔۔۔ اس وقت میں خود کو کسی بہتر پوزیشن پر پاتا ہوں اسی لیے آپ
کے سامنے اظہار کر رہا ہوں ۔۔۔ آپ میرے متعلق بہتر جانتی ہیں ۔۔ ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ باقاعدہ غور کر لیں ۔۔۔
اگر آپ کی رضامندی کے بعد ہی میں اپنے والدین کو آپ کے گھر بھیجوں گا"
وہ اپنی بات ختم کر کے اُٹھ کھڑا ہوا۔
" آپ جب چاہیں مجھے اپنے جواب سے آگاہ کر سکتی
ہیں" اُس کا انداز سنجیدہ تھا۔
میں کچھ لمحے وہیں بیٹھی اُسے جاتا دیکھتی رہی۔ "
٭٭٭٭٭
09 اپریل 2022
" میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا اور کون سا لمحہ ہو
سکتا ہے کہ آج کائنات سے اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔
لیکن اس کے ساتھ اُس نے شرائط بھی رکھیں جن پر مجھے کسی قسم
کا اعتراض نہیں ہے۔
اول یہ شرط کہ میں گریجویشن کے بعد ہی اپنے والدین کو اُس
کے گھر رشتے کے لیے بھیجوں۔ مجھے اس شرط پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ تب تک
میرا کمپنی میں کنٹریکٹ بھی کنفرم ہو جائے گا۔
دوم یہ شرط تھی کہ کائنات کے والد نے جو فیصلہ اُس کی زندگی
کے بارے میں کیا وہ ہم دونوں کو قبول کرنا ہو گا۔
مجھے ان دونوں شرائط سے کسی قسم کا اعتراض نہیں اور نہ ہی
اس بات سے کہ کائنات نے ایک ماہ بعد جواب دیا۔ میں جانتا ہوں کہ جہاں عمر بھر کا
ساتھ لکھا ہو وہاں جتنا غور کیا جائے اُتنا بہتر ہے۔
آج رات کھانے کے بعد میں نے والدین کو بھی بتا دیا کہ گرجیویشن
کے بعد وہ میرا رشتہ میری پسند کی جگہ لے جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔
اگر یہ بات میں نے آج سے کچھ عرصہ قبل کی ہوتی تو شاید میرے
والدین میری اس خواہش پوری نہ کرتے۔
لیکن میں نے ایک تو ہمیشہ کوشش کی کہ والدین کی توقعات پر
پورا اُتروں اور دوسرا اِسق وقت میں ایسے مقام پر موجود تھا جہاں میں اپنی زندگی
کے فیصلے بہتر کرنا جانتا ہوں۔
جس دن میرے والدین نے میرے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونا
چھوڑ دیا وہی دن میرا کامیابی کا تھا۔
ڈئیر ڈائری اگلا ماہ میری زندگی میں بہت اہم ہے۔اسی ماہ میں
گریجویٹ ہونے والا ہوں، میری جاب بھی کنفرم اسی ماہ ہو گی اور اسی ماہ میں کائنات
کے گھر رشتہ بھیجنے والا ہوں۔
٭٭٭٭٭
02 جون 2022
" آج سے پورے چار سال قبل میں نے اُس پبلک لائبریری
میں جب خرم کو دیکھا تھا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ قسمت ہم دونوں کی راہیں یوں
ایک ساتھ ملانے والی ہے۔
آج خرم میرے گھر رشتہ لے کر آیا تھا۔
گریجویشین سے کچھ روز قبل محلے کے ایک لڑکا کا رشتہ میرے
لیے آیا۔ چونکہ میری پھوپھو سے کافی فرینکنیس ہے اس لیے میرا جواب بھی وہی پوچھنے
آئیں۔
میرے صاف انکار پر جب اُنھوں نے وجہ پوچھی تو میں نے اپنی
پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔
اُنھیں اس بات سے بھی آگاہ کر دیا کہ خرم کچھ دنوں میں
باقاعدہ رشتہ لانے والا ہے اور اگر ابو اور اُنھیں یہ رشتہ قبول نہ ہوا تو مجھے
کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
جب اس بات کی خبر ابو کو ہوئی تو وہ مجھے جھڑکنے کو آگے
بڑھے لیکن پھوپھو نے اُنھیں وہیں روک دیا۔
" دیکھو امجد!" پھوپھو ابو سے مخاطب تھیں" بیٹوں
کی طرح بیٹیوں کا بھی حق ہے کہ وہ بھی اپنی پسند کا رشتہ چن سکیں ۔۔۔ ہماری کائنات
بہت سمجھدار اور سلجھی لڑکی ہے ۔۔۔ یہ عزت دار گھرانے کی بیٹی اپنے والدین کی عزت
رکھنا جانتی ہے تبھی تو اس نے اُس لڑکے کو رشتہ لانے کا کہا اور اختیار ہمیں سونپ
دیا۔۔۔ دیکھ میرے بھائی ! تیری بیوی کی وفات کے بعد جس طرح اس نے بہن بھائیوں اور
اس گھر کو سنبھالا اُس کے بعد اس کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ اپنی پسند کا انتخاب کر
سکے"
پھوپھو کے الفاظ نے ابو کو جلد ہئ قائل کر لیا تھا۔
آج جب خرم رشتہ لایا تو ابو کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا کہ اُن کی
بیٹی اپنی زندگی میں بہتر فیصلہ کرنا جانتی ہے۔"
٭٭٭٭٭
ختم شد
Comments
Post a Comment