قسط نمبر: 13

 " حقیقت پسندی انسان  کے لیے ایک نعمت سےکم نہیں۔۔۔ جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی ۔ کڑوہے سچ کو بولنے کی صفت تو سبھی میں ہوتی ہے لیکن سچ کے کڑوہے گھونٹ کو  پی لینے کی صفت بھی کسی کسی میں ہوتی ہے۔ جس دن آپ میں سچ برداشت کرنے کی صلاحیت آ جائے ، اُس دن آپ سمجھ لینا کہ شعور کی پہلی اور سب سے دشوار ترین سیڑھی آپ نے پار کر لی ہے"

" سر ! کیا شعور کی وجہ سے انسان حقیقت پسند ہوتا ہے یا حقیقت پسندی انسان کو با شعور بنا دیتی ہے" سوال فواد کی طرف سے تھا۔

"اگر دیکھا جائے تو ایک انسان بچپن سے حقیقت پسند واقع ہو سکتا ہے مگر با شعور نہیں"

" تو سر! کیا ہم شعور کو عمر سے منسوب کر سکتے ہیں؟" فواد کی طرف سے پھر ایک سوال آیا تھا۔

" شعور اور عمر دو مختلف چیزیں جن کا ایک ساتھ کچھ واسطہ نہیں۔ اس کی دلیل میں یہ دیتا ہوں کہ تاریخ تو اس بات کی بھی شاہد ہے کہ ایک سترہ سالہ نوجوان لڑکا پورا سندھ فتح کر لیتا ہے۔اب سوا ل یہاں یہ ہے کہ اُس سترہ سالہ لڑکے میں شعور کی کمی تھی یا اُس سے پہلے سندھ پر آئے حملہ آورؤں میں" اب کی بار سوال پروفیسر ثقلین کی طرف سے تھا۔

" اچھا چلو ایک اور دلیل سنو۔۔ تاریخِ اسلام میں ایک نو سال کا لڑکا اسلام قبول کر کے ہدایت یافتہ ہو جاتا ہے مگر ایک بوڑھا عرب سردار حق و باطل میں فرق کرنے سے قاصر رہتا ہے۔۔۔ اب یہاں کیا عمر اور کیا شعور۔۔۔ یہ تو خدا کی دین ہے وہ جسے چاہے عطا کر دے" پروفیسر ثقلین نے ایک نظر پوری جماعت پر ڈالی جس میں سے اکثر سپاٹ چہروں سمیت اُنھیں ہی تکنے میں مگن تھے۔

" سر! کیا اچھی تربیت  اور گھریلو حالات انسان کو جلد با شعور بنا دیتے ہیں؟"

'' جی ہاں!۔۔ بلکل ہو سکتا ہے۔۔۔ انسان کی بہترین تربیت کے ساتھ ساتھ اُس کے گھریلو حالات اُسے جلد با شعور بنانے کی بھی وجہ ہو سکتے ہیں۔۔۔ اگر آپ میری گزشتہ مثال پر غور کریں تو آپ کا معلوم ہو گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تربیت خود نبی کریم ؐ نے کی۔۔۔تبھی تو وہ بابِ علم کہلائے"  پروفیسر ثقلین کہہ رہے تھے" اور ہاں۔۔۔ انسان کو شعور ہمیشہ وقت پر ہی آتا ہے۔۔۔ جلدی یا بعد کا تصور نہیں " 

گھنٹی بجتے ہی پروفیسر ثقلین کتابیں سمیٹتے ہوئے کمرے سے باہر جا چکے تھے۔

" یار فواد! یہ سر اپنا مضمون چھوڑ کر باقی ہر مضمون کی باتیں کیوں کرتے رہتے ہیں" شہریار نے فواد سے پوچھا۔

"سر نے خود ہی تو ایک مرتبہ کلاس میں بولا تھا کہ اُنھیں ادب سے بے حد لگاؤ ہے شاید ایسی وجہ سے وہ  ان موضوعات پر بولتے ہیں"

" لگاؤ تمہیں اور سر کو ہے۔۔ ہم بیچارے ویسے پھنس جاتے ہیں"

" اچھا میں لائبریری جا رہا ہوں۔۔۔ تم ہاسٹل چلے جانا" فواد نے بستہ کندھوں پر ڈالا۔

٭٭٭

“It is to be notified to all students that annual speech competition for English and Urdu is to be held in next month. Last date to apply is January 23rd

" کیوں سدرے! تم اپلائی تو نہیں کرنے والی" نورین نے سدرہ کو اس قدر اشتیاق سے پڑھتا دیکھ کر کہا۔

" یس"

" انگلش میں نا!"

" نو! اس بار اردو میں"

" مگر تمہاری اردو تو۔۔۔۔" نورین کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔

" میری اردو تو کمزور ہے  اور میرابولنے کا لہجہ بھی ٹھیک نہیں۔۔۔ یہی نا" سدرہ بات کاٹتے ہوئے بولی۔

" ہاں"

" مگر میرے لیے یہ نئی فینٹسی ہے"

" اب اس میں کیسی فینٹسی؟" نورین نے حیرت سے پوچھا۔

" سوچو جب یونیورسٹی کی ایک حسین لڑکی سب کے سامنے سٹیج پر اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں تقریر کرے گی تو کتنے لڑکے میری اداؤں پر ٹوٹ مریں گے۔۔۔ ہائے!"

" یہ کرنا ضروری ہے کیا۔۔۔۔ کم از کم یونیورسٹی میں تو یہ کام چھوڑ دو" نورین نے فکر مندی سے کہا۔

" اچھا چلو سر ثقلین کے پاس" سدرہ نے نورین کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانا چاہا۔

" اب سر ثقلین کے پاس کیوں جانا ہے تمہیں؟" ہڑبڑائی ہوئی نورین نے سدرہ سے پوچھا۔

" اردو سپیچ کس نے لکھنی ہے؟ نہ مجھ سے لکھنے ہوتی ہے اور نہ تم سے" سدرہ نے کہا

٭٭٭

" مے آئی کم اِن سر؟"

(May I come in Sir?)

" یس" اندر سے آواز آئی۔

" اسلام ُعلیکم سر!" دروازہ کھول کر سدرہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا جہاں پروفیسر ثقلین میز پر اپنے سامنے کچھ لکھ رہے تھے۔

" وعلیکم سلام! جس مس سدرہ!۔۔۔ بولیے " پروفیسر ثقلین نے ایک نظر سدرہ اور اُس کے ساتھ کھڑی نورین پر ڈالتے ہوئے کہا۔

" سر! ہمیں سپیچ لکھوانی تھی۔۔۔ کل آخری دن ہے  اپلائی کرنے کا"

" سوری مس سدرہ!۔۔۔ میں آج کل میں مصروف ہوں۔۔۔ آپ ایسے کریں اپنے کلاس فیلو فواد سے بات کر کے دیکھ لیں۔۔۔ وہ آپ کی اچھی مدد کر سکتا ہے" پروفیسر ثقلین نے اپنی نظر اوپر سے اُٹھائے بغیر اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔

" مگر سر !۔۔۔" سدرہ نے کچھ بولنا چاہا۔

" جاتے ہوئے دروازہ بند کرتے جائیے گا" پروفیسر ثقلین نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا۔

٭٭٭

" یار سدرے! یہ سر ثقلین کو کیا تھا۔۔۔ کلاس میں تو اتنے لہجے میں بات کرتے ہیں اور یہاں دیکھو تو۔۔۔" نورین نے سدرہ کی جانب دیکھا جس کے منہ پر مسکراہٹ چمک رہی تھی " اب تم ہنس کس لیے رہی ہو"

" میں یہ سوچ کر مسکرا رہی ہوں کہ جب اُس دیہاتی کو میں سپیچ لکھنے کا بولوں گی تو کیسے لال ٹپکنے لگے گی اُس کی"

" اب ایسا بھی نہیں وہ" نورین نے طرف داری کرنے کے انداز میں کہا،

" تم بڑی طرف دار ہو رہی ہو اُس کی" سدرہ نے پلٹ کر نورین کی طرف  عجیب سی شق والی نظروں سے دیکھا۔

" یار! شریف لڑکا ہے وہ"

" ابھی نکلتی ہے اُس کی شرافت۔۔ دیکھنا تو" سدرہ بولی" ویسے وہ ہے کہاں"

" پتا نہیں" نورین نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

" شہریار! بات سنو" سدرہ نے پاس سے گزرتے ہوئے شہریار کو دیکھ کر بولا۔

" جی سدرے بولیے!۔۔۔ آج ہم غریبوں پر نظر کرم کیسے"

" یہ فواد کہاں ہے اس وقت"

" اُس نے سوائے لائبریری کے کہاں ہونا ہے اس وقت" شہریار بولا۔

"اوکے۔۔ شکریہ"

" ویسے کوئی خاص کام تھا" شہریار نے پوچھنا چاہا۔

" تمہارے مطلب کا نہیں" سدرہ بولتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

" عجیب گھمنڈی لڑکی ہے" شہریار نے سدرہ اور نورین کو جاتے دیکھ کہا۔

لائبریری میں قدم رکھتے ہی اُس کا سر چکرانے لگا۔ اتنی کتابیں ایک ساتھ دیکھ کر اُس کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا تھا۔ اُسے بچپن سے کتابوں سے شدید چڑ تھی۔

سدرہ کے بابا نے اپنی ایک بہت عمدہ لائبریری بنا رکھی تھی۔ جہاں دنیا کے مصنفین کی لکھی بہترین سے بہترین، مہنگی سے مہنگی اور نادر و نایاب نسخے جمع کیے گئے تھے۔ ہر اہلِ ذوق بندہ اُن کی لائبریری میں یہ کتابیں دیکھ کر دنگ رہ جاتا۔

سدرہ کو کتابوں سے ذرا بھی لگاؤ نہیں تھا۔ اُس کے بابا نے اُسے کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لیے بڑی سے بڑی لالچ دی مگر وہ تھی کہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

اُن کی خواہش تھی کہ کبھی اُن کی بیٹی بھی کتابوں کی شوقین ہو جائے۔ اسی واسطے وہ اکثر اکلوتی بیٹی سدرہ سے کہا کرتے تھے کہ " میں یہ لائبریری تمہارے ورثے میں چھوڑ کر جاؤں گا" اور آگے سے سدرہ کا جواب ہوتا کہ وہ کیا کرے گی اس ردی کا۔

جس پر وہ ہنس دیتے کہ جسے وہ دنیا کا سب سے بڑا خزانہ سمجھتے ہیں اُسے اُن کی بیٹی ردی تسلیم کرتی ہے۔

آج وہ ہر گز لائبریری نہ آتی مگر اُس کا یونیورسٹی سے جانے کا وقت بھی ہوا جاتا تھا اور فواد تھا کہ لائبریری سے باہر آنے کو تیار نہ تھا۔

نا چار وہ نورین کو لیے لائبریری کے اندر داخل ہوئی جہاں کتابوں کر انبار اُس کا انتظار کر رہے تھے۔

اُسے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے اُس کے قدم لائبریری میں پڑتے ہی دنیا کا نظام رک سا گیا ہو۔ ہر چیز  پر جیسے سکوت طاری ہو گیا ہو۔

لائبریر ی کی خاموش فضا میں صرف کتابوں کے صفحے پلٹنے کی آواز کے سوا اور کوئی آواز نہ تھی۔

اتنی بڑی لائبریری میں اُس کے لیے فواد کو تلاش کرنا بڑا کٹھن ہوتا اگر  اس وقت کلاسیں  ہوتیں۔  کیوں کہ اکثر لڑکے لڑکیاں کلاس سے بچنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے تھے۔ مگر دن کے اس پہر لائبریری تقریباََ خالی تھی۔

ایک کونے میں اُسے فواد کتابوں میں غرق نظر آیا۔ وہ چلتی ہوئی اُس کے قریب جا کھڑی ہوئی۔

کتابوں کا ڈھیڑ اپنے سامنے میز پر رکھے، مختلف طرز کی کتابوں سے اپنے مطلب کی چیز رجسٹر پر لکھتے ہوئے فواد نے کسی کو اپنے قریب کھڑا پایا تو ایک پل کو رک گیا۔

اُس نے سر اوپر اُٹھا کر دیکھا تو بازوؤں کو اپنے گر لپیٹے ہوئے سدرہ کی نظروں کو خود پر محسوس کیا۔

" جی محترمہ! کوئی کام ہے آپ کو" فواد نے کرسی سے ٹیک لگا کر سدرہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

" اردو سپیچ لکھوانی ہے تم سے ۔۔۔ لکھ دو گے؟" سدرہ کے انداز میں نہ کوئی گزارش تھی اور نہ ہی درخواست۔ بس حکم لگ رہا تھا۔

" سوری!۔۔۔ میرے پاس وقت نہیں" فواد نے سدرہ کو جواب دیا اور دوبارہ سے کتاب کی طرف نظر رکھ لی۔

" وقت کس لیے نہیں؟۔۔۔۔ میں نے کہا مجھے اردو سپیچ لکھوانی ہے اور تم سے ہی لکھوانی ہے۔۔۔ کل صبح تک مجھے لکھ کر دو گے تم" سدرہ نے حکم سنانے کے انداز میں کہا۔

" محترمہ آپ کو ایک مرتبہ کہی بات سمجھ میں نہیں آتی کیا؟۔۔۔ جب میں نے بولا کہ میرے پاس وقت نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ میں مصروف ہوں۔۔۔ میں یہاں آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے نہیں بیٹھا" فواد کے لہجے میں سختی تھی " اب جائیں میرا وقت برباد نہ کریں"

فواد کا رویہ اُس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ بچپن سے اگر کوئی بھی اُس کے ساتھ اس رویے میں بات کرتا تو وہ  یا تو غصے میں اگلے شخض کے سر چڑھ دوڑتی یا خود ہی رونا شروع کر دیتی۔

اُسے لگا تھا کہ میٹھے اندازے میں بولنے پر فواد بھی دوسرے لڑکوں کی طرح دل سے پگھل جائے گا مگر وہ کیا جانتی تھی کہ اُس کا رویہ اس قدر سرد ہو گا۔

فواد  اور سدرہ کا مکالمہ لائبریری میں موجودکافی لوگوں نے سن لیا تھا۔سب کی نگاہیں سدرہ پر ٹکی تھیں۔ جسے وہ خود پر ذرا برابر بھی محسوس نہیں کرپا رہی تھی۔

جس تیزی سے اُس نے فواد پر حکم صادر کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اُس سے دگنی تیزی میں وہ لائبریری سے باہر نکل آئی۔

" سدرے! سدرے! رکو تو یار!۔۔۔۔ کدھر  جا رہی ہو" نورین نے تیزی سے جاتی ہوئی سدرہ کو کہا جو لائبریری سے نکلتے ہی سیدھا یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کی جانب چلی جا رہی تھی۔

" بات تو سنو یار!" نورین نے سدرہ کو  روکنا چاہا۔ مگر  اُس کے قدم رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

لائبریری سے نکل کر یونیورسٹی کے مرکزی دروازے تک وہ تقریباََ بھاگتی چلی آ رہی تھی۔ نورین حیران تھی کہ وہ رک کیوں نہیں رہی۔ فواد کی ذرا سی بات پر ایساغصہ دکھانے کی بھی کیا ضرورت۔ غلطی بھی تو سدرہ کی اپنی تھی۔

سدرہ نے کوئی جواب دیے بغیر گاڑی کا دروازہ کھولا اور ڈرائیور کوچلنے کا بول کر وہاں سے نکل گئی۔ جب کہ سدرہ وہاں کھڑی اُسے دیکھتی رہ گئی۔

٭٭٭

" سر فواد! سر فواد! " عقب سے کسی کی آواز پر اُس نے پلٹ کر دیکھا۔

" سر! وہ  ندیم صاحب آپ کودفترمیں بلا رہے ہیں" چپڑاسی نے فواد سے کہا۔

" اچھا!" وہ بولا۔

" فواد صاحب !آپ کی پچھلے ایک ماہ کی کارکردگی واقعی بہت متاثر کن تھی" ندیم صاحب نے فواد کو بتایا۔

" جزاک اللہ!"

" سر یوسف نے آپ کے متعلق بلکل ٹھیک کہا تھا ۔۔۔ اب دیکھیے آپ کے یہاں پڑھانے کا نتیجہ کہ تمام بچے کہتے ہیں کہ ہمیں سر فواد کے پاس پڑھنا ہے۔۔۔ کیوں کہ وہ بہت اچھا پڑھاتے ہیں"

" ندیم صاحب! پڑھاتے تو سب اچھا ہیں۔۔۔ بس میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ میری طرف سے کوئی کمی کوتاہی باقی نہ رہے"

" اچھا باتیں تو ہوتی رہی گیں مگر یہ لیں آپ کی ایک ماہ کی تنخواہ" ندیم صاحب نے ایک خاکی لفافہ فواد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

" مگر یہ طے کی ہوئی رقم سے کچھ زیادہ نہیں" فواد نے نوٹ گنے۔

" میں نے پہلے بولا نا کہ آپ کے پاس اب زیادہ بچے پڑھنا چاہتے ہیں ۔۔۔ بلکہ زیادہ پڑھ بھی رہے ہیں۔۔۔ تو اسی لیے آپ کو بغیر بتائے رقم میں اضافہ کر دیا" ندیم صاحب نے تفصیل دی۔

لمبا دن تھکاوٹ سے بھر پور ہوتا ہے اور فواد کے لیے تو یہ کچھ حد سے زیادہ ہی تھکاوٹ کا باعث بنتا تھا۔

فواد کا دن تین مراحل میں تقسیم تھا۔ صبح یونیورسٹی جانا، دن کو ٹیوشن اکیڈمی جا کر پڑھانا اور مغرب کے بعد ہاسٹل لوٹ کر آنا۔

مگر آرام کرنے کو ایک پہر بھی کامل نصیب نہ ہوتا تھا۔  ہاسٹل پہنچ کر وہ کچھ دیر سستاتا اور پھر یونیورسٹی کا کام لے کر بیٹھ جاتا۔

اگلے ہفتے یونیورسٹی سے ڈیڑھ ماہ کی چھٹیوں پر اُسے گھر بھی جانا تھا۔ مگر ابھی تک اُس نے خط کے ذریعے گھر اطلاع نہ دی تھی۔

" یونیورسٹی سے چھٹیوں پر ایک ساتھ ساری تھکاوٹ اُتار لوں گا" اُس نے سوچا مگر اگلےہی لمحے اُسے یاد آیا کہ چھٹیاں تویونیورسٹی سے ہوری ہیں کاموں سے تو نہیں۔ گاؤں جا کر بھی تو اُسے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا ہے۔

اگلے دن دندیم صاحب سے بات کرنے پر اُسے یہ بھی معلوم ہوا کہ موسم سرما کی تعطیلات شہر کے تمام تعلیمی اداروں میں ہو رہی ہیں جس بنا پر اُسے اکیڈمی سے بھی چھٹی ہے۔

فواد کی تنخواہ شروع شروع میں چھ سو روپے تھی جو پھر رفتہ رفتہ بڑھتے بڑھتے ایک ہزار ہو گئی۔ فواد اپنے پاس صرف تین سو روپے رکھتا اور بقیہ تمام رقم گھر منی آرڈر کر دیتا۔

امین بخش بھی خوش تھا کہ فواد کی طرف سے کوئی مستقل رقم گھر موصول ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اُس کی پڑھائی بھی۔ بوڑھے والدین کو سوائے اپنی اولاد کو پھلتا پھولتا دیکھنے کے اور کیا آرزوکر سکتے تھے۔

وہ تو ایک ایسا گھنا درخت تھے جو وقت سے ساتھ ساتھ بوڑھا ہوتا جا رہا تھا۔ جس کی شاخیں قرب و جوار میں پھیل کر سخت دھوپ کے دنوں میں سایہ کرنے کے کام آتی تھی۔ جن کے پتے ہوا کے سرد جھونکوں میں اپنا تعلق شاخوں سے کاٹ کر ہوا  کی شدت کو روکنے کا کام کرتی تھیں۔ جس کا تنا بذاتِ خود تو سر اُٹھائے تن کر کھڑا تھا مگر اُس کا وجود اندر سے خالی ہو چکا تھا۔

یہ دن بڑھاپے کے نہیں بلکہ عالمِ شباب کے تھے۔ جن پر درختوں کے پتے ہرے اور شاداب۔ ٹہنیوں میں مضبوطی اور پکڑ۔ سائے میں راحت۔ پھل میں ذائقہ۔ تنے میں تناؤ اور جڑوں میں اپنا وجود بر قرار رکھنے کی صلاحیت تھی۔

Comments

Popular Posts