قسط نمبر: 17

 انسان کی زندگی میں وقت کی اہمیت کسی ویران جنگل و بیاباں کے قریب بہتی ہوئی اُس میٹھے پانی کی ندی کے مانند ہے جس سے روحِ زمین پر جاندار اپنی تشنگی مٹانے کا کام لیتے ہیں۔ یہ ندی  اُن جانداروں کی زندگی میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ جس کے بغیر اُن کا تمام دن صحراؤں کے پرندوں کی مانند محض پانی کی تلاش میں پرواز کرتا گزر جائے۔

وقت ندی کے بہتے اُس پانی کی مانند ہے جو ایک بار  بہہ گیا تو پھر پلٹے گا نہیں۔ لیکن اکثر اوقات انسان اپنا سب کچھ داؤ پر لگاا کر اُسے بہتے پانی کی تلاش میں سرگرداں گھومتا رہتا ہے۔ جبکہ وہ نادان اس بات سے نا واقف ہوتا ہے کہ پہلے سے بہہ چکے پانی کے پیچھے بھاگنے  کے دوران ندی اپنے دامن سے ایک بڑا ریلا گزار چکی ہے۔

اب وہ نادان اپنی غلطی کو تسلیم کر کے واپس کو پلٹنے کی کوشش کرتا ہے مگر نتیجتاََ اُس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔

انسان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ خود کو کسی سانچے میں ڈھالنے کی بجائے وقت کی ندی میں خود کو لکڑی کے تختے کی مانند چھوڑ دے۔ ماضی کو حال میں رونے سے مستقبل خراب ہوتا ہے۔

بس سے اُترتے ہی اُسے دور کسی گاؤں سے عصر کی اذان سنائی دی۔آج اُس کا تمام دن سفر میں کٹ گیا تھا۔

ایک ہاتھ میں اُس نے کالے رنگ  کا نیا سوٹ کیس پکڑ رکھا تھا جو حال میں ہی اُس نے بازار سے خریدا تھا۔ جبکہ ایک بستہ اُس نے کندھوں پر بھی ڈال رکھا تھا۔

تمام دن بس میں گزارنے کے باعث گرمی سے اُس کا حلق خشک ہوتا جا رہا تھا۔ پاس سے گزرتے ہوئے ماشقی سے اُس نے پانی کا ایک  گلاس لے کر پیا۔ ایک آنہ اُس کے ہاتھوں میں تھمایا اور گاؤں کی راہ لے لی۔

گاؤں کا راستہ اب اس قدر کچا بھی نہیں رہا تھا۔ آس پاس کے گاؤں والوں نے حکومت کو اس راستے کو پختہ کرنے کی اپیل کی تھی جو منظور ہوگئی تھی۔ اب یہ کچا راستہ پختہ ہو کر سڑک کی صورت اختیار کر چکا تھا۔

سبز کھیتوں کے درمیان سے جاتی ہوئی وہ سڑک اس کے گاؤں غازی پورہ سمیت بے شمار گاؤں کو آپس میں ملانے کا کام کرتی تھی۔

یہ سڑک آس پاس کے گاؤں والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ اس سڑک سے نہ صرف آمد و رفت آسان ہو گئی تھی بلکہ بازار تک گاؤں والوں کی تیار کردہ چیزوں کی رسائی بھی ممکن ہو گئی تھی۔

" بابو جی ! کتھے جانا ہے" فواد کے قریب سے گزرتی ہوئی سوزوکی سے ایک شخض نے جھانک کر   آواز دی۔

" شکیلے تو!" فواد نے  گاڑی میں سے جھانکتے ہوئے شکیل کو دیکھ کر کہا۔

" فواد!۔۔۔تو کب آیا" شکیلا ہڑبڑایا مگر پھر فوراََ ہی گاڑی سے اُتر کر فواد کو گلے لگا لیا۔

" تو ادھر کیا کر رہا ہے۔۔۔ اور یہ گاڑی کب لی" فواد نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئےپوچھا۔

" یارا!  بس یہ سڑک بنی تو ابا سے مشورہ کر کے یہ سوزوکی  لے لی۔۔۔ روزانہ گاؤں سے شہر کے تین چار چکر لگا لیتا ہوں۔۔۔۔ اچھی گزر بسر ہو جاتی ہے" شکیلے نے خوشی سے بتایا۔

" اللہ کا شکر ہے!۔۔۔ اچھا یہ سڑک کب بنی"

" یہ جس دن تو لاہور گیا تھا نا!۔۔۔ اُس سے ہفتہ بعد ہی بننا شروع ہو گئی تھی"

" چلو اچھا ہو گیا"

شکیلے نے فواد کو برگد کے پیڑ کے قریب اُتارا۔" یہ پکڑ" فواد نے شکیلے کے ہاتھ میں کرایہ پکڑاتے ہوئے کہا۔

" نا جی!۔۔۔ اب یاروں سے بھی کب کرایہ لینے لگا شکیلا" شکیلے نے فواد کا ہاتھ پیچھے کر دیا۔

   اب گاؤں کی گلیوں میں چہل پہل پہلے سے زیادہ تھی۔ مگر یہ برگد کا پیڑ ویران ہو چکا تھا۔ اس تلے بیٹھنے والے لوگ رفتہ رفتہ اس دنیا سے چل بسے تھے۔

گاؤں میں گلیاں پختہ نظر آنے لگی تھیں جن کا مطلب تھا کہ گاؤں کی کمیٹی ابھی تک چل رہی ہے۔

اب نالیوں کو پار کرتے وقت پانی کے چھینٹے پڑنے کا بھی کوئی خطرہ نہ تھا۔ جبکہ گاؤں کی حدود میں کئی دوسرے گھروں کا بھی اضافہ ہو چکا تھا۔

" چھ ماہ میں یہ گاؤں کس قدر بدل گیا" فواد نے سوچا۔

گھر کے دروازے کے باہر ایک قدم رک کر اُس نے اس بند دوار کو گھورا اور پھر قدم اُٹھاتے ہوئے اندر کو داخل ہو گیا۔

امین بخش صحن میں چارپائی بچھائے اوندھے منہ لیٹا تھا۔ سلمیٰ باورچی خانے کے دروازے کے باہر بنی کھٹیالی میں ہانڈی بنا رہی تھی۔ ماریہ اپنی چھوٹی بہن کو علیحدہ چارپائی پر بٹھا کر پڑھانے میں مصروف تھی۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر سب کے سر ایک ساتھ دروازے کی جانب مڑے۔جہاں ایک نوجوان ہاتھوں میں سوٹ کیس اور کندھوں پر بیگ لٹکائے اُن کی جانب دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

" کون آیا ہے ماریہ پتر!" امین بخش نے آنکھیں کھولے بغیر کہا۔

ماریہ جو خود فواد کو دیکھ کر ساقت تھی کچھ بولنے نہ پائی۔

" بھیا!" شانزے فواد کی طرف دوڑتے ہوئے اُس سے لپٹ گئی۔ سلمیٰ نے بھی چولہے پر ہانڈی جوں کی توں چھوڑ دی تھی۔ ماریہ  بھی کتابوں کو بے دھیانی میں چارپائی پر پھینک کر بھائی کی طرف بھاگی۔

امین بخش نے سر اُٹھاکر دیکھا تو شانزے  اور ماریہ کو بھائی کے گلے لگا دیکھا۔ جبکہ سلمیٰ کو الگ کھڑے پلو سے آنکھیں صاف کرتے پایا۔

فواد نے سوٹ کیس زمین پر رکھ دیا تھا۔ کندھوں سے بیگ اُتار کر چارپائی پر پھینکا اور سلمیٰ سے ملا۔

اس وقت تک امین بخش بھی فواد کے قریب کھڑا ہو چکا تھا۔ آج سے چھ ماہ قبل اور آج کا دن بلکل ایک سا تھا۔

آنکھوں سے پانی کے یہ قطرے آج بھی بہہ رہے تھے۔ مگر فرق اتنا تھا کہ وہ آنسو جدائی پر اور یہ دوبارہ ملاقات پر آئے تھے۔

گھر کے تمام افراد فواد کی اچانک آمد پر حیران تھے۔ پچھلے ہفتے کے خط میں فواد نے یہ تو بتایا تھا کہ یہ ہفتہ مصروفیت میں گزرے گا مگر اپنی آمد کے متعلق فواد نے آگاہ نہ کیا تھا۔

" پتر! تو بتا دیتا میں تجھے سٹیشن لینے آ جاتا"

" ابا ! اس مرتبہ میں بس پر آنا چاہتا تھا"

" تو میں بس اڈے پہنچ جاتا"

" مگر ابا ! میں گھر اچانک آ کر آپ کو حیران کرنا چاہتا تھا"

" پتر! تو حیران وی کیتا تے پریشان وی"

" اچھا چھوڑو  وی اس گل نوں۔۔۔ آج پتر بڑے دن دے بعد آیا۔۔۔ جاؤ گوشت ہی لے آؤ۔۔۔ آج میں اپنے شہزادے کی خوب خاطر کروں گی" سلمیٰ نے بحث کو طول دینے سے بچایا۔

" نہ ابا! کوئی گل نہیں۔۔۔ آج دال ساگ نال گزارا کر لیں گے" فواد کے منع کرنے کے باوجود امین بخش دکان سے گوشت لانے کے لیے نکل چکا تھے۔

٭٭٭

" ماسٹر جی! تسی فکر نہ کرو۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے" امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ کو تسلی دی۔

" مگر امین بخش! اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا اس وقت"

" ایک حل ہے ماسٹر جی!"

" کیا امین بخش؟" ماسٹر اللہ دتہ نے حیرت سے پوچھا۔

" مومنہ کی بروقت شادی" امین بخش نے رائے دی۔

" مگر اتنی جلدی مومنہ کی شادی کیسے کرسکتا ہوں۔۔۔ اچھا لڑکا تلاش کرنے میں وقت لگتا ہے۔۔۔ اور ابھی تو وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے" ماسٹر اللہ دتہ نے پریشانی سے تمام بات ایک ہی مرتبہ کہہ ڈالی۔

" ماسٹر جی! میں ہمیشہ سے مومنہ کو اپنی بہو بنانا چاہتا تھا" برگد کے پیڑ تلے بیٹھے ہوئے ماسٹر اللہ دتہ کو ایسے لگا جیسے امین بخش کے منہ سے بات ادا ہونے کی دیر تھی اور وقت نے تھمنا مناسب سمجھا۔ ہوا ساقت ، وقت جامد اور فضا پر جمود طاری ہو چکا تھا۔

" مگر امین بخش!۔۔۔۔ فواد کیا چاہتا ہے" خود پر قابو پاتے ہوئے ماسٹر اللہ دتہ بولا

 " وہ بھی راضی ہی ہونا چاہیے۔۔۔ رات کو میں گھر پوچھ کر بتا دوں گا"

" لیکن فواد تو شہر میں ہو گا"

" وہ ڈیڑھ ماہ کے لیے چھٹیوں پر ہے"  امین بخش کی بات سن کر ماسٹر اللہ دتہ نے خاموشی اختیار کر لی " ماسٹر جی! تسی پریشان نہ ہوں۔۔۔ مومنہ میری بھی بیٹی ہے اور بیٹیوں سے بڑھ کر عزیز ہے" امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ کو تسلی دی۔

ماسٹر اللہ دتہ  نے کبھی نہ سوچا تھا کہ اس گاؤں میں رہتے ہوئے اُنھیں اپنی اولاد کے لیے کبھی اس حد تک بھی پریشان ہونا پڑے گا۔ ماسٹر اللہ دتہ نے آج تک یہی تصور کیا تھا کہ چھوٹے گاؤں کے واسی دل کے راجہ ہوتے ہیں اور وہ درست بھی تو تھے۔

مگروہ اس بات سے نآشنا تھے کہ اس علاقے کے وڈیرے اپنی ذات میں  نیچ اور غلیظ ترین فرد ہیں۔

٭٭٭

امین بخش دکان سے لوٹا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔ سلمیٰ، ماریہ اور شانزے اندر کمرے میں کھڑے ہو کر فواد کے سوٹ کیس سے نکلنے والی اشیاء دیکھ رہے تھے۔

" ابا جی! تسی وی آؤ" فواد نے دروازے میں کھڑے امین بخش کو دیکھ کر بولا۔

" ابا! یہ شال آپ کے لیے اور امی ! یہ آپ کے لیے" فواد نے سوٹ کیس میں سے دو سفید رنگ کی شالیں نکالیں جن میں سے ایک مردانہ اور دوسری زنانہ تھیں۔ یہ دونوں شالیں اُس نے گزشتہ ماہ شہریار سے اُس کے شمالی علاقہ جات  کے سفر کے دوران منگوائی تھیں۔

بہنوں کے لیے بے شمار  لکھنے پڑھنے کی چیزیں، کھانے کے لیے ولایتی چاکلیٹس اور  چابی سے چلنے والی گڑیا سمیت بے شمار نئی چیزیں لایا تھا۔

فواد لال رنگ کے تین گلو بند بھی لایا تھا ۔

" پتر! یہ تیسرا کس کے لیے" سلمیٰ نے پوچھا۔

" امی! یہ دو ماریہ اور شانزے پہن لیں گی اور تیسرا  یا آپ رکھ لیں یا ان کی سہیلی مومنہ کو دے دیں"

فواد کے منہ سے مومنہ کا نام سن کر امین بخش کو فوراََ کچھ یاد آیا اور فواد کو پکڑے وہ علیحدہ کمرے میں لے گیا۔

امین بخش نے ساری صورتحال سے فواد کو آگاہ کر دیا تھا۔ فواد یہ تمام سرگزشت سن کر قدرِ پریشان بھی ہوا تھا۔

" ابا! باقی تو کوئی فکر نہیں ہے۔۔۔ مگر میں گھر کے خرچے سمیت مومنہ کا بوجھ کیسے برداشت کروں گا۔۔۔ میں معاشی لحاظ سے ابھی اتنا خوشحال نہیں ہوں"

" پتر! آنے والا بندہ اپنا رزق خود لے کر آتا" امین بخش کی یہ بات سن کر فواد چونکا۔

اس کے بعد فواد نے مزید کوئی بات نہ کی۔ اُس کی طرف سے کھلی رضامندی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ماسٹر اللہ دتہ اس وقت کس پریشانی میں رہ رہے ہوں گے۔

مومنہ بچپن سے اُس کی سہیلی رہی تھی۔ جب محلے اور گاؤں میں اُس کا کوئی دوسرا آشنا نہ تھا تب بھی اُس کی واحد دوست مومنہ ہی رہا کرتی تھی۔

امین بخش بھی مونہ کی پیدائش کے وقت سے اُسے اپنی بیٹی کے طور پر تسلیم کرتا تھا اور سلمٰی بھی اُسے ہمیشہ سے اپنی بیٹیوں کے برابر کا درجہ دیتی تھی۔ دونوں نے کبھی ماریہ، شانزے اور مومنہ میں تفریق بھی نہ کی تھی۔

سلمٰی اپنی بیٹیوں کے لیے کوئی چیز خریدنے جاتی تو مومنہ کے لیے بھی بلکل ویسا ہی خرید لایا کرتی تھی۔ماریہ اور شانزے بھی مومنہ کو اپنی بڑی بہن تصور کیا کرتی تھیں۔ اکثر عیدوں پر تینوں کے کپڑے ایک سے ہوتے تھے۔

فواد خود بھی دل سے مومنہ کو بہت پہلے سے چاہنے لگا تھا۔

پڑھائی میں سب سے آگے، بڑوں کی اطاعت میں سب سے بڑھ کر، گھر داری کا سلیقہ اُسے سب سے اچھا آتا تھا، خوبصورت وہ تھی اور سب سے بڑھ کر پرہیزگار۔ المختصر وہ ہر لحاظ سے ایک مکمل لڑکی تھی جسے گاؤں کی ہر عورت اپنی بہو بنانا چاہے۔

فواد کی رضامندی کا سن کر امین بخش کو اطمینان ہوا۔ سلمیٰ سے وہ اپنی اس خواہش کا بہت پہلے تذکرہ کر چکا تھا۔

فواد گھر کے لیے ہر بار کی طرح اس بار بھی شہر سے مٹھائی لایا تھا۔  دونوں میاں بیوی نے یہ مٹھائی ہمراہ لی اور ماسٹر اللہ دتہ کے دروازے پر جا پہنچے۔

ماسٹر اللہ دتہ امین بخش کے ہاتھ میں مٹھائی دیکھ کر سمجھ چکا تھا۔

" ماسٹر جی! تسی مومنہ پتر نال گل کر لی؟" امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ کو اکیلے میں پوچھا۔

"نہیں امین بخش مگر میں جانتا ہوں کہ اُسے کوئی اعتراض نہ ہو گا"

" ویسے ماسٹر جی! دونوں بچے پسند بھی کرتے ہیں اندر سے ایک دوسرے کو" امین بخش نے سرگوشی میں کہا۔

" ہاں امین بخش!۔۔۔ آنکھیں سب بتا دیتی ہیں" ماسٹر اللہ دتہ مسکرا ئے ۔

" میں تو بہت پہلے دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیے چمک دیکھ چکا تھا"امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ سے کہا اور دونوں مرکزی کمرے کی جانب بڑھے۔

" مومنہ بیٹی! کیسی ہو" سلمیٰ نے مونہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

" اچھی ہوں سلمیٰ خالہ۔۔۔ آپ سنائیں"

" بس اللہ کا کرم ہے بیٹی" سلمیٰ نے مومنہ کے سر پر پیار دیا اور ہاتھ کھینچ کر اپنے پاس بٹھا لیا

" ماسٹر جی!" امین بخش نے اجازت چاہی۔

" امین بخش! مومنہ کے سامنے ہی بات ہو تو اچھا رہے گا" ماسٹر اللہ دتہ بولا۔

" دیکھ مومنہ پتر!" امین بخش نے مومنہ کو اپنی طرف متوجہ کیا" میں اور سلمٰی آج اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے تمہارا ہاتھ مانگنے آئے ہیں" امین بخش نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے صاف بات کہہ ڈالی ۔

صاف اور ستھری بات کرنا ہی امین بخش کی پہچان تھی۔

مومنہ کے گال سرخ ہونے لگے۔ اپنے تایا کی بات اُس پر نہایت بھاری ثابت ہوئی۔ اُسے امید بھی نہ تھی کہ معمولی دن کے اس آخری پہر کےاختتام پر قسمت اُس کے ساتھ ایسا اچھا کھیلے گی۔

بے شک فواد گاؤں کے تمام لڑکوں میں سب سے حسین تھا۔ پڑھائی میں بھی وہ شروع سے آگے رہا آیا تھا۔ فواد پورے غازی پورہ میں پہلا لڑکا تھا جو ہائی سکول سے نکل کر کالج تک گیا تھا۔ گاؤں میں کسی نے یونیورسٹی کا نام سنا بھی  نہ تھا اور وہ یونیورسٹی پڑھتا تھا۔

گاؤں میں ہمیشہ رشتہ لانے والے کا حسب و نسب دیکھا جاتا تھا۔ اُس کی عادات پر غور کیا جاتا تھا۔ اُس کے بعد جائیداد پر نظر ڈالی جاتی تھی۔ آخر میں اُس کے ذریعہ ِ روزگار اور شکل و صورت سمیت سیرت دیکھی جاتی تھی۔

فواد گاؤں کے عالی نسب خاندان سے بھی تھا۔ کسی لت میں بھی ملوث نہ تھا۔ حتی کہ جس گاؤں میں کبوتر  اور مرغ بازی کا شوق سب سے زیادہ تھا وہاں اسے ان چیزوں سے ہرگز بھی لگاؤ نہ تھا۔

 امین بخش کی میراث بھی بس گزارے لائق تھی۔

 جہاں تک روزگار کی بات تھی تو ماسٹر اللہ دتہ واقف تھا کہ فواد ٹیوشن پڑھانے سے اچھی خاصی رقم ہر ماہ  نہ صرف کما رہا ہے بلکہ گھر بھی ایک معقول رقم بھیج رہا ہے جس سے ایک عام گھر کا با آسانی گزارا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ امین بخش کے سوال پر ماسٹر اللہ دتہ نے کوئی اعتراض نہ کیا تھا۔

فواد اُن کا شاگرد بھی تھا اور اُستاد اپنے شاگرد کو بہتر جانتے ہوتے ہیں۔ وہ واحد فواد ہی تو تھا جس پر ماسٹر اللہ دتہ کو فخر تھا۔

سلمیٰ، امین بخش اور ماسٹر اللہ دتہ کی نظریں مومنہ پر تھیں جو سر جھکا چکی تھی۔

" بیٹی ! کچھ بولو تو۔۔۔ تمہیں کوئی اعتراض ہے تو بتاؤ ہمیں" سلمیٰ نے سر پر ہاتھ پھیرا۔

"میں کیا بولوں سلمٰی خالہ!۔۔۔ جیسے ابا چاہیں" مومنہ نے ہلکے سے بولا۔

"تمہارے ابا کو تو کوئی اعتراض نہیں " امین بخش کی بات پر مومنہ نے سر اُٹھا کر ماسٹر اللہ دتہ کی طرف دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔

" مومنہ بچے! آپ جیسا چاہو گی ویسا ہی ہوگا۔۔۔ کوئی زور زبردستی نہیں ہے" ماسٹر اللہ دتہ نے مومنہ کی آنکھ میں سے سوال پڑھ لیا تھا۔

" بیٹی اگر تمہیں سوچنے کے لیے وقت چاہیے تو ہم پھر کسی روز آ جائیں گے" سلمٰی نے مومنہ کے چہرے پر بدلتے تاثرات دیکھ لیے تھے۔

" اگر ابا کو کوئی اعتراض نہیں تو مجھے بھی نہیں" مومنہ نے ایک جملے ادا کر کے سر جھکا لیا۔

سلمیٰ، امین بخش اور ماسٹر اللہ دتہ تو جیسے یہ جملہ سننے کے انتظار میں تھے۔ امین بخش نے اُٹھ کر ماسٹر اللہ کو گلے لگا لیا۔ سلمیٰ نے مومنہ کے ماتھے پر پیار دیا۔

امین  بخش نے مٹھائی کھولنا چاہی تو سلمیٰ نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ پہلے پلو کو کھول کر اُس میں سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی۔ اس ڈبیا کو کھولا تو اُس میں سے ایک انگوٹھی رکھی تھی۔

یہ انگوٹھی امین بخش نے دیکھتے ہی پہچان لی۔ یہ وہی انگوٹھی تھی جو سکینہ بی نے سلمیٰ کو تحفے میں دی تھی۔

" ماسٹر جی! میں اپنے بیٹے کے نام کی انگوٹھی مومنہ کو پہناتی ہوں" سلمیٰ نے ماسٹر اللہ دتہ کو کہہ کر مومنہ کو انگوٹھی پہنا ڈالی۔

ایک رشتہ جڑ چکا تھا۔ فواد کے نام کی انگوٹھی مومنہ کی انگلیوں میں سج چکی تھی۔ امین بخش اپنے بیلی کو مٹھائی کھلا رہا تھا۔ سلمیٰ اپنے ہونے والی بہو کو دعائیں دے رہی تھی۔

امین بخش اور سلمیٰ جس وقت لوٹ کر گھر کو آئے اُس وقت ماریہ اور شانزے بھائی کے پاس بیٹھی اُس کی شہر والی تصاویر دیکھ رہی تھیں۔

" امی! ابا! ۔۔۔ آپ دونوں کہاں گئے تھے" ماریہ نے پوچھنا چاہا۔

سلمیٰ نے آتے ہی فواد کو گلے لگا لیااور ساتھ میں سکھی رہنے کی دعائیں بھی دیتی جاتی تھی۔ سلمیٰ سے جدا ہوا تو امین بخش نے سینے سے جا لگایا۔

ماریہ اور شانزے دونوں حیران کھڑی اس سرگرمی کو دیکھے جا رہی تھیں۔

" ماریہ پتر! بھاگ کر جا باورچی خانے سے مٹھائی کا دوسرا ڈبہ لے کر آ" سلمیٰ نے ہدایت دی۔

ماریہ مٹھائی لے کر  آئی تو سلمیٰ نے ڈبہ کھول کر فود کو مٹھائی کھلانے لگی۔

" امی! کیا ہوا؟ ۔۔۔ آپ دونوں بتا کیوں نہیں رہے" شانزے خفا ہوئی۔

" شانزے ! تیرے بھائی کا رشتہ طے ہو گیا ہے۔۔۔ تیری مومنہ آپی اب تیری بھابھی بننے والی ہیں" سلمیٰ نے خوش خبری سنائی۔

ماریہ اور شانزے تو جیسے مچل کر رہ گئی تھیں۔یہ خبر اُن کے لیے ایک گولے کی مانند تھی۔ ہمیشہ سے چاہتی تو وہ بھی یہی تھیں مگر اچانک خبر نے اُنھیں بوکھلا دیا تھا۔

اگلے روز صبح ہوتے ہی وہ بھاگی ہوئی مومنہ کے پاس جا پہنچیں۔ تینوں سہیلیاں بڑی دیر تک ہنستی مسکراتی رہیں۔

امین بخش اور ماسٹر اللہ دتہ چاہتے تھے کہ شادی جلد ہو جائے۔ کیوں کہ فواد کے پاس ڈیڑھ ماہ فارغ تھا۔ لحاظہ طے کیا گیا کہ دو ہفتے بعد ہی شادی رکھ دی جائے۔

ماسٹر اللہ دتہ نے فواد سے تفصیلاََ بات کی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ مومنہ شادی کے بعد اپنی پڑھائی آگے جاری رکھ سکتی ہے۔ اُسے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ مزید یہ کہ وہ مومنہ کو بغیر جہیز کے قبول کرنا چاہتا تھا۔ مگر یہ بات ماسٹر اللہ دتہ کے لیے تھوڑی پریشان کن تھی۔

گاؤں میں رواج تھا کہ بیٹی کو اچھے سے اچھا جہیز دیا جاتا۔ حتیٰ کے خاندانوں میں اس بات کا مقابلہ بھی ہوتا کہ کس نے اپنی بیٹی کو کتنا جہیز دیا۔

شادی کی دیگر رسومات میں سے ایک یہ بھی رسم تھی کہ محلے اور برادری کی عورتیوں ایک مقررہ دن دلہن کا جہیز دیکھنے آیا کرتیں۔

کچھ گھرانےتو ایسے بھی تھے کہ اگر بہو کم جہیز لاتی تو سالوں تک اُسے اس بات کا طعنہ دیا جا تا رہتا۔

اسی واسطے ہر باپ کی یہ خواہش رہتی کہ وہ اپنی بیٹی کو بہتر سے بہتر جہیز دے سکے۔

ماسٹر اللہ دتہ بھی ایک باپ تھا۔ بے شک اُس کے امین بخش سے بہت پرانے مراسم چلے آ رہے تھے اور دونوں گھرانوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ مگر پھر بھی ماسٹر اللہ دتہ اپنی اکلوتی بیٹی کو جہیز میں وہ سب دینا چاہتے تھے جو ایک لڑکی تمنا کر سکتی ہے۔

Comments

Popular Posts