قسط نمبر: 19
دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو جن بھاری اور وزنی چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے اُن میں سے ایک ذمہ داری ہے۔ جس کا بوجھ انسان کو دبا جھکا سکتا ہے۔ مگر بروقت ذمہ داری کا احساس ہو جانا ہی شعور کی ایک اور سیڑھی کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔
فواد
اور مومنہ کی شادی بڑوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کی عمر ابھی کم ہے وقت پر
کردی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ایک تو فواد کی ماہانہ آمد ن کا مستقل کوئی نہ کوئی
بندوبست ہے اور دوسرا اُنھیں خدا کی ذات
پر کامل یقین بھی تھا۔
اسی
وجہ سے تو فواد نے ابھی شادی کی حامی بھی بھر لی تھی۔
شادی
کو ایک ماہ ہونے کو تھا۔ فواد کی چھٹیاں ختم ہونے کے قریب تھیں۔ پچھلے ایک ماہ سے
تمام برادری نئے بیاہے جوڑے کو دعوت پر مدعو کر رہی تھی۔
گاؤں
کی کو رسم بھی فضول نہ تھی۔
شادی
کے بعد نئے بیاہتے جوڑے کو تمام برادری اپنے گھر مدعو کرتی جس سے دونوں میاں بیوی
ایک دوسرے کی برادری کے متعلق اچھے سے جان جاتے ۔
جہاں
برادری کے اکثر گھرانے اسی شادی پر خوش تھے وہیں چند گھرانے ایسے بھی تھے جو ان دونوں کی شادی پر نالاں بھی تھے۔
کیوں کہ فضل الہیٰ سمیت
کچھ گھرانے مومنہ کو اپنی بہو بنانے کے خواب تک رہے تھے مگر وہ نہ جانتے تھے کہ
شادی اس قدر جلدی رکھ دی جائے گی وگرنہ ذرا سے بھی شک پر وہ مومنہ کا رشتہ ماسٹر
اللہ دتہ سے مانگنے میں ہر گز دریغ نہ کرتے۔
ایک
تو مومنہ خوبصورت تھی، دوسری نیک ، پرہیز گار ، پڑھی لکھی اور سب سے بڑھ کر لوگوں
کی نظر اُس پر آمدن پر تھی جو وہ گاؤں کے بچوں کو پڑھا کر ہر ماہ کما رہی تھی۔
چھٹیاں
ختم ہونے کے قریب آئیں تو فواد نے اپنی شہر جانےکی تیاریاں بھی مکمل کرنا شروع کیں۔
ہر
بار اُس کا سامان سلمیٰ تیار کیا کرتی مگر اب فواد کی ذمہ داری اُٹھانے والی کوئی
اور گھر میں موجود تھی۔
اس
تمام عرصے کے دوران ماسٹر اللہ دتہ کے پاس کرنے کو کوئی کام نہ رہا تھا۔ ولیمہ سے
اگلے دن ماسٹر اللہ دتہ رسم کے تحت ایک
رات کے لیے بیٹی کو اپنے گھر لایا تھا اور یہی وہ آخری دن تھا جب مومنہ کا قیام اس
گھر ہونا تھا۔
فواد
کی مشاورت پر عمل کرتے ہوئے ماسٹر اللہ دتہ گھر کی بیٹھک میں دکان ڈالنے کی سوچی
اور فواد کے ہمراہ شہر کے بڑے بازار سے
سستی چیزیں خرید کر دکان بھر ڈالی۔
اب
روز صبح ماسٹر اللہ دتہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد امین بخش کے ساتھ اُس کے گھر آتا
جہاں مومنہ کے ہاتھوں سے بنا ناشتہ کر کے وہ دکان جا کھولتا۔ دن پر دکان پر بیٹھ
کبھی اخبار پڑھی تو کبھی سکول میں جا کر ہیڈ ماسٹر سے خوش گپیاں اُڑائیں۔
دن
کا کھانا پھر امین بخش کے گھر سے آجاتا یا کبھی خو دجا کر تناول کر لیا کرتا۔
بقیہ تمام دن دکان پر اور
رات کھانے کے بعد کچھ دیر چوپال میں گزارنے کے بعد باقی کی رات ٹی وی پر پروگرام
دیکھتے یا سنسان گھر میں کبھی مومنہ اور کبھی اُس کی مرحوم ماں کو یاد کرتے کرتے
گزار دیتا۔
مومنہ
نے فواد کی تمام تیاری مکمل کر دی تھی۔ صبح اُسے شہر کے لیے روانہ ہونا تھا۔
" مومنہ! شادی کے بعد سے تم میری نہ صرف ذمہ داری ہو بلکہ
میری ذات کا سکون بھی ہو۔۔۔ تم میری زندگی کی وہ خوبصورت حقیقت ہو جسے میں سب سے زیادہ
چاہنے لگا ہوں۔۔ میں اپنی بھرپور کوشش کروں گا کہ تمہاری آنے والی زندگی کو تمہاری
گزشتہ زندگی سے بہتر بنا سکوں۔۔۔ مجھ پر اب یہ حرام ہے کہ میں تمہارے سوا کسی لڑکی
کو دیکھوں، سوچوں یا چاہوں۔۔۔ ہم دونوں کو اب یہ لمبی زندگی ایک ساتھ گزارنی ہے اس
لیے ضروری ہے کہ ہم قدم قدم پر ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔۔۔ میں ہماری زندگی کو جنت
سے بھی خوبصورت تر بنا دوں گا ۔۔۔مگر مجھے تمہارا صرف ساتھ چاہیے" وہ مومنہ
کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے جا رہا تھا۔
ایسی
ہمت اُس میں کب سے جت گئی تھی اُسے معلوم نہیں تھی۔
"میرا وعدہ ہے کہ تم جس جگہ قدم رکھو گے ۔۔ تمہاری پیروی کرتے
ہوئے میں بھی وہیں چلوں گی" مومنہ بولی" بس میرے ابا کو یاد رکھنا
" وہ اب بھی ماسٹر اللہ دتہ کے لیے فکر مند تھی۔
" ماسٹر اللہ دتہ کی بنا پر ہی تو آج میں غازی پورہ سے اُٹھ
کر اس مقام تک گیا۔۔ اُنھیں کیسے بھول سکتا ہوں"
" میں کل صبح دس بجے کے قریب چلا جاؤں گا مگر اُمید ہے کہ
مہینے ڈیڑھ مہینے بعد چکر لگانے آ جاؤں گا" کچھ دیر خاموشی کے بعد فواد
بولا" خط و کتابت کے ذریعے حال احوال معلوم ہوتا رہے گا"
" مجھے انتظار رہے گا تمہارے خط کا" وہ فواد کی آنکھوں
میں دیکھ کر مسکرائی جہاں احساس تھا۔
" کیا میں ٹیوشن پڑھانا جاری رکھ سکتی ہوں" شادی کے بعد
مومنہ پہلی بار فواد سے کچھ مانگ رہی تھی۔
محبت
کرنے والوں کو تو بس یہی آس لگی رہتی ہے کہ اُن کا محبوب اُن سے کچھ مانگے۔
" ہاں کیوں نہیں!۔۔۔۔
ویسے اگر پڑھائی بھی جاری کرتی آگے تو مجھے بڑا اچھا لگتا"
" آگے پڑھنا تو چاہتی ہوں مگر پھر ڈرتی ہوں گاؤں والوں کی
باتوں سے"
" تم گاؤں والوں کو چھوڑ کر اپنی اور اپنے شوہر کی فکر کرنا
شروع کرو۔۔۔ میں اگلی بار آتے ہی تمہارے داخلےکا کچھ بندوبست کروں گا"
مومنہ
نے کبھی اپنی شادی کے متعلق وہ خواب دیکھے بھی نہ تھے جو یہاں اس گھر میں خود ہی
پورے بھی ہو رہے تھے۔
بے
پناہ محبت کرنے والا میاں جو شوہر کم اور دوست زیادہ تھا۔ بیٹیوں کی طرح چاہنے
والے ساس سسراوربہنوں جیسی نندیں جو اُس
کی واحد سہیلیاں بھی تھیں۔
گویا ایک لڑکی شادی کے وقت
جس چیز کو چاہتی ہو وہ سب مومنہ کو بغیر مانگے یہاں مل رہا تھا۔
" یہ کچھ پیسے رکھ لو۔۔ شاید میرے پیچھے سے ضرورت پڑ جائیں۔۔۔
میں مزید رقم بھی بھجواتا رہا کروں گا" فواد نے رقم مومنہ کے ہاتھوں میں
تھمائی۔
" مگر اس رقم کا میں کیا کروں گی۔۔ تایا جان بھی دے دیا کرتے
ہیں اور بابا"
" یہ رقم تمہارے بابا
کی یا تایا جان کی طرف سے نہیں ہے بلکہ شوہر کی طرف سے" فواد نے مومنہ
کے ہاتھوں کی مٹھی بند کیاور مسکرا دیا۔
ہجر
کی رات بہت کٹھن ہوتی ہے۔ جس میں انسان کا دل اندر سے چُور چُور ہو کر کرچیوں میں
بکھر جاتا ہے۔
اپنوں
سے جدائی کا صدمہ ایسا صدمہ ہے جس سے کسی عمر کا شخض بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔
ہجر
کی رات باقی راتوں کے برعکس بہت چھوٹی ہے۔ اس رات وقت ایسے بیتتا ہے جیسے ہوا کے
دوش پر سوار کوئی پتا جو پل بھر میں ہی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔
رات
نا جانے کیسے بیتی۔ مگر صبح کو تمام گھر میں ایسا سناٹا تھا جیسے یہ کوئی ویران
مکان ہو ۔
" بھئی کیا ہو گیا ہے سب کو!۔۔۔ جانا میں نے ہے اور پریشان سب
ہو رہے ہیں" فواد نے ناشتے کے دوران
سب کے اُترے چہرے دیکھ کر کہا۔
"پتر! کب تک واپس آئے گا تو؟" امین بخش نے چائے کا پیالا
ہونٹوں سے لگایا۔
"ابا ! فی الحال تو کچھ علم نہیں"
" دیکھ پتر!۔۔ پہلے تو کنوارہ تھا تو جب مرضی چاہا واپس آ
گیا۔۔۔ اب خیر سے تیرا ویاہ ہو چکا ہے۔۔۔ مہینے ڈیڑھ بعد چکر لگا جانا گھر
کا" امین بخش نے فیصلہ سنا دیا تھا۔
ناشتہ
کرتے وقت ماسٹر اللہ دتہ سمیت وہاں موجود سب امین بخش کے فیصلے سے بہت خوش تھے۔
بس
نے دس بجے آنا تھا۔ اُسے گھر سے تقریباََ ساڑھے آٹھ بجے نکلنا تھا ۔
بس
اڈہ جلدی پہنچنے میں کوئی دقت نہ تھی مگر ذرا سی دیر ہو نے سے اُس کا ایک مکمل دن
ضائع ہو جانا تھا۔
امین
بخش بضد تھا کہ وہ خود اُسے بس اڈے چھوڑنے جائے گا مگر فواد نے صاف انکار کر دیا۔
کل
شام ہی وہ شکیلے کو بول آیا تھا جو اب گاڑی لیے اُس کے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
شکیلے
نے دروازے سے جھانک کر فواد کو آواز دی تو مرکزی کمرے سے وہ سامان اُٹھائے نکل
کھڑا ہوا۔
شکیلے
نے آگے بڑھ کر سامان لے کر گاڑی میں جا رکھا۔
فواد
سب سے پہلے بہنوں کو گلےلگا کر ملا۔ ماریہ کو میٹرک کے امتحانات کی تلقین کی،
شانزے کو اچھا پڑھنے کی پھر دونوں کو باری باری ماتھے پر بوسہ دیا۔
پھر سلمیٰ کے آگے آن جھکا۔
ماں نے کلیجے سے لگایا، دو ایک آنسوؤ گرائے، دعائیں دیں۔
" یاد سے خط لکھنا دینا پہنچ کر" امین بخش نے ہر بار کی
طرح فوادکو گلے ملتے ہوئے ہدایت کی۔
مومنہ کو دیکھ کر خدا حافظ
کہا، آنکھوں سے پیغام پڑھے اور آگے کھڑے ماسٹر اللہ دتہ سے گلے ملنے لگا۔
سب
کو خدا حافظ کہتا، دعائیں لیتا ہوا وہ شکیلے کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ جب تک شکیلے کی گاڑی مٹی اُڑاتی ہوئی نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی تب
تک گھر کے باشندوں نے گاڑی کوتکنا بند نہ کیا اور کچھ ایسا ہی حال فواد کا بھی
تھا۔
بس
اڈے پہنچا تھا بس آنے کو ابھی وقت تھا جوشکیلے سے باتوں کے دوران آسانی سے کٹ گیا۔
بس
سے سوار ہو کر فواد پہلے ایک شہر اُترا اور یہاں سے ایک اور بس میں بیٹھ کر وہ
اپنی منزل کی جانب چل پڑا۔
درخت،
کچے مکانات، پختہ حویلیاں، شاندار بنگلات،
کوٹھیاں، دریا، نہریں، پہاڑ،سرخ و سفید مٹی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بس تیزی سے اپنی
منزل کی جانب چلے جا رہی تھی۔
گھر
کی یادوں اور گھر والوں کی باتوں کو ذہن میں ٹیپ کی مانند چلاتے ہوئے قت اس قدر
جلدی بیت گیا کہ معلوم ہی نہ ہوا۔ ا
ُس
کی منزل یہاں سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر رہ چکی تھی۔
اُس
نے کلائی سے بندھی گھڑی پر سے وقت دیکھا تو ابھی چار ہونے میں دس منٹ باقی تھے۔
بس
اڈے پر پہنچ کر اُس نے رکشہ لیا اور ہاسٹل کی جانب چل پڑا۔ راستے میں سے ایک مقام
رکا اور سڑک کنارے ریڑھی والے سے نان چنے کھا کر پیٹ بھرا۔
ہاسٹک
پہنچ کر کمرے کا دروازہ کھولا تو تمام
کمرا دھول مٹی سے اٹا پڑا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے مٹی سے بھری بالٹیاں
اندر انڈیل ڈالی ہوں۔
فواد
نے اآگے بڑھ کر دیکھا تو دونوں روشندان کھلے پڑے تھے اور اسی سبب سے کمرے میں اس
قدر مٹی تھی۔
فواد
نے سامان ایک طرف کو رکھا اور جھاڑو اُٹھا کر کمرے کی صفائی کرنے لگا۔ ہاسٹل میں
کوئی نوکر اُسے دکھا نہیں تو خود ہی صفائی کرنے کو تیار ہو گیا۔
آدھے
گھنٹے تک وہ کمرے سے تمام مٹی باہر نکال چکا تھا۔ مگر ابھی بھی کچھ صفائی باقی
تھی۔ وہ گیلری میں گیا تو صفائی کے چند
اوزار ہاتھ لگ گئے۔
پہلے
اُس نے کپڑا گیلا کر کے الماری، صندوق، میز ، کرسیوں اور بستر کے آس پاس والی تمام
جگہ کو مکمل صاف کیا۔ پھر پونچھا لا کر
تمام فرش کو دھو ڈالا۔
" سر ! یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔ ہمیں بول دیا ہوتا" ایک
نوکر نے فواد کو کمرے کے دروازے میں کھڑا ہو کر جھاڑو سے تمام مٹی کو سمیٹتے ہوئے
دیکھا۔
" کوئی بات نہیں خیر ہے" فواد نے مسکرا کر کہا۔
اسی
سرگرمی میں ایک گھنٹے سے زائد وقت ہو چکا تھا۔گھڑی پر چھ بج رہے تھے۔ اُ
س
نے گھر سے لایا سامان اپنی جگہ رکھا، کھڑکی بند کر کے آگے پردہ گرایا، پنکھا چلا
کر بستر میں دراز ہو گیا اور کچھ دیر میں ہی خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگا۔
اُس
کی آنکھ کمرے میں گونجتی آوازوں سے کھلی۔ منہ پر سے چادر اُٹھا کر دیکھی تو شہریار
اور قاسم کمرے میں آ چکے تھے ۔
اُن
کی باتوں کی آواز اس قدر اونچی تھی کہ اُسے ناچاہتے ہوئے بھی بستر سے اُٹھنا پڑا۔
" کیوں جوان! میں نے سنا تمہاری شادی ہو گئی" قاسم نے
گلے ملتے ہوئے بولا۔
" بس یار! ہو گئی"
" اور ہمیں بلایا تک بھی نہیں"
" بلایا تو تھا مگر تو آیا نہیں۔۔۔ جناب کراچی جو گئے ہوئے
تھے" فواد نے شکوہ دور کرتے ہوئے جواباََ شکوہ کر ڈالا۔
رات
کو فواد سے شادی کی خوشی میں دعوت لی گئی۔ مختلف طرز کے کھانے اور مشروبات فرمائش
پر ہاسٹل کے کمرے میں منگوائے گئے۔
" پہلے دن ہی خرچہ کروا لو تم لوگ" فواد بیچارا جو ہر
ماہ روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھتا اب مجبوراََ خرچنا پڑا۔
مگر
یہ دوست ہی تو تھے کہ جن کے سبب دشواریاں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔
جن
سے وقت سست روی کی بجائے تیزی سے کٹ جاتا
ہے۔
یہ
وہ دھوپ ہوتی ہے جو انسان کو گرمی سے
جلانے کی بجائے سرد مہری کو دور کرنے کی وجہ بنتی ہے۔
٭٭٭
پچھلے
ڈیڑھ ماہ سے وہ تقریباِِ ہر دوسر دن یونیورسٹی آیا کرتی تھی۔ روز سیڑھیوں پر بیٹھ
کر یونیورسٹی کے سبزہ زاروں کو تکتی۔ کبھی بند فوارے کو گھورنے لگتی۔ کبھی کینٹین کے بند دروازے سے
لوٹ آیا کرتی۔
اکثر
اوقات وہ لائبریری میں چلی جایا کرتی اور ہر اُس کرسی کو بڑے ادب سے دیکھا کرتی جس
پر کبھی فواد براجمان ہوا ہو گا۔
بہانے
سے لائبریرین سے رجسٹر لے کر اُس نے اُن تمام کتب کی فہرست اور نمبر بھی نوٹ کر
لیے تھے جنھیں کبھی فواد نے اپنے نام ایشو کروایا تھا۔
وہ
لڑکی جس نے سالوں میں بھی ایک کتاب بمشکل پڑھی ہو اب وہ روز گھنٹوں لائبریری بیٹھ
کر اُن کتابوں کے صفحے پلٹتی رہتی جسے کبھی فواد نے چھوا بھی تھا۔
یونیورسٹی
سے تعطیلات کے ابتدائی دنوں میں فواد کا اچانک خیال سا آ جانا اُسے عجیب سا لگا۔
ہاں وہ دکھنے میں خوبصورت تھا، پڑھائی میں اچھا، لہجہ کمال تھا مگر پھر بھی فواد
ویسا تو ہرگز نہ تھا کہ اُس کے دل کو بھا جاتا۔
ناجانے
کیوں اُسے رہ رہ کر فواد کا تقریر کرنے اور غزل پڑھنے کا انداز اُس کے کانوں میں
سنائی دینے لگتا۔
ناجانے
کیوں ہر لمحے فواد کا چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے نا چاہتے ہوئے بھی منڈالاتا
رہتا تھا۔
روز
رات وہ فواد کی غزل پڑھتے، گنگناتے اور خود کو سناتے ہوئے سو جایا رکتی، کبھی چاند
کو دیکھ کر فواد کا چہرہ اُس سے ملاتی، کبھی اُسے ہی فواد سمجھ بیٹھتی۔
پھر
چاند کو فواد تصور کر کے دیر تک باتیں کیا کرتی یہاں تک کہ وہ غروب ہو کر اُسے
تاریک رات میں تنہا چھوڑ جایا کرتا۔
اگلے
روز پھر وہ شکوہ کیا کرنے لگتی، کبھی ناراض ہونے کا بہانا کرتی مگر پھر چاند میں
فواد کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر خود ہی اپنے دل کی باتیں گوش گزارنے لگتی۔
چاند
اُس کے لیے وہ خاموش اور با ادب محبوب تھا جو مسکراتے ہوئے اُس کے دن بھر کی باتیں
سن لیا کرتا۔
رات
کو وہ فواد کی غزل بارہا مرتبہ پڑھتی۔
پھر
سائیڈ ٹیبل کا سب سے اوپر والا دراز جسے اُسے نے خاص اسی مقصد کے لیے چنا تھا میں
یہ غزل تازہ پھولوں کے درمیان رکھ کر بند کرتی اور چابی گھما کر میز پر کھ کر بستر
میں چت لیٹ جاتی اور دیر تک فواد کو یاد کرتی رہتی۔
ایک
رات بڑا عجیب واقع ہوا۔ وہ چاند میں فواد کو دیکھ کر باتیں کیے جا رہی تھی کہ یک
لخت چاند میں فواد کی صورت غائب ہوگئی۔
کچھ دیر وہ یونہی بے چینی
سے فواد کا چہرہ تلاش کرتی رہی مگر پھر
اُسے فواد کی بجائے چاند میں ایک نہایے حسین لڑکی دکھائی دی۔ جس کا سرخ لباس اور
مناسب بناؤ سنگھار اُسے دلہن جیسا روپ عطا کر رہا تھا۔
اب
اس دلہن کے بعد سدرہ کو چاند میں بارات دکھنے لگی، ڈھول اور شہنائیاں بجنے کی آواز
اُسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی۔
ایک
سفید گھوڑی پر اُسے دلہا بیٹھا بھی دکھائی دیا مگر اُس کا چہرہ سہرے کے پیچھے چھپا
تھا جس وجہ سے وہ پہچان نہ سکی۔
چاند
غروب ہونے کے وقت اُسے ایک جانا پہچانا چہرہ شہریار کا چاند میں دکھائی دیا۔
اس
کے بعد چاند غروب ہو گیا۔ یہ رات اُس کی نہایت اضطراب کے عالم میں گزری۔ تمام رات
میں وہ یہی سوچتی رہی کہ چاند میں بارات نظر آنا اور پھر شہریار کا چہرہ نظر آ کر
منظر سے غائب ہو جانا کیا معنی رکھتا ہے۔
اگلے
روز صبح وہ یونیورسٹی چلی گئی تاکہ اگر شہریار ملے تو اُس سے رات والے واقع کے
متعلق پوچھا جا سکے۔ مگر افسوس وہ اُسے کہیں نہ ملا۔
مگر
یونیورسٹی کی ہر ایک جگہ سے اُسے فواد گزرتا معلوم ہوا۔ کسی جگہ کتاب تھامے بیٹھا
تو کسی جگہ چل کر راہ داری پار کرتے۔
کبھی
فوارے کے گرد بیٹھا اُس کی رنگین پھنوار کو دیکھ کر مسکراتا ہوا تو کبھی کینٹین کی
میز پر براجمان اُسے غزل سناتا دکھائی دیتا۔
یک
دم اُس کے سامنے لائبریری میں بیٹھے ہوئے کتابوں میں غرق فواد کا چہرہ دکھائی دیا
تو وہ فوراََ اُسی جانب کو چل پڑی۔
لائبریری
میں داخل ہوتے ہی وہ اُس حصے کی جانب بڑھ گئی جہاں ایک دن فواد کو بیٹھا دیکھا
تھا۔ مگر اب وہاں کوئی بھی تو نہیں تھا۔ کبھی فواد نظر آتا کبھی اچانک سے سب اوجھل
ہو جاتا۔
آس
پاس پڑے کتابوں کے شلیف پر اُس نے اپنی انگلیاں بے دھیانی میں پھیرنا شروع کیں تو
ایک کتاب پر اُس کی نظریں جامد ہوگئیں۔
یہ
کتاب کبھی اُس نے فواد کے ہاتھ میں دیکھی تھی۔ مگر کس دن اور کس وقت؟
" ہاں! اُسی دن جب میں پہلی بار لائبریری آئی تھی فواد کو
تلاش کرنے۔۔۔۔ جب وہ کتابوں کو اپنے سامنے
کھول کر کچھ لکھ رہا تھا۔۔۔ ہاں! جب نورین میرے پیچھے کھڑی ہم دونوں کو دیکھ رہی
تھی۔۔۔ تبھی فواد کے ہاتھ میں یہ کتاب تھی۔۔ وہ اسی کو تو پڑھ رہا تھا۔۔۔ ہاں ! یہ وہی کتاب تو ہے" سدرہ نے خود سے کہا۔
کتاب
لے کر وہ اُسی کرسی پر بیٹھ گئی جہاں اُسے نے فواد کو بیٹھے دیکھا تھا۔ بلبکل اُسی
انداز میں کتاب میز پر رکھ دی جیسے فواد نے رکھی تھی۔
پھر میز پر ذرا آگے کو جھک
کر اُس نے اپنی کہنی میز کے ساتھ ٹکائی اور ٹھوری تلے ہاتھ رکھ کر کتاب کے عنوان
کو گھورنے لگی۔
کافی
دیر بعد اُس نے کتاب کو کھولنے کی ذرا سی ہمت کی۔ بھلا جس کتاب کو فواد نے پڑھا ہو
اُسے نہ پڑھنے کی جسارت کیسے کر سکتی ہے۔
یہ
کوئی ناول تھا۔ جس کے پنوں پر محبت کی لازوال داستانیں منظوم تھیں ۔ ہر لفظ اُسے
خود سے مناسبت کرتا دکھائی دیتا۔ ہر کردار اُسے اپنی زندگی کے ساتھ منسلک ہوتا نظر
آتا دکھائی دیتا۔
ہر
صفحے کو پلٹتے ہوئے اُسے یہ خیال بھی ضرور آتا کہ فواد نے بھی کبھی اس کتاب کو
چھوا ہوا گا۔ کبھی ان صفحوں کو اُس نے بھی اسی انداز میں پلٹا ہو گا۔
جب
لائبریری میں لگی گھڑی نے ایک بجائے تو وہ خیالوں کی رنگین دنیا سے باہر آئی۔ پلٹ
کر وقت دیکھا اور گھر جانے کا سوچا۔
جاتے
ہوئے وہ کتاب بھی لائبریرین سے ایشو کرواتی گئی۔
اگلے
دو دنوں میں وہ کتاب ختم کر کے لوٹانے کو آچکی تھی۔ اب کی بار لائبریرن کر کتاب
لوٹاتے وقت اُس نے بہانے سے رجسٹر مانگا اور فواد کے نام پر ایشو ہوچکی تمام
کتابوں کا نام اور اُن کا نمبر اپنے پاس نوٹ کر کے فہرست بنا لی۔
اب
روز اُس کایہی معمول تھا کہ صبح لائبریری آ کر بیٹھ جاتی اور دیر تک فواد کو اسی
لائبریری میں کتابیں پڑھتا تصور کر کے اُسے سوچتی رہتی پھر وہی ناول پڑھنے لگتی۔
سدرہ
کے والدین کو اُس کا روز یونیورسٹی جانے کا کچھ سمجھ نہ آسکا۔ اُنھوں نے بیٹی سے
پوچھنے کی نجائے نورین سے دریافت کیا تو اُس نے بھی لاعلمی کااظہار کیا۔
کامران
صاحب کو تشویش ہوئی تو نورین سے پوچھنے کو کہا۔ اگلے روز نورین بھی اُسی وقت
یونیورسٹی پہنچ چکی تھی۔
سدرہ
کو لائبریری جاتا دیکھ وہ بھی پیچھے کو چلی مگر یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سدرہ
لائبریری میں ناول پڑھ رہی تھی اور وہ بھی اردو ناول۔
اردو
سے تو اُسے ہمیشہ چڑ رہی تھی مگر آج وہ اردو ناول پڑھ رہی تھی مگر کیوں؟ اور اُس
نے کتابیں پڑھنا کب شروع کیں؟ اور وہ بھی ناول؟
ایسے
کئی سوال نورین کے ذہن میں مسلسل آئے جا رہے تھے۔ جو اُس نے سدرہ سے ملتے ہی پوچھے۔
سدرہ
پہلے تو نورین کو دیکھ کر چونکی۔ پھر اُسے اپنا ہم راز خیال کرنے کے ساتھ ساتھ
اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے واسطے ساتھ لیے یونیورسٹی کے ساتھ واقع کیفے چلی
گئی۔
""سدرے! تم ہفتوں میں اتنا کیسے بدل گئی۔۔۔ تمہیں کیا ہو
گیا ہے یار؟" نورین نے سدرہ سی زبانی گزشتہ ہفتوں کا معمول سن کر پوچھا۔
" شاید محبت ہو گئی ہے" سدرہ نے کیفے میں شیشے کی کھڑی
کی سڑک کی جانب چلتی گاڑیوں کو گھورتے کہا۔
" محبت؟۔۔۔ اور وہ بھی تمہیں؟" نورین نے حیرت کا اظہار
کیا۔
" ہاں!"
" مگر تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ اس وقت تمہیں فواد سے محبت
ہے؟۔۔۔ وہ تو یہاں موجود بھی نہیں ابھی"
" محبت کا پتا فاصلوں کے بڑھنے پرہوتا ہے"
ہر
بات مذاق میں لینے والی، ہنسنے مسکرانے والی لڑکی اب اتنی سنجیدہ اور گہری باتیں
کب سے کرنے لگی تھی۔
" ہفتوں نے یا فواد کی محبت نے؟" نورین نے سوچا۔
سدرہ
کو دیکھ کر ہرگز بھی یہ نہیں لگتا تھا کہ یہ وہی ایک ماہ پہلے والی سدرہ ہے۔
وہ چنچل اور شوخ مزاج لڑکی
جسے ہر نیا کام ایڈونچر لگتا تھا کسی کی محبت میں کیسے پڑ سکتی تھی اور وہ بھی
فواد جیسے شخض کی محبت میں؟
ہاں
وہ ذہین فتین تھا، سمجھدار تھا، باقی لڑکوں سے منفرد ، اُساتذہ کا چہیتا اور سب
میں گھل مل جانے والا تھا مگر پھر بھی سدرہ کے لائق تو ہر گز نہ تھا۔
اب
ایک چھوٹے سے گاؤں کے غریب لڑکے اور شہر کے امیر ترین گھرانے کی بیٹی کا آپس میں
کیا جوڑ تھا۔
مگر
شاید یہ محبت ہی تھی جو عزت شہرت، روپیہ پیسہ اور رتبے کو نہیں دیکھتی تھی۔
سدرہ
سے رخصت ہوتے وقت وہ خود کو یہی تسلی دیتی رہی کہ محبت کا بھوت چند دن سوار رہ کر
سدرہ پر سے اُتر جائے گا۔ مگر تقدیر کے فیصلوں کو کون جھٹلاسکتا ہے۔
سدرہ
کا یونیورسٹی میں روز آنا جانا لگا رہا۔ فواد کی پڑھی ہوئی ہر کتاب کو وہ پڑھنا
چاہتی تھی۔ مگر اردو کمزور ہونے کے باعث اُس لمبی فہرست کو ختم کرنا مشکل تھا۔
ایک
تو فواد کتابیں بھی ایسے پڑھتا تھا جو کسی دوسرے کی سمجھ سے بالا تر ہو۔
سدرہ
کو یونیورسٹی کھلنے کا بے صبری سے انتظار تھا۔ اب تو چاند بھی بادلوں کی اووٹ میں
چھپا بیٹھا رہتا تھا اور فواد کی جھلک دیکھنا تو دور کی بات تھی۔
روز
رات کو وہ سونے سے قبل یہی سوچتی رہتی کہ یونیورسٹی کھلے گی تو فواد سے یہ بات کرے
گی۔
اُس
سے پوچھے گی کہ کیا اُس نے بھی کبھی سدرہ کو یاد کیا؟
کیا
ڈیڑھ ماہ کے دوران کبھی اُس کے ذہن میں سدرہ کا خیال آیا؟
کیا
وہ بھی کھلے آسمان تلے کھڑا ہو کر چاند میں اُس کا چہرہ تلاش کرتا تھا؟
کیا
اُسے بھی یونیورسٹی کھلنے کا انتظار بے صبری سے تھا؟
کیا
وہ بھی سدرہ کو دیکھنے، اُس سے ملنے اور
بات کرنے کو بے تاب رہا تھا؟
کیا
وہ بھی اُس کی آواز سننے کو ترس رہا تھا؟
اور
سب سے بڑھ کر کہ کیا وہ بھی سدرہ کو چاہتا تھا؟ اُس سے محبت کرتا تھا؟
کیا
اُس کے دل پر بھی وہی کیفیت طاری تھی جسے وہ ڈیڑھ ماہ سے محسوس کر رہی ہے؟
مگر
پھر ایک عجیب سا خوف اُس پر حاوی ہونے لگتا۔
" اگر وہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہوا ؟۔۔۔اگر اُسے بھی کوئی
مشرقی لڑکی پسند ہوئی؟۔۔۔ اگر اُس نے میری محبت کو قبول نا کیا تو؟۔۔۔ اگر میں اُسے اچھی نہ لگی یا میری صورت سے اُسے
نفرت ہوئی یا اگر اُس نے نزدیک میں خوبصورت نہ ہوئی تو؟" ایسے عجیب و غریب
سوال اُس کے ذہن میں آتے جا رہے تھے۔
جس
دن کا اُسے بے صبری سے انتظار تھا وہ دن بلاآخر آن پہنچا تھا۔
آج
یونیورسٹی ڈیرھ ماہ بعد دوبارہ کھل رہی تھی۔
نیلی
جینز پر گلابی رنگ کی لمبی قمیض پہن کر میک اپ کے نام پر محض ہلکے گلابی رنگ کی لپ
سٹک ہونٹوں پر لگا کر، کندھے سے اپنا لال رنگ کا بیگ لٹکائے وہ یونیورسٹی کی طرف بڑی خوشی سے چل پڑی۔
آج
کا دن اُس کے لیے بہت خوشی کا دن تھا۔ آج ڈیڑھ ماہ بعد اُسے فواد روبرو دیکھنے کو
ملنے والا تھا۔
گاڑی
سے اُتر کر یونیورسٹی کے مرکزی سے دروازے سے داخل ہوتے ہی اُسے یونیورسٹی کے سبزہ
زاروں میں چہل پہل دیکھ کر اُسے یوں معلوم ہواجیسے شدید جاڑے کے دنوں میں تنہا
رہنے والے شجر پر پرندے لوٹ آئے ہوں۔
یونیورسٹی
میں آئی تو وسیع سبزہ زاروں کے عین وسط میں لگا فوارہ آج اُسے چلتا ہوا نظر آیا۔
سورج کی میٹھی میٹھی دھوپ کی شعائیں فوارے سے نکلنے والے پانی کے قطروں سے منقس ہو
کر دھنک کا روپ اختیار کیے ہوئے تھی۔
اسی
کی اووٹ سے نورین نکلی اور سدرہ سے لپٹ کئی۔ دونوں وہیں کھڑی باتوں میں مگن ہو
گئیں۔
لڑکوں
کی بھیڑ میں اُس کی نگاہیں صرف ایک شخض کی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹک رہی تھیں۔ وہی
شخض جس نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اُس کا سکون برباد کر رکھا تھا۔
"آؤ نورین! اندر گیلری میں چلیں" سدرہ نے کچھ سوچ کر
بولا۔
ابھی
وہ اپنی جگہ سے چند قدم ہی آگے چلی تھیں کے پیچھے سے آنے والی آواز نے سدرہ کے قدم
جامد کر دیے۔
لاکھوں
بلکہ کروڑوں آوازوں میں سے بھی وہ اس ایک مخصوص آواز کی پہچان با آسانی کر سکتی
تھی۔
یہی
آواز تو وہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے روزانہ اپنے کانوں میں گونجتی سنا کرتی تھی۔
ہاں
بلکل یہی آواز اور یہی لہجہ بس الفاظ مختلف ہو کرتے تھے۔
ہلکے
نیلے رنگ کی شلوار قمیض پر واسکٹ زیب تن کیے ہوئے وہ شہریاراور باسط کے بیچ میں
چلا آرہا تھا۔
کلائی
پر وہی مخصوص کالے رنگ کی گھڑی، ہاتھ میں ایک رجسٹر اور واسکٹ کی اوپر والی جیب
میں رکھا ایک بال پین۔
ایک
نظر سدرہ اور نورین پر ڈالتے ہوئے وہ ایسے آگے بڑھ گیا جیسے پہنچاتا بھی نہ ہو۔ بس
اُس کا ایک یہی انداز تھا جس سے سدرہ نفرت کرتی تھی۔
کسی لڑکی سے بات تک نہ
کرنا، نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھنا بس اگر اتفاقاََ نظر پڑ جائے تو ہو بات اور ہے۔
" ہائے مس سدرے اینڈ مس نورین!۔۔ کیسی ہیں آپ دونوں"
شہریار نے رک کر دونوں سے پوچھا جبکہ فواد باسط کے ساتھ چلتا ہوا گیلری تک پہنچ
چکا تھا۔
سدرہ
اور نورین دونوں کی نظر فواد پر تھی جو اُن دونوں کو نظر انداز کیے ہوئے بہت آگے
نکل چکا تھا۔ آج تک کسی نے سدرہ کو ایسا نظر انداز نہیں کیا تھا۔
" یار سدرے! یہ فواد نے کیا سلوک کیا تمہارے ساتھ۔۔۔ تم ڈیڑھ
ماہ سے اُس کے لیے مر رہی ہو اور وہ۔۔" شہریار کے چلے جانے کے بعد نورین
بولی۔
" اُسے کیا معلوم کہ میں اُس کے لیے کتنا تڑپی ہوں" سدرہ
نے معقول سا جواب دیا۔
فواد
کے رویے نے اُس کے دل کو اندر سے ہلایا تو ضرور تھا مگر پھر بھی ٹوٹنے سے بچ گیا
تھا۔
نورین
نوٹس بورڈ سے کلاسوں کا شیڈول دیکھ آئی تھی۔
دونوں نے کمرہِ جماعت میں
جانے کا فیصلہ کیا مگر جاتے ہوئے راستے میں ہی اُن کی توجہ پھر فواد نے اپنی طرف
مبذول کروا لی تھی۔
راہ
داری کے دوسری جانب فواد اور پروفیسر ثقلین ایک ساتھ کھڑے تھے۔ پروفیسر ثقین
فوادکے ہاتھ کو پکڑے اس انداز سے کھڑے معلوم ہو
رہے تھے جیسے کسی بات پر مبارک باد دے رہے ہوں۔ مگر کس بات کی؟
کچھ
دیر تک سدرہ اُسے یوں ہی مسکراتا دیکھ کر کھو سی رہ گئی مگر پھر نورین کا کندھے سے
پکڑ کر زور سے ہلانے پر وہ اپنے حواس میں آئی۔
کمرے
میں آکر وہ دونوں اپنے بینچ پر بیٹھی ہوئی تھیں جب فواد کمرے میں داخل ہوا اور جا
کر سیدھا شہریار کے پاس بیٹھ گیا۔
سدرہ
کی نظریں اب بھی اپنے دائیں طرف والے بینچ پر بیٹھے فواد پر تھیں۔ ایسی صورت میں
اُسے اپنی گردن کو خم دے کر اپنا چہرہ
فواد کی طرف موڑنا پڑتا تھا۔
سدر
ہ چپ چاپ اُٹھی اور فواد سے بلکل پیچھے والے بینچ پر خاموشی سے بیٹھ کر اُس کی اور
شہریار کی گفتگو سننے لگی۔
نورین
نے سدرہ کو غائب پا کر اُس کے ساتھ بیٹھناہی بہتر سمجھا۔
تمام
کلاسوں کے دوران سدرہ کی نگاہیں بورڈ کی بجائے فواد پر تھیں۔ وہ اُس کے چہرے پر
آیا ہر تاثر پڑھنا چاہتی تھی۔
وہ کب مسکرایا اور کیوں؟
وہ کیا بات کر رہا ہے اور کس موضوع کے متعلق؟
وہ
ہر چیز نوٹ کرنا چاہتی تھی اور کر بھی رہی تھی۔
ڈیڑھ
ماہ بعد فواد کو اپنے روبرو دیکھنا، اُس کی اواز اپنی سماعتوں میں سننا، اُس کے
ہونٹوں کو ہلتے محسوس کرنا اُسے کس قدر بھلا لگ رہا تھا۔
سدرہ
کا خیال تھا کہ آج کلاسوں کے اختتام پر جب فواد معمول کی طرح لائبریری جائے گا تو
وہ اپنے متعلق بتائے گی کہ کیسے اُس نے فواد کی پڑھی ہوئی تمام کتابیں پڑھ رکھی
ہیں۔
پھر وہ ان موضوعات کو لے
کر بحث کریں گے۔ کبھی فواد جیتے گا ،، کبھی وہ، کبھی دونوں ہار جائیں گے۔
پھر وہ دونوں اپنی شکست پر
ہنس دیں گے اور اسی ہنسنے کے دوران وہ بتائی گی کہ کیسے وہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اُس
کی یادوں میں گم ہے۔
کیسے
اُس کا دل اپنا ہوتے ہوئے بھی اپنے جیسا نہیں رہا۔ وہ بتائے گی کہ کیسے وہ روز رات
چاند میں اُس کا چہرہ دیکھا کرتی تھی۔ اپنی محبت کی داستان خود سنائے گی فوادکو۔
نورین سے کسی کام کا بہانہ بنا کر سدرہ لائبریری کی
جانب چلی گئی کہ مگر تمام لائبریری کا کونا کونا چھان مارا مگر فواد کسی جگہ بھی
نظر نہ آیا۔ کلاس سے نکلتے ہی نا جانے وہ
کس جانب نکل گیا تھا۔
وہ
لائبریری سے واپس آئی اور کینٹین کی جانب چلی گئی مگر وہاں بھی وہ نہیں تھا۔ باسط
سے پوچھنے پر اُسے معلوم ہوا کہ اُس نے فواد کو کچھ دیر پہلے یونیورسٹی کے مرکزی
دروازے سے باہر جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
سدرہ
تیز قدموں سے باہر کو نکلی اور سڑک کے دونوں اطراف دیکھا مگر فواد کا نام و نشاں
کسی جانب لگانا مشکل ہو رہا تھا کیوں کی رش بہت ہوتا جا رہا تھا۔
وہ
گاڑی کی طرف آئی اور ڈرائیور کو آہستہ چلنے کا بول کر کھڑکی سے آس پاس فواد کو
تلاش کرنے لگی مگر ہر جگہ سے اُس کی نگاہیں نا مراد لوٹ رہی تھیں۔
٭٭٭
آج
یونیورسٹی کا پہلا ہی دن تھکا دینے والا تھا۔ ڈیڑھ ماہ بعد یونیورسٹی آ کر اُسے
کچھ عجیب سا لگا۔
گاؤں
میں رہتے ہوئے اُسے وہاں کے ماحول کی عادت ہو گئی تھی شاید اسی لیے ابھی یہاں
لڑکیوں کو اس طرح بے تکلف دیکھ کر اُسے عجیب محسوس ہوا۔
چنچل
اور شوخ مزاج لڑکیوں سے تو اُسے شروع سے ہی چڑ رہی تھی۔ تب ہی سدرہ کو راستے میں
کھڑا پا کر بھی وہ اُس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔
سدرہ
کوئی حد سے زیادہ شوخ مزاج تھی اور بقول شہریار کے ، سدرہ لڑکوں کو اپنی انگلیوں
پر نچانے میں ماہر بھی تھی۔
آج
دن بھی وہ سدرہ کی نظریں خود پر محسوس کرتا رہا۔ وہ جدھر بھی گیا اُسے سدرہ اپنے
آس پاس معلوم ہوئی۔ مگر وہ نظریں اُٹھا کر سدرہ کو دیکھنا بھی نہ چاہتا تھا۔
ایک
وجہ تو یہ تھی کہ سدرہ کا لباس اُسے پسند نہ آتا تھا اور اگر وہ شلوار قمیض بھی
پہن لیتی تو اس قدر پیاری لگتی کہ نظریں ہٹانے کو جی نہ چاہتا۔ مگر اپنے سامنے
مقرر کردہ حدف اُسے ایسا کرنے سے باز رکھتا۔
دن
بھر سدرہ کا اُسے یوں اس طرح دیکھنا کچھ عجیب سا لگا۔ پھر اُسے یاد آیا کہ
یونیورسٹی کے اُس آخری دن جب وہ کینٹین میں غزل سنا رہا تھا تب بھی سدرہ کی نظریں
اُسی پر تھیں اور ہاں وہ تقریر میں سے نام بھی تو نورین نے سدرہ کا کٹوایا تھا اور
یقیناََ اُس کے کہنے پر ہی ہوا ہو گا۔
پھر
اُسے یاد آیا کہ شادی کے دنوں میں شہریار نے اُسے یہ بھی بتایا تھا کہ اُس کے جانے
کے الگے روز سدرہ نے فواد کا پوچھا بھی تھا۔
یہ
تمام باتیں اُس کے ذہن میں کسی ٹیپ کی طرح چلتی جا رہی تھیں۔ ہر پہلو پر غور کرتے
ہوئے مزید نئے رخ کھلتے چلے جا رہے تھے۔
یونیورسٹی
سے پیدل واپس ہاسٹل کی طرف جاتے ہوئے وہ مسلسل یہی سوچے جا رہا تھا۔ سدرہ کی یہ
حرکات اُس کی سمجھ سے بالا تر تھیں۔
اپنا
وہم تصور کرتے ہوئے اُس نے یہ خیال جھٹک دیا۔ یونیورسٹی سے ہاسٹل جانے کا راستہ
چھوڑ کر وہ سیدھا ڈاک خانے گیا اور گھر ڈاک ارسال کر دی۔
بستہ
ہاسٹل رکھ،کچھ دیر سستا کر اُس نے ٹیوشن جانے کی سوچی۔ ٹیوشن پہنچ کر دیکھا آج
تعداد کم تھی۔
ندیم صاحب سے بات کرنے پر فواد کو معلوم ہوا کہ کل
سے وہ دوبارہ ٹیوشن پڑھانے آ سکتا ہے۔ اس کا مطلب آج کا دن اُس کے پاس فارغ تھا۔
شام
ڈھلنے سے قبل ہی وہ ہاسٹل واپس آ گیا۔ اُس کے معمول کی مثلث میں محض تین چیزیں آتی
تھیں۔
یونیورسٹی،
ہاسٹل اور ٹیوشن۔ اسی تین کے درمیان اُس کی زندگی گردش کر رہی تھی۔
ینوی
ورسٹی سے ہاسٹل دس منٹ کی پیدل مسافت پر تھا مگر ٹیوشن اکیڈمی تک کا فاصلہ کافی زیادہ تھا۔
لیکن
فواد پھر بھی پیدل سفر کو ترجیع دیتا کیوں کہ ایک طرف کا بس کا کرایہ تین آنے تھا۔
پیدل جانے سے اُس کے روزانہ کے چھ آنے بچ جایا کرتے تھے۔
اگلے
روز دن کے آغاز پر ہی وہ کاموں میں جت گیا۔ یونیورسٹی پہنچا تو اس وقت کے کلاس کو
ذرا سا وقت باقی تھا۔
کمرہِ
جماعت میں داخل ہوتے ہی اُسے سدرہ پہلے بینچ پر بیٹھی نظر آئی۔ گلابی رنگ اُس پر
ہمیشہ سے ہی خوب جچتا تھا اور آج تو کچھ زیادہ ہی۔
سدرہ
کے ہاتھ میں کوئی اردو کی کتاب تھی جس پر نظریں جمائے وہ بڑے غور سے پڑھ رہی تھی۔
اُس
نے نظریں اُٹھ اکر دیکھا تو فواد کو آتے پایا۔ اُس کی نگاہیں صرف فواد پر جم گئی
تھیں اور چہرے پر ہلکی مسکراہٹ تو اُسے دیکھ کر خوشی کا معمولی سا اظہار تھا۔
جب
تک فواد اپنی نشست پر بیٹھ نہ گیا تب تک سدرہ مسلسل اُسے ٹکتی باندھے دیکھتی رہی۔
پھر
بہانے سے اُٹھ کر پیچھے گئی اور ایسی جگہ بیٹھ گئی جہاں فواد واضع نظر آ سکے۔
فواد
بھی سدرہ کی نظریں خود پر محسوس کر رہا تھا۔ اُسے یہ نہایت عجیب معلوم ہو رہا تھا
کہ کوئی لڑکی اُس کی طرف دیکھتی جا رہی ہے۔ پہلے اُسے لگا شاید سدرہ جان بوجھ کر
ایسا کر رہی ہے۔ مگر کیا سچ میں ایسا ہی تھا ؟
اگر
وہ اُسے ایسا کرنے سے منع کرتا اور اُس کا خیال غلط نکل آتا تو تمام جماعت کے
سامنے اُسے شرمندگی اُٹھانا پڑ سکتی تھی۔
اوپر
سے وہ تھی بھی سدرہ۔ جو لڑکی ہونے کا پورا پورا فائدہ اُٹھاتی اور صحیح کو غلط جبکہ غلط کو صحیح میں بدل
دیتی۔
ایسے
میں قصوروار صرف فواد ہی بچ جاتا۔
کلاسیں
ختم ہوتے ہی فواد نے ہاسٹل جانے کی سوچی۔ لائبریری کی بجائے وہ سیدھا یونیورسٹی کے
مرکزی دروازے کی جانب مڑا۔
آج
سدرہ اُس پر غور کیے ہوئے تھی۔ فواد کو باہر جاتا دیکھ وہ بھی باہر کو لپکی۔
" فواد!" ابھی فواد نے دروازہ پار ہی کیا ہوگا کہ سدرہ
نے آواز دی۔
" جی مس سدرہ ! " فواد نے سدرہ کی طرف پلٹ کر دیکھا۔
" فواد ! مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے"
" جی فرمائیے!" فواد نے ایک نظر سدرہ کو پھر ایک نظر
گھڑی کی جانب دیکھا ۔
" اگر کسی جگہ بیٹھ کر بات کریں تو مناسب ہو گا"
" بیٹھ کر بات کرنے میں وقت لگے گا اور میرے پاس وقت
نہیں" وہ چل پڑا تھا۔
" میں محبت کرتی ہوں تم سے!" فواد کو چلتا دیکھ سدرہ
بولی ۔
ایک
لمحے کو فواد کے قدم جامد اور حواس ساکن ہو کر رہ گئے۔
کوئی
لڑکی اور وہ بھی سدرہ جیسی اُس سادہ لودیہاتی شخض سے محبت کیسے کرسکتی تھی؟
یہ کیسے ممکن تھا کہ اُس
کے سرد رویے کا بوجود کوئی لڑکی اُس سے محبت کر بیٹھے؟
یہ کب ، کیوں اور کیسے
ہوا؟
ایک
لمحے کے ہزارویں حصے میں یہ سوال اُس کے ذہن میں آ چکے تھے۔ مگر نہ ہی وقت اور جگہ
یہ سوال کرنے کے لے لیے مناسب تھی۔
نا
چاہتے ہوئے بھی اُسے سدرہ کی پیروی میں ساتھ والے کیفے پر جانا پڑا۔
کیفے میں داخل ہوتے ہی
مختلف نشستوں پر اُسے لڑکے لڑکیاں جوڑوں کی صورت میں بیٹھے دکھائی دے رہے تھے۔
ایسی جگہ وہ شاید اکیلے
آنا بھی پسند نہ کرتا مگر آج حالات اُسے یہاں کھینچ کر لے آئے تھے۔
وہ
اس معاملے کو یہاں ہی ختم کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ
سدرہ اس بھٹی میں جھونکی جائے۔
ایک
خالی میز پر سدرہ بیٹھی تو کرسی سامنے والی کرسی کو کھینچ کر فواد بھی بیٹھ گیا۔
ایسا ہوتا اُس نے کبھی سنا تھا یا دیکھا تھا مگر آج اس پر عمل بھی کر نا پڑ رہا
تھا۔
" جی محترمہ! آپ کیا فرما رہی تھیں یونیورسٹی کہ باہر"
فواد نے بیٹھتے ہی سوال کیا مگر نظریں نیچے ہی رکھنا مناسب سمجھا۔
" میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں فواد!" سدرہ کی نظروں نے
فواد کے چہرے کا طواف کیا جو اُس کی جانب ہرگز بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔
" مگر کیوں؟"
" محبت کیوں ، کیسے اور کب جیسے الفاظوں سے خالی ہے"
سدرہ سے اس جواب کی توقع کم از کم فواد کو نہ تھی ۔
" مگر یہ کیسے ممکن ہے؟۔۔۔ میں نے تو تم سے ہمیشہ سرد لہجے میں بات کی"
" مگر وہی لہجہ تو ہمیں لے ڈوب مرا"
" سدرہ! ہم محبت کیے جانے کےلائق نہیں ہیں" فواد نے
سمجھانا چاہا۔
" اور ہم محبت کرنے کے"
" تمہاری محبت فضول جائے گی"
"اگر تو میں تم سے واقعی محبت کرتی ہوں تو سن لو کہ محبت فضول
نہیں جایا کرتی"
"میں کیسے مان لوں کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے" فواد نے
تفصیل چاہی۔
اگر
مجھے تم سے محبت نہ ہوتی تو اس وقت تمہارے سامنے بیٹھ کر دل کا حال کیوں سناتی۔۔۔
جانتے ہو ڈیڑھ مہینے میں تمیں کتنی بار یاد کیا۔۔۔ تمہیں کتنی بار دیکھا اور
سنا۔۔۔ کتنی بار تمہاری صورت ماہتبا میں جا تلاش کی۔۔۔۔ اردو اور کتابوں دونوں سے
نفرت تھی مگر تمہاری خاطر دونوں کو پڑھنا شروع کیا" سدرہ کے لہجے میں ایک درد
تھا اور اُس درد کے پردے میں چھپے ہزار شکوے۔
" کیا میں نے کہا تھا کہ تاریک راتوں میں مجھے یاد کرو۔۔۔ کیا
میں نے کہا تھا کہ میری خاطر کتابیں پڑھو" فواد کی نظریں اب بھی نیچے تھیں۔
شاید وہ اُسے نظر انداز کر رہا تھا۔
"مگر تم سمجھتے کیوں نہیں فواد!۔۔۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔
۔۔ محبت۔۔۔ سوتے ، جاگتے، اُٹھتے، بیٹھتے، کھاتے، پیتے ہر وقت بس تم ذہن میں آتے
رہتے ہو۔۔ دن تمہیں سنتے گزر جاتا ہے۔۔۔ رات تمہیں چاند میں تلاش کرتے۔۔۔ تمہاری
غزل پڑھتے پڑھتے لمبی سے لمبی راتیں بھی منٹوں میں بیت جا یا کرتی ہیں۔۔۔تمہارا
انداز، تمہارا لب و لہجہ، تمہاری عمدہ ڈریسنگ ہر چیز دل کو بھا گئی۔۔۔ فواد! مجھے
کسی اور چیز کی پرواہ نہیں مگر صرف تمہاری" اس لمحے فواد نے نظر اُٹھا کر
سدرہ کو دیکھا۔
فواد
سے نظریں ملاتے ہی سدرہ سب الفاط بھول گئی۔ وہ کھو کر ہ گئی ۔ اُسے یاد بھی نہ رہا
کہ وہ کیا بولنا چاہتی تھی" میں تمہیں چاہنے لگی ہوں فواد!" وہ اس سے آگے کچھ نہ بول سکی۔
" سدرہ!"
" سدرے!" اُس نے اصلاح کی۔
" جو لڑکی اپنا نام سیدھا نہیں بلوا سکتی وہ مجھ سے محبت کرنے
کا دعوٰی کیسے کرسکتی ہے" فواد کی بات سدرہ کو ہلا دینے والی تھی۔
یہ شاید محبت میں پہلا
طعنہ تھا جو اُس کہ حصے کی خیرات میں آیا تھا۔
" بہتر ہے کہ اس محبت جیسی فضول چیز کا خیال اپنے ذہن سے نکال
دو"
" محبت کو تو ذہن سے نکال دوں گی مگر تمہیں کیسے نکالوں
گی"
"تو پھر کم از کم مجھ سے یہ توقع مت رکھو کہ مجھے تم سے محبت
ہو گی"
" کیا میں اچھی نہیں دکھتی یا میری صورت خراب ہے؟" سدرہ
نے سوال کیا۔
" صرف صورت دیکھ کر دل جڑا نہیں کرتے بلکہ سیرت بھی ہوتی
ہے" وہ چاہتا تھا کہ کسی صورت تو وہ سدرہ کے دل سے اُترے ۔
" تو کیا میں صورت یافتہ ہوں اور سیرت یافتہ نہیں؟"
" میں کسی ایسی لڑکی
سے شادی نہیں کر سکتا ہوں فیشن اور ٹرینڈ
کے نام پرایسے کپڑے پہنے جس سے میں نفرت کرتا ہوں۔۔۔ جس کے لیے لڑکوں کے دلوں سے
کھیلنا محض ایک مشغلہ ہو اور ایڈونچر ہو" فواد بولا " ہم دونوں ایک
دوسرے کے لائق نہیں۔۔ ہم میں بہت فرق ہے "
" میں تمہارے لیے سب چھوڑ سکتی ہوں۔۔ بڑا گھر، عیش و آرام سب
کچھ"
" مگر میں تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ اور نہ ہی میں تمہارے
ناز و نخرے اُٹھانے کا اہل ہوں۔۔۔ بہتر ہے تم اپنے جیسا کوئی فیش ایبل اور ایڈونچر
کے شوقین لڑکے کو پسند کرو"
فواد
اپنی بات ختم کر چکا تو سدرہ کی جانب دیکھا۔
آج
پہلی مرتبہ وہ اُسے اس قدر غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس قدر خوبصورت اور معصوم لڑکی
اگر اُس سے سچ میں محبت کر بیٹھی ہے تو اس
کا مطلب اُس نے خود کو برباد کرنے کی تھان رکھی تھی۔
ایک
لمحے کو فواد کو سدرہ پر رحم آیا۔
اُسے
لگا کہ اگر مزید ایک لمحے اُس نے سدرہ کو دیکھا تو شائد اُسے سدرہ سے محبت میں
گرفتار ہو جائےمگر وہ تو اپنی بیوی سے پہلے ہی محبت کرتا تھا۔ اور محبت میں شراکت
اُس کے نزدیک بھی گناہ تھا۔
سدرہ
کو اس کےخیالوں میں گم سم چھوڑ کر وہ کیفے سے باہر نکل آیا۔تمام راستے وہ اسی
مسئلے کو لے کر پریشان رہا تھا۔
وہ
تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس قدر سرد مہری کے باوجود کوئی لڑکی اور وہ بھی
سدرہ جیسے اُسے سے محبت کر سکتی ہے۔
دوسری
جانب سدرہ بڑی دیر تک کیفے میں گم سم بیٹھی رہی۔ ناجانے آنسو کب کہ آنکھوں کے حلقے
سے نکل کر رخسار پر بہتے جا رہے تھے۔
اُسے
یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اُس کی محبت
کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی بجائے اُسے
دفنانے کی تیاری کی جا رہی ہو۔
میز
پر اُس نے فواد کا قلم پڑا دیکھا جو شاید وہ یہاں بھول گیا تھا۔ سدرہ نے وہ قلم
اُٹھا کر اپنے ہینڈ بیگ میں احتیاط کے ساتھ رکھ لیا۔
بہتے
آنسوؤں کے ساتھ وہ تیز قدموں سے کیفے سے باہر نکلی اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کر تیزی سے
گھر جانے کا کہہ کر خود پچھلی سیٹ پر بیٹھے مسلسل آنسو بہاتی رہی۔
گھر
آتے ہی وہ سیدھا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ اندر سے
مقفل کر کے اوندھے منہ بستر پر لیٹ کر زور زور سے رونے لگی۔
اُسے
تنہائی چاہیے تھی۔ اُسے ایسی جگہ درکار تھی جہاں وہ کھل کر اپنے آنسوؤ بہا سکے۔
وہ چاہتی تھی کہ زور زور
سے چلا کر اس بنگلے کے در و دیوار تک ہلا ڈالے مگر اپنے غم اپنے اندر رکھنے کا
سلیقہ اُسے آتا تھا۔ تنہائی میں جینے کے دستور سے وہ واقف تھی۔
تنہائی
اُس کی سب سے بڑی رفیق تھی جس نے اُسے کبھی تنہا نہیں چھوڑا تھا۔
ناجانے
کب تک وہ روتی رہی۔ ناجانے کب تک آنسوؤ اُس کی آنکھوں سے بہتے رہے مگر پھر اُسے
معلوم نہ ہوا کہ وہ سو گئی تھی یا بے ہوش
ہو گئی تھی۔
آنکھ
کھلنے پر پاس رکھی گھڑی پر سے وقت دیکھا تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ کمرے میں گھپ
اندھیرا تھا کیوں کہ آتے وقت تو اُس نے کوئی بتی نہ جلائی تھی۔
سدرہ
نے کمرے کو روشن کیا تو دیکھا ہر طرف اُس کا سامان بکھرا پڑا ہے۔ اُس کی یہی عادت
تھی بچپن سے۔
جب
کبھی بھی کسی وجہ سے روتی تو مسلسل بستر میں منہ دیے رونے کے سبب اُس پر نیند کا
غلبہ آ جاتا اور وہ سو جایا کرتی۔ آج رات وہ
طبیعت کا بہانا بنا کر کھانے پر بھی نہ گئی تھی۔
کپڑے
بدل کر اُس نے نائٹ ڈریس پن لیا تھا۔ سنگار میز پر آکر بالوں کو جوڑا بنانے لگی تو
دیکھا آنکھیں رونے کے سبب سوجھ چکی ہیں۔
اس
وقت تک وہ بلکل بھی دن والی بات بھول چکی تھی۔
ایک
لمحے کے اندر دن والے واقع اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ فواد کا آخری جملہ
اب بھی اُس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔
اُس
کے دل پر اب بھی ویسی ہی ایک ضرب لگی جیسے اُس وقت لگی تھی۔ اُسے یاد آیا کہ فواد
کا قلم گر کر اُس کے پاس رہ گیا تھا جسے اُس نے اپنے لال ہینڈ بیگ میں ڈالا تھا۔
وہ
فوراََ کو پلٹی اور وہ قلم نکال کر ہاتھ میں لیے بیٹھ گئی۔ فواد کے ساتھ کی ہوئی
گفتکو اُس کے دماغ میں پھر سے چلنے لگی
تھی۔فواد کے جملے اُسے پھر سے سنائی دینے لگی تھے۔
اُس
کی آنکھوں سے پھر سے آنسوبہنے لگے تھے۔ محبت کے راستے پر چلتے ہوئے انسان کو بہادر
اور مضبوط بنانے میں یہی آنسوتو کام آتے ہیں۔ حصولِ محبت کے لیے اتنا رونا تو جائز
ہے۔ اتنے ستم سہنا تو بنتا ہے۔
آج
چاند بھی تو نہ نکلا تھا جو اُس کے غموں کا مداوا کر سکے۔ اس وقت اُس کی حالت بھی
پنجرے میں مقید اُس چکور کی مانند جس کا دل چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر ڈوبنے لگتا
ہے۔
مگر
یہاں فرق یہ تھا کہ نہ تو سدرہ کی آنکھوں کے سامنے چاند تھا اور نہ ہی اُس کی چاہت
اُس کے مقدر میں۔
تمام
رات کبھی وہ فواد کی غزل پڑھتی، کبھی اُس کے ہاتھوں لکھی تقریر پڑھتی۔ کبھی اُس کے
قلم کو ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں پر گھماتی اور کبھی سب چھوڑ چھاڑ کر رونے لگتی۔
وہ
چونکی تو تب جب اُس کے کانوں میں فجر کی اذان سنائی دی۔ اُس نے اپنی زندگی کا یک
حصہ راتوں کو گانے سننے اور فلمیں دیکھنے میں صرف کیا تھا مگر کبھی بھی اُس کے
کانوں میں رات کو فجر کی اذان سنائی نہ دے سکی۔
آج
یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی۔ وہ چونک کر اُٹھی اور دروازہ کھول کر بالکونی میں چلی
گئی۔ ہر سمت سے آواز کی جگہ کا تعین کرنے کی کوشش کی مگر ناکام۔
جب
انسان کے دل سے میل صاف ہونے لگ جائے تو باہر کی آواز کے ساتھ ساتھ انسان اپنے دل
کی آواز بھی سن سکتا ہے۔ اذا ن کی یہ آواز اُس کے کان کی بجائے دل سن پا رہے تھے۔
ندامت
نے اُسے آن گھیرا۔ آج سے پہلے تو وہ کبھی اذان کی آواز نہ سن پائی تھی مگر آج اس
وقت جب ہر سو خاموشی ہے ، اندھیرا ہے اور اس وقت ایک شخض خدا کے حضور کھڑا ہو کر
اہلِ جہان کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے میں لگا ہے۔
اصل
محبت تو یہ تھی۔ جس میں محبوب ستم ظریف نہ بھی ہے مگر پھر بھی اُس کے چاہنے والے
راتوں کو اُس کی تلاش میں مصلےٰ پر رہتے ہیں۔
اوہ
گبھرا کر اُٹھی اور جا کر روضو کیا اور نماز کے لیے جائے نماز تلاش کرنے لگی۔ عجیب
بات تھی کہ اُس کے کمرے میں جائے نماز بھی نہ ملا رہا تھ۔
کچھ دیر تگ و دو کرنے کے
بعد الماری کے پچھلے کونے میں ددھول مٹی میں اٹا ہوا جائے نماز مل گیا جسے اُسے ایک کپڑے سے صاف کیا۔
" سدرہ ! ۔۔ بچے نماز پڑھتے وقت حجاب کیا کرتے ہیں" بچپن
میں اُس کی ماں کی ایک تلقین اُس کے کانوں میں گونجی۔
وہ
فوراََ الماری کی طرف بھاگی اور ایک ایک کر کے تمام ڈوپٹے کنگھالنے لگی۔
اُس
کی الماری میں پڑے تمام دوپٹے ریشمی تھے اور کوئی بھی ایسا نظر نہیں آ رہا تھا جس
کو اوڑھ کر نماز پڑھی جا سکے۔
ایک
ایک کرکے اُس نے تمام ڈوپٹے نکال کر پلنگ پر پھینکے ۔ آخر اُس میں سے ایک کالے رنگ
کی بڑی چادر مل ہی گئی جسے وہ خود پر اوڑھ سکتی تھی۔
سنگھار
میز کے قریب کھڑے ہو کر اُس نے چادر کو خود پر
اوڑھا۔ کچھ وقت لگا مگر بلا آخر وہ خود پر یہ چادر اوڑھنے میں کامیاب ہو ہی
گئی۔
جائے
نماز کو بالکونی کے دروازے کے قریب بچھا کر وہ نماز پڑھنے لگی۔
نماز
کے ہر رکن کو ادا کرتے ہوئے اُس کا دل کانپ سا جاتا۔ مگر جب سجدے میں سر رکھا تو
اس قدر سکون اور قرار دل کو بھایا کہ سر اُٹھانے سے جی نہ چاہا۔
اُسے
ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کے دل کا تمام درد اُس کے سر سے ہوتا ہوازمین کی
جانب منتقل کو رہا ہے۔
درد
کی شدت سے بے حال دل میں اب سکون نے جگہ لے لی تھی۔
نماز
ختم ہونے تک اُس کے جی کو قرار مل چکا تھا ۔ ایسای محسوس ہوتا تھا کہ غم کی سیاہ
رات سے بادل ہٹ چکے ہیں اور اُمید کی کرن دور کسی پہاڑ کے دامن سے پھوٹنا شروع ہو
چکی ہے۔
Comments
Post a Comment