قسط نمبر: 6
"خوشی کی ہر شام مہکتی ہے اور
غم کی ہر رات دہکتی ہے مگر جو سحر ہوتی ہے وہ ہمیشہ ہی چہکتی معلوم ہوتی ہے کیوں کہ
شاید اس وقت خدا ہمارے سب سے قریب ہوتا ہے۔ ۔۔اس دنیا کہ انسان کی زندگی اَن گنت
خوشیوں اور غموں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک عام المیہ ہے کہ غموں سے چور رات کا اختتام
ہمیشہ نئے دن کے سورج سے ہوتا ہے۔ زندگی کے اس طویل سفر کے دوران جا بجا انسان کے
مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کٹھن ہوتی معلوم ہونے لگتی ہے۔ مگر ہر درد
بھرے دن کا اختتام بھی شام پر جا کر ہوتا ہے" ماسٹر اللہ دتہ عشاء کی نماز کے
بعد مسجد کے صحن میں بیٹھے گاؤں کے لوگوں سے مخاطب تھا۔
پچھلا
ایک مہینہ گاؤں والوں کے لیے بے حد کٹھن
رہا تھا۔ اس مرتبہ ماہِ رمضان بھی خالص گرمیوں کے اُن دنوں میں آیا تھا جو دن فصل
کی کٹائی اور گہائی وغیرہ کے لیے مختص ہیں ۔
روزہ
رکھ کر شدید گرمی کے دنوں میں فصل کی
کٹائی کرنا ایک بے حد مشکل مگراہم فریضہ تھا۔ جسے سر انجام دینا ہر ایک کے لیے
ضروری تھا۔
کیوں
کہ یہی ایک ماہ تو اُن کے پورے سال کی روزی روٹی کا بندوبست کرتا تھا۔
اس
سال کا ماہِ رمضان بہت کٹھن رہا تھا۔ ایک طرف شدید گرمی کا سال تو دوسری طرف فصل
کی کٹائی۔
گزشتہ
سال کے شروع میں گاؤں کا ایک فردجو فوج میں ملازم تھا۔ ملازمت سے واپسی پراپنے
ساتھ ایک بڑا گھڑیال لیتا آیا۔
یہ
گھڑیال اُس نے گھر میں رکھنے کی بجائے مسجد میں جا لٹکائی۔
گاؤں
والوں کے لیے چونکہ یہ ایک نئی چیز تھی تو گاؤں کا ہر فرد اسے دیکھنے کے واسطے
مسجد کا رخ کرتے۔
وہ مرد جنھوں نے پہلے کبھی مسجد کا رخ تک نہ کیا تھا اب
نماز پڑھنے کے بہانے گھڑیال دیکھنے آتے۔ ایک ایک وقت میں چار چار عوارتیں مسجد کے
حضرے میں پانی بھرنے آتیں۔
" وے نورین تو وی!"
" اختر تو وی!" پانی بھرنے
کے بہانے گھڑیال دیکھنے آئیں عورتیں ایک دوسرے کو دیکھ کر کھل کر ہنس پڑتیں۔
پورے
گاؤں میں گنے چنے چند افراد گھڑی سے وقت پڑھنا جانتے تھے جن میں سے ماسٹر اللہ دتہ
ایک تھے۔
اُن
دنوں ماسٹر اللہ دتہ کے کان یہ جملہ سننے کے عادی ہو چکے تھے" ماسٹر جی !
مینوں وی ٹئیم ویکھنا سکھاؤ" جو ہر ایک کے لب پر تھا۔ ( ماسٹر جی! مجھے بھی
ٹائم دیکھنا سکھائیں)
گاؤں
والوں نے پہلے پہل اپنا معمول سورج کے اُتار چڑھاؤ کے ساتھ مختص کر رکھا تھا لیکن
اب وہ بھی گھڑی کے پابند ہوگئے۔
گاؤں
میں دو سرو کے درخت وقت معلوم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے۔ ایک وہ جو مسجد کے
قریب تھا اور دوسرا کھیتوں میں۔ ان کے سائے سے وقت معلوم کیا جاتا تھا۔
صبح
کاذب تک تہجد کا وقت اور سورج طلوع ہونے تک فجر کا وقت ۔
جب
سرو کے اونچے درخت کا سایہ ختم ہو جاتا اور سورج سوا نیزے پر سوار ہوتا تو کھیتوں
میں کام کرنے والے لوگ گھروں کا رخ کرتے۔ یہی وقت ظہر کا ہوتا۔
جب
سورج ڈھلنے لگتا اور سرو کے درخت کا سایہ دگنا ہو جاتا تو عصر کا وقت۔
اسی
طرح سورج غروب ہونے پر مغرب اور اُفق پر سرخی ختم ہوجانے پر عشاء۔
مگر
گھڑیوں کی آمد نے گاؤں والوں سے اُن کی یہ خوبصورت میراث چھین لی۔
رمضان
کے دنوں میں حافظ سیف اللہ اپنے مکان کے منڈیرے پر ایک نقارہ رکھوا دیتے اور کبھی
وہ خود تو کبھی اُن کا بیٹا نقارہ بجا کر سحری اور افطاری کی اطلاع گاؤں والوں تک
پہنچاتے۔
گاؤں
کے اکثر کسان فجر کی نماز کے فوراََ بعد کھیتوں کا رخ کرتے اور فصل کی کٹائی شروع
کر دیتے۔ جب سورج طلوع ہو کر سر چڑھ جاتا تو کام ختم کر کے گھروں کا رخ کیا جاتا۔
ہر
کسان اپنی زمین سے فصل کی کٹائی مکمل کرنے کے بعد اُسے دھوپ میں مزید خشک ہونا
چھوڑ کر کسی دوسرے کی فصل کٹائی میں مدد کرتے۔
یہ
حرکت بھی اُنھیں آپس میں جوڑے رکھنے کی ایک اہم وجہ تھی۔
فصل
کی کٹائی عموماََ ٹھنڈے وقت یعنی کے صبح اور شام کو کی جاتی۔
کٹائی
کے بعد گہائی کا مرحلہ آتا جسے مقامی زبان میں گاہ بولا
جاتا۔
ہر
کسان ایک علیحدہ زمین میں اپنا آکھاڑہ لگاتا۔ کسی ہموار زمین کو منتخب کر کے پانی
لگایا جاتا اور پھر جانوروں کی مدد سے اُس زمین کو سخت کیا جاتا۔
گہائی
کے دنوں میں خشک گندم کی فصل کو زمین پر بچھا دیا جاتا۔ اُس کے بعد دو بیلوں کو
آپس میں جوت کر اُن کے پیچھےموٹی کانٹوں والی شاخوں کو رسی کی مدد سے باندھ دیا
جاتا۔
بیل
جب فصل کے اوپر سے گزرتے تو اُن کے پیچھے زمین پر رگڑ کھاکر آتے ہوئے کانٹے فصل کو
چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتے جاتے۔
ان
تمام سلسلے کے دوران ایک آدمی ایک طرف کھڑا ہو کر لکڑی کے ترینگل سے اُس بھوسے نما
چیز کو اُٹھا کر اُچھالتا تو ہوا سے بھوسہ علیحدہ گر جاتا اور دانے نیچے زمین پر۔
گہائی
کا دورانیہ عموماََ ایک ہفتہ تک رہتا۔ گندم
کے دانے تو ساتھ ساتھ ہی سنبھال لیے جاتے مگر بھوسے کو علیحدہ سے سنبھالنے
کے لیے پھواڑے لگائے جاتے۔
پانچ
یا آٹھ چارپائیوں کو ایک ساتھ باندھ کر اُس کے درمیان بھوسا بھرا جاتا۔ پھر اُسے
اووپر سے دبایا جاتا اور جب ہر طرح سے یہ تسلی ہو جاتی کہ مزید بھوسا بھرنے کی
گنجائش باقی نہیں رہی تو پھر اُسے اووپر سے گنبد نما شکل دے کر مٹی سے لیپ دیا
جاتا۔
ایسا
کرنے سے بارش کا پانی بھوسے کو نقصان نہ پہنچا سکتا۔
اس
طریقے سے بھوسا لمبے وقت کے لیے سنبھال لیا جاتا۔گندم کی زیادتی کا اندازہ بھی
بھوسے کے پھواڑے سے ہی لگایا جاتا۔ جس شخض کے جتنے زیادہ پھواڑے ہوتے اُس کی فصل
اتنی زیادہ اچھی ہوتی۔
گاؤں
کے تمام کسان اپنی گندم لے کر ساتھ والے
گاؤں کے چوہدری شفیق کے پاس جاتے۔ جس کا منشی سستے داموں کسانوں کا لہو
پسینہ خریدنے کا شوقین تھا۔
اس
سال رمضان میں گاؤں کے لوگوں نے جیسے تیسے کرکے گندم کی کٹائی کا عمل تو مکمل کر
لیا۔
مگر
اگلا مرحلہ جو اُسے مناسب داموں بیچنے کا تھا وہ بے حد کٹھن معلوم ہو رہا تھا۔
ہر
سال کی طرح اس سال بھی گاؤں کے لوگ اپنی گندم جانوروں پر لاد کر چوہدری شفیق کے
ڈیڑے پر لے گئے۔
چوہدری
شفیق نے ہر سال کی طرح اس سال بھی کسانوں سے گندم سستے داموں خریدی اور اُسے اپنے
ٹرکوں پر لاد کر شہر میں مہنگے داموں بیچ آیا۔
کسانوں
کی بابت پر وہ ہر بار کی طرح یہی فقرہ دہراتا کہ "شہر میں دام زیادہ نہیں اور
ٹرک پر لے جانے کا خرچہ بھی علیحدہ ہوتا ہے"۔
اسی
ڈر سے تمام کسان شہر کا رخ نہ کرتے۔
امین
بخش نے کسانوں کا ڈر رفع کرنے کا سوچا اور اس مرتبہ اپنی گندم خود شہر بیچنے چلا
گیا۔
اس
کام کے لیے اُسے ایک بیل گاڑی درکار تھی جو اتفاقاََ چند ماہ پہلے چاچا شیدے نے
خریدی تھی۔
چاچا
شیدا بذاتِ خود بڑے زمینداروں میں شمار ہوتا تھا جس کی تمام زمین ٹھیکے پر تھی یا
اُس کے بیٹے اُنھیں سنبھالتے تھے۔
امین
بخش نے تمام گندم بیل گاڑی میں لاد کر شہر بیچنے کی سوچی اور منہ اندھیرے ہی شہر
روانہ ہو گیا۔
اُس
کی سوچ کے عین مطابق اُس کی گندم واقعی چوہدری شفیق کے بتائے داموں سے مہنگی بک
گئی۔
گاؤں
والوں کو یہ بات معلوم ہونے کی دیر تھی کہ چوہدری شفیق کا ڈیڑہ خالی ہونے لگا۔
رفتہ
رفتہ تمام کسان اپنی گندم اپنے ہاتھوں شہر میں فروخت کرنے لگے اور چوہدری شفیق کا
کاروبار ٹھپ ہو گیا۔
گاؤں
والے اپنی گندم مناسب داموں بک جانے پر جہاں مطمئن تھے وہیں پر بے حد خوش بھی اور
عید کی آمد نے تو اُن کی خوشی میں مزید اضافہ کر دیا۔
عید
سے دو روز پہلے تک تمام گاؤں والے اپنی گندم شہر میں مناسب داموں فروخت کر چکے
تھے۔ اُن کی جیبیں بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کا بوجھ برداشت کرنے کی اہل ہو
چکی تھیں۔
مغرب
کی نماز کے بعد تمام گاؤں والے فوراََ منڈیڑوں پر چڑھ کر چاند کی تلاش کرنے لگے۔
کوئی صحن میں کھڑا آسمان کی جانب منہ ٹکائے کھڑا ہے تو کوئی ریڈیو لگائے عید کے
چاند کی خبر سننے کا منتظر ہے۔
"
وہ دیکھو منڈیر کے کونے پر"
"
ارے وہ رہا سرو کے درخت کے بائیں طرف"
ایسے
میں اگر کسی کو چاند نظر آ نے کی دیر تھی کہ تمام گاؤں میں شور برپا ہو گیا۔
گاؤں
کی تاریک گلیوں میں بھی رونق آ گئی۔ بچے ٹولیاں بنا کر گلی گلی پھرنے لگے۔
"
چاند نظر آگیا! کل عید ہو گی!"
"
چاند نظر آ گیا! کل عید ہو گی!"
بچوں
کی ٹولیاں پورے جوش و خروش سے نعرے لگانے میں مگن تھے ۔ اس وقت اُن کی زندگی میں
شاید اس سے زیادہ خوشی کا کوئی اور لمحہ نہیں تھا۔
گھروں
میں چولہے پر ہانڈیاں چڑھ گئیں۔ قصاب کی دکان پر رش لگ گیا۔
عید
کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔لڑکیاں مہندی لگوا رہی ہیں۔ لڑکے ٹولیاں بنائے گاؤں کی
رونق دیکھنے میں مگن ہیں۔ عورتیں عید کے لیے پکوان کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ مرد
اپنے بٹوے کھول کر دیکھ رہے ہیں۔
ایک
طرف صبح کے لیے گوشت صاف کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف کھیر پکنے کے لیے تیار ہے۔
عشاء
کی نماز کے بعد گاؤں کے بڑے بوڑھے معمول کے مطابق مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے۔
اس
وقت کسی نہ کسی موضوع پر مہذب طریقے سے بحث ہوتی۔دوسروں کی رائے کو مقدم رکھا جاتا
۔بولنے والے کی بات کو سنا جاتا اور ذہن میں بٹھایا جاتا۔
آنے
والے دنوں کے لیے لائحہ عمل اپنانے کا فیصلہ اسی محفل میں ہوا کرتا۔ گاؤں کی خوش
حالی اور ترقی کے لیے مناسب فیصلے اسی محفل میں ہوتے۔
گاؤں
کے نظام کو مناسب طریقے سے چلانے کے لیے گاؤں والوں نے پانچ آدمی منتخب کررکھے
تھے۔ جن کے ہاتھوں میں پورے گاؤں کی باگ دوڑ تھی۔
یہ
پانچ بوڑھوں کی مختصر کمیٹی آپس میں باہم مشاورت سے گاؤں کے اہم فیصلے کرتے تھے۔
گاؤں
والوں کو اس کمیٹی پر پورا یقین تھا اور وہ اُن کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے
کے عادی تھے۔
یہی
کمیٹی اہم معاملات میں پنچایت کا کام بھی سر انجام دیتی۔
اس
کمیٹی کا ایک رکن چاچا شیدا بھی تھا۔ اس کمیٹی کا ایک بھی فیصلہ بڑی سوچ بچار کے
بعد کیا جاتا جسے قبول کرنا گاؤں کے ہر فرد پر لازم تھا۔ کمیٹی کے ارکان میں ملک
چاچا شیدا، ملک امیر حمزہ،حاجی غلام حسین، راجہ عقیل ظفر اور فضل گجر شامل تھے۔
"
امین بخش! گاؤں کے لیے تیری
خدمات کو دیکھتے ہوئے گاؤں کی کمیٹی نے تجھے کسان چئیرمین بنانے کا سوچا ہے۔ کیا
تجھے کوئی اعتراض ہے" کمیٹی کے اہم
رکن حاجی غلام حسین بولے۔
"
تایا! مینوں کی اعتراض ہو سکدا
ہے" امین بخش جو اچانک حاجی غلام حسین کے منہ سے سن کر بونچھلا کر رہ گیا تھا
بولا۔
(
تایا! مجھے کیا اعتراض ہو سکتا
ہے)
"
لیکن اس کرم نوازی دی کوئی خاص
وجہ" امین بخش خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
"
گاؤں والے کافی عرصے سے تیری
خدمات ملاحظہ کر ہے ہیں۔ گاؤں میں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی، آگے بڑھ کر اُس کا
مقابلہ کرنے والا صرف تو ہوتا۔ ۔۔کچھ سال پہلے تو نے سورؤں کے حملے کو روک کر گاؤں
والوں پر رحم کیا اور اس بار جب تمام کسان سستی گندم بیچنے ہر مجبور ہو چکے تھے،
تو نے شہر میں جا کر گندم بیچنے کی راہ ہموار کر کے گاؤں والوں پر بڑا رحم کیا اور
نہ صرف یہ بلکہ چوہدری صاحب کی دشمنی بھی مول لی۔ اسی واسطے ہم نے تجھے کسان
چئیرمین بنانے کا سوچا۔ اب کسانوں کی مشکلات صرف تو حل کیا کرے گا" حاجی غلام
حسین نے کمیٹی کے تمام فیصلے کو حاضرینِ محفل کے سامنے بیان کر دیا۔
"
امین بخش ! بے شک تجھ سے بہتر
یہ کام اور کوئی نہیں کر سکتا" محفل میں سے فیکا کمہار بولا۔
محفل
برخاست ہوئی اور تمام حضرات گھروں کی جانب رخصت ہو گئے۔
محفل
کے اختتام پر جہاں امین بخش قدرِ خوش بھی تھا وہیں پر چند باتیں اُسے ستائے جا رہی
تھیں۔
جن
میں سب سے بڑی بات یہ کہ چوہدری شفیق کی دشمنی اُس کے حق میں بہت بری ثابت ہو
سکتی تھی۔ کیونکہ گاؤں کا ہر فرد چوہدری
شفیق کو اچھے سے جانتا تھا۔
حاجی
غلام حسین ، کمیٹی کے دوسرے ارکان اور گاؤں والوں نے بھی امین بخش کو باور کروا
دیا کہ اُن سے جس حد تک ہو سکا وہ اس بات کو دبانے کی کوشش کریں گے۔
محفل
میں بیٹھے چند منافقین اُس کی پیٹھ پیچھے چہ مگوئیاں کرنے لگے۔
"
فریدے! میری بات مان یہ امین
بخش نے سارا ڈرامہ رچایا ہی اس واسطے کے کسان چئیرمین بن سکے"
"
امینے نے اپنی فصل تو دگنے
داموں بیچ دی اب سہے نا چوہدری کی دشمنی"
"
مان نہ مان چوہدری نے بدلہ
ضرور لے کر رہنا ہے امینے سے"
ایسی
بے شمار چہ مگوئیاں اُس کا سکون برباد کرنے کے لیے کافی تھیں۔
"
امینے ! تو پریشان نہ ہو۔ بس
اپنے گھر والوں کے بہتر مستقبل کا سوچ اور یہ سوچ کے گاؤں کو ترقی کیسے دینی
ہے" ماسٹر اللہ دتہ اُسے تسلی دیتے ہوئے بولا۔
رات
پر سکون رہی۔ بچے تو اس خوشی کے مارے کہ صبح عید ہے ۔۔۔ رات دیر تک سوئے ہی نہیں۔
فجر
کے وقت تک تقریباََ تمام گاؤں میٹھی نیند سے جاگ چکا تھا۔ مرد مسجد میں اور عورتیں
گھروں میں رکوع پزیر ہو چکی تھیں۔
نماز
کے بعد مسجد کو عید کی نماز کے لیے مکمل طور پر صاف ستھرا کیا گیا ۔ تمام مسجد کو
غسل دیا گیا۔ نئی صفیں بچھا دی گئیں۔ مسجد کے اندر اور باہر عطر کی چھڑکاؤ بھی کر
دیا گیا۔
دوسری
جانب گھروں میں عورتیں طرح طرح کے پکوان تیار کرنے میں مگن تھیں۔
عید
کی نماز پر تمام گاؤں کے مرد مسجد میں جمع تھے۔ لوگوں کی کثرت نے جامع مسجد میں
ذرا جگہ باقی نہ چھوڑی۔
بوڑھے
، جوان، بچے اور گاؤں سے باہر ملازمت کرنے والے سب آج اس پر مسرت موقع پر موجود
تھے۔
"
عید مبارک چاچا جی!" فوادنے چاچا شیدے کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھ
کر کہا۔
"
خیر مبارک پتر! تجھے بھی بہت
بہت عید مبارک" چاچا شیدے نے گلے لگاتے ہوئے کہا
"
چاچا جی !خیر مبارک کا مطلب
بھی یہی ہوتا ہے" فواد معصومیت سے بولا۔
چاچا
شیدے نے امین بخش کی طرف حیرانی سے دیکھا جو کھڑا مسکرا رہا تھا۔
"
چاچا جی پرائمری پاس کر گیا
منڈا ۔ تاں ہی ایڈی گل آکھ گیا" امین بخش بولا
"
اووہ جیندا رے میرا پتر۔ کمال
کر دیتا" چاچا شیدا ایک مرتبہ پھر فواد کو گلے لگاتے ہوئے بولا
"
امینے! یہ اپنے ماسٹر جی کتھے
ہیں"
"
چاچا جی وہ گھر گئے ہیں
مومنہ کو لے کر سیدھے اسی طرف آئیں گے"
"
چل فر تیرے گھر چلتے ہیں"
مسجد
سے وہ سیدھے گھر کو آ گئے جہاں مرکزی کمرے میں دسترخوان سجایا جا رہا تھا۔
ابھی
چاچا شیدے اور امین بخش کو بیٹھے ہوئے کچھ دیر
ہی گزری تھی کہ دروازے کا پت کھلا اور ماسٹر اللہ دتہ اپنی بیٹی مومنہ سمیت اند داخل ہوئے۔
"
کون ہے امین بخش" چاچا
شیدے نے پوچھا
"
ماسٹر جی آئے ہیں" امین
بخش نے مرکزی کمرے میں بیٹھے ہی دیکھ کر بتا دیا۔
باورچی
خانے کی کھڑکی سے ماریہ نے مومنہ کو اند
آتے دیکھ کر فوراََ باہر کو دوڑ لگائی۔
"
آپی آپی عید مبارک!"
ماریہ نے مومنہ سے چمٹتے ہوئے کہا۔
"
خیر مبارک! تمہیں بھی عید
مبارک گڑیا!"
"
نہ آپی! بھیا کہتا ہے کہ خیر
مبارک کا مطلب بھی یہی ہوتا" ماریہ
نے توتلی زبان میں بولتے ہوئے کہا۔
ماریہ
کی یہ بات سن کر ماسٹر اللہ دتہ مسکرائے اور دونوں کا باتیں کرتا چھوڑ کر اندر
کمرے میں چلے گئے جہاں امین بخش اور چاچا شیدا بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔
فواد
، ماریہ اور مومنہ تینوں امین بخش کی جب
سے چھوٹی بیٹی شانزےسے کھیلنے لگے جو ابھی چند ماہ پہلے ہی پیدا ہوئی تھی۔
عورتیں
باورچی خانے میں کھانے کی تیاری میں مشغول تھیں جبکہ مرد مرکزی کمرے میں بیٹھے
سیاست اور دوسرے موضوعات پر بحث کر رہے تھے۔
"
چاچا جی! میں تو شہر سے سن کر
آیا ہوں کہ اگلے مہینے تک بجلی ہمارے گاؤں تک بھی پہنچ جائے گی"
"
ماسٹر جی ایسا ہو جائے تو بڑا
چنگا رہے گا" چاچا شیدا بولا۔
"
لیکن ماسٹر جی ! پہلے تو یہ
سننے میں آیا تھا کہ بجلی اگلے سال تک ہمارے گاؤں میں آئے گی" امین بخش نے
کچھ سوچ کر بولتے ہوئے کہا
"
امینے! تیری بات ٹھیک ہے۔ بجلی
ہمارے گاؤں اب بھی نہیں آنی تھی لیکن پھر
چوہدری شفیق نے شہر میں کسی بڑے افسر سے بات کی اور وہ بجلی اُن کے گاؤں تک
پہنچانے پر رضامند ہو گیا۔ اب بجلی آ ئے گی تو ساتھ والے گاؤں میں رہی ہے لیکن
تاریں گزریں گی ہماری زمین سے تو غازی پورہ والوں کو بھی بجلی مل جائے گی"
"
شکر ہے اللہ پاک کا جو انھوں
نے چوہدری صاحب سے کوئی سیدھا کام بھی لیا"
چاچا شیدا ہاتھ اُٹھانے کے انداز میں بولا۔
"
ماسٹر جی! غازی پورہ والوں کے
کنکشن کب تک لگ جائیں گے؟" امین بخش نے پوچھا
"
اگلے ہفتے سے کھمبے ہمارے
زمینوں میں لگنے شروع ہو جائیں گے"
"
یہ تو بڑی اچھی بات ہے "
"
مگر چاچا! ایک مسئلہ بھی ہے"
"
کیا ماسٹر جی؟ " چاچا
شیدے نے پریشانی سے پوچھا۔
"
جس زمین میں بجلی کا کھمبا ایک
مرتبہ لگ گیا پھر وہاں پر گھر نہیں بن سکتا"
"
فکر نہ کرو ماسٹر جی! ہم ایسی
زمینوں میں کھمبے لگوائیں گے جہاں ہم نے
گھر بنانا ہی نہیں" امین بخش پریشانی رفع کرنے کے انداز میں بولا
"
پھر بھی امین بخش! تو خیال
رکھیں "
ابھی
یہ بات چل ہی رہی تھی کہ دستر خوان پر کھانا لگنا شروع ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ہی
دسترخوان لذیز کھانوں سے مزین تھا۔
کبوتروں
کے گوشت کا پلاؤ، دیسی مرغ کا قورمہ، خالص دودھ کی کھیر، تازہ مکھن، دہی اور لسی،
توے کی گرم گرم روٹیاں دستر خوان کی زینت تھیں۔
ابھی
امین بخش درود شروع کرنے ہی والا تھا کہ دروازے کھلنے کی آواز آئی۔
"فواد ! پتر جا کہ ویکھ کون ہے" سکینہ بی بولی۔
"
بے جی! چاچا فضل آئے ہیں"
فواد جو دروازے کر قریب ہی بیٹھا تھا
جھانکتے ہوئے بولا۔
امین
بخش نے اُٹھ کر دروازے کی جانب دیکھا تو اُس کا چھوٹا بھائی فضل الہیٰ اپنی بیوی
اور دو لڑکوں کے ساتھ اندر داخل ہو رہا تھا۔
گاؤں
کے رواج میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تمام گھرانہ عید کے درود پر اکٹھا ہوتا۔
عید
کی خوشیاں اپنوں کے بغیر گاؤں میں ادھوری ہی سمجھی جاتی ہیں۔
"
لالہ! یہ فواد کا کیا سوچا ۔ آگے پڑھے گا یا نہیں؟" فضل
الہیٰ نے کھانے کے دوران امین بخش سے پوچھا۔
"
فضلو!میری ایک ہی خواہش ہے کہ
خود تو نہ پڑھ سکا مگر اپنی اولاد کو خوب پڑھاؤں گا"
امین
بخش نے جواب دیا۔
"
اچھا فیصلہ ہےتیرا امین بخش! ۔۔۔میں نے فواد جیسا ذہین لڑکا آج تک نہیں دیکھا۔ تو مجھ سے
وعدہ کر اسے آگے خوب پڑھائے گا" ماسٹر اللہ دتہ نے فواد محمود کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا جو اپنے چاچا زادوں کو صحن میں پھرتے کبوتر دکھا رہا تھا۔
"
ماسٹر جی ! جب تک میری اولاد
پڑھنا چاہے گی میں انھیں پڑھاؤں گا"
عید
کے دن بچوں کی سب سے بڑی خوشی عیدی ہے۔ جس کا انتظار ہر عمر کے بچے کو رہتا ہے۔
عیدی کا معیار رقم دیکھ کر نہیں بلکہ نیت
دیکھ کر لگایا جاتا ہے۔
بچوں
میں عیدی بانٹی گئی تو وہ سب یہ خرچنے دکان پر جانے کے لیے فواد کی قیادت میں دروازے کی طرف بھاگے مگر اس سے
پہلے ہی امین بخش کی آواز نے اُسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
"
فواد ! پتر دکان پر مت جا۔ ہم
آج میلے میں جائیں گے۔ وہاں زیادہ اچھی چیزیں مل جائیں گی"
میلے
کا نام امین بخش کے منہ سے سن کر سب کے چہرے ایسے کھلکھلا اُٹھے جیسے خزاں کے موسم
میں مرجھائے ہوئے پھول بہار کی آمد سن کر کھل اُٹھیں۔
"
فضلو ! تو بھی چلے گا میلے پر؟
" امین بخش نے پوچھا۔
"
نہ لالہ! میں نے بچوں کو اُن
کے ننھیال لے کے جانا ہے"
"
اچھا رات کا کھانا آپ سب میری
طرف کھانے آئیے گا " فضل الہیٰ نے چاچا شیدے اور ماسٹر اللہ دتہ کو بھی مدعو
کیا۔
"
ضرور" ماسٹر اللہ بولا۔
"
فواد ! پتر جلدی جا کر اپنی
ماں کو بتا دے کہ ہم میلے پر جا رہے ہیں"
"اچھا ابا! "
"
چلیے ماسٹر جی! "
"
ہاں چلو"
"
چاچا جی! تسی وی آ جاؤ۔ گھر رہ
کے کی کرسو" امین بخش نے بولا ( چاچا جی! آپ بھی آ جائیں ۔ گھر رہ کر کیا
کریں گے"
"
امینے ! چل فر " چاچا
شیدے کچھ دیر سوچنے کےبعد اُٹھ کھڑا ہوا۔
گاؤں
کی سب سے حسین چیزوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ یہاں کسی دوسرے سے ذرا بے تکلفی
نہیں۔
ہر
ایک گھر کا فرد اور دل کو عزیز۔ یہاں مکانوں کے چھت تو آپس میں نہیں ملتے مگر دل
سب کے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
گاؤں
سے ذرا دور ایک پرانی دربار واقع تھی۔ ہر
سال ہاڑ کی پہلی تاریخ کو یہاں ایک میلہ
لگتا تھا۔
یہ
میلہ کئی دنوں تک قائم رہتا اور اس دوران
اس میں مختلف پروگرام اور مقابلے منعقد ہوتے جو آس پاس کے کچھ گاؤں کو تفریح ہیا
کرنے میں بڑے معاون ثابت ہوتے۔
ان
دنوں میلہ منعقد ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ گندم بیچ کر گاؤں والوں کی
جیبوں میں اچھی خاصی رقم موجود ہوتی۔ چنانچہ ایسے میلے میں جا کر وہ اپنی رقم اچھے
سے خرچ کر سکتے تھے۔
امین
بخش نے چاچا شیدے کے گھر اپنا بیل لے جا کر اُسے گاڑی کے ساتھ جوت لایا۔
چاچا
شیدے ، ماسٹر اللہ دتہ اُس کی بیٹی مومنہ
، فواد اور ماریہ کو اسی بیل گاڑی
میں ساتھ لیے وہ ظہر کی نماز کے بعد میلے کے لیے نکل گئے۔
"
آج بڑے عرصے بعد تجھے میلے کی
یاد آئی۔ کیوں امینے! خیر ہے نا!" چاچا شیدے نے رستے میں بولا
"
ہاں چاچا! یہ تیرا پوترا بڑے
عرصے سے میلہ دیکھنے کی فرمائش کر رہا تھا۔ دل تو میرا بھی بہت کرتا تھا ۔ ۔
۔" ایک نظر فواد پر ڈالتے
ہوئے جو ماسٹر اللہ دتہ کے ساتھ بیٹھا دور پہاڑیوں کو دیکھ رہا تھا" مگر
جیب اجازت نہیں دیتی تھی چاچا! اس سال
حالت تھوڑی اچھی ہے تو سوچا چلو لے چلتے ہیں"
جیسے
جیسے بیل گاڑی میلے کی حدود کے قریب ہوتی گئی، گاڑی میں بیٹھے بچوں کے جوش و خروش
میں بھی مزید اضافہ ہوتا گیا۔ تھی تو یہ بیل گاڑی مگر ان معصوم کلیوں کے لیے یہ اس
وقت کسی شاندار موٹر کار سے کم نہ تھی۔
ڈھلتا
سورج اپنی تپش چھوڑتا جا رہا تھا۔ جیسے جیسے دن اختتام کی جانب بڑھتا ویسے ویسے
میلے کی رونق میں بھی مزید اضافہ ہوتا جاتا۔
حدِ
نگاہ تک آدمیوں کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہی دکھائی دے رہا تھا۔
دربار
کا احاطہ اور اس کے اردگرد پھیلی اَن گنت دکانیں جو پھیلتی ہوئیں ایک میل میل سے
زائد کا رقبہ اپنے حصار میں لے چکی تھیں۔
امین
بخش نے میلے کی حدود کے قریب ہی ایک بڑی زمین میں جا کر اپنی بیل گاڑی روک دی ۔
بیل ایک طرف جبکہ گاڑی ایک طرف کھڑی کر دی۔
زمین
کے مالک نے بیل اور گاڑی دونوں پر ایک سفید کاغذ چپساں کر دیا جس پر ہندسہ 19 لکھا
تھا اور بلکل ایسا ہی ایک کاغذ امین بخش کو بھی تھما دیا۔
یہ
ایک طرز کا پارکنگ کا نظام تھا۔
یہاں
سے دربار تک پیدل چلا گیا۔ امین بخش نےماریہ کو کندھوں پر بٹھا دیا اور فواد کو سختی سے ہدایت دی کہ ہاتھ نہ چھوٹنے
پائے۔
یہاں
سے تقریباََ نصف میل دور ایک اوونچے ٹیلے پر دربار تھی جس کے اردگرد پھیلی دکانوں
نے اُسے چھپا دیا تھا۔
دربار
پر مختلف علاقوں سے پھولوں کی سیج بڑی دھوم دھام سے لائی جا رہی تھی۔
ڈھول
کی تھاپ پر رقص اور جھومر ڈالے جا رہے تھے۔ دربار پر صبح سے شام تک لنگر پر لنگر
تقسیم کیا جا رہا تھا۔
دربار
کی حدود کے باہر نیچے والی دکانیں صرف اور صرف کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق تھی۔
جہاں بڑے بڑےکڑاہ میں عموماََ مختلف طرز
کی مٹھائیں جیسے جلیبی، ہمرسے، رس گلے، گلاب جامن وغیرہ اور خصوصاََ حلوہ پوری
وغیرہ بک رہی تھیں۔
لوگوں
کا ایک نہ ختم ہوتا ہوا رش ان دکانوں کے قریب موجود تھا۔
مٹھائی
کی دکانوں سے ذرا آگے سموسے، پکوڑے اور آلو کے چپس لوگ بڑے شوق سے خرید رہے تھے ۔
جبکہ
ان کے بعد والی دکانوں پر مشروبات جن میں گرمیوں کی سوغات یعنی ٹھنڈا گھوٹا ،
سردائی اور لیموں پانی کی دکانیں تھیں جہاں گرمی سے بے حال مسافر گاہک تھے۔
چند
ایک دکانوں پر شیشے کی بوتلوں میں پیسپسی کولا بھی بک رہی تھی جن کو اکثریت عوام
حیرت کی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
اس
کے بعد کی دکانوں پرضرورتِ عامہ کی تقریباََ ہر شے دستیاب تھی۔
گھریلو
استعمال کے برتن سے لے کر فصلوں کی کٹائی کے لیے اعلیٰ ڈرانتی، چارپائی بننے کے
لیے خوبصورت سوتر سے لے کر کلہاڑی کے دستے اور منفرد انداز کے بنے حقوں سے لے کر
گائے کی نتھنی تک یہاں سب بکتا تھا۔
مختلف
دکانوں پر کانچ کی چوڑیاں ، پلاسٹک اور مٹی کے متعدد قسم کے کھلونے، پتنگیں اُن کی
دوڑی وغیرہ لوگ بڑے شوق سے خرید رہے تھے۔
ایک
طرف کچھ لوگ پنجروں میں کبوتر اور دیسی مرغ رکھے بیٹھے تھے جہاں مرغ باز اور کبوتر
باز لوگ اُن سے بھاؤ تاؤ کرنے میں لگے تھے۔
میلے
پر ضرورت کی چیزووں کے علاوہ لوگ اپنے جانور بھی بیچنے کو لاتے تھے۔ چونکہ یہاں
مختلف علاقوں سے بے شمار لوگ اکٹھے ہوتے تو اس لیے اچھا سودا ہوجانا ممکن تھا۔
اس
سے آگے کا حصہ خالصتاََ بچوں کے لیے باعثِ تفریح مختص تھا۔ البتہ اس وقت بھی وہاں
پر کئی سارے لڑکے جھولوں سے لٹکے نظر آ رہے تھے۔
"
امین بخش! یہ اُس طرف اتنا رش
کیوں ہے" ماسٹر اللہ دتہ نے کھلے میدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
"
ماسٹر جی! یہاں آکھاڑہ لگا ہو
گا بیلوں کا" امین بخش نے جواب دیا
"
بیلوں کا آکھاڑہ؟" ماسٹر
اللہ دتہ نے بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا۔
"
چلو آج ویکھ لینا اپنی آنکھوں
سے" امین بخش نے فواد کا ہاتھ تھام کر اُس جانب چلنا شروع کیا۔
یہ
ایک وسیع ہموار میدان تھا جس کے درمیان میں دو بیل دوڑ رہے تھے۔ آس پاس کئی مرد
اپنے بیلوں کی نتھنیاں تھامے کھڑے نظر آ رہے تھے۔
ایسے
شاندار قدآوار تگڑےبیلوں کو دیکھ کر ماسٹر اللہ دتہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ
گئیں۔
دور
دور سے لوگ اپنے بیلوں کو اس مقابلے میں شرکت کے لیے لائےتھے۔
دو
بیلوں کو ایک ساتھ جوت کر ہل کے ساتھ باندھا گیا۔
میدان
میں پہنچتے ہی ہل کو زمین میں ٹھونس کر ایک شخض ہل پر چڑھا کر بیٹھ گیا جبکہ دوسرا
شخض دونوں بیلوں کے درمیان میں جا کر دونوں ہاتھوں سے دونوں بیلوں کی نتھنیاں
مضبوطی کے ساتھ تھام کر کھڑا ہو گیا۔
منتظمین
میں سے اشارہ پر اگلے شخض نے بیلوں کو تھام کر دوڑ لگا دی۔ بیلوں کا جو جوڑا اچھے
سے میدان کے دوسرے سرے پر پہنچ جاتا وہ انعام کا مستحق کہلاتا۔
"
ماسٹر جی! یہ سارا کھیل شوق کا
ہے" امین بخش نے ماسٹر اللہ دتہ کو سمجھانے کے انداز میں ماسٹر اللہ دتہ سے کہا جو بڑے شوق سے یہ کھیل
دیکھ رہے تھے۔
"
کیا مطلب امین بخش! "
"
ماسٹر جی! اس دن کے لیے شوقین
لوگ سارا سال اپنے بیل تیار کرتے ہیں۔ اُن پر محنت کرتے ہیں۔ انھیں خوب کھلا پلا
کر مضبوط و توانا بناتے ہیں"
"
مگر امین بخش! انعام کی رقم تو
معمولی ہوتی ہے پھرانھیں سال بھر کی محنت
کا صلہ کیسے ملتا ہو گا" ماسٹر اللہ دتہ نے استفسار کیا۔
"
ماسٹر جی! سارا مول شوق دا
ہے" امین بخش نے مسکراتے ہوئے کہا۔
)ماسٹر جی! ساری قیمت شوق کی ہے(
Comments
Post a Comment